احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح
ہم زمین میں ایک خلیفہ بنانے والے ہیں نقل کرکے کہا ہے کہ اس جگہ خلیفہ کے لفظ سے ایسا شخص مراد ہے کہ جو ارشاد اور ہدایت کے لیے بین اللہ و بین الخلق واسطہ ہو۔ خلافت ظاہری کہ جو سلطنت اور حکمرانی پر اطلاق پاتی ہے مراد نہیں ہے اور نہ وہ بجز قریش کے کسی دوسرے کے لیے خدا کی طرف سے شریعت اسلام میں مسلم ہوسکتی ہے بلکہ یہ محض روحانی مراتب اور روحانی نیابت کا ذکر ہے
براہین احمدیہ پر لکھے جانے والے ریویو زکے سلسلے میںابوسعید محمدحسین بٹالوی صاحب کا تحریر کردہ ریویو
(گزشتہ سے پیوستہ)اسی صفحہ میں آیۃ بشارت غلبہ اسلام منقولہ حاشیہ نقل کرکے حضرت مسیح سے اپنا مشابہ ہونا (نہ عین مسیح ہونا)ان الفاظ سے بیان کیا ہے۔ھُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْھُدٰی وَ دِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْھِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ۔یہ آیت جسمانی اور سیاست ملکی کے طور پر حضرت مسیح کے حق میں پیشگوئی ہے۔ اور جس غلبۂ کاملہ دین اسلام کا وعدہ دیا گیا ہے وہ غلبہ مسیح کے ذریعہ سے ظہور میں آئے گا۔ اور جب حضرت مسیح علیہ السلام دوبارہ اس دنیا میں تشریف لائیں گے تو ان کے ہاتھ سے دین اسلام جمیع آفاق اور اقطار میں پھیل جائے گا لیکن اس عاجز پر ظاہر کیا گیا ہے کہ یہ خاکسار اپنی غربت اور انکسار اور توکل اور ایثار اور آیات اور انوار کے رو سے مسیح کی پہلی زندگی کا نمونہ ہے اور اس عاجز کی فطرت اور مسیح کی فطرت باہم نہایت ہی متشابہ واقع ہوئی ہے گویا ایک ہی جوہر کے دو ٹکڑے یا ایک ہی درخت کے دو پھل ہیں اور بحدے اتحادہےکہ نظر کشفی میں نہایت ہی باریک امتیاز ہے (حاشیہ:ایسا اتحاد امام محدث ابن حزم ظاہری کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے شیخ محی الدین ابن عربی کے مکاشفہ میں منکشف ہوا ہے۔ چنانچہ فتوحات مکیہ کے باب ۲۲۳ میں آپ نے فرمایا ہے:غایۃ الوصلۃ ان یکون الشی عین ما ظھر ولا یعرف۔ کما رأیت رسول اللہ صلعم و قد عانق ابن حزم المحدث فغاب احدھما فی الاخر فلم نر الَّا واحدًا و ھو رسول اللّٰہ صلعم فھذہ غایۃ الوصلۃ و ھو المعبر عنہ بالاتحاد۔ (فتوحات مکیہ)

نہایت درجہ کا اتصال یہ ہے کہ ایک چیز بعینہٖ وہ چیز ہوجائے جس میں وہ ظاہر ہوا اور خود نظر نہ آوے۔ جیسا کہ میں نے خواب میں آنحضرت کو دیکھا کہ آپ نے ابو محمد بن حزم محدث سے معانقہ کیا۔ پس ایک دوسرے میں غائب ہوگیا۔ بجز ایک رسول اللہ صلعم کے نظر نہ آیا۔
نواب صاحب بھوپال نے کتاب اتحاف النبلا میں اس کی تائید میں ایک عربی رباعی نقل کی ہے
توھم واشینا بلیل مزارہ
فھمَّ لیسعی بیننا بالتباعد
فعانقتہ حتی اتحدنا تعانقًا
فلما اتانا ما رای غیر واحد
جس کا مطلب یہ ہے کہ ’’ہمارے بدگو (رقیب) نے شب کو ہمارے پاس ہمارے معشوق کے آنے کاگمان کیا تو ہم میں جدائی ڈالنے میں کوشش کرنے لگا۔ پس میں نے اپنے معشوق کو گلے سے لگا لیا۔ پھر وہ (رقیب) آیا تو اس نے بجز مجھ ایک کے کسی کو نہ دیکھا۔‘‘
پھر یہ شعر فارسی نقل کیا ہے ؎
جذبہ شوق بحدیست میان من و تو
کہ رقیب آمد و نشناخت نشان من و تو
اس کے بعد یہ جملہ دعائیہ لکھا ہے۔ رزقنا اللّٰہ من ھذا الاتحاد فی الدنیا و الآخرۃ۔ یعنی خدا تعالیٰ ہم کو بھی ایسا ہی اتحاد دنیا و آخرت میں نصیب کرے۔ اس اتحاد پر بعض اس وقت کے لوگوں نے کچھ اعتراض بھی کیے ہیں۔ ہم نے ضمیمہ اخبار سفیر ہند ۱۸۷۸ء کے نمبر ۱۳ و ۱۴ میں ان کے کافی جواب دیے ہیں۔ ناظرین ان نمبروں کو دیکھیں)اور نیز ظاہری طور پر بھی ایک مشابہت ہے اور وہ یوں کہ مسیح ایک کامل اور عظیم الشان نبی یعنی موسیٰ کا تابع اور خادم دین تھا اور اس کی انجیل توریت کی فرع ہے اور یہ عاجز بھی اس جلیل الشان نبی کے احقر خادمین میں سے ہے کہ جو سید الرسل اور سب رسولوں کا سرتاج ہے۔ اگر وہ حامد ہیں تو وہ احمد ہے۔ اور اگر وہ محمود ہیں تو وہ محمد ہے صلی اللہ علیہ وسلم۔ سو چونکہ اس عاجز کو حضرت مسیح سے مشابہت تامہ ہے اس لئے خداوند کریم نے مسیح کی پیشگوئی میں ابتدا سے اس عاجز کو بھی شریک کررکھا ہے یعنی حضرت مسیح پیشگوئی متذکرہ بالا کا ظاہری اور جسمانی طور پر مصداق ہے اور یہ عاجز روحانی اور معقولی طور پر اُس کا محل اور مورد ہے یعنی روحانی طور پر دین اسلام کا غلبہ جو حجج قاطعہ اور براہین ساطعہ پر موقوف ہے اس عاجز کے ذریعہ سے مقدر ہے۔ گو اس کی زندگی میں یا بعد وفات ہو۔
یہ الفاظ ہمارے اس بیان کے مصدق ہیں کہ مؤلف کو مسیح موعود ہونے کا دعویٰ نہیں بلکہ حضرت مسیح سے مشابہت کا ادعا ہے سو یہی نہ ظاہری نہ جسمانی اوصاف میں بلکہ روحانی اور تعلیمی وصف میں اور غلبہ اسلام سے جس کی مؤلف کو بشارت دی گئی ہے دلائل و براہین کا غلبہ مراد ہے۔نہ سیاست ملکی میں غلبہ اور بصفحہ ۵۵۷ پیش گوئی نمبر (۵)جس میں مؤلف کو بلفظ یا عیسیٰ مخاطب کیا گیا ہے نقل کر کے اُس کا ترجمہ ان الفاظ سے کیا۔
یَا عِیْسٰٓی اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَ۔ الخ۔
اے عیسیٰ میں تجھے کامل اجر بخشوں گا یا وفات دوں گا اور اپنی طرف اٹھاؤں گا۔
اور تیرے تابعین کو ان پر جو منکر ہیں قیامت تک غلبہ بخشوں گا یعنی تیرے ہم عقیدہ اور ہم مشربوں کو حجت اور برہان اور برکات کے رو سے دوسرے لوگوں پر قیامت تک فائق رکھوں گا۔ پہلوں میں سے بھی ایک گروہ ہے اور پچھلوں میں سے بھی ایک گروہ ہے۔ اس جگہ عیسیٰ کے نام سے بھی یہی عاجز مراد ہے ۔
اس عبارت میں الفاظ “حجت۔ برہان۔ برکات”ہمارے بیان کے صاف مؤید ہیں۔ اور بصفحہ ۴۹۲ اس کتاب کے ایک عربی فقرہ اس مضمون کااَرَدْتُّ اَنْ اُسْتُخْلِفَ فَخَلَقْتُ اٰدَمَ اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ۔کہ ہم زمین میں ایک خلیفہ بنانے والے ہیں نقل کرکے کہا ہے کہ اس جگہ خلیفہ کے لفظ سے ایسا شخص مرا دہے کہ جو ارشاد اور ہدایت کے لئے بین اللہ و بین الخلق واسطہ ہو۔ خلافت ظاہری کہ جو سلطنت اور حکمرانی پر اطلاق پاتی ہے مراد نہیں ہے اور نہ وہ بجز قریش کے کسی دوسرے کے لئے خدا کی طرف سے شریعت اسلام میں مسلم ہوسکتی ہے بلکہ یہ محض روحانی مراتب اور روحانی نیابت کا ذکر ہے اور آدم کے لفظ سے بھی وہ آدم جو ابوالبشر ہے مراد نہیں بلکہ ایسا شخص مراد ہے جس سے سلسلہ ارشاد اور ہدایت کا قائم ہوکر روحانی پیدائش کی بنیاد ڈالی جائے گویا وہ روحانی زندگی کے رو سے حق کے طالبوں کا باپ ہے۔ اور یہ ایک عظیم الشان پیشگوئی ہے جس میں روحانی سلسلہ کے قائم ہونے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ ایسے وقت میں جبکہ اس سلسلہ کا نام و نشان نہیں۔
اس عبارت نے تو ہمارے بیانات کی پوری تائید کر دی اور مخالفین کی تہمتوں کی جڑھ کاٹ ڈالی اُس کے اس جملہ نے کہ اس منصب خلافت سے (جس کا اس پیشگوئی میں مؤلف کو وعدہ دیا گیا ہے)’’خلافت ظاہری کہ جو سلطنت اور حکمرانی پر اطلاق پاتی ہے مراد نہیں ہے اور نہ وہ بجز قریش کے کسی دوسرے کے لئے خدا کی طرف سے شریعت اسلام میں مسلّم ہوسکتی ہے بلکہ یہ محض روحانی مراتب اور روحانی نیابت کا ذکر ہے۔‘‘ صاف تصریح کر دی ہے کہ مؤلف کو ظاہری حکومت و سلطنت اسلامی کا ہرگز دعویٰ نہیں اور نہ وہ اس دعویٰ کو بحکم شریعت اپنے لئے جائز سمجھتا ہے کیونکہ وہ قریش سے مخصوص ہے اور مؤلف قریشی نہیں فارسی الاصل ہے۔ (چنانچہ صفحہ ۲۴۲ وغیرہ کتاب اس پر شاہد ہے۔)لو بس جھگڑا ختم ہوا اور خوب فیصلہ ہو گیا کہ مؤلف کی نسبت جو دعویٰ پولٹیکل سرداری کا (جو اسلام میں خلافت کہلاتی ہے)تجویز کیا گیا ہے یہ بحکم اسلام اور خود مؤلف کی کلام کے امکان سے خارج ہے نہ اُس نے یہ دعویٰ کیا نہ آئندہ کر سکتا ہے نہ اس کا مذہب اس دعویٰ کی اجازت دیتا ہے۔
بالآخر ہم اس قدر کہنے سے باز نہیں رہ سکتے کہ اگر یہ معاملہ گورنمنٹ تک پہنچتا تو یقین تھا کہ ہمارے زیرک اور دانشمند گورنمنٹ ایسے مفسدوں کو (جنہوں نے بحق ایسے شریف خاندانی کے جو ایک معزز نیک نام و خیر خواہ سرکار کا بیٹا ہے اور خود بھی سرکار کا دلی خیر خواہ و شُکر گزار و دعا گو ہے اور درویشی و غربت سے زندگی بسر کرتا ہے ایسا مفسدانہ افتراءکیا اور بہت لوگوں کے دلوں کو آزار پہنچایا ہے۔)سخت سزا دیتی۔
اور ہم یہ بھی امید رکھتے ہیں کہ گورنمنٹ ایسے خیر خواہ و وفادار خاندان کو (جس کی جان نثاری اور وفاداری کا وہ نازک وقتوں میں تجربہ کر چکی ہے۔)کبھی نہ بھولے گی اور یوماً فیوماً اس کی قدر و منزلت کو بڑھائے گی۔ ؎
قدیمان خود را بیفزائے قدر
کہ ہرگز نیاید ز پروردہ غدر
مزید پڑھیں: سبط نبی حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ