الفضل ڈائجسٹ
اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔
حضرت حکیم خواجہ کرم دا دصاحبؓ
حضرت صاحبزادہ حکیم خواجہ کرم داد خان صاحبؓ آف چنگابنگیال ضلع راولپنڈی ایک راجپوت خاندان میں قریباً ۱۸۳۵ء میں پیدا ہوئے۔ آپؓ بڑی قدآور شخصیت کے مالک تھے۔حکمت میں آپؓ کو حضرت مولانا حکیم نورالدین صاحبؓ (خلیفۃ المسیح الاوّل)کا شاگرد ہونے کا اعزاز حاصل تھا اور کافی عرصہ حضورؓ کے ساتھ جموں و کشمیر میں بھی رہے۔ جب حضورؓ جموں سے ملازمت ترک کرکے قادیان آبسے تو مہارا جہ جموں و کشمیر نے حضرت صاحبزادہ حکیم کرم داد صاحبؓ کو اپنا شاہی طبیب مقرر کیا۔ آپؓ کی سیرت و سوانح کا بیان روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ ۲۹؍جنوری ۲۰۱۴ء میں مکرم غلام مصباح بلوچ صاحب کے قلم سے شامل اشاعت ہے۔
حضرت خواجہ صاحبؓ کے سنہ بیعت کا قطعی علم نہیںمگر آپؓ حضرت اقدسؑ کے سچے عاشق اور فدائی مرید تھے۔ اس کی ایک مثال آپ کا اپنی بیٹی حضرت زیوراں بیگم صاحبہ (ولادت:۱۸۹۰ء، وفات ۱۸؍نومبر۱۹۶۰ء)کا رشتہ کرنا ہے جو حضرت میاں رحمت اللہ صاحب (بیعت:اگست ۱۹۰۳ء، وفات ۵؍دسمبر۱۹۴۱ء قادیان)آف بنگہ ضلع جالندھر کے ساتھ طے ہوا۔ یہ شادی اطاعت امام اور دینی جذبے کی بہت عمدہ مثال تھی کیونکہ حضرت میاں رحمت اللہ صاحب دنیاوی اعتبار سے ایک کم حیثیت لیکن ایمان کی دولت سے مالا مال ایک ولی اللہ انسان تھے۔ حضرت میاں صاحبؓ بیان کرتے ہیں کہ خاکسار کی پہلی بیوی فوت ہوچکی تھی۔ میری عمر تخمیناًتیس سال کی تھی۔ اپنی برادری میں رشتے تو بہت تھے مگر وہ جاہل لوگ ’’مرزائی ہوگیا ہے‘‘کہہ کر خاموش ہوجاتے تھے۔ مَیں حضرت صاحب کی خدمت میں دعا کے لیے لکھتا رہتا تھا۔ حضورؑ کا حکم آتا تھا کہ نکاح کرو ہم دعا کریں گے۔ ایک روز مکرم شیخ یعقوب علی صاحب عرفانیؓ تشریف لائے تو اُن کو معلوم ہوا کہ میری بیوی تو فوت ہوچکی ہے اور خاکسار کی بیوہ ہمشیرہ میرے اور اپنے بچوں کی تربیت و امور خانہ داری کرتی ہے۔ آپؓ نے نکاح کرنے کا کہا تو مَیں نے وہی معاملہ احمدیت والا پیش کردیا۔ انہوں نے واپس جاکر اپنے اخبار الحکم میں دو رشتوں کے متعلق اخبار میں تحریک شائع کردی۔ اس پر مکرم خوا جہ کرم داد خان صاحبؓ چنگوی نے اپنی دونوں باکرہ لڑکیوں کے متعلق حضرت مسیح موعودؑ کی خدمت میں لکھا کہ مَیں ایک لڑکی بھائی رحمت اللہ کو حضور کے منشاء و حکم کے بموجب دیتا ہوں۔ (لڑکیاں قریباً ۱۳ و ۱۵؍سال کی تھیں۔)اس پر حضورؑ نے مجھے لکھوایا کہ چھوٹی لڑکی کا رشتہ پسند کرتا ہوں یا منظور کرتا ہوں، مَیں بھی منظور کرلوں۔ مجھے فکر بھی ہوا اور خوشی بھی، فکر اس لیے کہ اُن سے پہلے سے تعارف نہیں اور پھر وہ راجپوت اور یہ عاجز غریب لاہوریہ ارائیں ہے، ممکن ہے بعد میں کوئی ایسی بات پیدا ہو۔ خوشی اس بات کی کہ حضرت اقدسؑ نے منظور فرمایا ہے ان شاءاللہ بابرکت ہوگا۔ مَیں نے عرفانی صاحب کو لکھا کہ آپ خواجہ صاحب کو پھر یہ یاددہانی کروا دیں کہ یہ عاجز قوم کا ارائیں ہے۔ انہوں نے دوبارہ ان کو لکھا تو اُن کا ایک لمبا چوڑا خط آیا کہ مَیں نے قومیت کا کوئی لحاظ نہیں رکھا، ہاں جو قوم حضرت مسیح موعودؑ نے تیار کی ہے اس سے بڑھ کر دنیا میں کوئی قوم نہیں۔ اور یہ بھی لکھا کہ میرا یہ خط بھی اپنے اخبار میں شائع کردو جو شائع کردیا گیا۔ چند دن بعد خواجہ صاحب نے جموں سے ایک مختار نامہ حضرت مولانا عبدالکریم صاحبؓ کے نام لکھ کر ارسال فرمایا کہ حضرت صاحب کی اجازت سے آپ جس دن چاہیں میری لڑکی کا نکاح ولی بن کر میاں رحمت اللہ بنگہ والے سے کروادیں۔ چنانچہ حضورؑ نے مجھے بلواکر نکاح پڑھانے کا ارشاد فرمایا۔
حضرت خواجہ صاحبؓ کا اخبار بدر میں ایک خط شائع ہوا ہے جس میں لکھا کہ ’’ڈائری میں لکھا ہے کہ حضور مسیح الرحمان جو یکم اپریل ۱۹۰۵ء حضرت مولانا مولوی عبدالکریم صاحب کا حال دریافت کرتے رہے ہیں … جب یہ مضمون میری نظر سے گزرا، حضور کی محبت سے بھری ہوئی کلام پاک دعا کا وعدہ پڑھ کر اللہ اللہ کیا سرور اور لذت اور جوش دل میں آیا۔ مسکین ایک آہ کھینچ کر سجدے میں گر گیا، ہوش تھا لیکن صرف دعا کا ہوش تھا حضور کس قدر ہمدردیٔ جماعت سے بےچین ہو جاتے ہیں،کسی دوست کی بیماری کا حال سن کر دعا کرنا حضور کا ایک دوسرے کے لیے جماعت کو سبق ملنا چاہئے…۔‘‘
اسی طرح حضرت محمد افضل صاحبؓ ایڈیٹر اخبار البدر کی وفات کے بعد حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ کو ایڈیٹر اخبار بننے پر لکھا کہ’’شکر خدا یتعالیٰ جلال قدرت والے کا البدر محروم دوبارہ مسیح الزمان کی دعا سے زندہ دو چند دیکھا۔ مجھ کو بھائی محمد افضل کی بیماری اور فوت سن کر گھبراہٹ سے بخار چڑھ گیا تھا لیکن بخار تو چھوڑ گیا تھا دو دن کے بعد، فکر اب تک تھا کیا ہوگا؟ آج اخبار مبارک دیکھا ، دل کو سرور اور ایک لذّت پیدا ہوئی۔ یہ طریق بطور معجزہ کرامت مسیح الزمان ظاہر ہوا۔ آپ کا وجود اس سلسلہ کے لیے مبارک ہو۔ … بفضل خدا خریدار بھی پیدا کروں گا۔‘‘
اس خط سے نہ صرف آپ کی اپنے بھائیوں کے لیے ہمدردی کی جھلک نظر آتی ہے بلکہ سلسلہ احمدیہ کا درد اور حضرت مسیح موعودؑ کے پیغام کی تشہیر کی تڑپ بھی عیاں ہوتی ہے کہ کس طرح حضرت محمد افضل صاحبؓ سابق ایڈیٹر اخبار بدر کی بیماری پر آپ بے چین ہو جاتے ہیں اور اس سے بڑھ کر سلسلہ احمدیہ کے آرگن اخبار بدر کی بھی فکر آپؓ کو ستاتی ہے۔
آپؓ کی خدمات کے اعتراف میں مہاراجہ کشمیر نے ۱۸۹۸ء میں جموں میں ایک حویلی آپؓ کے نام ہبہ کر دی تھی۔ جولائی ۱۹۱۲ء میں حضرت خلیفۃالمسیح الاولؓ کے ارشاد پر حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ اور حضرت شیخ غلام احمد واعظ صاحبؓ جموں تشریف لے گئے تو حضرت حکیم صاحبؓ نے ان بزرگوں کے لیکچر کا اہتمام اپنی حویلی پر کرایا۔ یہ حویلی گردانہ صاحب کے نام سے مشہور تھی جو مہارا جہ نے آپؓ کے والد بزرگوار کو نسلًا بعد نسلٍ کے لیے عطا کردی تھی۔ خواجہ صاحب نےاس کی توسیع و درستگی کے ساتھ ایک باغیچہ بھی تیار کیا تھا۔
۱۹۴۷ء کے فسادات میں آپؓ کا سارا خاندان (ایک پوتے کے سوا)شہید کردیا گیا تو آپؓ نے یہ شدید صدمہ نہایت صبر سے برداشت کیا۔ تاہم کشمیر کے مجموعی خونچکاں حالات کا آپ کے دل پر گہرا اثر رہا۔ مکرم سمیع اللہ ناصربنگوی صاحب ابن مکرم ہدایت اللہ بنگوی صاحب ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ میری ملاقات حضرت خواجہ صاحبؓ کے ساتھ اگست ۱۹۴۷ء میں ہوئی جب میرا خاندان دہلی سے ہجرت کرکے کراچی منتقل ہوا۔ آپؓ کا قد انتہائی دراز تھا اور آپؓ کا وہ سونٹا جو کبھی کبھی چلنے کے لیے استعمال کرتے تھے، انتہائی اونچا تھا۔ سر پر گھنے بال تھے، دانت بھی اپنے تھے اور عینک بھی استعمال نہ کرتے تھے۔ کثرت سے لوگ آپ کے پاس یونانی علاج کے لیے آتے۔ آپؓ کو خدا تعالیٰ نے محض نبض دیکھ کر گذشتہ اور موجودہ بیماریوں کی تشخیص کرنے کا غیر معمولی ملکہ عطا کیا تھا۔ ہر صبح اخبار آنے پر انتہائی بےچین ہوجاتے اور کشمیر کے مسلمانوں کی تکلیف کو بہت محسوس کرتے تھے۔
حضرت خواجہ صاحبؓ کے نواسے مکرم چودھری فیض عالم خان چنگوی صاحب نے آپؓ کی وفات پر یہ اعلان شائع کروایا کہ آپؓ ۲؍مارچ۱۹۵۰ء اپنے آبائی وطن چنگا بنگیال ضلع راولپنڈی میں قریباً بعمر ایک سو پندرہ سال انتقال فرماگئے ہیں۔ آپ گذشتہ پانچ سال سے کراچی میں مقیم تھے اور قریباً عرصہ اڑھائی سال سے خاکسار کے پاس ہی رہتے تھے۔ نمازیں خاکسار کے مکان پر ہی ہوتی ہیں اور اکثر احمدی دوست آپؓ کو گھیر کر بیٹھ جاتے اور آپؓ سے حضرت مسیح موعودؑ اور حضرت خلیفہ اولؓ کے حالات سنا کرتے۔ آپؓ حضرت مسیح موعودؑ کے صحابی ہونے کے علاوہ خلیفہ اولؓ کے شاگرد بھی تھے اور آپؓ کے ساتھ بہت عرصہ دربار کشمیر میں ملازم رہ چکے تھے لہٰذا اکثر چشم دید نہایت ایمان افروز حالات سنایا کرتے تھے۔ وفات سے تھوڑا عرصہ قبل پوچھنے پر بتایا کہ مَیں نے سب سے اچھی بات حضرت مسیح موعودؑ کے زمانے میں یہ دیکھی کہ صحابہ میں ہر وقت یہ جذبہ موجزن رہتا تھا کہ حضورؑ کی طرف سے کوئی حکم یا خدمت ملے تو وہ عاشقوں کی طرح اس کو کرنے کو تیار رہتے تھے اور ہر ایک کی یہی خواہش اور تڑپ ہوتی تھی کہ ہر خدمت کے کرنے کا مجھے ہی شرف حاصل ہو۔ اس قدر عمر ہونے کے باوجود نماز پنجگانہ کو بالالتزام ادا کرتے اور ہر نماز کے وقت تازہ وضو کرتے۔ آخری عمر میں کراچی سے اپنے وطن چلے گئے۔وہاں بعض نمازوں میں امام الصلوٰۃ کے فرائض بھی ادا فرماتے۔ تبلیغ کے بہت شائق تھے، اکثر مریضوں اور ملنے والوں کو تبلیغ کرتے رہتے تھے، اشتہارات یا کتب سلسلہ بھی تقسیم کرتے۔ جموں میں مہاراجہ ہری سنگھ کی طرف سے ملنے والی کوٹھی میں احمدیہ مسجد کے لیے ایک حصہ وقف کردیا تھا۔ آپؓ سلسلہ پر سچا ایمان رکھنے والے اور مسیح موعودؑ اور خلفاء کا بےحد احترام کرنے والے بزرگ تھے۔ 1948ء میں جب حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ کراچی تشریف لائے تو آپؓ نے نظر کمزور ہونے کی وجہ سے مجھے ساتھ لیا اور نماز کے بعد حضورؓ سے مصافحہ کرکے بہت خوشی ظاہر کی۔
حضرت حکیم صاحبؓ کی اہلیہ محترمہ حضرت سیدہ مریم بیگم صاحبہ ؓبھی دیندار اور متقیہ خاتون تھیں، خاص طور پر علم قرآن کا فہم اور وعظ گوئی میں بہت مشہور تھیں اور مختلف جگہوں پر جاکر درس قرآن دیتی تھیں۔ حضرت نواب محمد خان ثاقب صاحب آف مالیر کوٹلہ اخبار الحکم میں بعنوان ’’مالیرکوٹلہ میں ایک احمدی خاتون کی تبلیغ‘‘لکھتے ہیں: ’’کوئی بیس روز یہاں ہمارے مکرم بھائی خواجہ کرم داد صاحب احمدی وظیفہ خوار ریاست جموں و کشمیر تشریف لائے ہوئے ہیں، اُن کا بچہ اور ان کی بیوی ساتھ ہیں۔ …جو سلسلہ کے مقاصد بتانے اور قرآن کریم کے حقائق و معارف کے بیان کرنے میں پوری بصیرت رکھتی ہیں، ان کو خدا نے ایسا ملکہ دیا ہے کہ وہ ہر پہلو سے مستورات میں اپنا اثر علم و عمل دونوں سے ڈال سکتی ہیں اور اپنی خدا داد طاقت اور لیاقت سے مخالفوں کا دم بند کر سکتی ہیں۔ وہ حضرت حکیم الامّت کی شاگرد خاص ہیں، مدتوں تک ان کے آستانے پر گری رہیں اور قرآن سیکھتی رہیں۔ … یہ حقیقت میں حضرت اقدسؑ کا معجزہ اور حضرت حکیم الامت مولانا مولوی نورالدین صاحب کی کرامت ہے۔ احمدی سلسلہ میں ایسی قرآن دان اور قرآن فہم القرآن اور فی القرآن خاتون ہم نے ابھی تک نہ دیکھی نہ سنی۔‘‘ (اس کے بعد مضمون میںموصوفہ کو وعظ کے لیے دیگر جماعتوں میں مدعو کرنے اور احمدی خواتین کو استفادہ کرنے کی بھرپور تلقین کی گئی ہے)۔
حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ اپنے دورۂ جموں 1912ء کی رپورٹ میںرقمطراز ہیں: صاحبزادہ خواجہ کرم داد صاحب اور خواجہ صاحب کی اہلیہ (مریم بی بی) مشہور واعظہ جن کی قرآن خوانی اور وعظ گوئی کا نمونہ دیکھ کر میں حیران ہوا، اللہ تعالیٰ اس لائق عورت کو تقویٰ، اخلاص اور صدق میں نمایاں ترقی دے کر اسے توفیق دے کہ تمام شہروں اور دیہات میں وہ عورتوں کے واسطے پُر تاثیر وعظ کرتی پھرے اور ہر جگہ نیک نمونے قائم کرے۔ محترمہ بو فاطمہ صاحبہ ہمشیرہ حضرت نواب محمد علی خان صاحب رئیس مالیر کوٹلہ بھی احمدیت میں داخل ہونے کے بعد سے اشاعت سلسلہ اور قرآن مجید سے محبت کرتی تھیں، اسی مقصد کے لیے انہوں نے سیدہ مریم کو (جو قرآن کریم کا ایک خاص فہم رکھتی تھیں اور ایک زمانہ میں اس قرآن فہمی کی وجہ سے حضرت خلیفہ اول نے ان سے نکاح کرنا چاہا تھا۔) اپنے پاس بلاکر رکھا۔ وہ قرآن مجید کا درس دیتی تھیں۔
حضرت مریم بیگم صاحبہ نے 1917ء میں وفات پائی۔ آپ کی اولاد کا زیادہ علم نہیں ہوسکا، ایک بیٹی حضرت زیوراں بیگم صاحبہ زوجہ حضرت میاں رحمت اللہ صاحب آف باغانوالہ تھیں، دوسری بیٹی مکرم چودھری فضل احمد صاحب کی اہلیہ اور چودھری فیض عالم خان چنگوی کی والدہ تھیں، ایک بیٹے مکرم بابو امداد علی صاحب تھے۔
………٭………٭………٭………
مزید پڑھیں: ایک روحانی بادشاہ