متفرق مضامین

پہاڑوں کے درمیان ایک سرگوشی

آج بھی طلوع اورغروب ہوتا ہوا سورج چناب کو سنہری رنگوں سے سجا دیتا ہے اور میری راتیں گلیوں کوروشنیوں سے آباد کردیتی ہیں اور میرے اجالے دعاؤں کی روشنی سے صبح کا آغاز کرتے ہیں

میری پیدائش چناب کے چمکیلے پانیوں کے کنارے ہوئی۔ چناب جہاں آسمان کو نغمے سناتا ہے۔ میری زمین ایسے راز سرگوشیوں میں سناتی ہے جو صرف دریا کو یاد رہتے ہیں۔ میرا وجود سنہری مٹی سے تراشا گیا ہے۔ اور میرے سامنے سورج اُفق کو بوسے دیتا ہے۔ مجھ پر چلنے والی ہوا اپنے ساتھ دعاؤں کو یوں اُڑائے لے جاتی ہے جیسے کسی قدیم نظم کے بھولے بسرے اشعار۔

میں ایک ایسی داستان ہوں جو پنجاب کے سنگلاخ پہاڑوں کے سائے میں لکھی گئی۔ میرے ابواب میں ہمت، حوصلے، ایمان، استقامت اور قربانیوں کی ایسی لازوال داستانیں ہیں جنہیں تاریخ کے صفحات میں ابدیت حاصل ہے۔ میرے کناروں پہ ایستادہ پہاڑ میرے پہرے دار بنے کھڑے تاریخ کے بدلتے منظر ناموں کے گواہ ہیں۔

میرا جنم ۱۹۴۸ء میں ہوا جب کہ برصغیر میں تقسیم کی گرد بیٹھ رہی تھی اور ایک جماعت ’’احمدی مسلم‘‘جماعت اپنے لیے ایک مرکز کی تلاش میں تھی۔ دو خوبصورت آنکھوں کا دیکھا ایک سپنا تھا کہ کوئی ’’اونچی جگہ، بلند مقام‘‘ ہو جہاں جماعت کو امن نصیب ہو۔ ان خوبصورت آنکھوں میں بسے اس سنہرے سپنے کو ایسے ہونٹوں پہ جمی دعاؤں کا آسرا تھا جن کا حمد سے یارانہ تھا اور درود سے عشق۔

یہ ’’بلند مقام‘‘ اس جماعت کے حوصلے بلند ہونے کی علامت کا اظہار تھا۔ میری زمین جو کئی صدیوں سے بنجر تھی اور میری چٹانیں جو کانٹوں سے بھری ہوئی تھیں یہ اس جماعت کی بلند ’پناہ گاہ‘ بن گئیں۔ میرے پہاڑوں میں امید کے نئے راستے بنائے گئے۔ اور میری بنجر زمین پر محبت سے باغات لگائے گئے اور مجھ پر ان گھروں کو تعمیر کیا گیا جن میں خدائے یگانہ کی محبت کے گیت گائے گئے۔

مجھ پر تھکے ہوئے مسافر اُترے جن کے دلوں میں اُمید اور ہونٹوں پہ دعائیں تھیں۔ انہوں نے مجھے اینٹوں، پتھروں اور چونے ہی سے نہیں بلکہ ایمان اور آرزوؤں سے بنایا۔ ان کے ناتواں ہاتھوں نے میری ہڈیاں تراشیں اور ان کی محبت نے میری روح میں جان ڈال دی۔

میں نے موسموں کو بدلتے اور اپنی قسمت کو پلٹتے ایسے دیکھا جیسے کسی بھولے بسرے قلمی نسخے کے صفحات پلٹائے جاتے ہیں۔ میری گرمیوں کی شدت جیسے کسی عزم کی آگ ہو اور میری سردیاں جیسے صبر کی خاموش حکمت ہوں۔ میرے مون سون مجھ تک دُور دراز کے علاقوں سے کہانیاں لاتے ہیں میری مٹی آسمان سے اُترنے والی حکمت کو پیاسے دل کے ساتھ پیتی ہے۔

میرے دل میں ’’منارۃالمسیح ‘‘ چمکتا ہے۔ ایک سفید سنگ مرمر کا مینار۔ جو آسمان کی طرف بلند ہے۔ میری گلیوں میں بچوں کی ہنسی کھلکھلاتی ہے اور وہ اپنے بنائے ہوئے سکولوں کی طرف رواں دواں ہوتے ہیں۔ ان کے بستوں میں خواب چھپے ہوتے ہیں۔ میرے اسپتال، لائبریری اور سکول کالج عزم سے سجے اور میرے میدان زندگی سے روشن ہیں۔

میں مسجدوں سے بھرا ہوا ہوں۔ چاہے مسجد اقصیٰ کے درویش درخت ہوں یا مسجد مبارک کا کھلا صحن۔ گنبد والی بیت الحمد ہو یا مسجد یادگار، مسجد مہدی ہو یاکوئی اَور مسجد، میری ہر ایک مسجد کی زمین نمازیوں کی جبین کے لمس اور ان کے آنسوؤں سے مہکی ہوئی ہے۔ ہر مسجد میں اپنے رب کے ساتھ کی جانے والی آہ و بکا ہے۔اور ہر محراب راز و نیاز کا گواہ ہے ۔ میری گلیوں میں بچوں بڑوں نے ’’صلِ علیٰ نبیِّنا‘‘کے ترانے پڑھے ہیں۔ اور میرے ہر باب میں خدائے یگانہ کے نبی کاملﷺ کا درود مہکتا ہے۔

مگر میری داستان طوفانوں سے خالی نہیں۔ ظلم و ستم اور ایذارسانی کی ایسی تپتی صحرائی ہوا چلی جس نے میری بنیادوں کو مٹانے کی ناکام کوششیں کیں۔ مگر پھر بھی میرے پیارے، میرے اپنے لوگ ڈٹے رہے۔ میری جماعت نے اپنے شہدا کو میری آغوش میں دفن کیاجن کے وجودوں نے میری بنیادوں کو مضبوط تر کیا اور میری جماعت کے آنسوؤں نے میری مٹی کو سیراب کیا۔

میرا محبوب مجھ سے دور ہجرت کر کے بسنے پر مجبور ہوگیا، مگر میں اس کے دل سے اور وہ میری روح سے کبھی دُور نہ ہوا۔ کئی نسلوں نے مجھ سے الگ ٹھکانے بنائے مگر وہ آج بھی مجھ سے منسوب ہیں۔ میری گود میں آج بھی نسلیں کھیلتی ہیں جن کی کلکاریوں سے میں محظوظ ہوتا رہتا ہوں ۔

ستم گروں نے اس نیت سے میرا نام تبدیل کیا کہ شاید جماعت اپنے ’’بلند مقام‘‘ سے محروم ہو جائے گی ۔وہ بھول گئے کہ میرے کنارے پہ میرا دوست چناب بہتا ہے اور اب میں اپنے دوست کے نام سے پہچانا جاتا ہوں مگر لوگوں کے دلوں میں مَیں ’’بلند مقام‘‘ ہی ہوں۔ میرا مقام میرا نام ایسی شناخت ہے جو کبھی بھی کسی بھی قسم کے ظلم اور ناانصافی سے مٹائی نہیں جا سکتی۔

آج بھی طلوع اور غروب ہوتا ہوا سورج چناب کو سنہری رنگوں سے سجا دیتا ہے اور میری راتیں گلیوں کو روشنیوں سے آباد کردیتی ہیں اور میرے اجالے دعاؤں کی روشنی سے صبح کا آغاز کرتے ہیں۔میں شک کے عالم میں ایمان کا قلعہ ہوں اور افراتفری کے دَور میں امن سرائے ہوں۔

میری ہر صبح ایک وعدہ ہے اور ہر شام ایک دعا۔

میں اپنے دوست چناب کے ساتھ ہوں اور وہ میرے ساتھ!!

میرا نام ’’ربوہ‘‘ہے۔میں پہاڑوں کے درمیان ایک سرگوشی ہوں اور ہوا میں بہتی ہوئی دعا۔

اس دعا کا اللہ محافظ اور اس سرگوشی کا اللہ نگہباں!

(محمد فاروق سعید۔ یوکے)

مزید پڑھیں: کیا مذاہب، جرائم اور نفرتوں کا سبب ہیں؟

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button