ڈاکٹر سید ریاض الحسن صاحب کا ذکر خیر
خاکسار کے تایا زاد بھائی اور واقف زندگی ڈاکٹر سید ریاض الحسن صاحب ۸؍ستمبر ۲۰۲۴ء کو راولپنڈی میں بعمر ۶۲ سال انتقال کر گئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون ۔
بوقت وفات آپ فضل عمر ہسپتال ربوہ میں دو سال سے زائد عرصہ سے بطور سرجن خدمات سر انجام دے رہے تھے۔
آپ نے ۱۹۹۳ء میں MBBS پاس کرنے کے بعد زندگی وقف کی اور افریقہ میں قریباً بیس سال خدمات سر انجام دیں۔آپ کی تدفین بہشتی مقبرہ دارالفضل ربوہ میں ہوئی۔
آپ مریضوں کے ہمدرد،فرض شناس اورخدمت خلق کے جذبہ سے کام کرنے والے ڈاکٹر تھے۔حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے ۲۰؍ستمبر۲۰۲۴ء کو آپ کی نماز جنازہ غائب پڑھائی اور آپ کی خدمات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:’’ڈاکٹر سید ریاض الحسن صاحب …کی بھی گذشتہ دنوں وفات ہوئی ہے۔اللہ تعالیٰ کے فضل سے موصی تھے۔ بریگیڈیئر ڈاکٹر ضیاءالحسن صاحب کے یہ بیٹے تھے۔ انہوں نے زندگی وقف کی اور ڈاکٹر کے طور پر خدمت بجا لاتے رہے۔ چھوٹی عمر سے ہی یہ جماعت کی خدمت کر رہے تھے ۔ مجلس نصرت جہاں کے تحت تقریباً بیس سال سے زائد عرصہ یوگنڈا، کینیا، گیمبیا اور پاکستان میں بھرپور خدمت کی ان کو توفیق ملی۔ کینیا میں کئی سالوں کی خدمت کے بعد انہوں نے سپیشلائزیشن اور جنرل سرجن کی ٹریننگ کے لیے اجازت مانگی اور وہاں سے پاکستان چلے گئے اور کئی میڈیکل ڈپلومے اور سرٹیفکیٹ حاصل کیے۔ انہیں میڈیکل یونیورسٹی میں ڈاکٹروں کو اناٹومی پڑھانے کی بھی توفیق ملی۔ اچھے لائق ڈاکٹر تھے۔ گیمبیا کے مقامی طلبہ کی مالی مدد کرتے۔ ان کی تعلیم کو سپانسر کرتے۔ کام ڈھونڈنے میں ان کی مدد کرتے۔ غرباء اور ضرورتمند احباب کی مالی امداد کے لیے ہر وقت تیار رہتے۔ ان کی بہت بڑی ایک خوبی یہ بھی تھی کہ بہت دعا گو اور تہجد گزار تھے۔ جوانی سے ہی تہجد کی ان کو عادت تھی۔ آپ کے جاننے والے لکھتے ہیں کہ انتہائی ملنسار ،مریضوں سے سچی شفقت اور ہمدردی اور محبت کرنے والے تھے۔ محنتی ،پُرجوش، متوکل علی اللہ انسان تھے۔ دعا گو اور شفقت علی الناس کا پیکر تھے۔ آپ کی شخصیت میں کسر نفسی، عاجزی اور خدمت کا بےپناہ جذبہ تھا۔ بہت خوش اخلاق تھے۔ واقف زندگی کا بہت احترام کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ مرحوم سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے‘‘(الفضل انٹرنیشنل۱۱؍اکتوبر۲۰۲۴ء)
خاندانی پس منظر
ہمارے خاندان میں احمدیت دادا سید ظہور الحسن صاحب کے ذریعہ آئی۔آپ کا خاندان محلہ صوفیاں لدھیانہ میں رہائش پذیر تھا۔ آپ نے حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کے دور میں ۱۹۱۰ء میں ۲۳؍ سال کی عمر میں بیعت کی سعادت حاصل کی۔ آپ خاندان میں اکیلے احمدی تھے۔حضرت مولانا عبدالرحیم صاحب دردؓ آپ کے بچپن کے دوست تھے۔ کرکٹ اکٹھے کھیلا کرتے تھے۔مولانا درد صاحب اور حضرت قاضی محمد یوسف صاحبؓ امیر صوبہ سرحد کی تبلیغ آپ کی بیعت کا محرک بنی۔ اخلاص میں ترقی کرتے گئے اور ۱۹۲۲ء میں شدھی کی تحریک میں شامل ہوکر حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ کی آواز پر لبیک کہا۔ پھر۱۹۳۴ء میں تحریک جدید کے ابتدائی پانچ ہزاری مجاہدین میں شامل ہو کر مالی قربانی کی۔ آپ کا کوڈ نمبر ۳۸۶۱ ہے۔ آپ ہر سال جلسہ سالانہ قادیان میں شامل ہوتے۔ آپ نے سرکاری محکمہ PWD میں صوبہ سرحد کے مختلف شہروں میں ملازمت کی۔ ۱۹۳۷ء میں جلسہ سالانہ قادیان پر آئے اور شدید سردی کے باعث گھر واپس جاکر نمونیہ ہو ا اور چند دن بعد بعمر ۵۱؍سال، جنوری ۱۹۳۸ء کو وفات ہوئی۔ آپ کا جنازہ آپ کے بیٹے ٹرک میں بنوں سے قادیان لائے۔ حضرت مصلح موعودؓ اس وقت قادیان سے باہر سفر پر تھے۔چنانچہ حضرت مولوی شیر علی صاحبؓ امیر مقامی نے جنازہ پڑھایا اور بہشتی مقبرہ قادیان میں تدفین ہوئی ۔ آپ کا وصیت نمبر ۱۲۹۱ ہے۔
ڈاکٹر سید ریاض الحسن صاحب کے والد محترم مکرم بریگیڈیئر ڈاکٹرسید ضیاءالحسن صاحب کی پیدائش ۱۹۱۸ء میں ہوئی۔ کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج لاہور سے ۱۹۴۳ء میں MBBS پاس کیا۔ فوج کے میڈیکل کور میں ترقی کرتے ۱۹۷۵ء میں بریگیڈیئر کے عہدے سے ریٹائر ہوئے۔ پھر ۱۹۸۰-۸۲ء میں تین سال مجلس نصرت جہاں کے تحت گیمبیا میں خدمات سر انجام دیں۔ بعد از واپسی آپ کئی سال سیکرٹری اصلاح و ارشاد اور ناظم مجلس انصار اللہ ضلع راولپنڈی بھی رہے۔ آپ نہایت ہمدرد، مہمان نواز اور نافع الناس وجود تھے۔ مرکز سے آمدہ بزرگان اور مربیان سلسلہ کو نماز جمعہ کے بعد مسجد سے اپنے گھر لے آتے اور اصرار کرتے کہ مزید قیام کریں۔ اگر انہیں کسی قسم کے علاج معالجہ کی ضرورت ہوتی تو وہ بھی کرواتے۔ مکرم سید میر داؤد احمد صاحب کی آخری بیماری مارچ، اپریل ۱۹۷۳ء میں آپ نے ان کو CMH راولپنڈی میں داخل کرایا اور بڑی محبت اور اخلاص سے علاج کروایا ۔ اس دوران مرکز سے آمدہ عزیز رشتہ داروں اور طلبہ جامعہ احمدیہ کی مہمان نوازی بھی کرنے پر مستعد رہے۔ آپ کی وفات جولائی ۱۹۹۴ءمیں ہوئی۔ بہشتی مقبرہ ربوہ میں دفن ہیں۔
(سیدحسین احمد)
مزید پڑھیں: میجر شریف احمد باجوہ صاحب کا ذکرِ خیر