تعارف کتاب

پسر موعود، مصلح موعود(از حضرت پیر منظور محمد صاحب رضی اللہ عنہ)(قسط ۶۵)

(اواب سعد حیات)

حضرت پیر منظور محمد صاحب رضی اللہ عنہ(مصنف قاعدہ یسرناالقرآن ) نےانتخاب خلافت ثانیہ ۱۴؍مارچ ۱۹۱۴ءکے قریباً اڑھائی ماہ بعد ۲۷؍مئی ۱۹۱۴ء کو قادیان دارالامن و الامان سے ایک رسالہ لکھا جس کا نام ’’پسرِ موعود‘‘ اور دوسرا نام ’’مصلح موعود‘‘ رکھا ۔ الٰہ بخش پریس قادیان سے شائع ہونے والا ۳۲ صفحات کا یہ مضمون جماعت احمدیہ کے ایک ماہنامہ رسالے تشحیذ الاذہان کی جلدنمبر ۹ شمارہ نمبر ۵ میں طبع ہوا۔

خلافت احمدیہ سے منسلک رہ کر خلیفہ ثانی کی بیعت کرنے والوں اور اس آسمانی نظام سے رو گردانی کرنے والوں کی باہمی گفتگوؤں اور تحریرات کے پس منظر میں اس رسالہ پسر موعود و مصلح موعود میں مصنف نے جو معروضات، اقتباسات، حوالہ جات اور نتائج پیش کیے ہیں، ان کا خلاصہ یوں ہے کہ اشتہار ۲۰؍فروری ۱۸۸۶ء میں ایک لڑکے کے بارہ میں پیشگوئی ہے۔ اس اشتہار میں سے چند الہامی جملے جو اس لڑکے کی نسبت ہیں، نقل کیے جاتے ہیں۔

’’مَیں تجھے ایک رحمت کا نشان دیتا ہوں اُسی کے موافق جو تُو نے مجھ سے مانگا… فضل اور احسان کا نشان تجھے عطا ہوتا ہے اور فتح اور ظفر کی کلید تجھے ملتی ہے۔… سو تجھے بشارت ہو کہ ایک وجیہہ اور پاک لڑکا تجھے دیا جائے گا۔… وہ لڑکا تیرے ہی تخم سے تیری ہی ذریّت و نسل ہوگا۔… وہ دنیا میں آئے گا اور اپنے مسیحی نفس اور روح الحق کی برکت سے بہتوں کو بیماریوں سے صاف کرے گا۔… فرزند دلبند گرامی ارجمند۔ مَظْہَرُ الْاَوَّلِ وَ الْآخر، مَظْہَرُ الْحَقِّ وَالْعَلَاءِ کَاَنَّ اللّٰہَ نَزَلَ مِنَ السَّمَآءِ۔ جس کا نزول بہت مبارک اور جلال الٰہی کے ظہور کا موجب ہوگا۔ … وہ جلد جلد بڑھے گا اور اسیروں کی رستگاری کا موجب ہوگا اور زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا اور قومیں اس سے برکت پائیں گی…‘‘

پسر موعود کی نسبت ایک یہ الہام بھی ہے ۔

اے فخر رسل قرب تو معلومم شد
دیر آمدۂ ز راہ دور آمدۂ

پھر اشتہار ۲۲؍مارچ ۱۸۸۶ء میں اِ س لڑکے کے لیے نو برس کی میعاد مقرر کی گئی، جیسا کہ فرمایا ۔ ایسا لڑکا بموجب وعدہ الٰہی ۹ برس کے عرصہ تک ضرور پیدا ہوگا۔

پھر سبز اشتہار مورخہ یکم دسمبر ۱۸۸۸ء میں اس لڑکے کے پیدا ہونے سے پہلے اِس لڑکے کے نام مقرر کیے گئے جیسا کہ فرمایا۔ مصلح موعود کا نام الہامی عبارت میں فضل رکھا گیا اور نیز دوسرا نام اس کا محمود اور تیسرا نام اس کا بشیر ثانی بھی ہے اور ایک الہام میں اُس کا نام فضل عمر ظاہر کیا گیا ہے۔

اور اسی سبز اشتہار میں مصلح موعود کی نسبت فرمایا کہ خدا تعالیٰ کے وعدہ کے موافق اپنی میعاد کے اندر ضرور پیدا ہوگا۔ زمین آسمان ٹل سکتے ہیں پر اُس کے وعدوں کا ٹلنا ممکن نہیں۔

پھر تریاق القلوب میں فرمایا۔ سبز رنگ کے اشتہار میں لکھا گیا کہ اُس پیدا ہونے والے لڑکے کا نام محمود رکھا جائے گا اور یہ اشتہار لاکھوں انسانوں میں شائع کیا گیا۔ جب اس پیش گوئی کی شہرت کامل درجہ پر پہنچ چکی اور کوئی بھی فرقہ باقی نہ رہا جو اِ س سے بے خبر ہو تب خدا تعالیٰ کے فضل اور رحم سے ۱۲؍جنوری ۱۸۸۹ء کو مطابق ۹ جمادی الاول ۱۳۰۶ہجری میں بروز شنبہ محمود پیدا ہوا۔

اور سراج منیر میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ وہ لڑکا پیش گوئی کی میعاد میں پیدا ہوا۔ اور اب نویں سال میں ہے۔

حقیقة الوحی جو سراج منیر سے آٹھ سال بعد طبع ہوئی اُس میں فرمایا کہ سترھویں سال میں ہے۔

اس خلاصہ کے بعد مکمل رسالے کا جائز ہ لیں تو اس میں ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے جن اشتہارات اور کتب میں پسر موعود کا ذکر ہے ان میں سے چھ قسم کا ذکر رسالہ میں جمع ہے، اول : پسر موعود کی پیش گوئی۔ دوم: پسر موعود کی علامات کا ذکر۔ سوم: پسر موعود کے مرتبہ کا ذکر۔ چہارم: پسر موعود کی میعاد۔ پنجم: پسر موعود کے نام۔ ششم: پسر موعود کی تعیین۔

اس تعیین کے ضمن میں رسالے کے صفحہ ۲۶-۲۷ پر ’’حضرت خلیفة المسیح اول کی تعیین‘‘ کے عنوان سے لکھتے ہیں کہ’’۸؍ستمبر۱۹۱۳ء کی بات ہے یعنی عرصہ قریباً سات آٹھ ماہ کا ہوا کہ میں اپنے مکان پر مجموعہ اشتہارات حضرت اقدسؑ دیکھ رہا تھا۔ پڑھتے پڑھتے مجھے معلوم ہوگیا کہ حضرت میاں صاحب ہی پسر موعود ہیں۔ تب میں اسی وقت حضرت خلیفة المسیح خلیفہ اول کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اور میں نے عرض کیا مجھے آج حضرت اقدس کے اشتہارات کو پڑھ کر پتہ مل گیا ہے کہ پسر موعود میاں صاحب ہی ہیں۔ تو جناب حضرت خلیفة المسیح نے فرمایا کہ ’’ہمیں تو پہلے ہی سے معلوم ہے کیا تم نہیں دیکھتے کہ ہم میاں صاحب کے ساتھ کس خاص طرز سے ملاکرتے ہیں اور ان کا ادب کرتے ہیں۔‘‘

جب مَیں نے دیکھا کہ ان کا بھی یہی اعتقاد ہے تو میں نے مکان پر واپس آکر دو تین دن میں ان تمام دلائل کو جمع کیا اور حضرت میاں صاحب کے پسر موعود ہونے پر چودہ قرائن لکھے۔ چودہواں قرینہ (جو دراصل بڑا بھاری ثبوت ہے لیکن میں نے اُس وقت قرینہ کا ہی لفظ لکھا تھا) اس بارے میں تھا کہ حضرت خلیفۃالمسیح کا بھی یہی اعتقاد ہے اور اُس قرینہ میں مَیں نے پہلے اپنے الفاظ لکھے پھر حضرت خلیفة المسیح کے مذکورہ بالا الفاظ لکھے جو میری بات کے جواب میں فرمائے تھے۔ اس کے لکھنے کے بعد میں نے مناسب سمجھا کہ اس پر حضرت خلیفة المسیح کی تصدیق ان کے اپنے ہاتھ سے ہوجائے تو بہتر ہے تب میں وہ تحریر جو فل سکیپ کاغذ کے چار ورقوں پر تھی اُن کی خدمت میں لے گیا اور عرض کیا کہ اس کو پڑھ لیجئے ۔ انہوں نے پڑھنا شروع کیا۔ پڑھتے پڑھتے جب قرینہ چہار دہم پر پہنچے تو میں نے عرض کی کہ حضور نے اُس دن یہ الفاظ فرمائے تھے ،فرمایا: ہاں۔ تو میں نے عرض کیا کہ حضور اپنے ہاتھ سے اپنی تصدیق اس پر کردیں۔ تب آپ نے اپنے ہاتھ سے اُس پر تصدیق کردی…۔

عکس دینے سے پہلے ایک بات اور یہاں لکھ دینےکے قابل ہے وہ یہ ہے کہ جب میں یہ تصدیق کروا چکا تو دوسرے دن یعنی ۱۱؍ستمبر۱۹۱۳ء کو شام کے بعد حضرت خلیفة المسیح گھر میں چارپائی پر لیٹے ہوئے تھے، میں پاؤں سہلانے لگ گیا۔ تھوڑی دیر بعد بغیر کسی گفتگو اور تذکرہ کے خود بخود فرمایا کہ ’’ ابھی یہ مضمون شائع نہ کرنا۔ جب مخالفت ہو اس وقت شائع کرنا۔‘‘میں نے عرض کیا ، ’’بہت بہتر۔‘‘

آگے چل کر اسی رسالہ میں ’’مفید اطلاع‘‘ کے عنوان کے تحت صفحہ ۳۲ پر لکھتے ہیں کہ عرصہ چودہ پندرہ برس کا ہوا کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے مجھے فرمایا تھا کہ ’’سبز اشتہار کو اپنے پاس حفاظت سے رکھو۔‘‘

حضرت پیر منظور محمد صاحبؓ کے اس مفید رسالہ کے جواب میں مولوی محمد علی صاحب نے جون ۱۹۱۴ء میں ایک رسالہ بعنوان ’’المصلح الموعود‘‘ تیار کیا جس میں پیر صاحب کے دلائل اور حقائق کا رد کیا گیا، اور قریباً ساٹھ صفحات کے اسی جوابی رسالہ کو احمدیہ انجمن اشاعت اسلام لاہور نے اپریل ۱۹۴۴ء میں ایک ہزار کی تعداد میں دوبارہ بھی شائع کیا۔

(تشحیذ الاذھان۔ اگست ۱۹۱۴۔ صفحہ اول تا ۶۴ تک)

٭…٭…٭

مزید پڑھیں: احمدیت کا پیغام (حضرت چودھری محمد ظفراللہ خان رضی اللہ عنہ )(قسط ۶۲)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button