نماز میں غفلت کی پانچ حالتیں
حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ تعالیٰ عنہ نےآیت ِکریمہ الَّذِیۡنَ ہُمۡ عَنۡ صَلَاتِہِمۡ سَاہُوۡنَ (الماعون:۶) (جو اپنی نماز وں سے غافل رہتے ہیں)کی نہایت پُرمعارف تفسیربیان فرمائی ہےجواحبابِ جماعت کےاستفادہ کےلیےپیشِ خدمت ہے۔
” نماز میں غفلت کئی طرح سے ہوتی ہے۔
۱۔ بعض لوگ نماز پڑھتے ہی نہیں۔رسمی طور پر مسلمان کہلاتے ہیں۔مگر کبھی ان کو یہ خیال نہیں آتا کہ نمازکاپڑھنامسلمان کے واسطے فرض ہے اور جب تک کہ وہ اپنے عین کاروبار کے درمیان وقتِ نماز کےآنے پر تمام دنیوی خیالات کو بالائے طاق رکھ کر خدا تعالیٰ کی طرف نہیں جھکتا۔ تب تک اس میں اسلامی نشان نہیں پایا جاتا۔ ہر ایک قوم والوں کے درمیان کوئی مذہبی نشان ہوتا ہے۔ عیسائی لوگوں نےوہ نشان صلیب کا رکھا ہے۔جس کو وہ لکڑی یالوہے یا چاندی سونے کی بنوا کر اپنی چھاتی یا سر پراور معبد خانوں کے اوپر لگا دیتے ہیں۔ اس واسطے عیسوی مذہب کو صلیبی مذہب کہتے ہیں۔ اور عیسائیوں نے جو لڑائیاں اپنے مذہب کی خاطر مسلمانوں کے ساتھ کیں ان کو صلیبی جنگ کہتے ہیں۔ ایسا ہی ہندو لوگ اپنے ہندو ہونے کی نشانی میں بدن پر ایک تاگہ رکھتے ہیں جسے زُناّر یا جینیوکہتے ہیں۔ مسلمانوں کے درمیان ان کے اسلام کی نشانی یہی ہے کہ مسلمان ہر حالت رنج و راحت،صحت و بیماری، امن و جنگ میں اپنے وقت پر اپنے خدا تعالیٰ کے حضور میں حاضری بھرنے کے واسطے چُست ہو جاتا ہے۔ عین جنگ کے موقعہ پر جہاں دشمنوں کے ساتھ لڑائی ہو رہی ہوتی ہے۔ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اصحاب کے ساتھ صف بندی کر کے نماز پڑھتے اور پڑھاتے تھے اس سے بڑھ کر نماز کے واسطے اور کیا تاکید ہو سکتی ہے۔
۲۔وہ لوگ جو نماز پڑھتے ہیں مگر کبھی کبھی جس دن کپڑے بدلے یا صبح کے وقت جب ہاتھ مُنہ دھویا اور نماز بھی اتفاق سے پڑھ لی یا چند ایسے دوستوں میں قابو آگئے جو نماز پڑھتے ہیں۔ تو وہاں ان کے درمیان مجبورا ًپڑھ لی۔ یہ لوگ بھی غفلت کرنے والوں میں شامل ہیں۔
۳۔پھر کچھ ایسے لوگ ہیں جو پڑھتے تو ہیں مگر بہ سبب تکبّر کے یا بہ سبب سُستی کے اپنے گھروں میں پڑھ لیتے ہیں ہر وقت اپنے کام میں مصروف رہتے ہیں۔ جب نماز کا وقت آیا تو اسی جگہ جلدی جلدی نماز پڑھ لی۔ گویا ایک رسم ہے جس کو ادا کرتے ہیں یا ایک عادت ہے جس کو پورا کرتے ہیں۔ مسجد میں جانا اور جماعت کو پانا ان کے نزدیک ایک بے فائدہ امر ہے۔ یہ لوگ بھی غافلین میں شامل ہیں۔ اکثر آج کل کے دنیوی رنگ میں بڑے لوگوں میں اگر کسی کو نماز کی عادت ہے۔( تو ایسی ہے)۔
۴۔ بعض لوگ مسجد میں بھی جا کر پڑھتے ہیں۔ مگر بے دلی کے ساتھ۔ ان میں تعدیلِ ارکان کا خیال نہیں۔ اور خدا تعالیٰ کی طرف پوری توجہ سے نہیں جھکتے اور جلدی جلدی نماز کو ختم کرتے ہیں۔ اور نماز کے اندر وساوس کو اور غیر خیالات کو بُلاتے ہیں۔
۵۔پھر وہ لوگ جو نماز پڑھتے ہیں مگر ویسی نماز نہیں پڑھتے جو خدا تعالیٰ نے اپنے رسول ؐ کو سکھلائی اور اس کے رسول ؐنے اپنی اُمّت کو سکھلائی بلکہ وہ اپنے لئے ایک نئی نماز ایجاد کرتے ہیں اور وہ نہیں جانتے کہ جس وقت یہ سورہ شریف نازل ہوئی تھی۔ اس وقت بھی تو نماز پڑھی جاتی تھی۔ اور ظن کرتے ہیں کہ تاریخی شہادتیں تمام جھوٹی ہیں۔ خواہ کسی قدر جا نفشانی کے ساتھ وہ واقعات سینہ بسینہ جمع کئے گئے ہوں۔ گویا ان کے نزدیک تمام جہان کی تاریخ جھوٹ ہے۔اور اس میں کچھ راستی نہیں۔ اور کہتے ہیں اور گمان کرتے ہیں کہ ہر ایک انسان اپنے لئے آپ قرآن شریف کو سمجھے گا اور وہ دنیا میں ہزار ہا اشیاء کے محتاج ہیں لیکن جب انہیں کہا جائے کہ تم قرآن شریف کو سمجھنے کے لیے بھی کسی کے محتاج ہو تو اپنے نفس کو دھوکہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ قرآن شریف کسی کا محتاج نہیں وہ کلام الہٰی ہے۔ اور سچ ہے کہ وہ محتاج نہیں۔ لیکن کیا انسان بھی محتاج نہیں۔ کیا ماں کے پیٹ سے کوئی شخص قرآن شریف پڑھ کر نکلا تھا ؟ اور وہ کہتے ہیں کہ وہ نماز جو دوسرے مسلمان پڑھتے ہیں۔ وہ درست نہیں۔ خواہ اس کے متعلق سچی اور حقیقی شہادت دکھائی جائے کہ آنحضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز اسی طرح پڑھی تھی اور کہتے ہیں کہ جن لوگوں نے آنحضرت ؐسے روایت کی وہ قابل اعتبار نہ تھے۔ اور نہیں سوچتے کہ اگر وہ سب کے سب ایسے ہی تھے تو پھر قرآن شریف بھی ہم تک انہی بزرگوں کے ذریعہ سے پہنچا ہے پس کیوں کر یقین ہو کہ قرآن بھی اصلی ہے؟ کیونکہ سچ ہے کہ خدا تعالیٰ نے قرآن کی حفاظت کا ذمہ لیا ہے۔ مگر کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ حفاظت کی آیت بھی ان لوگوں نے اپنے پاس سے ڈال دی ہو۔ جنہوں نے ہم تک قرآن پہنچایا؟ پس یہ راہ بہت ہی خطرناک ہے جو چکڑالوی اور اس کے ہم خیالوں نے اختیار کی ہے! “
(حقائق الفرقان۔جلدچہارم،صفحہ ۴۸۰-۴۸۱)