قبولیت دعا کے بہار کا موسم ماہِ صیام
خوش نصیب ہے وہ شخص جس نے رمضان کا مہینہ پایا اور اس کی کما حقہ قدر کی (حدیث نبویﷺ)
رمضان کا بابرکت مہینہ ہمارے سروں پر سایہ فگن ہے۔ حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ خوش نصیب ہے وہ شخص جس نے رمضان کا مہینہ پایا اور اس کی کما حقہ قدر کی اسی طرح وہ انسان بھی خوش نصیب ہے جن کے سروں پر ماں باپ کا سایہ ہے وہ ان کی صحیح رنگ میں خدمت بجا لا رہے ہوں۔
اس وقت رمضان کے متعلق کچھ گزارشات کرنی ہیں۔
شاید کہ اتر جائے ترے دل میں مری بات
ہم خوش نصیب ہیں اس اعتبار سے کہ ہماری زندگی میں ایک بار پھر یہ مبارک مہینہ داخل ہو رہا ہے۔یہ مہینہ رحمت خداوندی کا وہ موسم بہار ہے جس میں اللہ تعالیٰ کی خاص عنایتیں بندوں کی طرف مائل ہوتی ہیں جس میں بندوں کی مغفرت کی جاتی ہے جس کی ہر ساعت عذاب جہنم سے نجات اور آزادی کا پیام لے کر آتی ہے۔ یقیناً یہ مہینہ مخصوص عبادت و ریاضت کا مہینہ ہے۔ کمزور سے کمزور مسلمان کو بھی بندگی کا شوق فراواں نصیب ہوتا ہے۔ مسجدیں بھری ہوئی نظر آتی ہیں اور اس کے شب و روز میں عبادات کی لذتیں او رحلاوتیں ایک عام انسان کو بھی احساس دلاتی ہیں کہ یہ دعاؤں اور مناجات کا موسم ہے۔ اس مہینے میں دعاؤں کی قبولیت کا دروازہ ہرآن کھلا رہتا ہے بلکہ بندوں سے فرمائش کی جاتی ہے کہ وہ اپنی حاجتیں اور مرادیں پیش کریں جو جائز مانگیں ہیں وہ ضرور پوری کی جائیں گی۔ ان کی مرادیں بر آئیں گی۔یہ گناہوں سے توبہ و استغفار کا زمانہ ہے اور اس میں بندوں کو بخشنے اور نوازنے کے لیےمعمولی معمولی بہانے تلاش کیے جاتے ہیں۔ اسی لیے رحمۃ اللعالمین نے اس شخص کو بد نصیب قرار دیا جس پر رمضان کا پورا مہینہ گزر جائے لیکن وہ اپنی مغفرت نہ کرا سکے۔رحمت خداوندی کا یہ سالانہ جشن جس میں ہر پل برکتوں کے خزانے لٹائے جاتے ہیں۔ ہمارے سروں پر سایہ فگن ہے۔
عام انسان اس مہینے کی قدر و قیمت نہیں جانتے۔اس لیے اس کا استقبال اس رنگ میں نہیں کرتے جس رنگ میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا کرتے تھے لیکن سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم جو رمزشناس تھے کئی ماہ پہلے سے رمضان کا بڑی بے چینی اور اشتیاق سے انتظار کرتے تھے۔ حدیث میں آتا ہے جب ماہ رجب کا چاند دیکھتے تو یہ دعا فرماتے اللَّهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِي رَجَبٍ وَشَعْبَانَ وَبَلِّغْنَا رَمَضَانَ۔ یااللہ ہمیں رجب و شعبان کے مہینوں میں برکت عطا فرما اور ہمیں رمضان تک پہنچا دے۔
ہم سے رمضان کا مطالبہ اور بنیادی تقاضا یہ ہے کہ تعلق باللہ قائم ہو جائے۔حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرمایا کرتے تھے :’’ہاتھی کے پاؤں میں سب کا پاؤں‘‘یعنی جب رضائے الٰہی کی سند مل جائے تو منزل مقصود مل ہی جائے گی پھر جو چاہو جب چاہو منوا لو۔ اس لحاظ سے ایک مسلمان کا فریضہ ہے کہ وہ اپنے اندر اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق کےوہ جذبات پیدا کرے جس کا اسلام تقاضا کرتا ہے اور رمضان کا مہینہ اس مقصد کے حصول کے لیے بہترین معاون و مددگار ہے۔
اس مہینے کی اصل غرض و غایت ہی یہ ہے کہ رجوع الی اللہ ہو۔ اس مہینے میں اپنا زیادہ سے زیادہ وقت اللہ پاک کی عبادت میں صرف ہو۔اپنی انسانی خواہشات پر ضبط ہو اور ان پر اعتدال ہو اور اپنے آپ کو اللہ کے تابع کر دیں۔ انسان کا وہ ذہن جو سال کے گیارہ مہینے دنیا کے ہزاروں جھمیلوں ،کاروبار و دیگر مصروفیات میں اُلجھا رہتا ہے۔اس ایک مہینہ میں خالصتاً اللہ کی خاطرخود کو وقف کر دے اور ا لعابدون کا عملی مظاہرہ کرے اور ثابت قدم رہے۔یہ سب کچھ مسلمانوں کے لیے ایک سالانہ تربیتی ریفریشرکورس ہے۔ خدا کے دین مذہبِ اسلام کا اصل اور بنیادی مقصد جس پر اس سارے احکام کی عمارت کی بنیاد کھڑی ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ بندوں کا تعلق اللہ کے ساتھ جوڑا جائے۔ ان کے دلوں میں اللہ تعالیٰ کی عظمت، اس کا خوف ،اس کی رحمت و شفقت کے جذبہ کے ساتھ ساتھ ایک لازوال تعلق قائم کیا جائے اور اپنے ہر چھوٹے بڑے کام میں اس کی طرف رجوع ہونے ،اسی سے مدد مانگنے انابت و خشیت کا جذبہ پیدا کیا جائے اور یہ مقام کثرت کے ساتھ عبادت اور ذکر الٰہی سے حاصل ہوتا ہے۔ بلاشبہ اسلامی نظام اور اس کی تعلیمات بے نظیر اور اس کے سماجی و معاشی احکام بے مثال ہیں لیکن ان سب باتوں کی بنیاد اور محور رجوع الی اللہ اور تعلق باللہ ہے۔ جب تک دلوں میں یہ بات راسخ نہ ہو جائے اس وقت تک اس کے فوائد و ثمرات حاصل نہیں ہو سکتے۔ یہ ایک مہینہ اس اہتمام کے ساتھ گزار لیا جائے تو دلوں میں خود بخود تبدیلی پیدا ہوگی اور اصلاح نفس کی راہیں آسان ہو جائیں گی اور سال بھر کے دیگر مہینے بھی اسی اہتمام سے گزر جائیں گے جس کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ضمانت دی ہے۔ فرماتے ہیں جس شخص کا رمضان سلامتی سے گزر گیا اس کا سارا سال بھی سلامتی سے گزر جائے گا۔ ان شاءاللہ
پس رمضان کا مہینہ دعاؤں کی قبولیت کے لیے بہار کا موسم ہے۔ ہم سب کا فریضہ ہے کہ حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشادات کے مطابق عالم اسلام کی سالمیت، استحکام، غلبہ اسلام اور مظلوم احمدیو ں و مسلمانوں کو ظالموں کے ظلم و ستم سے نجات ،اسیران راہ مولیٰ کی باعزت رہائی اور ان کے اہل خانہ کی صحت و سلامتی، صبر جمیل اور حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کی صحت وتندرستی اور فعال زندگی کے لیے خشوع و خضوع کے ساتھ دعائیں کریں۔ اللہ تعالیٰ محض اپنےفضل سے ہماری دعاؤں کو اس رمضان المبارک کے طفیل شرف قبولیت عطافرمائے۔آمین
(علامہ محمد عمر تماپوری، میسور، انڈیا)
مزید پڑھیں: والدین کے حقوق اور حُسنِ سلوک