متفرق مضامین

قبولیتِ دعا،ہستی باری تعا لیٰ کا ایک اہم ثبوت

(سمیراداؤد ۔ کینیڈا)

وَاِذَاسَاَلَکَ عِبَادِیۡ عَنِّیۡ فَاِنِّیۡ قَرِیۡبٌ ؕ 
اُجِیۡبُ دَعۡوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِۙ 
فَلۡیَسۡتَجِیۡبُوۡا لِیۡ وَلۡیُؤۡمِنُوۡا بِیۡ 

لَعَلَّہُمۡ یَرۡشُدُوۡنَ  (البقرۃ:۱۸۷ )

اور جب میرے بندے تجھ سے میرے متعلق سوال کریں تو یقیناً میں قریب ہوں۔ میں دعا کرنے والے کی دعا کا جواب دیتا ہوں جب وہ مجھے پکارتا ہے۔ پس چاہیے کہ وہ بھی میری بات پر لبّیک کہیں اور مجھ پر ایمان لائیں تاکہ وہ ہدایت پائیں۔

 اللہ تعالیٰ وہ قادر و مقتدر ہستی ہے کہ جس کے بارے میں نوع انسانی ازل سے تشکیک و تصدیق کے مخمصے میں غلطاں ہے۔ نسلوں سے انسان اسی تگ و دو میں ہے کہ جو کائنات کو رنگ و نور بخش رہی ہے وہ ذات کہاں ہے اسے علم ہو جائے کہ اس تک پہنچنا کیسے ہے اور اس کو پانا کیونکر ممکن ہو؟ کیا ایسا کوئی حقیقت میں ہے بھی یا انسانی فہم وادراک ایک گھمبیر اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مار رہا ہے،اس کی ہستی کے ادراک کے لیے صرف دیدۂ بینا چاہیےاس کا جواب خود اس قادر مطلق ہستی نے اپنی آخری کتاب قرآن کریم میں یوں دیا ہے۔ وَہُوَ مَعَکُمۡ اَیۡنَ مَاکُنۡتُمۡ (الحدید:5) ترجمہ:اللہ وہ ہے جو ہر جگہ ہوتا ہے جہاں تم ہو۔

‎وہ تمہاری پکار سُنتا ہے جب تم اسے پکارتے ہو اور جب تم اسے نہیں پکارتے پھر بھی وہ تمہارے دل کے نہاں خانوں میں چھپی باتیں جان لیتا ہے۔ حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں :” جس کو خُدائی کا جلوہ دیکھنا ہو اسے چاہیےکہ دعا کرے، ان آنکھوں سے وہ نظر نہیں آتا بلکہ دعا کی آنکھوں سے نظر آتا ہے۔ “ (ملفوظات۔جلد۳،صفحہ ۶۱۸ ایڈیشن ۱۹۸۸ء)

‎قرآن کریم ہمیں اللہ کی ہستی کا ایک ثبوت قبولیت دعا کا دیتا ہے، اور کسی ایک جگہ یا وقت اس کےلیے مخصوص نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اور جب میرے بندے میری نسبت تم سے سوال کریں تو ان سے کہہ دو یقیناً میں قریب ہوں اور پکارنے والے کی پکار کو سُنتا ہوں جب وہ مجھے پکارتا ہے۔ لیکن اس بات سے یہ کیونکر ثابت ہو کہ اللہ ہی نے پکار سُنی ؟ کیا دعا کرنے والے کو معلوم ہے کہ یہ عرض کس پتے پر پہنچی ہے ؟ کیا جس شخص نے اضطراب میں مبتلا ہوکر چیخ و پکار کی، اس کی یہ آہ وزاری کس جگہ کے تار ہلا رہی ہے تو اس کا جواب ہے کہ اس چیخ و پکارآہ و زاری کے بعد اس کے دل کو حاصل ہونے والا سکون اس کے مطلب کی برآوری اور اس کے مقصد کے رستے میں حائل رکاوٹوں کا ہٹ جانا اس کی منزلوں کا آسان ہو جانا ہی اللہ کی ہستی کی دلالت ہے۔

‎اللہ وہ ماوراء ہستی ہے کہ جس کی ان گنت صفات ایک دوسرے سے پیوستہ اس کو قادر مطلق بناتی ہیں اور ان صفات کو ایک چیز انسان کے حق میں مہمیز کرتی ہے وہ ہے دعا، دعا وہ میکنزم ہے جو اللہ کی تقدیر کو جاری رکھتی ہے، ہمیں بتایا گیا کہ وہ غفورالرحیم ہے اس کا ثبوت ہمیں اپنے گناہوں خطاؤں اور کجیوں کے ادراک اور ان کی معافی کی دعا نیز اس دعا کے قبول ہونے کی امید دلاتی ہے کہ وہ اگر غفور الرحیم ہے تو ضرور ہمیں بخش دے گا اور رحمت کی ردا میں ڈھانپ لے گا۔لیکن اس سے پہلے ایک صفت جس کے بارے میں بتایاگیا وہ سمیع العلیم ہے کہ وہ سُننے والا اور دل کی تہوں میں چھپے رازوں کو جاننے والا ہے۔اچھا یہ بات ہے تو پھر اس سمیع کو اپنی سُناتے ہیں وہ سُن کر اور ہماری نیت جان کر اپنی رحمت کو جوش دلائے گا اور اپنی مغفرت میں ہمیں لے لے گا۔ رُکیے ٹھہرئیے !ذرا اللہ کے بارے میں تو سُنتے ہیں کہ وہ وہاب ہے، وہ ذوالمنن ہے احسان کے ساتھ عطا فرما تا ہے تو کیوں نہ اس سے مانگیں اس کی رحمت اور مغفرت اس ایمان کے ساتھ کہ ہاں وہ ہے اسی لیے عطا فرمائے گا اور بےحساب عطا فرمائے گا۔ جو اللہ دعویٰ کرتا ہے کہ وہ اپنے بندے کو ستر ماؤں سے زیادہ محبت کرتا ہے ( حدیث قدسی کا مفہوم) تو وہ اس محبت کاثبوت اپنے بندے کی ٹھوکریں کھاتی زندگی کو سنبھال کر دیتا ہے اس کی چیخ و پکار پر اپنی رحمت کو ایسے ہی جوش دیتا ہے جیسا کہ ایک بھوکے بچے کی بھوک سے بےتاب تڑپ سے اس کی ماں کی چھاتی میں دودھ جوش مار کر آتا ہے۔ حضرت مسیح موعودؑ اس مثال کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ نہ ماں جانتی ہے کہ اس کے جسم میں دودھ کا یہ چشمہ کہاں سے جاری ہوا نہ بچہ جانتا ہے کہ میرے رونے تڑپنے سے مجھے کیسے سیرابی حاصل ہوگی یہ اصل میں اللہ کی رحمت ہے جو اس بےزبان کی دعا کی قبولیت کے لیے جوش میں آتی ہے۔

وَقَالَ رَبُّکُمُ ادۡعُوۡنِیۡۤ اَسۡتَجِبۡ لَکُمۡ (سورۃ المؤمن:۶۱) اور تمہارے ربّ نے کہا مجھے پکارو میں تمہیں جواب دوں گا۔

؎وہ خدااب بھی بناتاہےجسےچاہےکلیم
اب بھی اس سےبولتاہےجس سےوہ کرتاہےپیار
(درثمین)

‎ روزمرہ زندگی میں ہمیں بہت دفعہ ایسے تجربات ہوتے ہیں کہ دل میں کوئی بات سوچی یا خیال آیا کہ ایسے ہوجائےتو بہت بہتر ہو یا کبھی یہ کہ اللہ جی، میرے حق میں یہ بات یوں کردے اور دوسرے ہی لمحے، چند منٹ بعد کچھ گھنٹے گزرتے ہی وہ سب ویسا ہی ہوجاتا ہے جیسا کہ ہم نے چاہا ہوتا ہے۔ دل بےاختیار حمدو ثنا میں مشغول اپنی کم مائیگی کے ادراک کے ساتھ ورطۂ حیرت میں ڈوب جاتا ہے کہ یا میرے مالک !کیا میرے دل میں پیدا ہونے والی سوچ ایسی تھی کہ تیرے لطف نے اس کو جان کر پورا کردیا۔ کیا یہ اس بات کا ثبوت نہیں ہوتا کہ کوئی ہے جو سُن کر مان لیتا ہے اور مان بھی دیتا ہے۔ انبیاء کی زندگیوں کے ان گنت واقعات ہیں جو قبولیت دعا کو بطور ثبوت ہستئ باری یاد رکھے جاسکتے ہیں۔ اس زمانے میں حضرت مسیح موعودؑ نبی اللہ کی حیات مبارکہ ہزاروں ایسے خارق عادت واقعات سے بھری پڑی ہے۔ عبدالکریم کا واقعہ کون بھول سکتا ہے وہ نوجوان جسے ایک باؤلے کتے نے کاٹ لیا اور مرض کی تمام علامات آخری درجےتک پہنچ گئیں حتی کہ انگریز ڈاکٹروں نےلکھ کردےدیا کہ Nothing can be done for

 Abdulkareem جب حضرت کو اس امر کی اطلاع دی گئی تو آپؑ نے نہایت درد اور الحاح کے ساتھ اس کی صحت کے لیے آہ وزاری کہ اللہ نے اسے شفا بخش دی اور وہ اس کے بعد اٹھائیس سال تک زندہ رہا (سیرت المہدی۔حصّہ چہارم،صفحہ156-157) یہ معجزہ صرف ایک زندہ خدا ہی کرسکتا ہے جو دعا کو سن کے اس کو قبول کرکے ہی ممکن ہے۔

؎غیر ممکن کو یہ ممکن میں بدل دیتی ہے
اے مرے فلسفیو! زور دعا دیکھو تو
(درثمین)

‎ ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دعائیں اور خواہشات تو لامذہب، عیسائی ہندو غیر مسلم غرض وہ لوگ جو جانتے ہی نہیں کہ اللہ موجود ہے ان کی بھی پوری ہوتی ہیں تو یہ کیسے ممکن ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ یہی تو اللہ تعالی ٰکی ہستی کا ثبوت ہے کہ وہ ربّ العالمین ہے اور اس کی تمام صفات کاملہ ہیں۔ حاصل کلام یہ ہے کہ انسان کی وسعت ادراک اللہ کی ہستی تک نہیں پہنچ سکتی لیکن اللہ تعالیٰ لطیف و خبیر ہر گہرائی و گیرائی تک بآسانی پہنچ کر اپنی قدرت کے کمالات ہر آن ہر گھڑی ہر ساعت دکھلاتا ہے۔ بلکہ اپنی رحمت و شفقت کے پھاہے ان کے مضمحل وجودوں پر رکھتا ہے۔

مزید پڑھیں: ہستی باری تعالیٰ کے سائنسی دلائل (تقریر بر موقع جلسہ سالانہ یوکے ۲۰۲۳ء)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button