۲۳؍مارچ کی مناسبت سے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کے پُر معارف ارشادات کی روشنی میں مسیح موعود کی بعثت کا تذکرہ نیز پاکستانی احمدیوں اور امت مسلمہ کے لیے دعاؤں کی تحریک۔ خلاصہ خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۱؍مارچ ۲۰۲۵ء
٭…جماعت احمدیہ کی تاریخ میں ۲۳؍مارچ کا دن بڑی اہمیت کا حامل ہےکیونکہ۲۳؍ مارچ ۱۸۸۹ءکو حضرت مسیح موعودؑ نے بیعت کے آغاز سے جماعت کی بنا ڈالی تھی
٭…جب ہم بیعت میں آئے ہیں کہ آنحضرتﷺ کا نام روشن کریں گے ، اسلام کا نام روشن کریں گے اور اسلام کی تبلیغ کو دنیا کے کناروں تک پہنچائیں گےتو پھر ہمیں صحابہؓ کا رنگ بھی اختیار کرنا ہوگا
٭… آج یہ اس جماعت کاکام ہے کہ وہ مسیح موعودؑکے کام کو آگے بڑھائیں اور آنحضرتﷺ ،اسلام ،قرآن پر اعتراض کرنے والوں کے مدلل جواب دیں اور اس فتنے کا سر کچلیں
٭… پاکستان کے احمدیوں، مسلمان امت اور فلسطینی مسلمانوں کے لیے دعا کی تازہ تحریک
خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۲۱؍مارچ ۲۰۲۵ء بمطابق ۲۱؍ امان ۱۴۰۴؍ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ(سرے)، یوکے
اميرالمومنين حضرت خليفةالمسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيز نے مورخہ۲۱؍مارچ۲۰۲۵ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، يوکے ميں خطبہ جمعہ ارشاد فرمايا جو مسلم ٹيلي وژن احمديہ کے توسّط سے پوري دنيا ميں نشرکيا گيا۔جمعہ کي اذان دينےکي سعادت مولانا فیروز عالم صاحب کے حصے ميں آئي۔
تشہد،تعوذاور سورة الفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورِانور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنےفرمایا: پرسوں ۲۳؍مارچ ہے۔جماعت احمدیہ کی تاریخ میں ۲۳؍مارچ کا دن بڑی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ۲۳؍ مارچ ۱۸۸۹ءکو حضرت مسیح موعودؑ نے بیعت کے آغاز سے جماعت کی بنا ڈالی تھی۔ آپؑ کی بعثت عین اللہ تعالیٰ کے وعدہ کے مطابق اور آنحضرت ﷺ کی پیشگوئیوں کے مطابق تھی۔ اس وقت اسلام کی کشتی ڈانواںڈول ہی تھی۔ اب بھی مذہبی اور سیاسی اور دنیاوی لحاظ سے بھی ناگفتہ بہ ہے۔ گو کئی مسلمان ممالک تیل کی دولت سے مالا مال ہیں لیکن ان کی اہمیت اور وقار ضائع ہوچکا ہے۔ لیکن اس وقت جب آپؑ نے بیعت لی اس وقت مسلمانوں کی حالت پر آپؑ کا دل خون کے آنسو روتا تھا۔ اسلام پر خاص طور پر عیسائیت کی طرف سے تابڑ توڑ حملے ہو رہے تھے۔ کوئی جواب دینے والا نہیں تھا۔ مسلمان علماء ڈرتے رہتے تھے۔ لاکھوں مسلمان عیسائیت کی گود میں گر رہے تھے۔
اس وقت جب مسلمانوں کی یہ حالت تھی تو حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام ہی تھے جو اللہ تعالیٰ کے حکم سے کھڑے ہوئے اور اسلام کے دفاع میں ایک جری اللہ کا کردار ادا کیا۔ آپؑ نے تمام مذاہب جو اس زمانہ میں موجود تھے جو بھی اسلام اور بانیٔ اسلامؐ پر تقریروں اور تحریروں سے ناپاک حملے کر رہے تھےکو جواب دیا۔
بیعت لینے سے پہلے آپؑ نے اس درد کی وجہ سے ایک کتاب بھی لکھی جو براہین احمدیہ کے نام سے موسوم ہے۔ اس میں آپ نے دشمنوں کے ،مخالفین اسلام کے حملوںکےدندان شکن جواب دیے۔ اور آپ نے اس میں قرآن کریم کے کلامِ الٰہی ہونے، اور بے نظیر کتاب ہونے اور آنحضرتﷺ کے سچے اور صادق اور آخری نبی ہونے کے ناقابلِ تردید دلائل پیش فرمائے۔ فرمایا کہ جو ان دلائل کو ردّ کرے گا اس کے لیے چیلنج ہے۔ فرمایا جواس کا تیسرا یا چوتھا یا پانچواں حصہ بھی ردّ کر دے تو دس ہزار روپے انعام دوں گا جو اس وقت ایک بہت بڑا انعام تھا۔ اس وقت مسلمانوں کو حوصلہ ہوا کہ اسلام بھی کوئی مذہب ہے۔ علماء نے بڑی تعریف کی۔ حضرت مسیح موعودؑ کی اسلام کی اس خدمت کی وجہ سے لوگوں نے کہا کہ ہم سے بیعت لیں۔ لیکن آپؑ کو اس وقت حکم نہ تھا لیکن جب حکم ہوا تو بیعت لی۔ پھر یہ بھی اللہ تعالیٰ نے حکم فرمایا کہ یہ بھی اعلان کردو کہ تم مسیح موعود اور مہدی معہود ہو۔ آپؑ نے دسمبر ۱۸۸۸ء میں تبلیغ کے نام سے بیعت کے لیے اعلان شائع فرمایا کہ اِذَا عَزَمْتَ فَتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ۔ وَاصْنَعِ الْفُلْکَ بِاَعْیُنِنَا وَوَحْیِنَا۔ اَلَّذِیْنَ یُبَایِعُوْنَکَ اِنَّمَا یُبَایِعُوْنَ اللّٰہَ یَدُاللّٰہِ فَوْقَ اَیْدِیْھِمْ۔ یعنی جب تو عزم کر لے تو اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کر اور ہمارے سامنے اور ہماری وحی کے تحت کشتی تیار کر۔ جو لوگ تیرے ہاتھ پر بیعت کریں گے وہ تجھ سے نہیں خدا سے بیعت کریں گے۔
حضور انور نے فرمایاکہ پھر اللہ تعالیٰ نے نشانات بھی دکھائے جن میں خاص طور پر کسوف و خسوف کا آسمانی نشان ہے۔ جس کے بارے میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ میرے مہدی کی آمد کا خاص نشان ہے جو مقررہ تاریخوں پر لگنا تھا۔ جو ۱۸۹۴ءمیں مشرق میں اور ۱۸۹۵ء میں مغرب میں لگا۔
حضور انور نے فرمایاکہ ضمناً یہاں یہ بھی عرض کر دوں کہ اس رمضان میں بھی چاند گرہن اور سورج گرہن لگنا ہے۔ اور انہی تاریخوں میں لگنا ہےاور آئندہ بھی ہو سکتا ہے کہ لگتا رہے۔ لیکن
جو چاند اور سورج گرہن آپؑ کے زمانے میں لگا اور آپؑ کے دعویٰ کے بعد لگا اس کی اپنی اہمیت ہے۔ آپؑ نے اللہ تعالیٰ سے ایک فرقان اور نشان مانگا تھا جو اللہ تعالیٰ نے دکھا دیا۔بعض احمدی ان دنوں میں جو گرہن لگ رہا ہے اسے نشان بتاتے ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے۔ بہر حال اگر نشان سمجھنا بھی تھا تو یہ ایک تسلسل ہے جو جاری ہے۔
یہ واضح کر دوں کہ آپؑ کے زمانے میں لگنے والا گرہن مشرق و مغرب میں لگا تھا۔ اس سال کا گرہن مغرب میں لگ رہا ہے اور یہ لگ بھی تھوڑے حصے میں رہا ہے۔ سورج کا ۲۵؍ ۳۰؍فیصد حصہ کور ہو گا۔ آپؑ کے زمانہ میں ۷۵؍۱۰۰؍فیصد تک لگا تھا۔ جب شروع ہوا تو حضرت مسیح موعودؑ کو دکھایا گیا تو آپؑ نے فرمایا کہ ہم نے تو دیکھ لیا لیکن مخالفین اس سے کوئی اثر نہ لیں گے۔
حضور انور نے فرمایاکہ آپؑ نے ۱۲؍جنوری ۱۸۸۹ء کو ‘‘تکمیل تبلیغ’’ کے نام سے اشتہار شائع فرمایا اور اس میں دس شرائط بیعت رکھیں۔ ہم جانتے ہیں ایک احمدی ہونے کے لیے ان دس شرائط پر عمل کرنا اور انہیں بدل و جان قبول کرنا ضروری ہے۔ یہ فرمایا کہ عہد کرے کہ شرک سےبچتا رہوں گا۔ جھوٹ اور زنا اور بدنظری اور فسق و فجور اور ظلم اور خیانت اور فساد اور بغاوت کے طریقوں سے بچتا رہوں گا ۔ نفسانی جوشوں کے وقت ان کا مغلوب نہیں ہو ںگا۔ نمازوں کی طرف توجہ دوں گا۔ تہجد پڑھوںگا، گناہوں کی معافی مانگوں گا۔ استغفار کروں گا۔ جوش نہ دکھاؤں گا کہ کسی کو کوئی تکلیف پہنچے۔ اللہ کی رضا پر راضی رہوں گا۔ قرآن کے ہر حکم پر عمل کرنے کی کوشش کروں گا۔ پھر عاجزی، فروتنی، مسکینی اور حلیمی کو اپناؤں گا اور تکبر اور نخوت سے بچوں گا۔ بنی نوع کو فائدہ پہنچانے کی کوشش کروں گا۔ بیعت کے اقرارکی مرتے دم تک پابندی کروں گا۔ اور معروف بات کی پیروی کروں گا۔اور ایسا تعلق رکھوں گا جو دنیا کے رشتے میں نہیں پایا جاتا۔
حضور انور نے شرائط بیعت کا خلاصہ بیان کرنےکے بعد فرمایا کہ ان شرائط پر بہت سے مخلصین نے بیعت کی اور اب تک انہی شرائط پر بیعت کر رہے ہیں۔ ہمیں سوچنا چاہیے کہ کیا ہم اس پر عمل کر رہے ہیں؟ جماعت احمدیہ میں مخلصین کی ایک بڑی تعداد ہے جو بیعت کرتی ہے اور جان، مال ، وقت اور عزت کوقربان کرنے کے لیے تیار رہتی ہے۔ تیار رہتی ہے کہ دین کی عظمت قائم کریں اور اسلام کا پیغام دنیا میں پہنچانے کی حتی المقدور کوشش کریں۔
حضورانور نے فرمایا کہ آنحضرت ﷺ سے عشق کا حال جو حضرت مسیح موعود ؑکے دل میں تھا اس کا نقشہ آپ کے ایک اقتباس میں یوں ملتا ہے۔ فرمایا کہ مَیں ہمیشہ تعجب کی نگہ سے دیکھتا ہوں کہ یہ عربی نبی جس کا نام محمدؐ ہے‘‘ صلی اللہ علیہ وسلم ’’(ہزار ہزار درود اور سلام اُس پر) یہ کس عالی مرتبہ کا نبی ہے۔ اُس کے عالی مقام کا انتہا معلوم نہیں ہو سکتا اور اس کی تاثیر قدسی کا اندازہ کرنا انسان کا کام نہیں۔ افسوس کہ جیساحق شناخت کا ہے اُس کے مرتبہ کو شناخت نہیں کیا گیا۔ وہ توحید جو دُنیا سے گم ہو چکی تھی وہی ایک پہلوان ہے جو دوبارہ اُس کو دُنیا میں لایا۔ اُس نے خدا سے انتہائی درجہ پر محبت کی اور انتہائی درجہ پر بنی نوع کی ہمدردی میں اس کی جان گداز ہوئی۔ اِس لیے خدانے جو اُس کے دل کے راز کا واقف تھا اُس کو تمام انبیاء اور تمام اوّلین اور آخرین پر فضیلت بخشی اور اُس کی مُرادیں اُس کی زندگی میں اُس کو دیں۔ وہی ہے جو سرچشمہ ہر ایک فیض کا ہے اور وہ شخص جو بغیر اقرار افاضہ اُس کے کسی فضیلت کا دعویٰ کرتا ہے۔ وہ انسان نہیں ہے بلکہ ذُریّتِ شیطان ہے کیونکہ ہر ایک فضیلت کی کُنجی اُس کو دی گئی ہے۔
حضور انور نے فرمایاکہ یہ وہ باتیں تھی ، عشقِ رسولؐ تھا جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے آپ کو مبعوث فرمایا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں اس عشق و محبت کی وجہ سے یہ مقام دیتا ہوں کہ مسیح و مہدی ہونے کا اعلان کرو اور اسلام کی نشأة ثانیہ کا وعدہ آج پورا کرتا ہوںاور تمہارے سپرد یہ کام کرتا ہوں۔ اور پھر آپؑ نے اس کا حق ادا کیا۔
پھر آپؑ نے اپنی جماعت کو نصیحت فرمائی کہ مسیح موعود کے ساتھ صحابہؓ جیسے لوگ ہوں گے۔ پس جب یہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے،
جب ہم بیعت میں آئے ہیں کہ آنحضرتﷺ کا نام روشن کریں گے ، اسلام کا نام روشن کریں گے اور اسلام کی تبلیغ کو دنیا کے کناروں تک پہنچائیں گےتو پھر ہمیں وہ صحابہؓ کا رنگ بھی اختیار کرنا ہوگا۔
فرمایا کہ ہمارے ہادیٔ اکملؐ کے صحابہؓ نے اپنے خدا اور رسول کے لیے کیا کیا جان نثاریاں کیں۔ جلا وطن ہوئے ، ظلم اُٹھائے، طرح طرح کے مصائب اٹھائے ، جانیں دے دیں لیکن صدق و وفا کے ساتھ قدم مارتے گئے ۔ پس وہ کیا بات تھی کہ جس نے انہیں ایسا جان نثار بنا دیا وہ سچی الٰہی محبت کا جوش تھا جس کی شعاع ان کے دل میں پڑ چکی تھی ۔ سو خواہ کسی نبی کے ساتھ مقابلہ کر لیا جاوے۔ آپؐ کی تعلیم ، تزکیہ نفس ، پیروؤں کو دنیا سے متنفر کرادینا ، شجاعت کے ساتھ صداقت کے لیے خون بہا دینا اس کی نظیر کہیں نہ مل سکے گی ۔ سو یہ مقام آنحضرت ﷺکے صحابہؓ کا ہے اور ان میں جو آپس میں تالیف و محبت تھی اس کا نقشہ دو فقروں میں بیان کیا ہے : وَ اَلَّفَ بَيْنَ قُلُوْبِهِمْ لَوْ اَنْفَقْتَ مَا فِي الْأَرْضِ جَمِيْعًا مَّا اَلَّفْتَ بَيْنَ قُلُوْبِهِمْ ۔یعنی جو تالیف ان میں ہے وہ ہرگز پیدا نہ ہوتی ۔ خواہ سونے کا پہاڑ بھی دیا جاتا۔
حضور انور نے فرمایاکہ پھر حضرت مسیح موعودؑ ہم سے پوچھ رہے ہیں کہ کیا آپ لوگ ایسے ہیں؟ صحابہ ؓتو وہ تھے جنہوں نے اپنی جان، مال خدا کی راہ میں دے دیا۔
حضور انور نے فرمایا کہ ہمارے لیے تو اتنی سختی نہیں۔یعنی جنگیں نہیں ہوں گی۔ ہمارے لیے تو جو قربانی کا تھوڑا موقع دیا ہے اس میں جان،مال ،وقت قربان کرنے کا جو عہد کیا ہے اس کے لیے تیار ہنا چاہیے۔
حضور انور نے حضرت مسیح موعودؑ کی جماعت کو نصائح پر مشتمل بعض پُر معارف ارشادات کا تذکرہ فرمایا۔حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا کہ قرآن کریم پڑھو مگر قصے کے طور پر نہیں۔کہانی کے طور پر نہیں۔ ایک جگہ فرمایا کہ لوگ کیسا خوش الحانی سے قرآن پڑھتے ہیں لیکن حلق سے نیچے نہیں اترتا۔ قرآن کریم جس کا دوسرا نام ذکر ہے انسان کو اپنے اندر چھپی ہوئی اور فراموش ہوئی صداقتوں کو یاد دلانے کے لیے آیا۔
قرآن اِس زمانہ میں بھی ذکر ہے اور اس کو سکھانے کےلیے ایک معلم آسمان سے آیاہے جو کہ وَ اٰخَرِیْنَ مِنْھُمْکا مصداق آج موجود ہے ۔
جوہمارے مخالف ہیں یہ ہمارے ہی نہیں بلکہ یہ خدا کے وعدوں کی قدر نہ کرنے والےہیں۔ یہ وہ ہیں جن کے حلق سے قرآن نیچے نہیں اترتا۔واعظ کی نصیحت بھی نہیں سنتے ۔خدا تو صبر اور حسن ظن سے کام لینے کے لیے کہتا ہے اور یہ صرف مخالفت کرتے ہیں ۔آج اسلام کے علاوہ کوئی مذہب نہیں جو لوگوں کو زندگی بخش سکتا ہے اورخدا اس کام کو کرنے کے لیے وسائل اپناتا ہے خواہ وہ ہمیں نظر اورسمجھ آئیں یا نہیں ۔
جیسے پہلے زمانے میں خدا نےحضرت محمدﷺ کو نازل کر کےنور اتارا اس زمانے میں خدا نے مجھے نازل کیا ہے۔مَیں خدا کی طرف سے ہوں چاہو تو تم مجھے مانو یا نہ مانو۔
خدا نے چاہا کہ آخری دَور میں اسلام کی نشأۃ ثانیہ مسیح موعود کے ہاتھ سے ہی ہو۔اسی لیے اس کو کاسر صلیب کا لقب دیا گیا ہے۔ حضور انور نے فرمایا کہ جب خدا نے حضرت مسیح موعود ؑکو بھیجا تب یہ عیسائی فتنہ اس زور سے تھا کہ جو پہلے زمانہ میں نہیں ملتا ۔تو کیا اس فتنہ کے وقت خدا کی غیرت کا تقاضا نہ تھا کہ وہ کاسر صلیب کو بھیجے اس لیے اس نے مسیح موعود کوبھیجا ۔
آج یہ اس جماعت کاکام ہے کہ وہ مسیح موعودکے کام کو آگے بڑھائیں اور آنحضرتﷺ ،اسلام ،قرآن پر اعتراض کرنے والوں کے مدلل جواب دیں اور اس فتنے کا سر کچلیں ۔
یہ خدا کا وعدہ ہے کہ مسیح موعود ؑکی صداقت دنیا میں پھیلنی تھی اور پھیلی ہے اور پھیلے گی، چاہے اپنے مخالفت کریں یا غیر ،اس کا کوئی اثر نہ ہو گا۔
لوگ کہتے ہیں کہ یہ مسیح موعودکیوں آیا جب کہ ہم تمام ارکان اسلام بجا لاتے ہیں ؟
اس کا جواب خود حضورؑ نےدیا کہ تمہاری اپنی حالت اس کا جواب ہے کہ باوجود اعمال صالحہ کے نیک اثرات کیوں نہیں نکل رہے۔ان کے تمام اعمال اعمال صالحہ کے رنگ میں نہیں ہیں بلکہ محض ایک پوست کی طرح ہیں۔ایک شیل ہے جس میں مغز نہیں ہے۔اس کا مطلب ہے کہ کوئی تو کمی ہے۔کیو نکہ اصل تقویٰ نہیں رہا ۔
مسلمان خود بھی آج یہ اقرار کرتے ہیں کہ ہم تنزل میں ہیں اور ایک مصلح کو آنا چاہیے جو ہماری مدد کرے ۔
فرمایا :
یہ ہمارے مخالف بھی ہمارے نوکر چاکر ہیں کہ ہمارا پیغام ایک طرح سے زمین میں پھیلا رہے ہیںگو مخالفت سے ہی سہی۔
مجھے کہتے ہیں کہ دکانداری پھیلا ئی ہوئی ہے اگر اس کو درست کہنا ہے تو ہاں ہمارا کام دنیا داری کے لیے مثل مردہ کے ہے۔ ہمارا کام دین کو بدعات سے بچانا ہے اور اسلام سمیت دوسرے ادیان کی حقیقت کو ظاہر کرناہے۔خدا نے بطور رحمت قرآن اور حضورﷺ کو بھیجا۔رمضان کے دنوں میں قرآن پڑھنے،سمجھنے اسلامی تعلیمات کو اپنانے اور اس کا دنیا میں پرچار زیادہ سے زیادہ کر کے ہمیں حضرت مسیح موعود کےمشن کو آگے بڑھانے کی کوشش کرنی چاہیے۔
خطبہ جمعہ کے آخر پر حضور انور نے پاکستان کے احمدیوں، مسلمان امت اور فلسطینی مسلمانوں کے لیے دعا کی تحریک فرمائی جس کی تفصیل درج ذیل لنک پر ملاظہ ہو:
٭…٭…٭