میجر شریف احمد باجوہ صاحب کا ذکرِ خیر
جماعت احمدیہ برطانیہ کی تاریخ کا ایک ورق
مکرم ومحترم بشیر احمد خان صاحب رفیق امام مسجد فضل لندن لمبا عرصہ خدمت بجا لانے کے بعد مورخہ ۱۴؍جنوری ۱۹۷۱ءکو مرکز کی ہدایت کے مطابق مرکز سلسلہ ربوہ کےلیے روانہ ہوگئے اور حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ کی ہدایت پر محترم میجر شریف احمد باجوہ صاحب مورخہ ۴؍فروری ۱۹۷۱ء کو پاکستان سے بطور امام مسجد فضل لندن تشریف لائے۔ ہیتھرو کے مطار پر خاکسار اور اراکین عاملہ اور دیگر احباب نے ان کا پرتپاک استقبال کیا۔ اس درمیانی عرصہ میں خاکسار نے بطور قائم مقام امام مسجد فضل لندن خدمت سر انجام دی۔

شام کو نمازوں اور کھانے سے فارغ ہونے کے بعد مشن ہاؤس میں ہم دو ہی تھے۔ ان کی اہلیہ ان کے آنے کے چند ماہ بعد آئی تھیں۔ میں بھی لندن میں اکیلا تھا۔ محترم میجر صاحب سے میری یہ پہلی ملاقا ت تھی۔ قبل ازیں میں نے ان کا نام تو سنا ہوا تھا اور اس حوالے سے بھی ان کو جانتا تھاکہ ایک بار تعلیم الاسلام ہائی سکول کے زمانہ میں سالانہ تقریری مقابلہ میں یہ عاجز اوّل آیا۔ مجھے انعام کے علاوہ ایک پارکر پین بھی دیا گیا اور اعلان ہوا کہ یہ مکرم میجر شریف باجوہ صاحب کی طرف سے تقریر میں اوّل آنے والے طالب علم کےلیے بھجوایا گیا ہے۔
باتیں شروع ہوئیں تو میجر صاحب نے کہا کہ میں تو فوجی آدمی ہوں اس نئی فیلڈ سے بالکل ناواقف ہوں لیکن حضورِانور نے ازراہِ شفقت مجھے یہاں بھجوا دیا ہے۔ اپنی تقرری کے بارےمیں انہوں نے بتایا کہ میں اپنے گاؤں میں گھر کے صحن میں بیٹھا ہوا تھا کہ ڈاکیے نے ایک خط صحن میں پھینکا جیسا کہ ان کا طریق ہوتا تھا۔ میں نے خط کھولا۔ تبشیر کے دفتر سے آیا تھا۔ لکھا تھا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو امام مسجد لندن مقرر فرمایا ہے۔ میں تو یہ پڑھ کر بہت حیران بلکہ پریشان ہو گیا۔ لفافہ الٹ پلٹ کر دیکھا کہ کسی اور کے نام کا خط تو میرے نام نہیں آگیا؟ پریشانی بہت زیادہ تھی۔ میں نے فوری طور پر ربوہ جانے اور حضور انور سے ملاقات کا فیصلہ کیا۔
میجر صاحب بڑی کھلی طبیعت کے مالک تھے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ سے ان کی بہت بے تکلفانہ دوستی تھی۔ اس پس منظر میں آپ نے ذکر کیا کہ میں حضور کی خدمت میں حاضر ہوا۔ جیب سے وکالتِ تبشیر کی طرف سے موصولہ خط نکالا اور حضورؒ کے سامنے رکھ دیا اور عرض کیا:
’’حضور ! تسیں اے کی کیتا اے!‘‘(حضور آپ نے یہ کیا کر دیا!) بتانے لگے کہ حضور میری بات سن کر مسکرائے اور فرمایا کہ مجھے خوب معلوم ہے کہ مَیں نے کیا فیصلہ کیا ہے۔ آپ وہاں جائیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کی مدد کرے۔ میں دعا کروں گا۔
مکرم باجوہ صاحب نے مجھ سے پوچھا کہ دفتر کے اوقات کیا ہیں؟ میں نے عرض کیا کہ ایک مبلغ تو ۲۴ گھنٹے ہی ڈیوٹی پر ہوتا ہے اور دوست ہر وقت آتے رہتے ہیں۔ فرمایا کہ نوٹس لگا دیں کہ آئندہ سے دفتر ی اوقات یہ ہوں گے۔ صبح ۸ بجے سے ۱ بجے تک۔ پھر نماز، کھانا اور وقفہ آرام۔ پھر ۴ بجے نماز عصر۔ چائے کے وقفہ کے بعد نمازِ مغرب۔ بعد ازاں عشاء تک دفتر کھلا رہے گا۔
میں نے حسبِ ہدایت نوٹس لکھ کر بورڈ پر لگا دیا۔ صبح نیچے آئے۔ نوٹس دیکھ کر خوش ہوئے۔ وہ نئے امام کے طور پر آئے تھے۔ احباب جماعت بڑی تعداد میں ملنے کےلیے آنے لگے۔ سارا دن اسی طرح گزرا۔ شام کو بھی ایک کے بعد دوسرا آتا رہا اور رات گئے تک بات چیت کا سلسلہ جاری رہا۔ اگلے دن بھی یہی طریق رہا۔ دوست اپنی مرضی سے آتے اور مرضی سے واپس جاتے تھے۔ ایک دو روز میں ہی باجوہ صاحب کو اندازہ ہو گیا کہ یہ نظام الاوقات تو اس طرح نہیں چل سکتا۔ چنانچہ تیسرے دن آپ نے فرمایا کہ جو نوٹس لگایا ہے اس کو اتار دیں۔ میں نے تعمیلِ ارشاد کی۔
لندن آنے کے بعد پہلا جمعہ آیا تو محترم باجوہ صاحب نے نماز جمعہ سے قبل انگریزی میں خطبہ دیا۔ فوج میں سروس کی وجہ سے آپ عمدہ انگریزی روانی سے بولتے تھے۔ مزاج کے لحاظ سے آپ کی گفتگو بھی بہت پُر مزاح اور بے تکلف ہوتی تھی۔ پنجابی تو بہت ہی ٹھیٹھ انداز میں بولتے تھے۔ ان کے پہلے خطبہ جمعہ کی یاد ذہن میں تازہ ہے۔ آپ نے عربی میں مسنون الفاظ کے بعد جو پہلا فقرہ انگریزی میں بیان کیا وہ مجھے اب بھی یادہے۔ آپ نے کہا:
Dear brothers and sisters! You know that I have been appointed as the soldier Imam of the London Mosque
یہ فقرہ سننا تھا کہ حاضرین کے چہروں پر مسکراہٹ پھیل گئی۔ایک روز مسجد کے قریب ایک کالج میں ہم دونوں کو تقریر کےلیے بلایا گیا۔ ہم نے متعدد بار مختلف کلاسوں میں باری باری تقاریر کیں۔ سوال و جواب ہوئے۔ سٹاف روم میں بھی اساتذہ کے ساتھ بات چیت ہوتی رہی۔ سارا دن انگریزی بولنے کے بعد واپس آئے تو آپ نے فرمایا:’’آئیں اوپر کمرہ میں جا کر پنجابی میں باتیں کر کے زبان کی اُلّی اتاریں۔ آج تو سارا دن انگریزی بول بول کر جباڑ بھی آکڑ گئے ہیں!‘‘
ایک روز آپ دفتری کام کرنے کے بعد میرے دفتر میں آئے۔ ہاتھ میں ایک لفافہ پکڑا ہوا تھا۔ خط قریبی لیٹر بکس میں پوسٹ کرنے جارہے تھے۔ مجھے مخاطب کر کے فرمایا:’’آج میں نے اپنی بیگم کو خط لکھ دیا ہے !‘‘
میں نے مزاحاً کہا کہ بہت اچھا کیا ہے۔ لیکن پتا بھی تو لگے کہ کیا لکھا ہے؟ کہنے لگے میں نے اسے لکھا ہے کہ ہمارا عام طریق تو اب تک یہ رہا ہے کہ گاؤں کے امام مسجد کو ہر سال گندم کی ایک بوری دیا کرتے ہیں۔ اب آئندہ سے اسے دو بوریاں دیا کرو۔ وجہ یہ ہے کہ مجھے یہاں آکر تجربہ ہوا ہے کہ امام مسجد کا کام تو بہت مشکل اور بھاری ہوتا ہے!
ان کی بے تکلفی کا ایک اَور واقعہ یاد آیا۔ مسجد فضل کے قریب رہنے والے ایک بزرگ کافی معمر تھے۔ باقاعدہ مسجد میں نماز کےلیے آتے تھے۔ زیادہ بیمار ہوئے تو مسجد آنا مشکل ہو گیا۔ کافی وقفہ کے بعد ایک جمعہ کے روز وہ مسجد آئے۔ مسجد کے پچھلے حصہ میں بینچ پر بیٹھے تھے۔ محترم شریف باجوہ صاحب نے حسبِ معمول مریضوں کےلیے دعا کے اعلانات کرتے ہوئے ان کے بارےمیں کچھ اس طرح فرمایا کہ آپ خطرناک حد تک سخت بیمار ہو گئے تھے مگر بچ گئے ہیں اور آج مسجد آئے ہوئے ہیں۔ ان کےلیے دعا کی درخواست ہے! آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ اس وقت یہ اعلان سننے والوں کی کیا کیفیت ہوئی ہو گی!
محترم باجوہ صاحب کی ایک ممتاز خوبی یہ تھی کہ احبابِ جماعت سے ملاقات اور رابطے کا بہت خیال رکھتے تھے۔ جب ان کی بیگم یہاں آگئیں تو ان کا معمول یہ بن گیا کہ دونوں ہفتہ میں چار روز نماز عصر سے مغرب تک مسجد فضل کے قریبی علاقہ میں پیدل سیر کےلیے جاتے اور راستہ میں آنے والے احمدی گھروں کا وزٹ کیا کرتے تھے۔ احباب ان کا خیر مقدم کرتے اور وہ سب کا حال احوال دریافت کرتے اور تربیتی باتیں ہوتی تھیں۔ اس بے تکلف انداز کا احبابِ جماعت پر بہت اچھا اثر ہوتا۔
آپ نے لمبا عرصہ فوج کے ماحول میں زندگی گزاری مگر آپ کی طبیعت میں نیکی اور دینداری کا رنگ غالب تھا۔ مَیں نے یہ نوٹ کیا کہ آپ کو قرآن مجید کے علاوہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی کتب کے مطالعہ کا بھی بہت شوق تھا۔ جماعت کے جرائد اور الفضل کا مطالعہ باقاعدگی سے کرتے تھے۔
آپ کو تبلیغ کا بھی شوق تھا۔ مجھے یاد ہے کہ ایک دفعہ ہم دونوں ویلز میں Lampter گئے۔وہاں کے کالج میں ہم دونوں نے باری باری لیکچر دیے اور طلبہ و طالبات کے سوالات کے جواب دیے۔ اساتذہ سے بھی خوب گفتگو ہوتی رہی۔ واپسی سفر پر ہم نے دیکھا کہ دُور دراز علاقہ میں سڑکوں کے کناروں پر مسافر سواری کے منتظر کھڑے ہوتے ہیں۔ یہ ہاتھ کے اشارہ سے درخواست کرتے ہیں کہ انہیں بلا اجرت ان کی منزل تک لے جائیں۔اس کو محاورہ میں Hitch hiking کہا جاتا ہے۔ ہم نے فیصلہ کیا کہ خدمتِ خلق کے اس موقع سے فائدہ اٹھایا جائے اور اس طرح تبلیغ کا بھی موقع مل جائے گا۔ چنانچہ ہم نے اس سفر میں متعدد افراد کو مفت سواری مہیا کی اور اس دوران تبلیغی پمفلٹ بھی دیتے رہے اور تبلیغی گفتگو کا بھی خوب موقع ملا۔ اس دُور دراز علاقے میں ہمیں اسلام کا پیغام پھیلانے کا یہ اچھا موقع ملا۔ محترم باجوہ صاحب نے بڑے اچھے ہلکے پھلکے انداز میں تبلیغ کا حق ادا کیا۔
طبیعت میں فوجی انداز کی جھلک تو تھی ہی لیکن میں نے کئی مواقع پر اس بات کا مشاہدہ کیا کہ وہ اپنے جذبات پر خوب کنٹرول رکھتے تھے۔ اس سلسلہ میں ایک واقعہ میرےلیے ناقابلِ فراموش ہے۔ ایک بار شمالی انگلستان کی ایک جماعت کے دورے پر گئے۔ کار کے ذریعہ بہت لمبا سفر کر کے جب ہم دونوں جماعت کے صدر صاحب کے مکان پر پہنچے تو مقررہ وقت سے کافی دیر ہو چکی تھی۔ سب احباب انتظار میں بیٹھے تھے۔ جوں ہی ہم اندر داخل ہوئے تو صدر صاحب نے تاخیر سے آنے پر کچھ زیادہ ہی ناراضگی کا اظہار کردیا۔ باجوہ صاحب نے بڑے آرام سے دلی معذرت کی اور بتایا کہ لمبے سفر کی وجہ سے دیر ہو گئی ہے اور آپ کو اطلاع بھی نہ کر سکے۔ لیکن معذرت کے باوجود صدر صاحب کا غصہ ختم نہ ہوا اور اس کا اظہار جاری رہا۔ میں یہ صورتِ حال دیکھ کر بہت پریشان ہو رہا تھا۔ اس موقعے پر باجوہ صاحب نے اپنے جذبات کو جس قدر دبایا اور ایک لفظ بھی تلخی کا نہیں کہا اور پورے ضبط سے کام لیا اس کو یاد کر کے میں حیران ہو گیا کہ ایک فوجی افسر نے کس طرح کمال تحمل کا مظاہرہ کیا ہے۔ یہ ان کے ضبط ِنفس کا ناقابلِ فراموش نمونہ تھا جو احمدیت کی تربیت کی ایک شاندار مثال ہے۔
اب آخر میں ان کی ایک اَور دلچسپ بات بھی ذکر کردوں۔ ایک بار آپ نے ذکر کیا کہ مَیں نے حضورؓ کو خط لکھ دیا ہے۔ مجھے معلوم تھا کہ آپ کی حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ سے بہت زیادہ بے تکلفی ہے۔ ضرور کوئی خاص بات لکھی ہوگی۔ میں نے پوچھا کہ آخر کیا خاص بات لکھی ہے؟ آپ نے بتایا کہ میں نے حضور کو لکھا ہے کہ میری درخواست اور تجویز ہے کہ جب کسی مبلغ کو میدانِ عمل میں بھجوایا کریں تو اسے ہدایت فرمادیا کریں کہ اپنے پتّے کا آپریشن کروانے کے بعد جانا۔ یہ کام بہت حوصلہ اور تحمل چاہتا ہے!
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ محترم شریف باجوہ صاحب کو ان کی خدمات کی جزائے خیر عطا فرمائے اور جنت میں اعلیٰ مقام سے نوازے۔آمین
(عطاءالمجیب راشد،مشنری انچارج یوکے)
مزید پڑھیں: میجر مبشر احمد صاحب کا ذکر خیر