روزے سے تقویٰ کس طرح حاصل ہوتا ہے(قسط اول)
(خطبہ جمعہ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ فرمودہ۱۹؍مئی ۱۹۲۲ء)
۱۹۲۲ء میں حضؓور نے یہ خطبہ ارشاد فرمایا۔ آپؓ نے سورۃ البقرہ کی آیت ۱۸۴ کی روشنی میں روزہ کے ذریعہ تقویٰ کے حصول کے فلسفہ کو بیان فرمایا ہے۔ قارئین کے استفادے کے لیے یہ خطبہ شائع کیا جاتا ہے۔(ادارہ)
جس قدر بدیاں پیدا ہوتی ہیں ان کا منبع چار چیزیں ہیں۔ باقی آگے متفرع ہیں۔ وہ چار یہ ہیں۔ اوّل کھانا۔ دوم پینا۔ سوم شہوت۔ چوتھے حرکت سے بچنے کی خواہش۔ سب عیوب ان چار باتوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان چاروں منبعوں کو بدی سے روکنے کے لیے روزہ رکھا گیا ہے۔
تشہد و تعوّذ اور سورہٴ فاتحہ اورآیۃ شریفہ یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا کُتِبَ عَلَیۡکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِکُمۡ لَعَلَّکُمۡ تَتَّقُوۡنَ (البقرہ : ۱۸۴) کی تلاوت کے بعد فرمایا:
مَیں نے پچھلے جمعہ یہ مضمون بیان کیا تھا کہ اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ روزے کا اس لیے حکم دیا گیا ہے کہ تم متقی بنو۔ اور اس کو سمجھنے کے لیے ضروری تھا کہ معلوم ہو تقویٰ کس کو کہتے ہیں۔ اور تقویٰ کا روزے سے جوڑ کیا ہے۔ اگر تقویٰ کو نہ سمجھیں تو بھی نقصان اور اگر روزے اور تقویٰ کا جوڑ نہ معلوم ہو تو بھی روزے کی طرف رغبت نہیں پیدا ہوسکتی۔
میں نے مختصر طور پر تقویٰ کے معنی بتائے تھےاور موٹے طور پر تعلق بھی بتایا تھا کہ اس ذریعہ سے خدا کے لیے مشقت اور تکلیف اٹھانے کی عادت ہو جائے گی۔ اور جب ضرورت ہوگی تو روزوں کا عادی خدا کے لیے تکلیف اٹھالے گا۔ کیونکہ روزے کے ذریعہ انسان مشقت کا عادی ہوجاتا ہے۔ اور جس وقت خدا کی طرف سے آواز آئے فوراً لبیک کہتا ہے۔ یہ ایک عام وجہ تھی۔ اب میں چند خاص باتیں بیان کرتا ہوں۔ جن سے روزے اور تقویٰ کا تعلق معلوم ہوتا ہے۔
ہر ایک ملک میں گنتی کی جاتی ہے۔ ہمارے یہاں بھی گنتی ہوتی ہے۔ اور وہ درجن کا حساب ہے۔ میں مختصراً ایک درجن وہ تعلق جو روزے اور تقویٰ میں ہے بیان کرتا ہوں۔ اور چونکہ یہ رمضان کا آخری عشرہ ہے اس لیے میں اس مضمون کو آج ہی ختم کرتا ہوں۔
روزہ سے تقویٰ کا عام تعلق تو میں نے یہ بتایا تھا کہ اس سے فرمانبرداری کی عادت پیدا کرنا مراد ہے۔ اور اس کے ذریعہ خدا کے لیے کام کرنے کی عادت ہوتی ہے۔ جو وقتِ ضرورت انسان کے کام آتی ہے۔ اور
خدا تعالیٰ کی اطاعت اور فرمانبرداری کا ہی نام تقویٰ ہے۔
دوسرا تعلق وہ بیان کرتا ہوں جو حضرت خلیفہ اوّلؓ بیان کیا کرتے تھے اور انہیں بہت پسند تھا۔ اور وہ یہ کہ
انسان قدرتاً بدی سے نفرت کرتا ہے۔ اگر جائز طور پر کوئی چیز ملے تو انسان ناجائز طور پر اس کو لینے کی کوشش نہیں کرتا۔
مثلاً اگر کسی کو عمدہ لباس ملے تو وہ دوسرے کے لباس پر ہاتھ نہیں ڈالتا۔ اگر روپیہ پاس ہو تو دوسرے کے مال پر اس کی نظر نہیں پڑتی۔ جو لوگ عادی ہوجاتے ہیں ان کی حالت اور ہوتی ہے۔ مگر ابتداء ان کی بھی احتیاج ہی سے ہوتی ہے۔ بچّہ چوری تب کرتا ہے جب اس کے پاس پیسے نہ ہوں اور اگر اس کو کھانے کی چیز ملے تو خود بخود نہیں اٹھائے گا۔ جب احتیاج ہوگی اسی وقت اٹھائے گا۔ اور جب وہ متواتر اٹھائے گا تو اس کو عادت ہوجائے گی۔ پس جتنے ایسے کام ہی جو عیب سمجھے جاتے ہیں۔ وہ ضرورت کے وقت کیے جاتے ہیں۔ اب
ضرورتیں دو طرح پوری ہوتی ہیں۔
اوّل تو اس طرح کہ ضرورت کی چیز مہیّا ہوجائے۔ دوم اس طرح کہ اس چیزکا خیال چھوڑ دیا جائے۔ اور انسان کو اس چیز کی ضرورت نہ رہے۔
مثلاً ایک شخص کوٹ کا عادی ہو۔ یا اس کو جوتی کی ضرورت ہو۔ اس کی ضرورت دو طرح پوری ہوسکتی ہے۔ یا تو اس کو کوٹ یا جوتا مل جائے۔ یا وہ ان چیزوں کا خیال ہی چھوڑ دے۔ اور ان کے بغیر گزارہ کرے۔ حضرت خلیفہ اوّلؓ فرماتے تھے کہ جو انسان روزہ میں اپنی چیزیں خدا کے لیے چھوڑتا ہے جن کا استعمال کرنا اس کے لیے کوئی قانونی، یا اخلاقی جرم نہیں تو اس سے اسے عادت ہوتی ہے کہ غیروں کی چیزوں کو ناجائز طریق سے استعمال نہ کرے اور ان کی طرف نہ دیکھے۔ اور جب وہ خدا کے لیے جائز چیزوں کو چھوڑتا ہے تو اس کی نظر ناجائز چیز پر پڑہی نہیں سکتی۔
رسولِ کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ حرام و حلال تو واضح ہیں مگر ان کے درمیان مشتبہات ہیں۔ جو مشتبہات کو چھوڑتا ہے وہ حرام سے بچ جاتا ہے۔ لیکن جو انہیں استعمال کرتا ہے وہ خطرہ میں ہوتا ہےکیونکہ شاہی رکھ کے قریب جانوروں کو اگر کوئی چرائے گاتو ممکن ہے جانور رکھ کے اندر بھی چلے جائیں(بخاری کتاب الایمان باب فضل من استبرأ لدينه)۔ یہ دو باتیں ہوگئیں۔ اب تیسری بیان کرتا ہوں۔جس قدر بدیاں پیدا ہوتی ہیں ان کا منبع چار چیزیں ہیں۔ باقی آگے متفرع ہیں۔ وہ چار یہ ہیں۔
اوّل کھانا۔ دوم پینا۔ سوم شہوت۔ چوتھے حرکت سے بچنے کی خواہش۔
سب عیوب ان چاروں باتوں سے تعلق رکھتے ہیں۔
ان چاروں منبعوں کو بدی سے روکنے کے لیے روزہ رکھا گیا ہے۔
مثلاً ایک شخص خیانت اس لیے کرتا ہے کہ محنت سے بچنا چاہتا ہے۔ یعنی محنت کرکے کھانا نہیں چاہتا اور دوسرے کا مال کھاتا ہے۔ لیکن روزہ دار کو رات کے زیادہ حصّہ میں اٹھ کر عبادت کرنی پڑتی ہے سحری کے لیے اٹھتا ہے ۔ سارا دن منہ بند رکھتا ہے۔ سوتا کم ہے۔ ایک ماہ تک روزے دار انسان کو یہ تکلیف اٹھانا پڑتی ہےجس سے اس کا عادی ہوجاتا ہے۔ اور اس سے غفلت کی عادت کو دھکا لگتا ہے۔ پھر کھانے پینے اور شہوات سے بدیاں پیدا ہوتی ہیں۔ ان کے لیے بھی روزہ رکھا گیا ہے۔ انسان کھانا پینا ترک کرتا ہے۔ ضروریاتِ زندگی اور تعیش کی زندگی کو چھوڑتا ہے۔ پس جن ضرورتوں کے باعث انسان گناہ میں پڑتا ہے انہیں عارضی طور پر روک دیا جاتا ہے۔
اسی طرح کھانے کی وجہ سے لوگ گناہ میں مبتلا ہوتے ہیں۔اچھے کھانے پینے کے لیےاور زیادہ کھانے کے لیےروپیہ نہیں ہوتا۔ اس لیے ناجائز مال پر قبضہ جماتے ہیں۔ کئی لوگ ہر وقت کھاتے رہتے ہیں۔ یا انگریزوں کا ملک سرد ہے اور وہ لوگ کام کرتے ہیں اس لیے پانچ پانچ دفعہ کھاتے ہیں۔ بعض لوگ کھانے کے یہاں تک عادی ہوتے ہیں کہ کھانے کی چیزیں ان کے ڈیسک پر پڑی رہتی ہیں ۔ کام کرتے جاتے ہیں اور کھاتے جاتے ہیں۔ شہروں کے لوگ زیادہ کھانے کے عادی ہوتے ہیں۔ پھیری والے پھرتے رہتے ہیں۔ کوئی مٹھائی بیچتا ہے، کوئی برف،کوئی مونگ پھلی وغیرہ۔جب کوئی پھیری والا آتا ہے فوراً بچّوں کے بہانہ سے کچھ خرید لیتے ہیں۔ خود بھی کھاتے ہیں ان کو بھی کھلاتے ہیں۔ اس طرح ان کو کھانے کی عادت پڑی ہوتی ہےجس کے لیے روپیہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور وہ ناجائز طریق سے حاصل کرنے میں دریغ نہیں کرتے۔ لیکن
روزے میں کھانے پینے کی عادت چھوڑنا پڑتی ہے۔ اور جب جائز خواہش کو دباتے ہیں تو غیرطبعی اور ناجائز خواہشیں مٹ جاتی ہیں۔ چوتھی بات روزے اور تقویٰ میں تعلق کی ہے۔
اور اس پر میں نے پچھلے سال بھی زور دیا تھا کہ بعض باتیں ذاتی ہوتی ہیں۔ اور بعض باہر سے آتی ہیں۔ بعض قسم کی نیکیوں کا علم احساسات اور علم کے ذریعہ ہوتا ہے۔ اور جب تک علم نہ ہو انسان ان نیکیوں سے محروم رہ جاتا ہے۔ امراء کا طبقہ عام لوگوں کی حالت سے ناواقف ہوتا ہے۔ لطیفہ مشہور ہے کہ ایک بادشاہ نے اپنے نائی کو ۱۵۰۰؍اشرفی دی ۔ اس نے پہلے چونکہ اتنی بڑی رقم دیکھی نہ تھی اس لیے ان کو لیے لیے پھرا کرتا تھا۔ اس کی آمدورفت چونکہ دوسرے امراء کے ہاں بھی تھی۔ امراء نے اس سے تمسخر شروع کیا۔ جب وہ کسی امیر کے ہاں جاتا تو وہ پوچھتے میاں شہر کی کیا حالت ہے۔ وہ کہتا بڑی اچھی حالت ہے۔ سارا شہر امن و خوشی میں ہے۔ کوئی ہی ایسا بدقسمت ہوگا جس کے پاس ۱۵۰۰ اشرفی نہ ہو۔ زیادہ کی تو کوئی حد نہیں۔ ایک دن ایک امیر نے اس کی وہ تھیلی ہنسی کے طور پر پوشیدہ رکھ دی ۔ اس نے تلاش کی مگر نہ ملی۔ جب وہ تزئین کرنے کے لیے پھر اس امیر کے ہاں گیا تو اس نے پوچھا بتاوٴ !شہر کا کیا حال ہے۔ اس نے کہا شہر بھوکا مر رہا ہے۔ امیر نے کہا یہ لو اپنی تھیلی شہر بھوکا نہ مرے۔ بات یہ ہے کہ جسے کوئی تکلیف نہ پہنچی ہو اسے اس کا حساس نہیں ہوتا۔ امراء چونکہ ان حالات میں سے نہیں گزرتے جن سے غرباء کو گزرنا پڑتا ہے۔ اس لیے انہیں ان کی تکالیف کا احساس نہیں ہوتا۔ مثلاً امیروں کو بھوک کی شکایت نہیں ہوتی۔ ان کو اگر شکایت ہوتی ہے تو بدہضمی کی ہوتی ہے۔ اور ان کو معدہ کی طاقت کی دوائیں استعمال کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ وہ اگر نوکر سے ایک منٹ کھانا لانے میں دیر ہو تو خفا ہوتے ہیں ۔ اور اگر کہا جائے کہ وہ روٹی کھا رہا ہے تو کہتے ہیں کہ کیا وہ مرنے لگا تھا۔ پھر کھا لیتا۔ وہ سارا سارا دن کام کراتے ہیں اور روٹی کے لیے کہتے ہیں پھر کھا لینا۔ کیونکہ ان کو بھوک کا احساس نہیں ہوتا۔ ان کو غریبوں کے احساسات کا پتہ نہیں ہوتا۔ غریبوں کو رات رات جگاتے ہیں مگر ان کو اس تکلیف کا احساس نہیں ہوتا۔ ان کو کوئی خبر نہیں ہوتی کہ ایسے لوگ بھی ہیںجن کو کھانا نہیں ملتا مگر جب امراء کو رمضان میں کہا جاتا ہے کہ رات کو جاگیں اور ان کو سحری کے لئے جاگنا پڑتا ہے اور ان کے آرام میں خلل آتا ہے تب ان کو دوسرے کے جاگنے کی تکلیف کا احساس ہوتا ہے۔ وہ کھانا کھاتے ہیں مگر ان کے کھانے کو دو وقت میں مقید کر دیا جاتا ہے کہ صبح سحری کے وقت اور بعد افطار۔ وہ اس وقت کو اس خیال سے کاٹتے ہیں کہ کھانے کے لئے تیار چیزیں ملیں گی۔ اوروہ صبح کو پراٹھے کھاتے ہیں۔ لیکن غریب جس کو کوئی توقع نہیں ہوتی کہ آج اس کو ملے گا بھی یا نہیں اس کو تکلیف کا احساس ہوتا ہے۔ کیونکہ امیر سمجھتا ہے کہ ہم گھڑیاں گنتے ہیں کہ کب مؤذن اذان کہے اور ہم کھانا کھائیں۔ لیکن غریب کی حالت یہ ہے کہ اس کو پتہ ہی نہیں ہوتا کہ ابھی کتنی راتیں اور کتنے دن اسی طرح گزارنے ہیں۔ پھر اگر کوئی بیمار ہو تو روزہ نہیں رکھتا۔ مگر غریب کو اپنی بیماری یا بچوں کی بیماری میں جہاں فاقہ کشی کی تکلیف ہوتی ہے وہاں دوائی کے لئے بھی پاس کچھ نہیں ہوتا۔ اگر غریب بیمار ہو اور ڈاکٹر اپنے فرض کے مطابق اس کو کہے کہ دودھ پیو تو وہ شرمندہ ہو کر گردن جھکا لے گا کہ مجھے تو روٹی بھی نہیں ملتی دودھ کہاں سے لاؤں۔ ڈاکٹر اس کو چاول بتائے گا مگر اس کے گھر تو آٹا بھی نہیں ہوگا۔ پھر امیر کا روزہ اسی کا روزہ ہے مگر غریب کی بھوک میں اس کے بال بچے بھی شامل ہوتے ہیں۔ امیر خود نہیں کھاتا لیکن اس کے بال بچے کھاتے پیتے ہیں۔ اس لئے امیر کی تکلیف اس کے اپنے جسم تک محدود ہے مگر غریب کی تکلیف اس کے جسم سے گزر کر اس کی روح تک اثر کرتی ہے۔ کیونکہ وہ اپنے ساتھ اپنے ننھے بچوں کو بھی بھوکا دیکھ کر ایک اور تکلیف اٹھاتا ہے پھر امیر کے لئے بھوک کے مٹانے کا ہر لمحہ قریب آرہا ہوتا ہے لیکن غریب کے لئے کھانا ملنے کا وقت قریب آنے کی امید نہیں ہوتی۔ لیکن جب امیر خدا کے لئے روزے رکھتا ہے تو اسے غریبوں کی تکلیف کا احساس ہوتا ہے اور سخاوت کرتا ہے اور یہ سخاوت اس کو تقویٰ کی طرف لے جاتی ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق احادیث میں آتا ہے کہ آپ روزوں میں بہت زیادہ سخاوت کرتے اور غرباء و مساکین کی خبر گیری فرماتے تھے۔(بخاری کتاب الصوم باب اجود ما كان النبي يكون في رمضان)اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ رمضان کے علاوہ سخاوت نہ کرتے تھے۔ آپؐ ہمیشہ سخاوت کرتے تھے مگر رمضان کے دنوں میں آپؐ کو اور زیادہ احساس غرباء کے حال کا ہو جاتا تھا۔ تو
روزہ سے ہر شخص میں اس کی حالت کے مطابق غرباء سے ہمدردی کا احساس بڑھ جاتا ہے۔
کیونکہ انسان سمجھتا ہے کہ جب میں ایک مہینہ میں اس قدر تکلیف اٹھاتا ہوں اور مجھ کو اس قدر تکلیف ہوتی ہے تو جن لوگوں پر بارہ مہینہ یہی کیفیت گذرتی ہے ان پر کیا حالت گذرتی ہوگی۔ اور ان کی تکلیف کا کیا اندازہ ہو گا۔ پس
رمضان میں بخیل کا بخل کم ہو جاتا اور جو بخیل نہ ہو اسے سخاوت کی عادت پڑتی ہے
اور سخی خدا کی مخلوق سے اور زیادہ ہمدردی کرتا ہے اور اس طرح سخاوت اور ہمدردی جو جزو ایمان ہے اس سے کام لینے کا انسان خوگر ہوتا ہے۔
۵۔انسان کے جسم میں دو چیزیں ہیں جسم اور روح ۔ روح ایک تو روحانی ترقی سے خوش ہوتی ہے۔ دوسرے جسم کی طرح کھانے پینے سے موٹی نہیں ہوتی۔ بلکہ ان چیزوں سے الگ ہونے سے خوش ہوتی ہے۔ اور اپنے اصل کی طرف ترقی کرتی ہے۔ برخلاف اس کے جسم کی راحت کھانے پینے میں ہے۔ گویا ان دونوں میں اختلاف ہے اور ایسا اختلاف جیسے ایک مشرقی اور ایک مغربی ہو۔ روح کا ظہور جسم کے ذریعہ ہوتا ہے یا جسم روح کے لئے بطور سواری اور گھوڑے کے ہے۔ گھوڑا منہ زور ہے۔ اس لئے اپنی بات منواتا ہے اور جدھر چاہتا ہے لے جاتا ہے۔ کیونکہ اس میں قوت عملیہ ہے۔ اور وہ کھانے پینے کی چیزوں سے خوش ہوتا ہے۔ لیکن
رمضان کے مہینہ میں کھانا پینا کم ہوتا ہے۔ اور دنیاوی تعلقات میں کمی آتی ہے اس لئے روح کو جسم سے آزادی ملتی ہے اور یہ اپنی کمی کو دُور کرتی اور تقویٰ کی طرف جاتی ہے۔
اس کی موٹی مثال کہ روح جب جسم سے آزادی پاتی ہے تو وہ بلندی کی طرف جا کر روحانیت پاتی ہے یہ ہے کہ پاگل بعض اوقات ایسی بات کہہ دیتے ہیں کہ جو کبھی پوری ہو جاتی ہے اسی وجہ سے بعض نادان ان کو ولی سمجھ لیتے ہیں۔ لیکن اصل بات یہ ہے کہ پاگل کی روح کا اس کے جسم سے تعلق کمزور ہو گیا ہوتا ہے کیونکہ دماغ میں نقص آنے سے جسم سے دماغ کا تعلق کمزور ہو جاتا ہے۔ اور دماغ کی حکومت جسم پر نہیں رہتی۔ اس سے اس کی روح آزاد ہو جاتی ہے اور باریک باتوں کو معلوم کر لیتی ہے۔
حضرت صاحبؑ فرمایا کرتے تھے کہ لاہور میں ایک مجذوب تھا جو لوگوں کو گالیاں دیا کرتا تھا اور بعض دفعہ ایسی باتیں بھی کہتا جو پوری ہو جاتیں۔ آپؑ سے ایک شخص نے باصرار کہا کہ آپؑ اس سے ملنے چلیں۔ آپؑ نے خیال کیا کہ وہ پاگل ہے۔ گالی دے دے تو عجب نہیں اور اس کی اس حرکت سے یہ شخص میرے متعلق فیصلہ کرکے ٹھوکر کھائے۔ چلنے سے انکار کیا۔ لیکن جب اس نے اصرار کیا اور آپؑ نے دیکھا کہ جانا ہی بہتر ہے تو آپؑ گئے مگر یا تو وہ لوگوں کو گالیاں دے رہا تھا لیکن جب آپؑ گئے تو وہ مؤدب ہو کر بیٹھ گیا۔ اورایک خربوزہ جو اس کے پاس تھا۔ حضرت صاحبؑ کے پیش کر کے کہا کہ یہ آپ کی نذر ہے یہ الٰہی تصرف تھا۔ ورنہ ممکن تھا کہ وہ گالیاں دے دیتا۔ تو پاگل کی بھی بوجہ جسمانی تفکرات سے آزاد ہونے کے روح کی یہ حالت ہو جاتی ہے کہ کبھی کوئی اعلیٰ درجہ کی بات کہہ سکتا ہے پس جسم کی صحت اور عقل کی سلامتی میں خدا سے تعلق کے لئے کھانا پینا کم کیا جائے۔ تو روحانیت پیدا ہوتی ہے۔ اور جسم بیلون (Balloon) کا کام دیتا ہے۔ جس کے ذریعہ روح اوپر کو اپنے ہم جنس فرشتوں کی طرف اڑتی ہے۔ پس زیادہ کھانے سے جسمانی حالت میں ترقی آتی ہے۔ اس لئے جب رمضان میں جسم کھانا پینا کم کرتا ہے تو روح ملائکہ کی طرف جاتی ہے گو پہلے روح ان کو بھولی ہوئی ہو۔ لیکن جب ان کو دیکھتی ہے تو اس طرف جانے کی کوشش کرتی ہے۔ جیسے کوئی شخص اپنے رشتہ داروں کو بھولا ہوا ہو لیکن جب ان کو ملتا ہے یا خواب میں دیکھ لیتا ہے تو پھر ان کی محبت غالب آجاتی ہے اسی طرح جب رمضان میں روح کو اوپر جانے کا موقع ملتا ہے تو یہ باقی سال میں بھی اوپر جانے کے لئے جدوجہد کرتی رہتی ہے۔ اور اس طرح روزے صفات الہیہ کے پیدا کرنے میں ممد ہوتے ہیں۔
(باقی آئندہ جمعرات کو ان شاء اللہ)
٭…٭…٭
مزید پڑھیں: اپنے وعدوں کو بڑھا کر پیش کرنا دنیا میں اسلام کی ترقی اور خدا تعالیٰ کی خوشنودی کے حصول کا موجب ہے