حضرت عمررضی اللہ عنہ
گڑیا: دادی جان کیا میں کل روزہ رکھ لوں؟
دادی جان: یہ تو آپ کی امی اور ابو ہی فیصلہ کریں گے۔ ابھی جمعے کو تو آپ نے روزہ رکھا تھا۔
محمود: دادی جان۔ میں بھی روز اٹھ کر سحری کرتا ہوں۔ ابو جان نے کہا ہے کہ میرے لیے ابھی سحری کرنا ہی کافی ہے۔ جب میں بڑا ہو جاؤں گا تو سارے روزے رکھوں گا۔
دادی جان: ان شاء اللہ محمود میاں۔ اللہ آپ کو توفیق عطا فرمائے۔ آمین
احمد: ابو جان نے مجھے دو روزوں کی اجازت دی ہے۔ اورایک تو میں نے آپ کے ساتھ ہی جمعہ کو رکھا تھا۔ اب ایک جمعہ چھوڑ کر اگلے جمعہ کو روزہ رکھوں گا۔
محمود: دادی جان !کہانی تو سنائیں کوئی۔
دادی جان: آج میں آپ کو حضرت عمرؓ کی کہانی سناتی ہوں۔
احمد: حضرت عمرؓ دوسرے خلیفۂ راشد تھے۔ آپ کا پورا نام عمر بن خطاب بن نفیل ہے۔ اور آپ کا تعلق قبیلہ بنو عدی سے تھا۔ آپؓ کے والد کا نام خطاب بن نفیل تھا۔ آپؓ کی والدہ کا نام حَنْتَمَہ بنت ہاشم تھا۔ اسی طرح آپؓ کی والدہ ابوجہل کی چچا زاد ہمشیرہ بنتی ہیں اور دوسرے قول کے مطابق ان کی والدہ کا نام حنتمہ بنت ہشام تھا۔ آپؓ کی کنیت ابو حفصہ اور لقب فاروق تھا۔ ایک روایت کے مطابق حضرت عمرؓ عام الفیل کے تیرہ سال بعد مکہ میں پیدا ہوئے تھے۔ اس حساب سے حضرت عمرؓ کی پیدائش کا سال 583ء بنتا ہے اس طرح آپ عمر میں نبی کریم ﷺ سے تیرہ سال چھوٹے تھے۔
دادی جان: ماشاء اللہ! آپ کی معلومات خوب ہیں۔ اسی لیے آپ کی تقریر میں پوزیشن آئی تھی۔ حضرت عمرؓ دراز قد اور مضبوط جسم کے مالک تھے۔ زمانۂ جاہلیت میں گھڑ سواری اور کُشتی حضرت عمرؓ کے محبوب مشاغل میں سے تھے۔ عُکاظ کے میلے میں ہر سال کُشتی کا مقابلہ عموماً حضرت عمرؓ ہی جیتا کرتے تھے۔ نوجوانی میں عرب کے عام رواج کے مطابق اپنے والد کے اونٹ چَرایا کرتے تھے۔ اسلام سے قبل عرب میں لکھنے پڑھنے کا چنداں رواج نہیں تھا۔ چنانچہ جب آنحضرت ﷺ مبعوث ہوئے تو قبیلہ قریش میں صرف سترہ آدمی ایسے تھے جو لکھنا پڑھنا جانتے تھے۔ حضرت عمرؓ نے اس وقت اس زمانے میں لکھنا اور پڑھنا سیکھ لیا تھا۔ پیشے کے اعتبار سے آپ تاجر تھے۔ آپ انتہائی تجربہ کار، بلند حوصلہ اورمعاملہ فہم انسان تھے انہی خصوصیات کی بنا پر آپ قریش کی جانب سے سفارت کاری کے امور بھی سر انجام دیتے تھے۔ اسلام کے ظہور کے بعد ایک لمبے عرصے تک آپ مسلمانوں کے مخالف مکہ کے سرداروں کا ساتھ دیتے تھے۔
گڑیا: حضرت عمر نے اسلام کیسے قبول کیا تھا ؟
دادی جان: یہ بھی ایک دلچسپ واقعہ ہے آپ کو معلوم ہے حضرت عمرؓ کے اسلام قبول کرنے کے لیے آنحضور ﷺ نے دعائیں بھی کی تھیں۔ حضرت ابن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اَللّٰہُمَّ أَعِزَّ الْاِسْلَامَ بِأَحَبِّ ہٰذَیْنِ الرَّجُلَیْنِ إِلَیْکَ بِأَبِیْ جَہْلٍ أَوْ بِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ۔ اے اللہ! تُو ان دو اشخاص ابوجہل اور عمر بن خطاب میں سے اپنے زیادہ محبوب شخص کے ذریعہ اسلام کو عزت عطا فرماا۔ ابن عمرؓ کہتے ہیں کہ ان دونوں میں سے اللہ کو زیادہ محبوب حضرت عمرؓ تھے۔ حضرت مصلح موعودؓ حضرت عمرؓ کے اسلام قبول کرنے کے متعلق بیان فرماتے ہیں کہ حضرت عمرؓ اسلام کی برابر سختی سے مخالفت کرتے رہےایک دن ان کے دل میں خیال پیدا ہوا کہ کیوں نہ اس مذہب کے بانی کا ہی کام تمام کرد یا جائے اور اس خیال کے آتے ہی انہوں نے تلوار ہاتھ میں لی اور رسول کریمﷺ کے قتل کیلئے گھر سے نکل کھڑے ہوئے۔ راستہ میں کسی نے پوچھاکہ عمرؓ کہاں جا رہے ہو؟ انہوں نے جواب دیا محمد (ﷺ) کو مارنے کیلئے جا رہا ہوں۔ اس شخص نے ہنس کر کہا اپنے گھر کی تو پہلے خبر لو۔ تمہاری بہن اور بہنوئی تو اس پر ایمان لے آئے ہیں۔ حضرت عمرؓ نے کہا یہ جھوٹ ہے۔ اس شخص نے کہا تم خود جا کر دیکھ لو۔ حضرت عمرؓ وہاں گئے۔ دروازہ بند تھا اور اندر ایک صحابیؓ قرآن کریم پڑھا رہے تھے۔ آپ نے دستک دی۔ اندر سے آپؓ کے بہنوئی کی آواز آئی۔ کون ہے؟ عمرؓ نے جواب دیا عمر۔ انہوں نے جب دیکھا کہ حضرت عمرؓ آئے ہیں اور وہ جانتے تھے کہ آپ اسلام کے شدید مخالف ہیں تو انہوں نے صحابیؓ کو جو قرآن کریم پڑھا رہے تھے کہیں چھپا دیا۔ اسی طرح قرآن کریم کے اور اق بھی کسی کونہ میں چھپا کر رکھ دیئے اور پھر دروازہ کھولا۔ حضرت عمرؓ چونکہ یہ سن کر آئے تھے کہ وہ مسلمان ہو گئے ہیں۔ اس لئے انہوں نے آتے ہی دریافت کیا کہ دروازہ کھولنے میں دیر کیوں کی ہے؟ آپ کے بہنوئی نے جواب دیا آخر دیر لگ ہی جاتی ہے۔ حضرت عمرؓ نے کہا: یہ بات نہیں۔ کوئی خاص امر دروازہ کھولنے میں روک بنا ہے۔ مجھے آواز آرہی تھی کہ تم اس صابی کی باتیں سن رہے تھے۔ (مشرکین مکہ رسول کریم ﷺکو صابی کہا کرتے تھے۔ )انہوں نے پردہ ڈالنے کی کوشش کی لیکن حضرت عمرؓ کو غصہ آیا اور وہ اپنے بہنوئی کو مارنے کیلئے آگے بڑھے۔ آپ کی بہن اپنے خاوند کی محبت کی وجہ سے درمیان میں آگئیں۔ حضرت عمرؓ چونکہ ہاتھ اٹھا چکے تھے اور ان کی بہن اچانک درمیان میں آگئیں وہ اپنا ہاتھ روک نہ سکے اور ان کا ہاتھ زور سے ان کی ناک پر لگااور اس سے خون بہنے لگا۔ حضرت عمرؓ جذباتی آدمی تھے یہ دیکھ کر کہ انہوں نے عورت پر ہاتھ اٹھایا ہے جو عرب کے طریق کے خلاف تھا اور پھر بہن پر ہاتھ اٹھایا ہے۔ حضرت عمرؓ نے بات ٹلانے کیلئے کہا اچھا مجھے بتاؤ تم کیا پڑھ رہے تھے؟ بہن نے سمجھ لیا کہ عمرؓ کے اندر نرمی کے جذبات پیدا ہو گئے ہیں۔ اس نے کہا جاؤ تمہارے جیسے انسان کے ہاتھ میں مَیں وہ پاک چیز دینے کیلئے تیار نہیں۔ حضرت عمرؓ نے کہا پھر مَیں کیا کروں؟ بہن نے کہا وہ سامنے پانی ہے نہا کر آؤ تب وہ چیز تمہارے ہاتھ میں دی جاسکتی ہے۔ حضرت عمرؓ نہائے اور واپس آئے۔ بہن نے قرآن کریم کے اوراق جو وہ سن رہے تھے آپ کے ہاتھ میں دئیے چونکہ حضرت عمرؓ کے اندر ایک تغیر پیدا ہو چکا تھا اس لیے قرآنی آیات پڑھتے ہی ان کے اندر رقّت پیدا ہوئی اور جب وہ آیات ختم کر چکے تو بےاختیار انہوں نے کہا کہ اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِ لَّا اللّٰہُ وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًارَّسُوْلُ اللّٰہِ۔ یہ الفاظ سن کروہ صحابیؓ بھی باہر نکل آئے جو حضرت عمرؓ سے ڈر کر چھپ گئے تھے۔
پھر حضرت عمرؓ نے دریافت کیا کہ رسول کریم ﷺ آج کل کہاں مقیم ہیں؟ رسول اللہ ﷺ ان دنوں مخالفت کی وجہ سے گھر بدلتے رہتے تھے۔ انہوں نے بتا یا کہ آج کل آپؐ دارِ ارقم میں تشریف رکھتے ہیں۔ حضرت عمرؓ فوراً اسی حالت میں جبکہ ننگی تلوار انہوں نے لٹکائی ہوئی تھی اس گھر کی طرف چل پڑے۔ بہن کے دل میں شبہ پیدا ہوا کہ شاید وہ بُری نّیت سے نہ جا رہے ہوں۔ انہوں نے آگے بڑھ کر کہا خدا کی قسم! مَیں تمہیں اس وقت تک نہیں جانے دوں گی جب تک تم مجھے اطمینان نہ دلا دو کہ تم کوئی شرارت نہیں کرو گے۔ حضرت عمرؓ نے کہا کہ مَیں پکا وعدہ کرتاہوں کہ مَیں کوئی فسادنہیں کرونگا۔ حضرت عمرؓ وہاں پہنچےاوردستک دی۔ رسول کریم ﷺ اور صحابہؓ اندر بیٹھے ہوئے تھے دینی درس ہو رہاتھا۔
کسی صحابیؓ نے پوچھا کون؟ حضرت عمرؓ نے جواب دیا:عمر!۔ صحابہؓ نے کہا:یا رسول اللہؐ ! دروازہ نہیں کھولنا چاہئے۔ ایسا نہ ہو کہ کوئی فساد کرے۔ حضرت حمزہؓ نئے نئے ایمان لائے ہوئے تھے وہ سپاہیانہ طرز کے آدمی تھے۔ انہوں نے کہا دروازہ کھول دو۔ مَیں دیکھوں گا وہ کیاکرتا ہے۔ چنانچہ ایک شخص نے دروازہ کھول دیا۔ حضرت عمرؓ آگے بڑھے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: عمر! تم کب تک میری مخالفت میں بڑھتے چلے جاؤ گے؟ حضرت عمرؓ نے کہا یا رسول اللہؐ ! مَیں مخالفت کیلئے نہیں آیا مَیں تو آپؐ کا غلام بننے کیلئے آیا ہوں۔ وہ عمرؓ جو ایک گھنٹہ پہلے اسلام کے شدید دشمن تھے اور رسول کریم ﷺ کو مارنے کیلئے گھر سے نکلے تھے ایک آن میں اعلیٰ درجہ کے مومن بن گئے۔ حضرت عمرؓ مکہ کے رئیسوں میں سے نہیں تھے لیکن بہادری کی وجہ سے نوجوانوں پر آپ کا اچھا اثر تھا۔ جب آپ مسلمان ہوئے تو صحابہؓ نے جوش میں آکر نعرہ ہائے تکبیر بلند کئے۔ اس کے بعدنماز کا وقت آیا اور رسول کریمﷺ نے نماز پڑھنی چاہی تو وہی عمرؓ جو دو گھنٹے قبل گھر سے اس لئے نکلا تھا کہ رسول کریم ﷺ کو مارے۔ اس نے دوبارہ تلوار نکال لی اور کہا۔ یارسول اللہؐ ! خداتعالیٰ کا رسول اور اس کے ماننے والے تو چھپ کر نمازیں پڑھیں اور مشرکین مکہ باہر دندناتے پھریں یہ کس طرح ہوسکتا ہے؟ مَیں دیکھوں گا کہ ہمیں خانہ کعبہ میں نماز ادا کرنے سے کون روکتا ہے؟ رسول کریم ﷺنے فرمایا :یہ جذبہ تو بہت اچھا ہے لیکن ابھی حالات ایسے ہیں کہ ہمارا باہر نکلنا مناسب نہیں۔
احمد: دادی جان آپ حضرت عمرؓ کی بہادری کا بھی کوئی واقعہ بیان کریں۔
دادی جان: ابتدائے زمانہ اسلام میں صرف دو شخص مسلمانوں میں بہادر سمجھے جاتے تھے۔ ایک حضرت عمرؓ اور دوسرے حضرت حمزہؓ۔ جب یہ دونوں اسلام میں داخل ہوئے تو انہوں نے رسول کریم ﷺ سے درخواست کی کہ ہم یہ پسندنہیں کرتے کہ ہم گھروں میں چھپ کر اللہ تعالیٰ کی عبادت کیا کریں۔ جب کعبہ پر ہمارا بھی حق ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم اپنے اس حق کو حاصل نہ کریں اور کھلے بندوں اللہ تعالیٰ کی عبادت نہ کریں۔ چنانچہ رسول کریم ﷺ جو کفار کو فساد کے جرم سے بچانے کے لیے گھر میں نماز ادا کر لیا کرتے تھے خانہ کعبہ میں عبادت کے لئے تشریف لے گئے اور اس وقت آپؐ کے ایک طرف حضرت عمرؓ تلوار کھینچ کر چلے جا رہے تھے اور دوسری طرف حضرت حمزہؓ اور اس طرح رسول کریم ﷺ نے خانہ کعبہ میں علی الاعلان نماز ادا کی۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ بیان کرتے ہیں کہ ہم نے اس وقت تک کھل کر اللہ کی عبادت نہیں کی جب تک کہ حضرت عمرؓ ایمان نہ لے آئے۔
محمود: دادی جان کوئی واقعہ بھی تو سنائیں۔
دادی جان: جی بیٹا، اب میں آپ کو بطور خلیفہ ان کی سیرت کے چند پہلوؤں کے بارے میں بتاتی ہوں۔ حضرت عمرؓ کی لوگوں، ضرورت مندوں، عورتوں، بچوں کی ضروریات پوری کرنے کی بہت سی روایات ہیں کہ کس طرح اللہ تعالیٰ کا خوف رکھتے ہوئے آپؓ ان کی ضروریات پوری کیا کرتے تھے اور بےچین ہو جایا کرتے تھے۔ آپؓ جب دیکھتے تھے کہ کسی کی ضرورت پوری نہیں ہوئی اور وہ آپؓ کی رعایا میں ہے تو بہت بے چین ہوتے تھے۔ آپؓ رات کو اکیلے مدینے کی گلیوں میں نکلتے اور لوگوں کی ضروریات اور تکالیف معلوم کرتے۔ ایک موقع پر آپؓ نے جب رات کو ایک عورت سے اس کے بچے کے رونے کی وجہ پوچھی تو اس نے کہا کہ کیونکہ عمرؓ نے دودھ پیتے بچوں کا راشن مقرر نہیں کیا اس لیے میں بچے کو غذا کھانے کی عادت ڈالنے کے لیے دودھ نہیں دے رہی اور یہ بھوک سے رو رہا ہے۔ یہ بات سن کر حضرت عمرؓ بے چین ہو گئے اور فوراً کھانے پینے کے سامان کا انتظام کیا اور پھر اعلان فرمایا کہ آئندہ سے ہر پیدا ہونے والے بچے کو بھی راشن ملا کرے گا۔
حضرت طلحہؓ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ حضرت عمرؓ رات کی تاریکی میں گھر سے نکلے تو حضرت طلحہؓ نے دیکھ لیا۔ حضرت عمرؓ ایک گھر میں داخل ہوئے۔ پھر دوسرے گھر میں داخل ہوئے۔ جب صبح ہوئی تو حضرت طلحہؓ ان گھروں میں سے ایک گھر میں گئے، وہاں ایک نابینا بڑھیا بیٹھی ہوئی تھی۔ حضرت طلحہؓ نے اس سے پوچھا جو شخص تیرے پاس رات کو آتا ہے وہ کیا کرتا ہے؟ بڑھیانے جواب دیا: وہ کافی عرصہ سے میری خدمت کر رہا ہے اور میرے کام کاج کو ٹھیک کرتا ہے اور میری گندگی دُور کرتا ہے۔
دادی جان: اب وقت بہت ہوگیا ہے۔ صبح تہجد اور سحری کے لیے بھی اٹھنا ہے۔ اب دعا پڑھ کر سو جائیں۔
(ماخوذ از خطبہ جمعہ 23؍ اپریل 2021ء )
(درثمین احمد۔ جرمنی)