سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام

احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح

(’اے ولیم‘)

فتح و ہزیمت سےمراد ان پیشگوئیوں میں بحث و دلائل و جواب و سوال میں ہار جیت ہے نہ تلوار کی لڑائی میں

براہین احمدیہ پر لکھے جانے والے ریویو زکے سلسلے میںابوسعید محمدحسین بٹالوی صاحب کا تحریر کردہ ریویو

(گزشتہ سے پیوستہ)پھر ایسے شخص پر یہ بہتان کہ اس کے دل میں گورنمنٹ انگلشیہ کی مخالفت ہے اور اُس کی کتاب کی نسبت یہ گمان کہ وہ گورنمنٹ کے مخالف ہے پرلے سرے کی بے ایمانی اور شرارت شیطانی نہیں تو کیا ہے۔ خیر خواہان سلطنت و پیروان مذہب اسلام ان یاوہ گو حاسدوں کی ایسی باتیں ہرگز نہ سنیں اور اس کتاب یا مؤلف کی طرف سے سوءظنی کو اپنے دلوں میں جگہ نہ دیں۔ گورنمنٹ سے تو ہم پہلے ہی مطمئن ہیں کہ وہ ان باتوں کو مؤلف کی نسبت ہرگز نہ سنیں گی۔ بلکہ جو ان باتوں کو گورنمنٹ تک پہنچائے گا اُس کو اُس کی دروغ گوئی پر سرزنش کرے گی۔

شاید وہ مفتری حاسد اپنے افتراء کی تائید میں اس کتاب کی اُن عبارات و بشارات کو جن میں مؤلف نے اپنی یا اسلام کی فتح اور مخالفین اسلام کی ہزیمت کی خبریں دی ہیں یا اپنی مشابہت مسیح علیہ السلام سے بیان کی ہے عوام میں جن کو وہ بہکانا چاہتے ہیں پیش کریں یا کر چکے ہوں۔ لہٰذا اس مقام میں ان عبارات و بشارات کاحل مطلب ضروری ہے تا کہ عوام ان عبارات و بشارات کے مطالب سمجھنے میں غلطی نہ کھائیں اور ان مفتریوں کے دھوکہ میں نہ آجائیں۔ پس واضح ہو کہ وہ عبارات و بشارات جن سے ان مفتریوں کے ہاتھ مارنے کا گمان ہے یہ ہیں۔

(۱) آیۃ بشارت فتح اسلام جو براہین احمدیہ میں بصفحہ ۵۱۵ منقول ہے اور اس رسالہ میں بصفحہ ۱۷۳ اِنَّا فَتَحْنَا لَکَ فَتْحًا مُّبِیْنًا

(۲) آیت پیشین گوئی ہزیمت مخالفین اسلام جو براہین میں بصفحہ ۴۹۸ موجود ہے اَمْ یَقُوْلُوْنَ نَحْنُ جَمِیْعٌ مُّنْتَصِرٌ سَیُہْزَمُ الْجَمْعُ وَ یُوَلُّوْنَ الدُّبُرَ کہ کیا وہ کہتے ہیں ہم سب بدلہ لینے والے ہیں۔ وہ سب بھگائے جائیں گے اور پیٹھ پھیر دیں گے۔

(۳) مؤلف کی یہ کشفی پیش گوئی جو بصفحہ ۵۱۵ براہین احمدیہ منقول ہے کہ اس موقع (الہام آیت الفتح) کے اثناء میں جبکہ یہ عاجز بغرض تصحیح کاپی کو دیکھ رہا تھا۔ بعالم کشف چند ورق ہاتھ میں دیئے گئے اور اُن پر لکھا ہوا تھا کہ فتح کا نقارہ بجے پھر ایک نے مسکرا کر ان ورقوں کے دوسری طرف ایک تصویر دکھائی اور کہا کیا کہتی ہے تمہاری تصویر جب اس عاجز نے دیکھا تو وہ اسی عاجز کی تصویر تھی اور سبز پوشاک تھی مگر نہایت رُعب ناک جیسے سپہ سالار مسلح فتحیاب ہوتے ہیں اور تصویر کے یمین و یسار میں حجۃ اللہ القادر و سلطان احمد مختار لکھا تھا۔”

(۴) مؤلف کی یہ الہامی پیش گوئی بزبان انگریزی بصفحہ ۴۸۴کتاب براہین احمدیہ

God is coming by His army. He is with you to kill enemy

گاڈ اِذ کَم اِنگ بائی ہز آرمی۔ ہِی اِز ود یُو ٹو کل اینمی۔

یعنی خدا اپنا لشکر لیے آ رہا ہے۔ وہ دشمن کے مارنے کے لئے تیرے ساتھ ہے۔

(۵) آیت خطاب مؤلف بلفظ یا عیسیٰ جو براہین میں بصفحہ ۵۵۶ اور اس رسالہ میں بصفحہ (۱۷۳)منقول ہو چکی ہے۔

(۶) مؤلف کی نسبت یہ بشارت بصفحہ ۵۲۱ کتاب کہ‘‘بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے۔’’

اسی قسم کی اور آیات و بشارات بزبان عربی فارسی و انگریزی اس کتاب میں پائے جاتے ہیں اور اُسی کے مطابق اس کتاب کے معاونوں اور مؤلف کے معتقدوں کی کلام میں الفاظ نصرت و فتح مستعمل ہوئے ہیں۔ (دیکھو اشتہار طولانی جماعت معاونین کتاب مطبوعہ ریاض ہند پریس امرتسر جس میں لفظ فتح و نصرت موجود ہیں اور بحق مؤلف یہ شعر منقول ہے۔ ؎

سب مریضوں کی ہے تمہیں پہ نگاہ
تم مسیحا بنو خدا کے لئے

ولیکن اس کتاب میں ان بشارات و عبارات کے الفاظ کی تشریح و تفسیر ایسی ہو چکی ہے کہ اس میں کسی مفتری کے افتراء اور کسی مفسد کے اختراع کی گنجائش نہیں۔ اس میں صاف اور کھلے طور پر بیان کیا گیا ہے کہ فتح اسلام سے ملکی فتح مراد نہیں۔ اور نہ ہزیمت مخالفین اسلام سے ان کا میدان جنگ میں شمشیر و تفنگ سے بھاگ جانا مراد ہے بلکہ فتح اسلام سے اس کا دلائل و بیان و حجت و برہان سے غالب ہونا۔ اور ہزیمت و مغلوبیت مخالفین سے ان کا بحث و دلائل سے عاجز آنا مراد ہے۔

اور مؤلف کو بلفظ یا عیسیٰ مخاطب کرنے سے یہ مراد نہیں ہے کہ مؤلف درحقیقت وہ مسیح موعود ہے جس کا اہل اسلام اور عیسائیوں (دونو) کو انتظار ہے بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ مؤلف حضرت مسیح علیہ السلام سے مشابہہ اور بعض اوصاف میں مماثل ہے (حاشیہ: یہ تشبیہ بعینہٖ ان تشبیہوں کی مانند ہے جو عیسائیوں کے اعتقاد میں عہد عتیق و جدید میں حضرت مسیح کے حق میں ابراہیم سے (پیدائش ۵-۱۷) آدم سے (روم ۱۴-۵) اسحاق سے (پیدا ۱و۲-۲۲) پناہ کے شہر سے (گنتی ۶-۳۵) پہلے پہل سے (خر ۲۹-۲۲) پیتل کے حوض سے (خر ۱۸-۳۰) بزغالہ سے (احبار ۲۰-۱۶) وغیرہ وغیرہ سے وارد ہیں۔ جن سے کوئی مسلمان یا عیسائی یہ سمجھ نہیں سکتا کہ مسیح درحقیقت آدم یا ابراہیم یا پیتل کا حوض یا بزغالہ وغیرہ ہے) سو یہی نہ ان کے جسمانی اور سیاست ملکی کے اوصاف میں بلکہ صرف روحانی اور تعلیمی صفت میں۔

اور مؤلف کے کپڑوں سے بادشاہوں کی برکت ڈھونڈنے سے یہ مراد نہیں کہ اُن کو ظاہری بادشاہت ہوجائے گی اور دوسرے بادشاہ موجودہ وقت خصوصاً انگریز جن کے ظلّ حمایت و بادشاہت میں مؤلف رہتا ہے اُن کی زیر حکومت ہو جائیں گے بلکہ اس سے اُن کی دینی بادشاہی اور روحانی سرداری اور اخروی پیشوائی مراد ہے اس بشارت کی نظیریں حضرت مسیح کی وہ بشارتیں ہیں جو عیسائیوں کے زعم میں عہد عتیق و جدید میں ان کی بادشاہت و تسلط کی نسبت وارد ہیں۔ (حاشیہ: کہ وہ خدا کا تخت نشین ہے۔ (مکاشفات یوحنا ۲۱-۳) وہ داؤد کے تخت پر اور اُس کے ملک پر آج سے لے کے ابد تک بندوبست کرے گا۔ (یسع ۷-۹ وغیرہ) میں نے تو اپنے بادشاہ کو کوہ مقدس صیہون پر بٹھلایا ہے۔ (زبور ۶-۲ وغیرہ) اے پہلوان اپنی تلوار کو جوتیری حشمت اور بزرگواری ہے حمائل کر کے اپنی ران پر لٹکا اور اپنی بزرگواری سے سوار ہواور سچائی اور ملایمت اور صداقت کے واسطے اقبال مندی سے آگے بڑھ اور تیرا دہنا ہاتھ تجھ کو مہیب کام سکھلا دے گا۔ تیرے تیر تیز ہیں لوگ تیرے نیچے گرے پڑتے ہیں۔ وے بادشاہ کے دشمنوں کے دل میں لگ جاتے ہیں۔ (زبور ۳-۴۵ وغیرہ)سمندر سے سمندر تک اور دریا سے انتہائے زمین تک اس کا حکم جاری ہو گا۔ وے جو بیابان کے باشندے ہیں اُس کے سامنے جھکیں گے ترسیسں اور جزیروں کے سلاطین نذریں لاوینگے سبا اور سیبا کے ہدئیے گذارنے گے ۔ ہاں سارے بادشاہ اُس کے حضور سجدہ کرینگے۔ (زبور ۸-۷۲ وغیرہ)

تو میرے دہنے ہاتھ بیٹھ جب تک کہ میں تیرے دشمنوں کو تیرے پاؤں تلے کی چوکی بناؤں۔ (زبور۲-۱۱۰ وغیرہ) کیونکہ جب تک وہ سارے دشمنوں کو اپنے پاؤں تلے نہ لاوے ضرور ہے کہ سلطنت کرے۔ (۱۔ قر ۲۵-۱۵) وے برّی سے لڑائی کرینگے اور برّہ اُن پر غالب ہو گا کیونکہ وہ خداوندوں کاخداوند ہے اور بادشاہوں کا بادشاہ ہے۔ (مکاشفات ۱۴-۱۸) اس بادشاہی کی ایک عمدہ نظیر اس وقت کی موجودہ عیسائیوں کی نجاتی فوج ہے جس میں جرنیل کرنیل میجر کپتان سبھی عہدہ دار فوجی موجود ہیں اور حقیقت میں فوجی کوئی نہیں وہ سب اپنے روحانی مناصب کے مدعی ہیں ایسی تشبیہات اور اصطلاحات کسی مسلمان نے برت لئے تو کیا گناہ کیا اور وہ ان الفاظ کے استعال سے خیر خواہی سلطنت کی دم بھرتا ہوا کیونکر باغی ہو گیا۔حالانکہ حضرت مسیح عیسائیوں کے اعتقاد میں دنیا کے بادشاہ نہیں ہوئے اور نہ انہوں نے کبھی تلوار لٹکائی اور نہ کسی پر چلائی خود حضرت مسیح نے پلاطوس کو مخاطب ہو کر فرما دیا ہے کہ میری بادشاہت اس جہان کی نہیں اگر میری بادشاہت اس جہان کی ہوتی تو میرے نوکر لڑائی کرتے تا کہ میں یہودیوں کے حوالہ نہ کیاجاتا پر میری بادشاہت یہاں کی نہیں (یوحنا ۳۹-۱۸) اب ہم کو یہ دکھانا باقی رہا کہ مؤلف کے کلام میں اُن عبارات کی اس قسم کی تشریح و تفسیر کہاں پائی جاتی ہے تا کہ ناظرین ہمارے بیانات کو ہماری خیالی تاویلات نہ سمجھیں اور اُن کو نکات بعد الوقوع قرار دے کر مطلب سعدی دگرست نہ کہہ سکیں لہٰذا ہم اس باقی کو ادا کرتے ہیں اور اپنے بیان کا ایک ایک لفظ مؤلف کی کلام سے نکال دیتے ہیں۔

واضح ہو کہ مؤلف نے پیشین گوئی نمبر ۲ حصہ چہارم کتاب میں بصفحہ ۴۹۸ نقل کر کے اُس کا ترجمہ ان الفاظ سے کیا ہے ‘‘کیا کہتے ہیں کہ ہم ایک قوی جماعت ہیں جو جواب دینے پر قادر ہیں۔ عنقریب یہ ساری جماعت بھاگ جائے گی اور پیٹھ پھیر لے گی اور پیشین گوئی نمبر ۴ کا ترجمہ بھی خود ہی اِن الفاظ سے کیا ہے۔ خدا تعالیٰ دلائل اور براہین کا لشکر لے کرچلا آتا ہے وہ دشمن کو مغلوب اور ہلاک کرنے کے لئے تمہارے ساتھ ہے۔’’

یہ الفاظ ہمارے اس بیان کے صاف مصدق ہیں کہ فتح و ہزیمت سےمراد ان پیشگوئیوں میں بحث و دلائل و جواب و سوال میں ہار جیت ہے نہ تلوار کی لڑائی میں۔

مزید پڑھیں: بیوت/حجرات ازواج النبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button