احادیث نبویﷺ اور حضرت اقدس مسیح موعودؑ کے ارشادات کی روشنی میں دعاؤں کی اہمیت کا بیان نیز رمضان المبارک کے حوالے سے احباب جماعت کو زرّیں نصائح۔ خلاصہ خطبہ جمعہ فرمودہ ۷؍مارچ ۲۰۲۵ء
٭… رمضان میں اللہ تعالیٰ نے عبادتوں کی طرف اس لیے توجہ دلائی ہے تاکہ پھر تم اسے اپنی زندگیوں کا حصّہ بنالو، اگر یہ نہیں توصرف رمضان کی عبادتیں کچھ کام نہیں کریں گی
٭… چاہیے کہ ہم اس رمضان کو ایسا رمضان بنائیں جو ہماری عبادتوں کے معیار کو بلند کرنے والا ہو، ہمیں خدا تعالیٰ کا قرب دلانے والا ہو، تاکہ ہم اللہ تعالیٰ کے خالص بندے بننے والے ہوں
٭… اس رمضان میں ہمیں یہ عہد کرنا چاہیے کہ ہم اپنی عبادتوں کو زندہ کریں گے
٭… دعاؤں کی طرف ہمیں بہت توجہ دینے کی ضرورت ہے، اس رمضان کو ایسا رمضان بنائیں کہ جو دعاؤں کی قبولیت والا رمضان ہو۔
اپنے آپ میں مستقل پاک تبدیلی پیداکرنے والا رمضان ہو
خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۷؍مارچ ۲۰۲۵ء بمطابق ۷؍ امان ۱۴۰۴؍ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ(سرے)، یوکے
اميرالمومنين حضرت خليفةالمسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيز نے مورخہ۷؍مارچ۲۰۲۵ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، يوکے ميں خطبہ جمعہ ارشاد فرمايا جو مسلم ٹيلي وژن احمديہ کے توسّط سے پوري دنيا ميں نشرکيا گيا۔جمعہ کي اذان دينےکي سعادت مولانا فیروز عالم صاحب کے حصے ميں آئي۔
تشہد،تعوذ، سورة الفاتحہ اورسورة البقرة کی آیت۱۸۷کی تلاوت کے بعد حضورِانورایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنےمذکورہ آیتِ کریمہ کا ترجمہ بیان کرتے ہوئے فرمایاکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب میرے بندے تجھ سے میرے متعلق سوال کریں تو یقیناً مَیں قریب ہوں مَیں دعا کرنے والے کی دعا کا جواب دیتا ہوں، جب وہ مجھے پکارتا ہے۔ پس چاہیے کہ وہ بھی میری بات پر لبیک کہیں اور مجھ پر ایمان لائیں تاکہ وہ ہدایت پائیں۔
حضورِانور نے فرمایا کہ رمضان کے شروع ہوتے ہی یہ خیال فوراً دل میں پیدا ہوجاتا ہے کہ نمازوں کی طرف توجہ ہوکیونکہ یہ برکتوں والا مہینہ ہے، اس لیے عموماً لوگ مسجد کی طرف زیادہ رُخ کرتے ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ کم از کم ان دنوں میں لوگوں کو خیال آجاتا ہے کہ ہم نے اللہ تعالیٰ کی طرف جانا ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مَیں رمضان کے دنوں میں جہنم کے دروازے بند کردیتا ہوں شیطان کو جکڑ دیتا ہوں، اور جنّت کے دروازے کھول دیتا ہوں۔ اس سے لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ صرف رمضان میں عبادتوں کی ضرورت ہے، یہ غلط سوچ ہے۔
رمضان میں اللہ تعالیٰ نے عبادتوں کی طرف اس لیے توجہ دلائی ہے تاکہ پھر تم اسے اپنی زندگیوں کا حصّہ بنالو،اگر یہ نہیں توصرف رمضان کی عبادتیں کچھ کام نہیں کریں گی۔
آنحضورﷺ نے فرمایا کہ جو شخص ایمان کے تقاضے اور ثواب کی نیّت سے رمضان کی راتوں میں اٹھ کر نمازپڑھتا ہے تو اس کے گذشتہ گناہ بخش دیے جاتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ بڑا بخشنے والا ہے وہ ہمیں یہ موقع دیتا ہے کہ اگر سال کے دوران تم سے غلطیاں ہوگئی ہیں توتم نئے سِرے سے یہ عہد کرو کہ تم آئندہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کا حق ادا کرنے والے بنوگے، اور اُن تمام نیکیوں کو بجا لانے والے بنو گے جن کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے تو یقیناً وہ بڑی رحمت کے ساتھ تمہاری طرف متوجہ ہوگا۔ اس آیت میں جو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ’جب میرے بندے تجھ سے سوال کریں…‘ یہاں بندوں سے مراد عاشقانِ الٰہی ہیں ۔ اب
عاشق ایسا تو نہیں ہوتا کہ گیارہ مہینے اسے عشق یاد نہ آئے اورصرف ایک مہینہ وہ عشق کا اظہار کرے۔
اس لیے ہمیں یہ دعا کرتے رہنا چاہیے کہ اے اللہ! ہمیں اپنا قرب عطا فرما۔ ہمیں مقبول دعاؤں کی توفیق عطا فرما۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں باربار توجہ دلائی ہے کہ حقوق اللہ اور حقوق العباد کی طرف توجہ کرو۔ حضرت مسیح موعودؑ نے ایک جگہ فرمایا ہے کہ قرآن کریم میں سات سَو احکامات ہیں بلکہ ایک جگہ فرمایا کہ سات سَو سے زیادہ احکام ہیں۔
جب ہم رمضان میں قرآن پڑھیں گے تو ظاہر ہے کہ ہم احکامات بھی تلاش کریں گے اور جب احکامات تلاش کریں گے تو اُن پر عمل کرنے کی بھی کوشش کرنے والے ہوں گے۔ یہی ایک سچے عاشق کا کام ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایمان اور اعمالِ صالحہ ایسی چیزیں ہیں جو ساتھ ساتھ چلتی ہیں، جب اللہ تعالیٰ پر ایمان اور اس کے حکموں پر عمل ہوگا تو ایسا شخص پھر خدا کا دوست بن جاتا ہے اور جب خدا تعالیٰ کی دوستی عطاہوگی تو اس سے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہوگا اور پھر اس قرب میں بڑھتے چلے جائیں گے۔ یہ قرب ایسا نہیں کہ جو ایک جگہ رکنے والا ہو، اللہ تعالیٰ اس قرب کے طفیل دعاؤں کو بھی سنے گا۔ پس
رمضان میں ہمیں اس معیار کو حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
اللہ تعالیٰ نےدعاؤں کی قبولیت کے لیے بھی بعض شرائط رکھی ہیں جن میں پہلی تو یہی ہے کہ اُس کا عبد بن کر رہنا ہوگا، خالص ہوکر اس کی عبادت کرنی ہوگی۔ اس کو سب طاقتوں کا سرچشمہ سمجھنا ہوگا، کوئی جھوٹے خدا نہیں بنانے، ورنہ تو یہ شرک کی طرف لے جانے والی بات ہوگی۔ سب سے بڑی چیز یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سے اُس کا رحم اور شفقت مانگو، اور اس کے حکموں پر عمل کرنے کی کوشش کرو۔
آنحضرتﷺ نے بےشمار مقامات پر ہمیں نیکیوں پر کاربند ہونے کی طرف توجہ دلائی ہے، حضرت مسیح موعودؑ نے ہمیں باربار اس جانب متوجہ فرمایا ہے۔ دس شرائطِ بیعت میں سے اکثر شرائط یہی ہیں کہ حقوق اللہ اور حقوق العباد کی طرف توجہ کرو۔ پس ہمیں اس طرف توجہ کرنی چاہیے، جب ہم یہ کریں گے تو اللہ تعالیٰ یقیناً ہمارا ولی اور دوست بن جائے گا۔ وہ ہماری دعاؤں کو سنے گا۔ آنحضرتﷺ نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ اُن لوگوں کی دعا سنتا ہے جو بےصبری نہیں دکھاتے، اور یہ نہیں کہتے کہ مَیں نے بہت دعائیں کرلیں ،اللہ تعالیٰ سنتا ہی نہیں۔ فرمایا یہ کفر ہے اور اللہ تعالیٰ سے دُور لے جانے والی بات ہے۔
حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں کہ یہ تو دو دوستوں کا معاملہ ہوتاہے کبھی دوست اپنے دوست کی مان لیتا ہے کبھی دوست سے اپنی منواتا ہے۔ اسی طرح خدا معاملہ کرتا ہے، لیکن بظاہر جو ایک مومن کی دعا خدا ردّ کرتا ہے یہ بھی اصل میں اُس کی بہتری کے لیے ہے۔ آپؑ فرماتے ہیں کہ جب میرے بندے میرے بارے میں سوال کریں کہ خدا کے وجود پر دلیل کیا ہے۔ تو جواب یہ ہے کہ مَیں بہت نزدیک ہوں، کچھ بڑےدلائل کی حاجت نہیں ، نہایت آسانی سے میرے وجود پر دلیل پیدا ہوتی ہے اور دلیل یہ ہے کہ جب کوئی دعا کرنے والا مجھے پکارے تو مَیں اس کی سنتا ہوں اور اپنے الہام سے اس کی کامیابی کی بشارت دیتا ہوں۔
قرآن کریم میں جو یہ ذکر ہے کہ یُؤۡمِنُوۡنَ بِالۡغَیۡبِحضرت اقدس مسیح موعودؑ نے اس کی بڑی لطیف تشریح فرمائی ہے، فرمایا:غیب بھی خدا کا نام ہے ۔ فرمایا:ہر دعا سے پہلے یہ یقین ہو کہ خدا ہے اور وہ بےانتہا صفات کا حامل ہے ۔ جب اس یقین کے ساتھ آگے بڑھو گےتو پھر تمہیں خدا کا حقیقی عرفان حاصل ہوگا۔ یہ نہیں کہ صرف رمضان میں نمازوں کی طرف توجہ پیدا ہو۔ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ احمدی نمازوں کی طرف بہت زیادہ توجہ دیتے ہیں مگر پھر بھی اس میں کمی ہے۔
چاہیے کہ ہم اس رمضان کو ایسا رمضان بنائیں جو ہماری عبادتوں کے معیار کو بلند کرنے والا ہو، ہمیں خدا تعالیٰ کا قرب دلانے والا ہو، تاکہ ہم اللہ تعالیٰ کے خالص بندے بننے والے ہوں۔
پس
اس رمضان میں ہمیں یہ عہد کرنا چاہیے کہ ہم اپنی عبادتوں کو زندہ کریں گے،
اور پھر اس کے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا بھی مانگیں۔
آنحضورﷺ نے فرمایا ہے کہ دعا اُس ابتلا کے مقابلے پر جو آچکا ہے اور اس کے مقابلے پر جو ابھی آنا ہو نفع دیتی ہے، اور اے اللہ کے بندو! تم پر لازم ہے کہ تم دعا کرنے کو اختیار کرو۔
حضورِانور نے فرمایا کہ صرف رمضان کے مہینے میں تو آفات یا مشکلات نہیں آتیں،مختلف وقتوں میں آتی رہتی ہیں اس لیے
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم صرف اُس وقت دعا نہ کرو جب مشکل آئے، بلکہ رسول اللہﷺ نے فرمایا ہے دعا اُن مشکلات سے بچانے میں بھی مدد دیتی ہے جو ابھی نہیں آئیں۔
اس لیے مستقل دعا سے کام لیتے رہنا چاہیے۔
رسول اللہﷺ فرماتے ہیں کہ تمہارا ربّ ہر رات قریبی آسمان تک نزول فرماتا ہے ، اور جب رات کا تیسرا حصّہ باقی رہ جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ کون ہے جو مجھے پکارے تو مَیں اسے جواب دوں، کون ہے جو مجھ سے مانگے تو مَیں اس کو دوں، کون ہے جو مجھ سے بخشش طلب کرے تو مَیں اس کو بخش دوں۔ یہ صرف رمضان کے ساتھ مشروط نہیں، بلکہ عام بات ہے۔
آنحضرتﷺ نے فرمایا ہے کہ جو شخص یہ چاہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ تکالیف کے وقت اُس کی دعاؤں کو قبول کرے تو اسے چاہیے کہ آسانی اور فراخی کے وقت کثرت سے دعا کرے۔ پس یہ باتیں بہت ضروری ہیں، ہمارا اللہ تعالیٰ سے پختہ تعلق ہونا چاہیے۔
ایک روایت میں یہ بھی آتا ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ مَیں بندے کے گمان کے مطابق اُس سے سلوک کرتا ہوں، جس وقت بندہ مجھے یاد کرتا ہے ، مَیں اس کے ساتھ ہوتا ہوں۔ اگر وہ مجھے دل میں یاد کرتا ہے تو مَیں اس کو دل میں یاد کروں گا۔ اگر وہ میرا ذکر محفل میں کرے گا تو مَیں اس کا ذکر اس سے زیادہ بہتر محفل میں کروں گا۔ اگر وہ میری جانب ایک بالشت آئے گا تو مَیں اس کی طرف ایک ہاتھ جاؤں گا اگر وہ میری طرف ایک ہاتھ آئے گا تو مَیں اُس کی طرف دو ہاتھ جاؤں گا۔ اگر وہ میری طرف چل کر آئے گا تو مَیں اس کی طرف دوڑ کر جاؤں گا۔
حضورِانور نے فرمایا کہ
ہر احمدی کو یہ کوشش کرنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کے ذکر سے اپنی زبانوں کو تر رکھے۔ ہمارا ہر فعل اور ہر عمل ایسا ہونا چاہیے کہ ہم خدا کی طرف قدم بڑھانے والے ہوں۔
ایک روایت میں مذکور ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ ذوالنون یعنی حضرت یونسؑ نے مچھلی کے پیٹ میں یہ دعا کی کہلَاۤ اِلٰہَ اِلَّاۤ اَنۡتَ سُبۡحٰنَکَ اِنِّیۡ کُنۡتُ مِنَ الظّٰلِمِیۡنَ۔ فرمایا اس دعا کو جو بھی مسلمان کسی ابتلا کے وقت کرے گا اللہ تعالیٰ اس کی دعا کو ضرور قبول فرمائے گا۔
حضورِانور نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ بندوں پر مہربان ہے، اس نے خود بندوں کو دعائیں سکھائی ہوئی ہیں۔
قرآن کریم میں جو مختلف دعائیں سکھائی گئی ہیں وہ اسی لیے ہیں تاکہ ہم یہ دعائیں مانگیں اور اللہ تعالیٰ ضرور ان کو قبول فرمائے گا لیکن شرط وہی ہے کہ ہم پہلے اُس کا حق اداکرنے والے ہوں۔
حضرت مسیح موعودؑ اس دعاکی نسبت فرماتے ہیں کہ اس سے ایک سبق ملتا ہے کہ تقدیر کو اللہ تعالیٰ بدل دیتا ہے، رونا دھونا اور صدقات جو حضرت یونس ؑکی قوم کا واقعہ ہوا تھا ، فردِ قراردادِ جرم کو بھی ردّ ی کردیتے ہیں ۔فرمایا جو لوگ قبل از نزولِ بلا دعا کرتےہیں اور استغفار کرتے ہیں اور صدقات دیتے ہیں، اللہ تعالیٰ ان پر رحم کرتا ہے اور انہیں عذابِ الٰہی سے بچا لیتا ہے۔
حضورِانور نے فرمایا کہ
گذشتہ دنوں مَیں نے دعاؤں کی تحریک کی تھی، اس میں استغفار کی طرف بھی توجہ دلائی تھی۔ حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا ہے کہ استغفار ایک ڈھال ہے۔ پس اس کی طرف بھی توجہ دیں، کثرت سے استغفار کریں۔ صدقِ دل سے دعاؤں کی طرف توجہ دیں، رمضان کے بعد بھی دعاؤں اور نیکیوں پر قائم رہنے کی کوشش کریں اور پھر دیکھیں کہ خدا تعالیٰ کس طرح دوڑ کر ہمارے پاس آتا ہے اور ہمیں اپنی آغوش میں لے لیتا ہے۔
حضورِانور نےدعاؤں کی تحریک کرتے ہوئے فرمایا کہ آج کل جو دنیا میں بعض جگہ حالات ہیں، پاکستان ، بنگلہ دیش ، الجیریا وغیرہ اوربعض افریقہ کے ممالک ، جہاں بعض گروہوں نے قبضے کیے ہوئے ہیں،یا ان گروہوں کی طرف سے حملے ہوتے ہیں، حکومتیں بھی ان سے ڈر کر ان کی باتیں مان لیتی ہیں ، ہمیں یہ دعا کرنی چاہیے کہ
اے اللہ! ہمیں ان ظالموں سے نجات دے۔ خود ان سے انتقام لے۔
جب اس طرح ہم دعائیں کریں گے تو اللہ تعالیٰ ضرور ایک انقلابِ عظیم پیدا فرمائے گا۔
حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں کہ حصولِ فضل کا اقرب طریق دعا ہے اور دعا کے کامل لوازمات یہ ہیں کہ اس میں رقّت ہو، اضطراب ہو اور گدازش ہو۔
پس
دعاؤں کی طرف ہمیں بہت توجہ دینے کی ضرورت ہے، اس رمضان کو ایسا رمضان بنائیں کہ جو دعاؤں کی قبولیت والا رمضان ہو۔ اپنے آپ میں مستقل پاک تبدیلی پیداکرنے والا رمضان ہو۔ اللہ تعالیٰ ہمیں تمام دشمنوں اور ظالموں سے نجات دے۔
٭…٭…٭
مزید پڑھیں: غزوۂ خیبرکےتناظر میں سیرت نبویﷺ کا بیان۔ خلاصہ خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۸؍فروری ۲۰۲۵ء