بنیادی مسائل کے جوابات(قسط ۹۱)
٭…کیا اسلام میں قصاص فرض ہے ؟ اور اگر حکومت اور قانون عام انسان کا قصاص نہ لے تو کیا عام انسان خود اپنے پیارے کا قصاص لینے کا حق رکھتا ہے؟
٭…کیا حضرت داؤد علیہ السلام اور طالوت ایک ہی شخصیت ہیں؟
٭… اگلے جہان میں ہمارا علم کس نوعیت کا ہو گا اور کیا وہ علم بڑھے گا؟
٭…حج کے دوران عورت مرد کا پردہ کیوں نہیں ہے؟
٭…قرآن کریم میں آیا ہے کہ حضرت ابراہیمؑ کو سب کا امام بنایا ہے۔ تو کیا ملت ابراہیم کی پیروی کرنی چاہیے اور کیسے؟
٭…قرآن کریم میں جو دو آدمیوں کے باغ کا واقعہ بیان ہوا جس میں ایک غرور کرتا تھا اور اس کا باغ تباہ ہو جاتا ہے۔ کیا اس سے عیسائیت اور اسلام مراد ہیں اور کیا عیسائیت کا باغ تباہ ہونے والاہے؟ لیکن ایساکب ہوگا؟
سوال: یوکے سے ایک خاتون نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے سورۃ البقرہ کی آیت نمبر ۱۷۹ کے حوالے سے دریافت کیا ہے کہ کیا اسلام میں قصاص فرض ہے؟ اور اگر حکومت اور قانون عام انسان کا قصاص نہ لے تو کیا عام انسان خود اپنے پیارے کا قصاص لینے کا حق رکھتا ہے؟پھر اسی آیت میں ہے کہ عورت کا بدلہ عورت کے برابر لیا جائے گا، اس کا کیا مطلب ہے؟نیز سورۃ البقرہ کی آیت نمبر۲۵۲ کے حوالے سے دریافت کیا ہے کہ کیا حضرت داؤد علیہ السلام اور طالوت ایک ہی شخصیت ہیں، جبکہ تفاسیر میں ان دونوں کا الگ الگ زمانہ بیان ہوا ہے؟حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مورخہ ۳؍جون ۲۰۲۳ء میں ان سوالات کا حسب ذیل جواب عطا فرمایا۔ حضور انور نے فرمایا:
جواب: دنیوی قوانین کی طرح اسلامی قوانین کا اطلاق بھی ایک نظام کے تحت ہی ہوتا ہے۔ اس لیے جہاں اسلامی حکومت قائم ہوگی وہاں اسلامی سزاؤں کا اطلاق انتظامیہ کے تحت ہی عمل میں آئے گا کسی کو از خود کسی مجرم کو سزا دینے کا ہر گز اختیار نہیں ہے۔ کیونکہ از خود بدلے لینے سے ملک میں فساد پیدا ہو جائے گا اور ہر طرف قتل و غارت کا بازار گرم ہو جائے گا۔
جہاں پر اسلامی حکومت نہیں وہاں پربھی سزاؤں کے قوانین بہرحال موجود ہیں۔ جن ممالک میں عدل و انصاف کی حکمرانی ہے وہاں پر بھی قانون کے مطابق ہی مجرم کو سزا دی جاتی ہے۔ پس اگر ان قوانین پر چلا جائے تو ایسی صورت ہی پیدا نہیں ہوتی اور کسی کو از خود قصاص لینے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ پھر ایک مسلمان کے لیےیہ بھی حکم ہے کہ وہ جس ملک کا باشندہ ہے اس کے لیےلازمی ہے کہ وہ اس ملک کے قوانین کی پابندی کرے اور قانون کے دائرہ میں رہتے ہوئے اپنے معاملات طے کرے۔
سورۃ البقرہ کی آیت ۱۷۹ کے ایک حصہ کا یہ ترجمہ کہ’’عورت کا بدلہ عورت کے برابر لیا جائے گا۔‘‘کا مطلب ہے کہ اگر قاتل عورت ہو تو اسی قاتل عورت سے بدلہ لیاجائے گا۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ اس آیت کے حاشیہ میں اس آیت کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:اس کے معنے یہ ہیں کہ اگر کوئی آزاد آدمی کسی کو قتل کر دے تو خواہ مقتول غلام مرد ہو یا غلام عورت،یا آزاد مرد ہو یا آزاد عورت، اسی آزاد قاتل کو قتل کرکے بدلہ لیا جائے گا۔ اسی طرح اگر کوئی قاتل غلام ہو تو اسی قاتل غلام سے بدلہ لیا جائے گا اور اگر قاتل عورت ہو تو اسی قاتل عورت سے (خواہ وہ حُرّ ہو یا غلام) بدلہ لیا جائے گا۔ (تفسیر صغیر صفحہ ۳۷ حاشیہ نمبر ۲)
حضرت عمرؓ کی شہادت کے وقت آپ کے چھوٹے بیٹے عبیداللہ بن عمر نے شبہ کی بنا پر ایک ایرانی شخص ہرمزان کو قتل کردیا۔ حضرت عثمان ؓجب خلیفہ بنے تو آپ نے عبیداللہ بن عمر کو پکڑ کر ہرمزان کے بیٹے قماذبان کے حوالہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ تیرے باپ کا قاتل ہے اور تو ہماری نسبت اس پر زیادہ حق رکھتا ہے پس جا اور اسے قتل کر دے۔ (تاریخ طبری جلد ۳ صفحہ ۳۰۵)
اس روایت سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ بدلہ اسی شخص سے لیا جائے گا جس نے وہ جرم کیا ہے، خواہ وہ مسلمان ہو، غیر مسلم ہو، عورت ہو، مرد ہو، آزاد ہو یا غلام۔ اس واقعہ میں بھی قاتل مسلمان تھا اور مقتول غیر مسلم، اور اسلامی حکومت کے سربراہ حضرت عثمان ؓ نے اس مسلمان پر جرم ثابت ہونے پر اسی مسلمان مجرم پر سزا کے نفاذ کے لیےاسے مقتول کے بیٹے کے حوالہ کر دیا۔
حضرت عثمانؓ کے قاتل کو سزا دینے کے لیےاسے مقتول کے بیٹے کے حوالے کرنے کی وضاحت کرتے ہوئے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: اس روایت سے ثابت ہے کہ صحابہؓ کا طریق عمل بھی یہی رہا ہے کہ وہ غیر مسلم کے مسلم قاتل کو سزائے قتل دیتے تھے۔ اور یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ خواہ کسی ہتھیار سے کوئی شخص مارا جائے وہ مارا جائیگا۔ اسی طرح یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ قاتل کو گرفتار کرنے والی اور اس کو سزا دینے والی حکومت ہی ہے۔ کیونکہ اس روایت سے ظاہر ہے کہ عبیداللہ بن عمرؓ کو گرفتار بھی حضرت عثمانؓ نے کیا اور اس کوقتل کے لیےہر مزان کے بیٹے کے سپرد بھی انہوں نے ہی کیا۔ نہ ہرمزان کے کسی وارث نے اس پر مقدمہ چلایا اور نہ اس نے گرفتار کیا۔
اس جگہ اس شبہ کا ازالہ کردینا بھی ضروری معلوم ہوتا ہے کہ قاتل کو سزا دینے کے لیےآیا مقتول کے وارثوں کے سپرد کرنا چاہیے جیسا کہ حضرت عثمانؓ نے کیا یا خود حکومت کو سزا دینی چاہیے۔ سو یاد رکھنا چاہیے کہ یہ معاملہ ایک جزوی معاملہ ہے اس لیے اس کو اسلام نے ہر زمانہ کی ضرورت کے مطابق عمل کرنے کے لیےچھوڑ دیا ہے۔ قوم اپنے تمدن اور حالات کے مطابق جس طریق کو زیادہ مفید دیکھے اختیار کر سکتی ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ دونوں طریق ہی خاص خاص حالات میں مفید ہوتے ہیں۔(تفسیر کبیر جلد سوم صفحہ ۱۴۶۔ مطبوعہ یوکے ۲۰۲۳ء)
حضرت داؤدؑ اور طالوت کے بارہ میں آپ کے سوال کا جواب یہ ہے کہ طالوت اور جالوت دونوں صفاتی نام ہیں۔ طالوت کے معنی لمبے اور مضبوط شخص کے ہیں اور جالوت اس شخص کو کہتے ہیں جو ملک میں ڈاکہ زنی کر کے فساد پھیلائے اور منظم حکومت کےخلاف کارروائیاں کرے۔ طالوت حضرت داؤد علیہ السلام کے زمانہ سے دوسو سال پہلے گزر چکا تھا لیکن چونکہ طالوت کی صفات اور اس کے زمانہ کے حالات حضرت داؤد علیہ السلام کی صفات اور آپ کے زمانہ کے حالات سے مماثلت رکھتے تھے اسی طرح طالوت کے دشمن جالوت کی مماثلت حضرت داؤد کے دشمن کے ساتھ تھی اس لیے حضرت داؤد علیہ السلام کو طالوت کا صفاتی نام دیا گیا اور آپ کے دشمن کو جالوت کا صفاتی نام دیا گیا۔ کام میں مماثلت کی وجہ سے کسی پہلے شخص کا نام کسی بعد میں آنے والے شخص کو دے دیا جاتا ہے جیسے بہادر شخص کو رستم کہہ دیا جاتا ہے اور سخاوت میں بڑھے ہوئے شخص کو حاتم طائی کہہ دیا جاتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی اپنے ایک شعر میں اپنے لیے داؤد اور اپنے دشمن کے لیےجالوت کے صفاتی نام استعمال فرمائے ہیں۔ چنانچہ آپؑ فرماتے ہیں:
اِک شجر ہوں جس کو داؤدی صفت کے پھل لگے
میں ہوا داؤد اور جالوت ہے میرا شکار
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ سورۃ البقرہ کی آیات ۲۴۸ اور ۲۵۲کی وضاحت میں اس مضمون کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:طالوت سے مراد جدعون ہے اور یہ صفاتی نام ہے جوطَالَ سے نکلا ہے جس کے معنے ہیں لمبا اور مضبوط ہوگیا اور جدعون کے معنے عبرانی زبان میں اپنے مادہ کے اعتبار سے گرانے یا کاٹنے کے ہیں اور جدعون ایسے شخص کو کہتے ہیں جو اپنے مخالف کو کاٹ ڈالتا اور زمین پر گرا دیتا ہے۔ بائبل میں بھی جدعون کو بہادر پہلوان کے نام سے پکارا گیا ہے (دیکھو قاضیوں باب۶ آیت۱۲) پس طالوت اور جدعون دونوں ہم معنے الفاظ ہیں۔(تفسیر صغیر صفحہ ۶۲ حاشیہ نمبر ۶)
فرمایا: جیسا کہ ہم اوپر بیان کر چکے ہیں پہلی آیات میں جدعون کا واقعہ بیان کیا گیا ہے۔ اب ان آیات میں حضرت داؤد علیہ السلام کا ذکر کیا گیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حضرت داؤد علیہ السلام کا واقعہ جدعون کے واقعہ سے بہت کچھ ملتا ہے۔ جدعون کے وقت میں فلسطینیوں نے اسرائیل کو فلسطین سے نکالنے کی کوشش کی تھی۔ لیکن وہ ابتدائی کوشش تھی جو حضرت داؤدؑ کے زمانہ میں آکر ختم ہوئی۔ پس اس واقعہ کو مشابہت مضمون کی وجہ سے اس کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ ورنہ پہلا جدعون کا واقعہ ہے اور یہ داؤدؑ کا واقعہ ہے اور دونوں میں دو سو سال کا فاصلہ ہے۔
اب ایک سوال حل طلب رہ جاتا ہے اور وہ یہ کہ بائبل کے رو سے داؤدؑ نے جالوت کو قتل کیا تھا۔ لیکن قرآن کریم نے جدعون کے واقعہ میں بھی جالوت کا ذکر کیا ہے اس کے متعلق یاد رکھنا چاہیے کہ جالوت بھی ایک صفاتی نام ہے۔ عبرانی کے لحاظ سے بھی اور عربی کے لحاظ سے بھی۔ جالوت اس شخص کو کہتے ہیں جو ملک میں فساد کرتا پھرے یعنی ڈاکے مارتا پھرے۔ اور منظم حکومتوں کے خلاف اٹھنے والے اسی طرح کام کیا کرتے ہیں۔ پس نام کے معنوں کے لحاظ سے جدعون کے دشمن کو بھی جالوت کہا گیا ہے اور داؤدؑ کے دشمن کو بھی جالوت کہا گیا ہے۔ اور دونوں جگہ یہ نام صفاتی طور پر استعمال ہوا ہے۔ جدعون کا دشمن بھی ایک آوارہ گرد ڈاکو تھا جو ملک میں فساد پھیلاتا پھرتا تھا اور جالوت کہلا سکتا تھا۔ اسی طرح حضرت داؤد علیہ السلام نے ملک میں امن قائم کرنے کے لیےجس دشمن کا مقابلہ کیا وہ بھی آوارہ گرد فسادی تھا اور جالوت کہلانے کا مستحق تھا۔ پس دونوں کے دشمنوں کو جالوت کہا گیا ہے۔(تفسیر صغیر صفحہ ۶۵ حاشیہ نمبر ۱)
سوال: پاکستان سے ایک دوست نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں تحریر کیا کہ اگلے جہان میں ہمارا علم کس نوعیت کا ہو گا اور کیا وہ علم بڑھے گا؟ حج کے دوران عورت مرد کا پردہ کیوں نہیں ہے؟قرآن کریم میں آیا ہے کہ حضرت ابراہیم ؑکو سب کا امام بنایا ہے۔ تو کیا ملت ابراہیم کی پیروی کرنی چاہیے اور کیسے؟قرآن کریم میں جو دو آدمیوں کے باغ کا واقعہ بیان ہوا جس میں ایک غرور کرتا تھا اور اس کا باغ تباہ ہو جاتا ہے۔ کیا اس سے عیسائیت اور اسلام مراد ہیں اور کیا عیسائیت کا باغ تباہ ہونے والاہے؟ لیکن ایساکب ہوگا؟حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مورخہ ۲۴؍جون۲۰۲۳ء میں ان سوالات کا درج ذیل جواب عطا فرمایا۔ حضور انور نے فرمایا:
جواب: اگلے جہان کے بارہ میں اللہ تعالیٰ نے ہماری جو راہنمائی فرمائی ہے اس کے مطابق اُس عالم کا علم روحانی اور غیرمتناہی ہوگا۔ جس طرح جنت کے درجات اور مقامات لامتناہی ہوں گے اسی طرح ہمارے علم میں بھی اضافہ ہوتا رہے گا۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام عالم آخرت کے غیر متناہی ہونے کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:تیسرا دقیقہ معرفت کا یہ ہے کہ علم معاد میں ترقیات غیر متناہی ہوں گی۔ اس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وَالَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مَعَہٗ ۚ نُوۡرُہُمۡ یَسۡعٰی بَیۡنَ اَیۡدِیۡہِمۡ وَبِاَیۡمَانِہِمۡ یَقُوۡلُوۡنَ رَبَّنَاۤ اَتۡمِمۡ لَنَا نُوۡرَنَا وَاغۡفِرۡ لَنَا ۚ اِنَّکَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ (التحریم:۹)یعنی جو لوگ دنیا میں ایمان کا نور رکھتے ہیں ان کا نور قیامت کو ان کے آگے اور ان کے داہنی طرف دوڑتا ہو گا، وہ ہمیشہ یہی کہتے رہیں گے کہ اے خدا ہمارے نور کو کمال تک پہنچا اور اپنی مغفرت کے اندر ہمیں لے لے۔ تو ہر چیز پر قادر ہے۔
اس آیت میں یہ جو فرمایا کہ وہ ہمیشہ یہی کہتے رہیں گے کہ ہمارے نور کو کمال تک پہنچا۔ یہ ترقیات غیر متناہیہ کی طرف اشارہ ہے یعنی ایک کمال نورانیت کا انہیں حاصل ہو گا۔ پھر دوسرا کمال نظر آئے گا اس کو دیکھ کر پہلے کمال کو ناقص پائیں گے۔ پس کمال ثانی کےحصول کے لیےالتجا کریں گے اور جب وہ حاصل ہو گا تو ایک تیسرا مرتبہ کمال کا ان پر ظاہر ہو گا۔ پھر اس کو دیکھ کر پہلے کمالات کو ہیچ سمجھیں گے اور اس کی خواہش کریں گے۔ یہی ترقیات کی خواہش ہے جو اَتْمِمْ کے لفظ سے سمجھی جاتی ہے۔
غرض اسی طرح غیر متناہی سلسلہ ترقیات کا چلا جائے گا۔ تنزل کبھی نہیں ہوگا اور نہ کبھی بہشت سے نکالے جائیں گے بلکہ ہر روز آگے بڑھیں گے اور پیچھے نہ ہٹیں گے۔ (اسلامی اصول کی فلاسفی، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحہ ۴۱۳،۴۱۲)
پس عالم آخرت میں ہمارا علم صرف روحانیت کی بنا پر ہو گا اور اس میں اسی طرح اضافہ ہوتا رہے گا، جس طرح اُس عالم میں دیگر نیکی کے امور اور روحانی درجات میں اضافہ ہو گا۔
حج کے دوران مرد و خواتین کے پردہ کے بارہ میں آپ کے سوال کا جواب یہ ہے کہ حج میں بھی عورتوں اور مردوں کا پردہ ہوتا ہے۔ آپ کو کس نے کہہ دیا کہ پردہ نہیں ہوتا۔ ہاں یہ درست ہے کہ عورتیں اپنا چہرہ کھلا رکھ کر مناسک حج ادا کرتی ہیں۔ اور چہرہ کھلا رکھنا عام حالات میں بھی جائز ہے۔ اصل اسلامی پردہ یہ ہے کہ عورت باہر نکلتے ہوئے اس طرح کا ڈھیلا ڈھالا لباس پہنے جس میں اس کے جسمانی اعضا نمایاں نہ ہوں اور اس کا سر اور سینہ ڈھکا ہوا ہو۔ باقی پردہ کی روح تو حج اور عمرہ کے دوران بھی قائم رہتی ہے۔چنانچہ حدیث میں آتا ہے کہ اموی دور حکومت میں جب ہشام بن عبدالملک کےمقرر کردہ والیٔ مکہ محمد بن اسماعیل بن ہشام نے عورتوں کو مردوں کے ساتھ طواف کرنے سے منع کر دیا تو عطاء بن ابی رباح نے اسے کہا کہ تم انہیں اس کام سے کس طرح روک سکتے ہو، جبکہ نبی کریم ﷺ کی بیویوں نے مردوں کے ساتھ حج کیا۔(ابن جریج جو اس روایت کے ایک راوی ہیں، وہ کہتے ہیں کہ) میں نے(عطاء بن ابی رباح سے) پوچھا، پردہ کی آیت نازل ہونے کے بعد یا اس سے پہلے ؟ اس پر عطاء نے کہا! مجھے میری عمر کی قسم ہے، میں نے پردہ کی آیت نازل ہونے کے بعد ان کو دیکھا ہے۔ جریج نے پوچھا وہ مردوں کے ساتھ مل کر کیسے حج کر لیتی تھیں؟ عطاء نے کہا کہ وہ مردوں کے ساتھ ہر گز ملتی جلتی نہیں تھیں۔حضرت عائشہؓ مردوں سے جدا رہ کر طواف کرتی تھیں اور ان کے ساتھ اختلاط نہیں کرتی تھیں۔ ایک عورت نے حضرت عائشہؓ سے کہاام المومنین! چلیے حجر اسود کو بوسہ دیتے ہیں۔ اس پر حضرت عائشہؓ نے کہا تم جاؤ اور خود مردوں میں جانے سے انکار کردیا۔ازواج نبی ﷺ رات کو اس طرح نکلتیں کہ پہچانی نہ جاتیں اور مردوں کے ساتھ اس طرح طواف کرتیں کہ جب وہ خانہ کعبہ میں داخل ہونا چاہتیں تو باہر ہی کھڑی رہتیں، جب مرد باہر نکل جاتے تو وہ اندر جاتیں۔(بخاری کتاب الحج بَاب طَوَافِ النِّسَاءِ مَعَ الرِّجَالِ)
پس حج اور عمرہ کے دوران بھی مرد و خواتین دونوں ہی کو پردہ کی روح کو پیش نظر رکھتے ہوئے ان مناسک کو ادا کرنا چاہیے اور مرد و خواتین کا اس دوران بھی اختلاط پسند نہیں کیا گیا۔اسی لیے ابتدا میں شریعت نے حج اور عمرہ وغیرہ میں عورت کے ساتھ اس کے محرم کے ہونے کی جو شرط رکھی تھی، اس میں ایک حکمت یہ بھی نظر آتی ہے کہ حج اور عمرہ کے موقعہ پر جبکہ لوگوں کا بہت زیادہ ہجوم ہوتا ہے، اس ہجوم میں عورت کا محرم اس کا ہاتھ وغیرہ پکڑ کر اسے دوسرے لوگوں سے اپنی پناہ میں رکھ سکتا ہے۔
آپ کے اگلے سوال کا جواب یہ ہے کہ حضرت ابراہیم جو ابوالانبیاء ہیں،جن کی اللہ تعالیٰ سے وفا (النجم:۳۸) اورجن کے توحید پرست ہونےکا خاص طور پر قرآن کریم میں ذکر ہے۔(آل عمران:۹۶) جنہیں خدا نے اپنا دوست کہا ہے۔(النساء:۱۲۶) اور جن کی زندگی کو مومنوں کے لیےاسوۂ حسنہ قرار دیا گیا۔(الممتحنہ:۵) اور جن کی دعا کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے پہلے بنی اسرائیل کی ہدایت اور بھلائی کے لیےپےدرپے انبیاء بھجوائے اور پھر بنی اسماعیل میں ہمارے آقا و مولا حضرت اقدس محمد مصطفیٰ ﷺ کو خاتم النبیین کے طور پر مبعوث فرمایا۔(البقرہ:۱۳۰)ان تمام خوبیوں کی بناء پر اللہ تعالیٰ نے آپ کو امام کے خطاب سے بھی نوازا۔ (البقرہ:۱۲۵)اور آپ کی ملت کی پیروی کا حکم دیا۔(النحل:۱۲۴) آپ کی ملت دراصل آپ کی نسل میں پیدا ہونے والے انبیاء علیہم السلام ہیں نیز آپ کی تعلیمات پر چلنے والے مومنین ہیں،جن کی پیروی کا حکم دیا گیا ہے۔
علاوہ ازیں قرآن کریم میں بیان ان غیر معمولی خوبیوں والے ابراہیم سے مراد ہمارے آقا ومولا حضرت اقدس محمد مصطفیٰ ﷺ بھی ہیں، جو حضرت ابراہیمؑ کے بروز کے طور پر اس دنیا میں تشریف لائے اور جنہیں اللہ تعالیٰ نے تمام بنی نوع انسان کی ہدایت کے لیےمبعوث فرمایا اور جن کی پیروی کا تمام انسانوں کو حکم دیا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام مسئلہ بروز کی حقیقت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:صوفیائے کرام اس کو مانتے ہیں کہ کسی گزرے ہوئے انسان کی طبیعت، خو، اخلاق ایک اور میں آتے ہیں۔ ان کی اصطلاح میں یہ کہتے ہیں کہ فلاں شخص قدم آدم پر ہے یا قدم نوح پر ہے۔ اس کو بعض بروز بھی بولتے ہیں۔ ان کا مذہب یہ ہے کہ ہر زمانے کے لیےبروز ہے۔ جیسے ہابیل کا بروز شیث علیہ السلام تھے اور یہ پہلا بروز تھا۔
ہبل نوحہ کو کہتے ہیں۔ خدا نے شیثؑ کو یہ بروز دیا۔ پھر یہ سلسلہ برابر چلا گیا یہاں تک کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا بروز آنحضرتﷺ تھے۔ اسی لیے عَلَى مِلَّةِ إِبْرَاهِيمَ حَنِيْفًا (سنن ابی داؤد کتاب الضحایا بَاب مَا يُسْتَحَبُّ مِنْ الضَّحَايَا۔ ناقل)فرمایا۔ اس میں یہی سرّ ہے۔ دو اڑھائی ہزار سال کے بعد عبداللہ کے گھر میں ظاہر ہوا۔ غرض بروز کا مذہب ایک متفق علیہ مسئلہ ظہورات کا ہے۔ (الحکم نمبر ۱۵، جلد ۵، مؤرخہ ۲۴ اپریل ۱۹۰۱ء صفحہ ۱۔ملفوظات جلد اوّل صفحہ ۴۰۱۔ مطبوعہ ۲۰۲۲ء)
پس آنحضورؐ کی اتباع ہی دراصل حضرت ابراہیمؑ کی ملت کی پیروی ہے۔ اور جب ہم آپ ﷺ کے احکامات کی پیروی کریں گے تو ہم ان تمام انعامات کے وارث ٹھہریں گے جن کا خدا تعالیٰ نے حضرت ابراہیم اور آنحضور ﷺ سے وعدہ فرمایا ہے۔
باقی جہاں تک قرآن کریم میں بیان باغوں والی مثال کی بات ہے تو اس سے مراد یقیناً اسلام اور مسیحی مذاہب ہی ہیں۔ عیسائیوں نے روحانی تعلیمات کو چھوڑ کر دنیا کی عارضی شان و شوکت کو اختیار کیا، خدا تعالیٰ کی توحید کو چھوڑ کر ایک کمزور انسان کو خدا کا درجہ دے دیا، جس کے نتیجہ میں وہ روحانی طور پر تباہ ہو گئے۔ اور مذہب کی دنیا میں روحانی تباہی ہی اصل تباہی ہوتی ہے۔ دنیوی مال و متاع تو ویسے ہی عارضی اور وقتی سامان ہیں، اس لیے اگر کوئی مذہب روحانی لحاظ سے مردہ ہو جائے تو اس کے پاس اس عارضی مال و متاع کا ہونا ترقی اور کامیابی کی علامت نہیں ہوتا۔
(مرتبہ:ظہیر احمد خان۔انچارج شعبہ ریکارڈ دفتر پی ایس لندن)
٭…٭…٭
مزید پڑھیں: زمین اپنی خبریں بیان کرے گی