مسیح لاہور میں
سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا لاہور سے وہ خصوصی تعلق تھا جو حضورِ اقدس کی جوانی کے ایام سے لے کر وفات تک قائم رہا۔ لاہور شہر کو یہ شرف حاصل ہے کہ حضرت مسیح موعودؑ نے بار ہا سر زمین لاہور کو رونق بخشی اور اس خوش نصیب شہر نے آپ کے مبارک قدموں کو چوما
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام قوم مغل برلاس کے درخشندہ گوہر تھے۔ آپ ۱۳؍فروری ۱۸۳٥ء بروز جمعہ طلوع فجر کے بعد حضرت چراغ بی بی صاحبہ کے بطن سے قادیان میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد کا نام مرزا غلام مرتضیٰ تھا۔ الٰہی بشارات کے تحت آپؑ نے مسیح و مہدی ہونے کا دعویٰ فرمایا اور حکمِ الٰہی کے تابع ۱۸۸۹ء میں لدھیانہ میں جماعت احمدیہ کی بنیاد رکھتے ہوئے پہلی بیعت لی۔

شہر لاہور بادشاہوں اور حکمرانوں کی سرزمین کہلاتا ہے جسے بادشاہوں، شہنشاہوں اور حکمرانوں نے اپنے پایۂ حکومت میں مرکزی حیثیت دی لیکن یہی لاہور کی واحد پہچان نہیں ہے۔ لاہور کے فخر کی اصل وجہ تو دینی برکتوں کا وہ لامتناہی سلسلہ ہے جو اس سر زمین سے منسلک ہے۔ وہ سرزمین جو صوفیاء اور اولیاء کی جائے عبادت بنی۔ ان ہستیوں کو اس مہدیٔ دوراں کی تلاش اس سرزمین پر کھینچ لائی جس کی نوید خود انہیں خدا نے اپنے حبیب حضرت محمدﷺ کے ذریعہ دی تھی۔ اس محترم کی تلاش جس نے بہترین امت کے عروجِ ثانیہ کے لیے مبعوث ہونا تھا جس کا فخر اپنے پیارے نبیﷺ کی غلامی تھا، وہی جو روحانی مردوں کو زندگی دینے والا موعود مسیحا تھا۔
ان بزرگانِ دین کی یہ تلاش بے سود ثابت نہ ہوئی کیونکہ سرزمین لاہور اس بات پر ہمیشہ نازاں رہے گی کہ اُس مسیحا کے قدم اس زمین پر بار بار پڑے اور یہ وہ فخر ہے جو اس زمین کو ممتاز بناتا ہے اور ایک وقت آئے گا کہ تاریخ عالم میں یہ بات لاہور کی اہمیت کی اولین وجہ ہو گی۔ ان شاء اللہ
اس مضمون کا اصل مقصد تاریخ کے ان جگمگاتے لمحات کا ذکر کرنا ہے جو خدا تعالیٰ کی رحمت کے انوار سے پُر تھے۔
سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا لاہور سے ایک خصوصی تعلق تھا جو حضورِ اقدسؑ کی جوانی کے ایام سے لے کر وفات تک قائم رہا۔
۱۸٥۷ء کے غدر کے بعد سر زمین لاہور کو پہلی مرتبہ یہ شرف حاصل ہوا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام لاہور تشریف لائے۔
لیفٹیننٹ گورنر پنجاب نے رؤسائے پنجاب کو اپنے بیٹوں کے ساتھ ملاقات کے لیے لاہور آنے کی دعوت دی تھی۔ حضور علیہ السلام اپنے والد صاحب اور بھائی مرزا غلام قادر صاحب کے ہمراہ پہلی مرتبہ لاہور تشریف لائے۔ آپ کا قیام میاں سلطان محمد ٹھیکیدار کے رئیس خانے میں ہوا۔ آج کل اس مقام پر برگنزا ہوٹل تعمیر ہو چکا ہے۔اس موقع پر آپ علیہ السلام نے میاں سلطان محمد کی مسجد میں نمازِ ظہر بھی ادا کی۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام دعویٰ ماموریت سے قبل کئی بار لاہور تشریف لائے۔ جن کی وجہ بعض دفعہ زمینداری کے مقدمات کی پیروی اور بعض اوقات سیالکوٹ جاتے ہوئے لاہور میں قیام بنا۔ جون ۱۸۷٦ء میں جب آپؑ کے والد صاحب کی وفات کا وقت قریب تھا اس وقت بھی آپؑ لاہور میں ہی موجود تھے جب بذریعہ خواب آپ کو اطلاع دی گئی کہ والد ماجد کی وفات کا وقت قریب ہے چنانچہ آپؑ اسی روز قادیان پہنچے اور دوسرے دن آپؑ کے والد صاحب وفات پا گئے۔
دعویٰ ماموریت کے بعد حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی لاہور آمد
حضرت مسیح موعودؑ نےدعویٰ ماموریت کے بعد متعدد بار سر زمین لاہور کو قدم بوسی کا شرف بخشا۔ اس مضمون میں خاکسار ازدیادِایمان کی خاطر چند ایک کا ذکر کرنے کی کوشش کرے گا۔
جنوری ۱۸۹۲ء
میں آپؑ لاہور تشریف لائے اور منشی میراں بخش صاحب کی کوٹھی واقع چونا منڈی میں قیام فرمایا۔آپؑ کی تشریف آوری کا مقصد علماء، پیروں اور گدی نشینوں پر اتمام حجت تھا۔
۳۱؍جنوری ۱۸۹۲ء کو آپؑ نے ایک عام لیکچر منشی میراں بخش صاحب کی کوٹھی کے احاطے میں دیا۔ اس لیکچر میں ہر طبقے کے ہزاروں لوگوں نے شرکت کی۔ حضرت اقدسؑ نے اپنے دعاوی اور ان کے متعلق ضروری دلائل پیش کیے۔
حضرت مسیح موعودؑ کے ارشاد پر حضرت مولوی نورالدین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی تقریر فرمائی۔ آپ نے بآوازِ بلندکلمہ شہادت پڑھا اور حضرت امام مہدی کی گواہی ان الفاظ میں دی:’’آپ نے مرزا صاحب کا دعویٰ اور اس کے دلائل آپ کی زبان سے سنے اور اللہ تعالیٰ کے ان وعدوں اور بشارتوں کو بھی سنا جو ان مخالف حالات میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو دی ہیں۔ تمہارے اس شہر والے لوگ مجھے اور میرے خاندان کو جانتے ہیں۔ علماء بھی مجھ سے نا واقف نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے قرآن کا فہم دیا ہے۔ میں نے بہت غور مرزا صاحب کے دعاوی پر کیا ہے اور اللہ تعالیٰ سے دعائیں کیں، ان کی خدمات اسلامی کو دیکھا اور اس کی مخالفت کرنے والوں کے حالات پر غور کیا تو قرآن مجید نے میری رہنمائی فرمائی۔ میں نے دیکھا کہ اس سے پہلے آنے والوں کا مقابلہ جس طرح پر کیا گیا وہی اب ہورہا ہے۔ گویا اس پرانی تاریخ کو دہرایا جا رہا ہے۔ میں کلمۂ شہادت پڑھ کر کہتا ہوں کہ مرزا حق پر ہے اور اس حق سے ٹکرانے والا باطل پاش پاش ہو جائے گا۔ مومن حق کو قبول کرتا ہے۔ مَیں نے حق سمجھ کر اسے قبول کیا ہے اور حضرت نبی کریم کے ارشاد کے موافق کہ مومن جو اپنے لئے پسند کرتا ہے وہ اپنے بھائی کے لئے پسند کرتا ہے آپ کو بھی اس حق کی دعوت دیتا ہوں وما علینا الا البلاغ۔‘‘ ( تاریخ احمدیت جلد سو م، صفحات ۱۲۸-۱۲۹)
حضورِ اقدسؑ اس دورے کے دوران لوگوں کی بکثرت آمد و رفت اور ہجوم کی وجہ سے منشی میراں بخش صاحب کی کوٹھی سے محبوب رایوں کے ایک وسیع مکان میں منتقل ہو گئے۔ اس مکان کا صحن اتنا بڑا تھا کہ ہزاروں افراد بآسانی سما سکتے تھے۔ اسی طرح اس مکان کے قریب حضرت میاں چراغ دین صاحب اور حضرت میاں معراج الدین صاحب عمر رئیسان لاہور کے مکانات بھی تھے۔ اور سامنے ہی حضرت مولوی رحیم صاحب کی مسجد بھی تھی جس میں حضورِ اقدسؑ باجماعت نمازیں ادا کرتے رہے۔ اسی دورے کے دوران حضورِ اقدسؑ کی کتاب آسمانی فیصلہ پڑھ کر سنائی گئی۔
آنحضرت ﷺ سے آپؑ کی محبت کا واقعہ
نومبر ۱۸۹۳ء میں حضورِ اقدسؑ اپنے خسر حضرت میر ناصر نواب صاحبؓ سے ملنے فیروزپور تشریف لے گئے۔ ۱٤؍دسمبر ۱۸۹۳ء کو وہاں سے واپسی پر لاہور اسٹیشن کے پاس ایک مسجد میں وضو فرما رہے تھے کہ مشہور آریہ لیڈر پنڈت لیکھرام نے حضورِ اقدسؑ کی خدمت میں حاضر ہو کر سلام عرض کیا مگر آپؑ نے کوئی جواب نہ دیا۔ اس نے اس خیال سے کہ شائد آپ نے سنا نہیں دوسری طرف سے آ کر سلام کیامگر آپ نے پھر بھی کوئی جواب نہ دیا۔ جب پنڈت جی مایوس ہو کر لوٹ گئے تو کسی نے یہی خیال کر کے کہ شائد حضورِ اقدسؑ نے پنڈت لیکھرام کا سلام نہیں سنا ہو گا حضورِ اقدسؑ سے عرض کی کہ حضور پنڈت لیکھرام آئے تھے اور سلام کرتے تھے۔ حضورِاقدسؑ نے یہ سنتے ہی بڑی غیرت کے ساتھ فرمایا:اسے شرم نہیں آتی، ہمارے آقاؐ کو تو گالیاں دیتا ہے اور ہمیں سلام کرتا ہے۔
یہ مسجد لاہور ریلوے اسٹیشن کے پلیٹ فارم نمبر ۱ کے ساتھ ہی واقع ہے۔ ان دنوں میں ریلوے اسٹیشن کے گرد چار دیواری نہیں ہوتی تھی اور امرتسر سے آنے والی ریل اکثر وہیں رکا کرتی تھی اور یہ مسجد پلیٹ فارم کا حصہ ہی ہوا کرتی تھی۔

اس مسجد میں حضورِ اقدسؑ کی تشریف آوری کے متعلق عرض ہے کہ مکرم و محترم بشیر الدین احمد صاحب معلم سلسلہ لاہور جو کہ کم و بیش ۱۰۰ سے زائد صحابہ حضرت مسیح موعودؑ سے ذاتی طور پر مل چکے تھے سے خاکسار نے خود سنا ہے کہ اکثر صحابہ اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ یہ وہی مسجد ہے جہاں پنڈت لیکھرام والا واقعہ پیش آیا تھا۔واللہ اعلم با لصواب
جلسہ مذاہبِ عالم لاہور
اب خاکسار ایک مشہور و معروف نشان کا ذکر کرنا چاہتا ہے جو کہ جلسہ مذاہبِ عالم کے نام سے لاہور میں ظاہر ہوا۔
ایک صاحب سوامی سادھو شوگن چندر نامی نے اس جلسے کا انتظام کیا، ۲٦ تا ۲۹؍دسمبر ۱۸۹٦ء کی تواریخ مقرر ہوئی اور مقام جلسہ انجمن حمایت اسلام لاہور کے ہائی سکول کا ہال طے پایا۔
سوامی شوگن چندر صاحب نے جلسے کا اشتہار دیتے ہوئے مسلمانوں، عیسائیوں اور آریہ صاحبان کو قسم دی کہ ان کے نامی علماء ضرور اس جلسہ میں شرکت کریں اور اپنے اپنے مذاہب کی خوبیاں بیان کریں۔ مکرم سوامی شوگن چندر صاحب حضورِ اقدسؑ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی کہ آپ بھی اس جلسہ کے لیے اپنے مذہب کی خوبیوں سے متعلق مضمون لکھیں۔
حضورِ اقدس علیہ السلام نے ناسازیٔ طبع کے با وجود مضمون لکھا۔ جب حضور مضمون لکھ چکے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے الہام ہوا کہ ’’مضمون بالا رہا‘‘۔ (حقیقۃ الوحی،روحانی خزائن، جلد ۲۲، صفحہ ۲۹۱)یہ الٰہی خوشخبری پاتے ہی آپؑ نے ۲۱؍دسمبر ۱۸۹٦ء کو ایک اشتہار لکھا جس کا عنوان تھا
سچائی کے طالبوں کے لیے ایک عظیم الشان خوشخبری
اس اشتہار میں آپؑ نے فرمایا:’’جلسہ اعظم مذاہب جو لاہور ٹاؤن ہال میں ۲۸،۲۷،۲٦؍دسمبر ۱۸۹٦ء کو ہو گا اس میں اس عاجز کا ایک مضمون قرآن شریف کے کمالات کے بارے میں پڑھا جائے گا۔ یہ وہ مضمون ہے جو انسانی طاقتوں سے برتر اور خدا کے نشانوں میں سے ایک نشان اور خاص اس کی تائید سے لکھا گیا ہے۔ اس میں قرآن شریف کے وہ حقائق اور معارف درج ہیں جن سے آفتاب کی طرح روشن ہو جائے گا کہ درحقیقت یہ خدا کا کلام اور رب العالمین کی کتاب ہے۔ اور جو شخص اس مضمون کو اول سے آخر تک پانچوں سوالوں کے جواب میں سنے گا مَیں یقین رکھتا ہوں کہ ایک نیا ایمان اس میں پیدا ہو گا اور ایک نیا نور اس میں چمک اٹھے گا۔ اور خدا تعالیٰ کے پاک کلام کی ایک جامع تفسیر اس کے ہاتھ آ جائے گی… مجھے خدائے علیم نے الہام سے مطلع فرمایا ہے کہ یہ وہ مضمون ہے جو سب پر غالب آئے گا اور اس میں سچائی اور حکمت اور معرفت کا وہ نور ہے جو دوسری قومیں بشرطیکہ حاضر ہوں اور اس کو اول سے آخر تک سنیں شرمندہ ہو جائیں گی۔ اور ہر گز قادر نہیں ہوں گی کہ اپنی کتابوں سے یہ کمال دکھلا سکیں۔ خواہ وہ عیسائی ہوں، خواہ آریہ، خواہ سناتن دھرم والے یا کوئی اور۔ کیونکہ خدا تعالیٰ نے ارادہ فرمایا ہے کہ اس روز اس پاک کتاب کا جلوہ ظاہر ہو۔‘‘ ( تاریخ احمدیت جلد ۱ صفحہ ٥٦۰، ۵۶۱)
یہ اشتہار جو کہ ایک زبردست پیشگوئی پر مشتمل تھا ملک کے طول و عرض میں پھیلا دیا گیا اور لاہور میں بھی دیواروں پر چسپاں کیا گیا۔
اس جلسے میں شمولیت کے لیے حضرت مسیح موعودؑ نے حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ارشاد فرمایا تو آپؓ مالیر کوٹلہ سے سیدھے لاہور تشریف لائے اور اس جلسہ میں شمولیت کی۔ اس جلسے کی ایک خصوصیت یہ بھی تھی کہ آپؓ نے اس کے ایک اجلاس کی صدارت بھی فرمائی۔
مورخہ ۲۷؍دسمبر کو حضرت مسیح موعودؑ کا یہ معرکہ آرا مضمون حضرت مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹیؓ نے پڑھ کر سنایا جو کہ بعد میں ’’اسلامی اصول کی فلاسفی‘‘ کے نام سے شائع ہوا۔ شاملین کی بےانتہا دلچسپی کی وجہ سے اس جلسے میں ایک دن کا اضافہ کر دیا گیا اور حضورِاقدسؑ کا یہ مضمون اگلے دن مکمل ہو سکا۔
اس مضمون کے مکمل ہونے پر اس کی شان و شوکت سامعین پر روزِ روشن کی طرح ثابت ہو چکی تھی۔ سب لوگوں نے مسلمانوں کو مبارک باد دی اور اللہ تعالیٰ کے فضل سےیہ مضمون اسلام کی فتح کا موجب بنا۔ملک بھر میں اس کی دھوم مچ گئی اور مسلمان بے اختیار بول اٹھے کہ اگر یہ مضمون نہ ہوتا تو آج اسلام کوسبکی اٹھانی پڑتی اور ہر ایک کہتا تھا کہ اسلام کی فتح ہوئی اور حضور کا مضمون ہی بالا رہا۔ اس شاندار فتح کا اعتراف ملک کے بیس کے قریب اخبارات نے کیااور نمایاں انداز میں اس کی خبر شائع کی۔
نشانِ عبرت اور پنڈت لیکھرام
لاہور ہی وہ مقام ہے جہاں مشہور آریہ لیڈر پنڈت لیکھرام اسلام اور حضرت نبی اکرمﷺ کے خلاف بد زبانی کے جرم کی پاداش میں خدا کے قہر کا نشان بن گیا۔
اس کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ حضرت مسیح موعودؑ نے ۱۸۸٥ء میں غیر مسلموں کو نشان نمائی کی دعوت دی تو پنڈت لیکھرام بھی مقابلہ کے لیے قادیان میں آیا مگر چند روز مخالفوں کے پاس قیام پذیر رہ کر واپس چلا گیا۔ قصہ مختصر یوں کہ لیکھرام اللہ تعالیٰ، نبی اکرمﷺ اور دیگر شعائر اسلام سے ٹھٹھہ کرتا اور حضرت مسیح موعودؑ سے بار بار نشان طلب کرتا تھا اور کہتا تھا کہ میری نسبت جو پیشگوئی آپ چاہیں شائع کر دیں میری طرف سے اجازت ہے۔
حضرت مسیح موعودؑ نے دعا کی تو الہام ہواکہ یہ صرف ایک بے جان گوسالہ ہے جس کے اندر سے ایک مکروہ آواز نکل رہی ہے اور اس کے لیے ان گستا خیوں اور بد زبانیوں کے عوض میں سزا اور رنج اور عذاب مقدر ہے جو ضرور اس کو مل کر رہےگا۔
حضرت مسیح موعودؑ کو الہاماً بتایا گیا کہ آج کی تاریخ سے جو ۲۰؍فروری ۱۸۹۳ء ہے چھ برس کے عرصہ تک یہ شخص اپنی بدزبانیوں کی سزا میں یعنی ان بے ادبیوں کی سزا میں جو اس شخص نے رسول اللہﷺ کے حق میں کی ہیں عذابِ شدید میں مبتلا ہو جائے گا۔
حضرت مسیح موعودؑ اپنی تصنیف کرامات الصادقین میں تحریر فرماتے ہیں:مجھے لیکھرام کی موت کی نسبت خدا نے بشارت دی اور کہا کہ عنقریب تو اس عید کے دن کو پہچان لے گا اور اصل عید کا دن بھی اس عید کے قریب ہو گا۔
یعنی اس بد ظن اور بد گو شخص کے قتل کا دن عید کے دن سے ملا ہوا ہو گا۔ آپؑ نے یہ پیشگوئی فروری ۱۸۹۳ء میں فرمائی تھی۔ اس کے مقابل لیکھرام نے بھی ایک پیشگوئی کا علان کیا کہ مرزا صاحب تین سال میں مارے جائیں گےاور ان کی تمام جماعت نیست و نابود ہو جائے گی۔
خدا تعالیٰ نے اس بد ظن شخص کو جو پاکوں کے سردار، راستبازوں کے آقا سیدنا حضرت محمد مصطفٰے ﷺ کے خلاف زہر اگلتا تھا اس کی تین سال والی پیشگوئی کو اس کی آنکھوں کے سامنے جھوٹا کرنے کے بعد ٦؍مارچ ۱۸۹۷ء کو شام کے وقت لاہور کے ایک محلہ وچھو والی شاہ عالمی میں ایک شخص کے ہاتھوں قتل کروایا۔ قاتلانہ حملے کے بعد لیکھرام کو زخمی حالت میں ہسپتال پہنچایا گیااور ڈاکٹرز نے آپریشن کیالیکن لیکھرام سامری کے بچھڑے کی طرح کراہتا اور بلبلاتا ہوا جہنم و اصل ہوگیا۔ لیکھرام کے قاتل کا کچھ معلوم نہ ہو سکا کہ وہ کون تھا اور کہاں غائب ہو گیا۔ پیشگوئی کے عین مطابق اس کے قتل کا دن عید کا دوسرا دن تھا۔
سفر ملتان اور لاہور میں قیام
حضرت مسیح موعودؑ نے ایک عدالتی کیس کے سلسلہ میں اکتوبر ۱۸۹۷ء میں ملتان کا سفر کیا اور واپسی پر چند روز کے لیے محترم شیخ رحمت اللہ صاحب مرحوم مالک بمبئی ہاؤس کےمکان پر قیام فرمایا۔ یہ مکان انارکلی میں پنجاب ریلیجس بُک سوسائٹی کے سامنے واقع تھا۔
ان دنوں لاہور میں حضورِ اقدسؑ کی شدید مخالفت تھی۔ آپ جہاں سے بھی گزرتے آوارہ اور بد اخلاق لوگ آپ پر آوازے کستے مگر آفرین ہے آپ پر کہ ذرا بھی ماتھے پر شکن نہ آتی۔ لاہور شہر جہاں مخالفت کا یہ حال تھا وہاں سنجیدہ اور باوقار طبقہ بھی موجود تھا۔ چنانچہ وہ کثرت سے حضرت مسیح موعودؑ کی مجالس میں آتے اور حضورِ اقدسؑ کی پُر معارف گفتگو سن کر اپنی روحانی پیاس بجھاتے۔
بشپ آف لاہور کو چیلنج
لاہور میں ایک پادری بشپ کے عہدہ پر فائز ہو کر آئے جن کا نام لیفرائے تھا۔ یہ صاحب اپنے مذہب کی تبلیغ میں جارحانہ پالیسی کے قائل تھے اور عیسائی حلقوں میں خاص عظمت کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔اسی وجہ سے انہوں نے آتے ہی بڑے وسیع پیمانہ پر عیسائیت کی سرگرمیوں کا آغاز کرتے ہوئے لیکچروں کا ایک سلسلہ شروع کیا۔

اس پروگرام کے تحت ۱۸؍ مئی ۱۹۰۰ء کو انہوں نے معصوم نبی کے موضوع پر ایک تقریر کی جس میں انہوں نے یہ ثابت کرنا چاہا کہ حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کے متعلق قرآن مجید میں ذنب کا لفظ استعمال کیا گیا ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ (نعوذباللہ) گناہ گار تھے۔آخر پر اس نے مسلمانوں کو چیلنج دیا کہ اگر انہیں کوئی اعتراض ہے تو میدان میں آئیں اور سوال کریں۔ باقی تمام مسلمان تو اس کے دلائل سن کر دہشت زدہ ہوگئے لیکن حضرت مسیح موعودؑ کے نہایت مخلص ساتھی حضرت مفتی محمد صادقؓ نے جو کہ اس اجلاس میں موجود تھے اس کی تقریر کے ایک ایک اعتراض کا اس خوبی سے جواب دیا کہ اس پادری کے تمام دعوے کی دھجیاں بکھر گئیں۔اس تقریر پر بشپ صاحب حیران ہو گئے۔ تما م مسلمانوں نے فتح پر خوشی کا اظہار کیا اور کئی دنوں تک اس کا عام چرچا رہا کہ مرزائی جیت گئے۔
حضرت مسیح موعودؑ نے اس پادری کا چیلنج قبول فرمایا اور ایک اشتہار شائع فرمایا۔ آپؑ کا یہ اشتہار لاہور اور دوسرے شہروں میں تقسیم کیا گیا اور انگریزی میں ترجمہ کروا کربشپ صاحب کو بھی ارسال کیا گیا لیکن بشپ صاحب اس مقابلے کی تاب نہ لاسکے اور ایسے مرعوب اور خاموش ہوئے کہ گویا انہوں نے کوئی چیلنج کیا ہی نہیں تھا۔
بشپ صاحب نے اپنی ناکامی کی خفت مٹانے کے لیے اشتہار دیا کہ ۲٥؍مئی کو زندہ رسول پر لیکچر دیں گے۔ ۲٥؍مئی کو مشن ہائی سکول رنگ محل لاہور میں پادری لیفرائے کے لیکچر زندہ رسول کے جواب میں حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ نے حضرت مسیح موعودؑ کا مضمون پڑھا۔ حاضرین اور پادری صاحب حیران تھے کہ جو لیکچر ابھی ابھی پادری صاحب نے دیا تھا اس کا تفصیلی جواب حضرت مسیح موعودؑ کے لیکچر میں موجود تھا۔ہر دلیل جو پادری صاحب نے دی تھی اُسے حضورِ اقدسؑ نے توڑ کر رکھ دیا تھا۔ حضرت مسیح موعودؑ کا یہ علمی اعجاز تھا جو کہ لاہور کی سر زمین پر ہوا۔
سفرِ جہلم کے دوران لاہور میں قیام
حضرت مسیح موعودؑ نے جنوری ۱۹۰۳ء میں ایک مقدمے کے سلسلہ میں جہلم جاتے ہوئے لاہور میں قیام فرمایا۔
اس دورے کے دوران آپؑ کو الہام ہوا: اُرِیْکَ بَرَکَاتٍ مِّنْ کُلِّ طَرفٍ یعنی میں تجھے ہر ایک پہلو سے برکتیں دکھلاؤں گ
دورانِ سفر آپؑ نے میاں چراغ دین صاحب رئیس لاہور کے مکان واقع بیرون دہلی دروازہ میں قیام فرمایا۔ اس سفر کے دوران حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحبؓ شہیدِ کابل بھی آپؑ کے ہمراہ تھے۔
حضرت مسیح موعودؑ کا بغرضِ تبلیغ سفرِ لاہور
حضورِاقدسؑ نے سفرِ جہلم سے واپسی پر بھی ایک روز لاہور میں قیام فرمایا۔ رات کے وقت جب کہ بہت سے حاضرین جمع ہو گئے تھے حضورِ اقدسؑ نے اپنی تقریر کے دوران میں خود ہی اس خواہش کا اظہار فرمایا کہ ہمارا ارادہ ہے کہ کسی وقت لاہور میں چند روز ٹھہر کر حجت کے لیے تمام مخالفینِ اسلام کو بذریعہ ایک اعلان کے مدعو کر کے تبلیغ کی جاوے اور نیز جو جوبدگمانیں ہماری نسبت ہمارے کم فہم مخالفوں نے عوام الناس کے دلوں میں بٹھا رکھی ہیں ان کے دور کرنے کے لیے کوشش کی جائے تا کہ یہ لوگ غلطی میں رہ کر جاہلانہ موت نہ مر یں۔(البدر ۲۴؍جنوری ۱۹۰۴بحوالہ تاریخ احمدیت جلد ۲صفحہ ۳۴۹)

چنانچہ اس ارادے کی تکمیل کے لیے حضرت مسیح موعودؑ نے مورخہ ۲۰؍اگست ۱۹۰٤ء کو سفرِ لاہور اختیار فرمایا۔ حضورِ اقدسؑ بذریعہ ٹرین لاہور تشریف لائے۔ جب ٹرین لاہورریلوے اسٹیشن پر پہنچی تواس وقت حضورِ اقدسؑ کی زیارت کے لیے کیا مسلمان، کیا اہل ہنود اور کیا انگریز اس قدر تعداد میں اکٹھے تھے کہ تل دھرنے کی بھی جگہ نہیں تھی۔
روایت کے مطابق چند لوگوں نے یہ مشورہ کیا کہ قوموں کے بڑے بڑے لیڈر جب آتے ہیں تو قوموں کے نوجوان گھوڑوں کی بجائے خود ان کی گاڑیاں کھینچتے ہیں اور ہمیں بھی اللہ تعالیٰ نے لیڈر دیا ہے پس آج گھوڑوں کی بجائے ہم حضور اقدسؑ کی گاڑی کھینچیں گے۔
جب حضورِ اقدسؑ اسٹیشن سے باہر تشریف لائے تو گاڑی کو دیکھ کر فرمایا کہ گھوڑے کہاں ہیں؟ نوجوانان نے عرض کیا کہ حضور دوسری قوموں کے لیڈر آتے ہیں تو ان کی قوم کے نوجوان ان کی گاڑیاں کھینچتے ہیں۔ آج حضور کی گاڑی کھینچنے کا شرف ہم حاصل کریں گے۔ حضورِ اقدسؑ نے یہ بات سن کر فرمایا:فوراً گھوڑے جوتو! ہم انسان کو حیوان بنانے کے لیے نہیں آئے ہم تو حیوانوں کو انسان بنانےکے لیے آئے ہیں۔
اس دورے کے دوران حضورِ اقدسؑ کا قیام میاں معراج الدین صاحب عمر کے مکان واقع بیرون دہلی گیٹ میں ہوا جبکہ باقی مہمانوں کے لیےمیاں چراغ دین صاحب کا مکان مبارک منزل مختص کیا گیا۔
جیسا کہ خاکسار بیان کر چکا ہے کہ حضورِ اقدسؑ کے اس دورے کا مقصد تبلیغ اور اتمام حجت تھا۔ حضورِ اقدسؑ نے اس دورے کے دوران چار عظیم الشان لیکچرز دیے۔
پہلا لیکچر مورخہ ۲۱؍اگست ۱۹۰٤ء کو ہوا جس میں آپؑ نے نماز ظہر و عصر کے بعد اصلاح نفس،مذہب کی غرض،وحدت جمہوری اور اپنے دعویٰ مسیحیت و مہدویت پر بصیرت افروز انداز میں روشنی ڈالی اور احبابِ جماعت کو تقویٰ اختیار کرنے کی تلقین فرمائی۔
دوسرا لیکچر مورخہ ۲۸؍اگست ۱۹۰٤ءکو ہوا۔ حضورؑ صبح سات بجے تشریف لائے۔ آپؑ نے توبہ کی طرف توجہ دلاتے ہوئے اپنے دعویٰ کے زبردست دلائل پیش کیے۔ اس لیکچر کے دوران تقریباً ڈیڑھ ہزار سے زائد افراد مو جود تھے۔ بعد از لیکچر حضور اقدسؑ نے تمام حاضرین کو شرفِ مصافحہ بخشا۔
مورخہ ۲؍ستمبر ۱۹۰٤ء کو بعد از نماز جمعہ حضورِ اقدسؑ نے تیسرا لیکچر تبلیغ و تربیت کے موضوع پر دیا۔ جب آپؑ اس مقام پر پہنچے کہ قرآن شریف میں مسیح کی وفات کا ذکر موجودہےمگر یہ حضرات ماننے میں نہیں آتے اور اس عقیدے پر مخالف قرآن شریف آڑے آتے ہیں تو حضورِ اقدسؑ کی آواز اور تقریر میں ایک خاص جلال اور شوکت پیدا ہوئی جو آپؑ کی اپنے آقا و مولیٰ حضرت اقدس محمد مصطفیٰ ﷺ سے دلی عقیدت و محبت کی عکاس تھی۔
حضورِ اقدسؑ کےچوتھےعظیم الشان لیکچرکا آغاز مورخہ ۳؍ستمبر۱۹۰٤ء کو شام ساڑھے سات بجے ہوا۔ اس لیکچر کا موضوع ’’اس ملک کے موجودہ مذاہب اور اسلام‘‘ تھا۔ یہ لیکچر دربار داتا گنج بخش کے عقب میں واقع میلارام کے منڈوہ میں پڑھا گیا۔ آپؑ کا یہ لیکچر حضرت مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹی ؓنے پڑھا۔ یہ لیکچر تین گھنٹہ میں ختم ہوا۔
اس لیکچر کا اختتام اس دعویٰ پر ہوا کہ میری پیشگوئیوں کا یہ حال ہے کہ اگر کوئی صبر اور صدق سے سننے والاہو تو ایک لاکھ سے بھی زیادہ پیشگوئیاں اور نشان میری تائید میں ظاہر کیے گئے ہیں۔ میں امید رکھتا ہوں اور یقین کامل سے کہتا ہوں کہ اگر کوئی شخص چالیس روز بھی میرے پاس رہے تو کوئی نشان دیکھ لے گا۔
لیکچر کے بعد حاضرین کے اصرار پر حضورؑ نے ایک مختصر مگر وجد انگیز خطاب فرمایا جس میں حاضرین کو صبر و سکون سے تقریر سننے پر شکریہ ادا کرتے ہوئے انہیں اس طرف توجہ دلائی کہ مذہب تو اس لئے ہوتا ہے کہ اخلاق وسیع کرے جیسے خدا کے اخلاق وسیع ہیں۔ پس اسی طرح حقیقی مذہب والا تنگ ظرف نہیں ہو سکتا۔ کوئی ہزاروں اسے گالیاں دے وہ اس پر پتھر نہیں برسادیتا۔ آخر میں حضورؑ نے یہ قیمتی نصیحت فرمائی ’’دل کو روشن کرو پھر دوسروں کی اصلاح کے لئے زبان کھولو۔ اس ملک کی شائستگی اور خوش قسمتی کا زمانہ تب آئے گا جب نرمی زبان نہ ہو گی بلکہ دل پر دارومدار ہو گا۔ پس اپنے تعلقات خداتعالیٰ سے زیادہ کرو۔ یہی تعلیم سب نبیوں نے دی ہے اور یہی میری نصیحت ہے۔‘‘(تاریخ احمدیت جلد۲ صفحہ نمبر ۳٥۲، ۳۵۳)
بہر حال مخالفت کی شدت کے باوجود حضورِ اقدسؑ کا یہ لیکچر انتہائی کامیاب رہا اور ہزاروں سعید روحوں تک اسلام احمدیت کا پیغام پہنچا۔
انہی دنوں کی بات ہے کہ ایک فقیر نے حضورِ اقدسؑ سے اصرار کیا کہ آپ مجھےلکھ کر دیں کہ جو کچھ آپ نے اپنی کتابوں میں لکھا ہے وہ سچ ہے۔ حضورِ اقدسؑ نے فرمایا کہ ایک ہفتہ کے بعد آؤ ہم لکھ دیں گے۔ ایک ہفتہ کے بعد جب وہ آیا تو آپؑ نے یہ الفاظ لکھ کر اور مہر لگا کر دیے۔
’’میں خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر جو جھوٹوں پر لعنت کرتا ہے یہ گواہی دیتا ہوں کہ جو کچھ میں نے دعویٰ کیا ہے یا جو کچھ اپنے دعویٰ کی تائید میں لکھا ہے یا جو مَیں نے الہامِ الٰہی اپنی کتا بوں میں درج کیے ہیں وہ سب صحیح ہے سچ ہے اور درست ہے۔ والسلام علی من اتبع الھدیٰ۔ ‘‘(تاریخ احمدیت جلد۲ صفحہ۳٥٤)
آریہ سماج لاہور وچھو والی مذہبی کانفرنس
دسمبر ۱۹۰۷ء میں آریہ سماج وچھو والی لاہور میں مذاہب کانفرنس کے نام پر ایک جلسہ منعقد ہوا۔ اس جلسہ میں مختلف مذاہب کے لوگوں کو شرکت کی دعوت دی گئی۔ یہ طے ہوا کہ اس جلسہ میں کسی مذہب کے پیشواکے خلاف کوئی ایسی بات نہیں کی جائے گی جو دل آزاری کا موجب ہو۔ حضرت مسیح موعودؑ نے حضرت مولوی نورالدین صاحبؓ کی قیادت میں ایک وفد لاہور روانہ فرمایا۔ اس وفد میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحبؓ، حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ۔ حضرت مولوی یعقوب علی عرفانی صاحبؓ اورحضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ شامل تھے۔ جلسے کے دوسرے دن حضرت مولوی نور الدین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت مسیح موعودؑ کا مضمون پڑھ کر سنایا۔
اس کانفرنس میں عیسائیوں، سنا تنیوں اور دوسرے غیر مذاہب کے نمائندگان کی تقاریر میں کوئی خلاف تہذیب و شائستگی کی بات نہیں تھی اور حضورِ اقدسؑ کا مضمون تو مکمل طور پرصلح اور امن کا پیغام تھا۔ مگر افسوس اسی روز ہی ڈاکٹر چرنجیو بھاردواج جس نے تہذیب و شائستگی کا یقین دلایا تھا کھڑا ہوا اور اپنے مضمون میں نہایت شوخی اور بے باکی سے حضرت محمدﷺ کی مقدس ذات پر ایسی ایسی تہمتیں لگائیں کہ مسلمان بہت رنجیدہ ہوئے۔ بعد ازاں اجلاس کے صدر نے معذرت بھی کی کہ ہمیں اس کا پتہ نہیں تھا۔ لیکن درحقیقت بد گوئی اور شرارت ایک سوچی سمجھی انتقامی سازش تھی۔ اس سازش کا ایک ہی مقصد تھا کہ دسمبر ۱۸۹٦ء میں جلسہ اعظم مذاہب کے موقع پر اسلام کو حضور اقدسؑ کے ذریعہ سے جو شان دار فتح نصیب ہوئی تھی اس پر پردہ ڈال سکیں مگر ان ناشائستہ حرکات سے ان کی مزید ذلت و رسوائی ہوئی۔
اپنے آقاﷺ کی غیرت کی ایک عظیم مثال
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحبؓ فرماتے ہیں کہ جب ہم کانفرنس سے واپس آئے اور حضورِ اقدسؑ کو اس بات کا علم ہوا تو …آپؑ کو اس قسم کا غصہ پیدا ہوا کہ ویسا غصہ آپ میں بہت ہی کم دیکھا گیا ہے۔ آپؑ بار بار فرماتے دوسرے مسلمان تو مردہ ہیں ان کو کیا علم ہے کہ رسول کریمﷺ کی کیا شان ہے… تمہیں تو ایک منٹ کے لیے بھی اس جگہ پر بیٹھنا نہیں چاہیے تھا۔ بلکہ جس وقت سےاس نے یہ الفاظ کہے تھے تمہیں اسی وقت کھڑے ہو جانا چاہیے تھا اور ہال سے باہر نکل آنا چاہیے تھا۔ اور اگر وہ تمہیں نکلنے کے لیے راستہ نہ دیتے تو پھر اس ہال کو خون سے بھرا ہوا ہوناچاہیے تھا۔ یہ کیوں کر تم نے بے غیرتی دکھائی کہ رسول کریمﷺ کو گالیاں دی گئیں اور تم خاموشی سے بیٹھ کر ان گالیوں کو سنتے رہے۔ (تاریخ احمدیت جلد۲ صفحہ ٥۰٤)
حضرت مسیح موعودؑ کا آخری سفرِ لاہور
اپریل ۱۹۰۸ء میں حضرت اقدسؑ نے اُم المومنین حضرت سیّدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہ رضی اللہ عنہا کے علاج کی غرض سے سفرِ لاہور اختیار فرمایا۔حضورِ اقدسؑ کو غالباً اپنی طبیعت کے کسی مخفی اثر کے ماتحت ان ایام میں سفر اختیار کرنے میں تامل تھا مگر حضرت اُم المومنین کے اصرار پر حضورؑ تیار ہو گئے۔ اور مورخہ ۲۹؍اپریل ۱۹۰۸ء کو حضورِ اقدسؑ نے سرزمین لاہور کو آخری بار قدم بوسی کا شرف بخشا۔
حضورِ اقدسؑ کی ان دنوں رہائش جس عمارت میں تھی وہ احمدیہ بلڈنگز کے نام سے موسوم تھا۔ ان دنوں احمدیہ بلڈنگز میں مختلف احمدیوں کے دو چار چھوٹے چھوٹے مکانات کے علاوہ تین بڑی عمارتیں بھی موجود تھیں۔
حضورِ اقدسؑ بظاہر تبدیلی آب و ہوا کی نیت سے وہاں آئے تھے لیکن اس سفر کے دوران بھی آتے ہی لوگوں کو پیغام حق پہنچانے میں مصروف ہو گئے۔ حضورِ اقدسؑ حسبِ معمول نمازوں کے اوقات میں باہر تشریف لاتے تو خدام اور زائرین کا رش لگ جاتا۔ آپؑ سے ملاقات کرنے والوں میں رؤسا، سیاسی لوگ مسلمان، سکھ اور ہندو غرض کہ ہر طبقہ کے لوگ شامل ہوتے اور فیض اٹھاتے۔ اور ان دنوں میں خاص کر بہت سی سعید روحوں نے اسلام احمدیت کو قبول کیا اور بیعت میں داخل ہوئے۔
مورخہ ۳۰؍اپریل ۱۹۰۸ءکو حضورِ اقدسؑ کا لاہور میں پہلا دن تھا۔پہلے دن سے ہی پوری قوت کے ساتھ پیغام حق پہنچانا شروع کر دیا۔چنانچہ اس روز فرمایا:’’ہمیں خدا نے ایک پکا وعدہ دیا ہے اس میں ذرا بھی شک نہیں اور وہ یہ ہے کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے۔‘‘ نیز فرمایا: ’’جب بات حد سے بڑھ جاتی ہے تو فیصلہ کو خدا تعالیٰ اپنے ہاتھ میں لے لیتا ہے۔ ہمیں تبلیغ کرتے ہوئے چھبیس سال ہو ئے اور جہاں تک ممکن تھا ہم ساری تبلیغ کر چکے ہیں۔ اب وہ خود ہی کوئی ہاتھ دکھلاوے گا اور فیصلہ کرے گا۔‘‘ (تاریخ احمدیت جلد ۲ صفحہ ٥۲۷)
مورخہ ۱۷؍مئی ۱۹۰۸ء کو حضورِ اقدسؑ کی خواہش کے مطابق لاہور کے عمائدین و رؤسا کو کھانے پر مدعو کیا گیا۔ جب لوگ جمع ہو گئے تو دوپہر گیارہ بجے حضورؑ تشریف لائے اور اپنی تقریر فرمائی۔ اس تقریر میں ان تمام اعتراضات کے مکمل اور تسلی بخش جوابات دیے جو حضورؑ کے دعویٰ اور تعلیمات پر مخالفین کی طرف سے کیے جاتے تھے۔
حضورِاقدسؑ نے اسی سفر کے دوران اپنی تصنیف پیغام صلح بھی تصنیف فرمائی جس میں آپؑ نے مسلمانوں اور ہندوؤں کو مذہبی طور پر صلح کی تعلیم دی۔
مورخہ ۲٥؍مئی ۱۹۰۸ء کو حضورِ اقدس علیہ السلام نے اپنی آخری تقریر فرمائی جس میں آپؑ نے فرمایا:’’عیسیٰ کو مرنے دو کہ اس میں اسلام کی حیات ہے۔ ایسا ہی عیسیٰ موسوی کی بجائےعیسیٰ محمدی آنے دو کہ اس میں اسلام کی عظمت ہے۔‘‘ (تاریخ احمدیت جلد ۲ صفحہ ٥۳۲)
حضرت مسیح موعودؑ کو اس سفر کے دوران تواتر سے الہامات ہو رہے تھے جن سے آپؑ کو اندازہ ہو گیا تھا کہ آپ کی وفات کا وقت قریب ہے۔
مورخہ ۲٥؍مئی ۱۹۰۸ء کو رات گیارہ بجے طبیعت زیادہ خراب ہو گئی جس سے کافی کمزوری ہو گئی جس سے بولنے میں بھی کافی دشواری ہو گئی مگر جو کلمہ بھی آپؑ کے منہ سے سنائی دیتا تھا وہ ان تین لفظوں میں محدود تھا۔ اللہ۔ میرے پیارے اللہ۔ اس کے سوا کچھ نہیں کہا۔
مورخہ ۲٦؍مئی ۱۹۰۸ء کو صبح کی نماز کا وقت ہوا تو آپؑ نے دریافت کیا کہ نماز کا وقت ہو گیا ہے۔ بتانے پر آپؑ نے لیٹے لیٹے ہی نماز ادا کی۔ آخر ساڑھے دس بجے کے قریب حضرت مسیح موعودؑ نے ایک دو لمبے لمبے سانس لیے اور آپؑ کی روح قفس عنصری سے پرواز کر کے اپنے ابدی آقا اور محبوب کی خدمت میں پہنچ گئی۔ اناللّٰہ وانا الیہ راجعون
حضورِ اقدسؑ کے وصال کی خبر آناً فاناً تمام شہر میں پھیل گئی۔ چونکہ حضورؑ ۲٥؍مئی تک باقاعدہ اپنے کاموں میں مصروف تھے، اسی روز حسبِ معمول سیر کے لیے بھی تشریف لے کر گئے اس لیے باہر کے احباب تو الگ رہے لاہور کے احمدیوں کو بھی حضورؑ کے وصال کا یقین نہیں آ رہا تھا۔ اسی پریشانی میں احمدیہ بلڈنگز میں آتے اس خبر کو صحیح پا کر شدتِ غم کی وجہ سےدیوانوں کی طرح نظر آتے تھے۔
غسل دینے کے بعد کثیر تعداد نے جنازہ پڑھا اور آپؑ کی زیارت کے لیے آتے رہے۔ تقریباً چار بجے جنازے کو لاہور ریلوے اسٹیشن لے جایا گیا اور تقریباً پونے چھ بجے کے قریب گاڑی لاہور سے بٹالہ کے لیے روانہ ہوئی۔
یوں ۲٦؍مئی ۱۹۰۸ء کو اس موعود وجود کا یہ آخری سفر لاہور سفرِ آخرت کا پیش خیمہ ثابت ہوا جو اپنے پیچھے ہزاروں سوگوار اور مخلصین کی ایک بہت بڑی جماعت چھوڑ گیا۔
اے خدا کے برگزیدہ مسیح! تجھ پر ہزاروں درود و سلام کہ تو نے اپنی پاک تعلیم اور نمونے سے روحانی انقلاب کا ایسا بیج بویا ہے کہ وہ اب بڑھتا، پھلتا اور پھولتا جائے گااور کوئی نہیں جو اس کی ترقی میں روک ڈال سکے۔ سو مبارک ہیں وہ جو وقت کی نزاکت کو پہچانیں اور سلسلہ کے ساتھ اپنی وفاداری کے عہد کو استوار کریں۔ اللہ تعالیٰ خاکسار کو اور تمام جماعت کو محض اپنے فضل سے اس راہ پر گامزن ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
٭…٭…٭
مزید پڑھیں: ایک روحانی بادشاہ