والد محترم سلطان احمد قریشی صاحب
خاکسار کے والد ۲۲؍ستمبر۲۰۲۴ء کو اپنے خالق حقیقی کے حضور حاضر ہو گئے۔ آپ پانچ بہنوں کے اکلوتے بھائی اور پانچ بیٹیوں اور تین بیٹیوں کے والد تھے۔ آپ نہایت شفیق باپ، بھائی اور بیٹے تھے۔ اپنی تمام اولاد کو اعلی تعلیم دلوائی اور پھر ان کی شادیاں بھی کیں۔ اعلیٰ اخلاق کے مالک مہمان نواز اور اپنی ذات پر دوسروں کو ترجیح دینے والے انسان تھے۔ اپنے والدین کے نہایت فرمانبردار اور خدمت گزار تھے ۔اپنی بہنوں کے لاڈلے تھے اور آخر دم تک ان کی غمی خوشی کا خیال رکھتے رہے۔ تمام رشتہ داروں سے نہایت حسن سلوک سے پیش آتے ۔
پی ٹی سی ایل (PTCL)میں اسسٹنٹ انجینئر کے عہدے سے ریٹائرڈ ہوئے۔ اپنی ملازمت کے دوران احمدی ہونے کے باعث بےانتہا مخالفت کا سامنا کیا لیکن اپنی محنت اور ڈیوٹی ایمانداری سے انجام دینے کے باعث مخالفین ہمیشہ اپنی کوششوں میں ناکام رہے۔ ۱۹۸۵ء میں سکھر کی شیعہ مسجد منزل گاہ میں بم دھماکے کے الزام میں جماعت کے عہدیداران گرفتار کرلیے گئے جن میں میرے والد بھی شامل تھے۔ پندرہ دن کی جیل کے دوران ابو جان نے اللہ تعالی کے افضال و برکات کے بے شمار نظارے مشاہدہ کیے( جن کی تفصیل والد صاحب کی سوانح حیات میں موجود ہے)
ابو جان نے ہمیشہ عورتوں کے ساتھ حسن سلوک کی نصیحت کی جس کا عملی نمونہ انہوں نے اپنے طرز عمل سے پیش کیا۔ اپنی اہلیہ،ہمشیرگان اور بیٹیوں کے ساتھ نہایت عزت اور محبت کا سلوک تھا۔
غریبوں کے نہایت ہمدرد اور غم خوار تھے۔ بے شمار لوگوں کو نوکری پر لگانے میں مدد کی۔ بیواؤں ،یتیموں کا ہمیشہ خیال رکھتے۔ آپ نے اپنی اولاد کو بھی ہمیشہ ان لوگوں سے حسنِ سلوک کی تلقین کی اور ہمیشہ ان سے دعا لینے کو کہا۔ اپنوں کے علاوہ غیروں سے بھی انتہائی پیار اور شفقت کا سلوک کرتے۔ کسی نے بیٹے اور کسی نے بیٹی کی صورت میں ابو جان کی بےپایاںمحبت اور شفقت سے حصہ پایا ۔
ابو جان کا حافظہ بھی کمال کا تھا۔ ہر واقعہ تاریخ اور وقت کے ساتھ یاد تھا۔ ٹیلی فون کے محکمے میں ہونے کے باعث پورے ضلع کے نمبر ان کو زبانی یاد تھے۔ اکثر مجھے کہتے میرا ٹیسٹ لو اور میں ڈائریکٹری میں سے ضلع کے کسی بھی شہر کا کوئی نمبر پوچھتی تو ابو ایک دو سیکنڈ آنکھیں بند کرتے اور فون نمبر بتا دیتے، کبھی غلطی نہیں ہوتی تھی۔
اپنی اولاد کا بے حد خیال رکھت، ہر ضرورت پوری کرتے اور کبھی کسی چیز کی کمی نہ ہونے دیتے۔بیماری میں بچوں کا ماں کی طرح خیال رکھتے۔ بیمار بچے کے لیے دفتر سے جلد آجاتے اور اگر بچہ زیادہ بیمار ہوتا تو گود میں اٹھا کر پیدل ہی ہسپتال لے جاتے جو قریب ہی تھا ۔بچوں کے لیے دعا بھی کرتے۔ ایک بار میرا بھائی فضل احمد شدید بیمار ہو گیا، بخار اترتا نہیں تھا۔ ابو جان سجدے میں گرگئے اور اتنا روئے کہ مجھے ان کی آہ و بکا سے پورا کمرہ لرزتا ہوا محسوس ہوا ۔اللہ تعالی نے ان کی دعائیں سن لیں اور اگلے دن اس کا بخار ٹوٹ گیا اور وہ ٹھیک ہونے لگا۔
ابو جان نے کوئی جائیداد نہیں بنائی۔ ان کی جائیداد ان کی اولاد ہی تھی۔ آٹھ بچوں کو اعلی تعلیم دلوائی اور سب کی شادیاں کیں۔ ماشاءاللہ پڑپوتے اور پڑ نواسے دیکھ کر گئے ۔
ابو جان کام کی طرح دل کے بھی بادشاہ تھے اور اولاد کے ساتھ ساتھ بہت سی دنیا نے ان کی سخاوت سے فائدے اٹھائے۔ ان کی مہمان نوازی بھی ہر خاص و عام میں مشہور تھی۔ مہمانوں کے آنے پر بہترین کھانے پکواتے اور مہمانوں کا ہر طرح سے خیال رکھتے۔
اپنی بہنوں اور ان کی اولادوں سے بے حد پیار تھا۔ ان کے آنے پر ان کی بے حد خدمت کرتے اور ان کی واپسی پر بھی ان کو خالی ہاتھ نہ بھیجتے۔ کوئی آپ کو پوچھے نہ پوچھے انہوں نے ہمیشہ فون پر اپنی اولاد سے رابطہ رکھا ۔کبھی شکوہ نہیں کیا۔ جب بیمار تھے تب بھی فون کر کے پہلے ہمارا حال ہی دریافت کرتے۔غرضیکہ وہ بے شمار خوبیوں کا مجموعہ تھے۔
اللہ تعالیٰ کے فضل سے آپ موصی تھے۔ اور بہشتی مقبرہ میں مدفون ہیں۔
اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے اور ہمیں ان کی تمام نیکیاں اور خوبیاں اپنانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
(شازیہ سلطان)
٭…٭…٭
مزید پڑھیں: والد محترم ڈاکٹر محمد صادق صاحب جنجوعہ کا ذکر خیر