قرآن کریم پڑھنے کے آداب
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں کہ ’’قرآن کریم پڑھنے کے آداب کیا ہیں اور قرآن کریم کو پڑھنے سے پہلے کس طرح ذہن کو صاف کرنا چاہئے؟ اس بارہ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ فَاِذَا قَرَاۡتَ الۡقُرۡاٰنَ فَاسۡتَعِذۡ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیۡطٰنِ الرَّجِیۡمِ (النحل: 99)۔ پس جب تُو قرآن پڑھے تو دھتکارے ہوئے شیطان سے اللہ کی پناہ مانگ۔
پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ… فَاقۡرَءُوۡا مَا تَیَسَّرَ مِنَ الۡقُرۡاٰنِ … پس قرآن میں سے جتنا میّسر ہو پڑھ لیا کرو۔ … اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس میں قرآن کا حصہ جو بھی یاد ہو پڑھو اور اس کے علاوہ بھی جتنا قرآن کریم تم غور کرنے کے لئے پڑھ سکتے ہو تمہیں پڑھنا چاہئے۔ ایک مومن کا یہی کام ہے۔ تَیَسَّرَ مِنَ الۡقُرۡاٰنِ سے صرف یہ مطلب ہی نہیں لینا چاہئے کہ جو ہمیں یاد ہے کافی ہے وہی پڑھ لیا اور مزید یاد کرنے کی کوشش نہیں کرنی۔ یا جس تعلیم کا علم ہے وہی کافی ہے اور مزیدہم نے نہیں سیکھنی۔ بلکہ جہاں تک ممکن ہو اس میں بڑھنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ اللہ تعالیٰ نے ایک دوسری جگہ فرمایا ہے فَاسْتَبِقُوا الْخَیْرَاتِ (المائدہ: 49) کہ نیکیوں میں آگے بڑھو۔ اور جب تک یہ علم ہی نہ ہو کہ نیکیاں کیا ہیں جو قرآن کریم میں بیان کی گئی ہیں، کون کون سے اعمال ہیں جو قرآن کریم میں بیان کئے گئے ہیں تو کس طرح آگے بڑھا جا سکتا ہے۔ پس قرآن کریم کا پڑھنااور سیکھنا اور اس پر غورکرنا بھی بڑا ضروری ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو الہام ہوا تھا کہ اَلْخَیْرُ کُلُّہٗ فِی الْقُرْآن (تحفہ بغداد،روحانی خزائن جلد 7 صفحہ 29)
کہ تمام بھلائیاں اور نیکیاں جو ہیں وہ قرآن کریم میں موجود ہیں…پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اَوْ زِدْ عَلَیْہِ وَرَتِّلِ الْقُرْاٰنَ تَرْتِیْلًا (المزمل: 5) یا اس پر کچھ زیادہ کر دے اور قرآن کو خوب نکھار کر پڑھ۔ یعنی تلاوت ایسی ہو کہ ایک ایک لفظ واضح ہو، سمجھ آتا ہو اور خوش الحانی سے پڑھا جائے۔ یہ نہیں کہ جلدی جلدی پڑھ کے گزر گئے، جیسا کہ پہلے بھی ایک دفعہ مَیں بتا چکا ہوں کہ دوسرے مسلمان جو تراویح میں پڑھتے ہیں تو اتنی تیزی سے پڑھتے ہیں کہ سمجھ ہی نہیں آ رہی ہوتی۔‘‘
(خطبہ جمعہ 4؍ستمبر 2009ء)