حکایات و سیرت حضرت مسیح موعودؑ
ان روایتوں کا آج تک جاری رہنا بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے طفیل سے ہی ہے۔ اگر جماعت کے لٹریچر میں یہ نہ ہوتیں تو کبھی کی یہ کہیں دفن ہو چکی ہوتیں اور اِس جدید زمانے میں ان کو کوئی بھی نہ جانتا(حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ)
حضرت مصلح موعودؓ کا یہ طریق تھا کہ آپ اپنے خطبات اور خطابات میں حضرت مسیح موعودؑ کے بیا ن فرمودہ بعض حکایات، واقعات یا لطائف بیان فرماتے تھے۔حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اس حوالے سے فرماتے ہیں:’’مجھے خیال آیا کہ پاک و ہند کی پرانی کہانیاں اور روایتیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بیان فرمائی ہیں ان روایتوں کا آج تک جاری رہنا بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے طفیل سے ہی ہے۔ اگر جماعت کے لٹریچر میں یہ نہ ہوتیں تو کبھی کی یہ کہیں دفن ہو چکی ہوتیں اور اِس جدید زمانے میں ان کو کوئی بھی نہ جانتا۔ …یہ صرف کہانیاں ہی نہیں بلکہ بعض حقیقی واقعات بھی ہیں۔ بعض اَور طرز میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے نصائح بھی فرمائی ہوئی ہیں۔ بعض جگہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام بعض باتوں کی طرف توجہ دلاتے ہیں جو بظاہر تو لطیفے ہیں لیکن ان لطیفوں میں سے بھی آپ اصلاح کا پہلو ہمارے سامنے پیش فرما دیتے ہیں۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ۴؍مارچ۲۰۱۶ء)
خطباتِ محمود جلدنہم آج سے سو سال قبل ۱۹۲۵ء کے خطباتِ جمعہ پر مشتمل ہے۔ ان خطبات میں آپؑ کی جو سیرت اور آپ کے بیان فرمودہ واقعات بیان فرمائے ان میں سے ایک انتخاب پیش ہے۔
ایک حکایت
نفس کی خواہشات کی بجائے خدا تعالیٰ کی رضا کی خاطر سارے کام کرنے کے حوالے سے حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ ’’صوفیاء نے ایک واقعہ لکھا ہے جسے حضرت مسیح موعودؑ بھی بیان فرمایا کرتے تھے اور میں نے پہلے حضرت صاحبؑ ہی سے سنا ہے کہ ایک بزرگ روزانہ ایک تھال کھانے کا تیار کرا کر کہیں لے جایا کرتے تھے۔ اپنی بیوی کو انہوں نے کچھ نہیں بتایا تھا کہ وہ کس کے لئے لے جاتے ہیں جس سے ان کی بیوی کو شبہ ہوا کہ شائد ان کا کسی سے ناجائز تعلق ہے۔ اتفاق سے وہ بزرگ ایک دن بیمار ہو گئے۔ انہوں نے بیوی سے کہا کہ چاول پکا کر فلاں جگہ دریا کے پار ایک بزرگ رہتے ہیں اس کے پاس لے جاؤ۔ بیوی نے کہا کہ راستہ میں دریا ہے میں کیسے پار اتروں گی۔ انہوں نے کہا کہ میرا نام لیکر دعا کرنا کہ الٰہی اس شخص کا تجھے واسطہ دیتی ہوں جو کبھی عورت کے پاس نہیں گیا۔چنانچہ وہ کھانا لیکر گئی اور دریا کے کنارے کھڑے ہو کر اسی طرح دعا کی جس کے بعد ایک کشتی آگئی وہ سوار ہو کر پار اس بزرگ کے پاس چلی گئی جب وہ چاولوں کا طباق کھا چکے تو اس بزرگ سے اس نے کہا کہ اب میں واپس کیسے جاؤں۔ اس بزرگ نے کہا کہ تم میرا نام لیکر خدا سے دعا کرنا کہ الٰہی !اس شخص کا میں تجھے واسطہ دیتی ہوں جس نے کبھی ایک دانہ بھی چاول کا نہیں کھایا۔ چنانچہ اس نے اسی طرح دعا کی جھٹ کشتی آگئی اور سوار ہو کر گھر آگئی اور اپنے میاں سے کہنے لگی کہ میں تو سمجھتی تھی کہ خدا سچائی سے دعائیں قبول کرتا ہے مگر آج معلوم ہوا کہ وہ جھوٹ سے زیادہ قبول کرتا ہے کیونکہ میں تمہاری بیوی ہوں اور یہ تمہارے بچے ہیں اگر عورت کے پاس تم نہیں گئے تو یہ بچے کس کے ہیں اور اس بزرگ نے بھی میرے سامنے چاولوں کا بھرا ہوا طباق کھایا ہے تو یہ درست کیسے ہو سکتا ہے کہ انہوں نے کبھی ایک دانہ بھی چاولوں کا نہیں کھایا۔ انہوں نے جواب دیا کہ یہ جھوٹ نہیں سچ ہے کیونکہ نہ میں کبھی اپنے نفس کی خواہش سے عورت کے پاس گیا اور نہ کبھی اس بزرگ نے اپنے نفس کی خواہش سے کھانا کھایا ہمارے تعلقات اور کھانا پینا اس کے حکم کے ماتحت اور احتساباً ہی ہیں۔‘‘(خطباتِ محمود جلد نہم صفحہ ۲۴-۲۵)
پاؤ بھر تِل
مختلف طبیعتوں اور احساسات کے حامل انسانوں کے حوالے سےحضرت مصلح موعودؓ کا ایک واقعہ خطبات محمود کی اس جلد میں ملتا ہے۔ اس کو حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے یوں بیان فرمایا ہےکہ ’’دنیا میں مختلف طبیعتوں اور احساسات کے حامل انسان ہوتے ہیں۔ بعض کی حسّیں تیز ہوتی ہیں، بعض کی کم۔ بعض خاص حالات کی وجہ سے کسی موسم کے یا حالات کے عادی ہو جاتے ہیں اور بعض کے لئے وہ حالات سخت ہوتے ہیں گویا وہ عادت نہ ہونے کی وجہ سے حسّاس ہوتے ہیں یا ان کی طبیعت زیادہ حساس ہوتی ہے۔ پس سردی گرمی، خوشبو اور بدبو کا احساس حسّوں کے کم یا زیادہ ہونے سے ہوتا ہے۔ اور یہ انسان کی حسّیں ہیں جو اس فرق کو ظاہر کرتی ہیں اور انسانوں کی اکثریت اس لحاظ سے حسّاس ہوتی ہے جن کو سردی گرمی کا بھی احساس ہوتا ہے، خوشبو بدبو کا بھی احساس ہوتا ہے اور بعض احساسات ہوتے ہیں۔ اور جن کو احساس نہیں ہوتا وہ یہ نہیں ثابت کرسکتے کہ ان چیزوں کے اثرات نہیں ہیں یا یہ کوئی چیز ہی نہیں ہے۔ بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ سردیوں میں بھی جب لوگوں کے پاؤں ٹھٹھر رہے ہوتے ہیں، موٹی جرابیں پہنی ہوتی ہیں تو برف میں رہنے والا یا بعض لوگ جن کو سردی کم لگتی ہے وہ بغیر جراب کے ہوتے ہیں اور کہتے ہیں ہمارے پاؤں بڑے گرم ہیں۔ اسی طرح بعض اور احساسات ہیں۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ سردی نہیں ہے یا سردی اثر نہیں کرتی کیونکہ اکثریت حسّاس ہوتی ہے۔ پس ان چیزوں کے اثرات ہوتے ہیں اور اکثریت کو یہ احساس ہوتا ہے اور اس وجہ سے یہ فرق بھی ظاہر ہو جاتا ہے۔
بہرحال حضرت مصلح موعودؓ احساس کے اس فرق کی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے حوالے سے ایک دنیاوی مثال بھی دیتے ہیں۔ آپ فرماتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے تھے کہ کسی شہر میں چند شہری آپس میں ذکر کر رہے تھے کہ تِل بہت گرم ہوتے ہیں۔ ایک پاؤ تِل کوئی نہیں کھا سکتا۔ اگر کھائے تو فوراً بیمار ہو جائے۔ (اکثریت کی یہی حالت ہو گی۔) یہ ہو نہیں سکتا کہ کوئی پاؤ بھر تِل کھائے اور بیمار نہ ہو جائے۔ اس گفتگو کے دوران ایک نے کہا کہ اگر کوئی اتنے تِل کھائے تو مَیں اسے پانچ روپے انعام دوں۔ کوئی زمیندار وہاں سے گزر رہا تھا۔ (ان لوگوں کو کچی چیزیں کھانے کی بھی اور زیادہ کھانے کی بھی عادت ہوتی ہے۔ کیونکہ اس کے بعد کام بھی کر لیتے ہیں یا بعض طبیعتیں ایسی ہوتی ہیں تو وہ) زمیندار بھی کوئی اَکّھڑقسم کا زمیندار تھا۔ وہ نہایت تعجب سے اور حیرت سے ان کی یہ باتیں سنتا رہا اور خیال کر رہا تھا کہ عجیب بات ہے کہ ایسے مزے کی چیز کھانے پر پانچ روپے انعام بھی ملتے ہیں (کہ تِل کھانے ہیں اور پانچ روپے انعام ملیں گے۔) اس نے آگے بڑھ کے پوچھا کہ ٹہنیوں سمیت کھانے ہیں یا بغیر ٹہنیوں کے۔ یہ اس لئے پوچھا کہ اس کی سمجھ میں یہ بات نہیں آ رہی تھی کہ بغیر ٹہنیوں کے پاؤ بھر تل کھانے سے پانچ روپے انعام کس طرح ہو سکتا ہے۔ گویا وہ ٹہنیوں سمیت بھی کھانے کے لئے تیار تھا حالانکہ باتیں کرنے والے اتنے تِل کھانا ناممکن خیال کر رہے تھے۔ اب ان دونوں کے احساس میں کتنا بڑا فرق ہے۔ ایک تو وہ ہیں کہ پاؤ بھر تِل کھانے ناممکن خیال کرتے ہیں اور ایک وہ ہے کہ جو بمع ٹہنیاں کھانے کے لئے تیار ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ بغیر ٹہنیوں کے تو یہ معمولی مزے کی بات ہے۔ اس پر کب پانچ روپے انعام مل سکتا ہے۔ پس دنیا میں جس قدر فرق ہیں یہ احساسات کے فرق ہیں۔(ماخوذ از خطبات محمود جلد ۹صفحہ ۸۲تا ۸۶) اور یہی قانون روحانی دنیا میں بھی چلتا ہے۔ کسی پر نماز کا زیادہ اثر ہوتا ہے، کسی پر کم اثر ہوتا ہے۔ بعض ایسے ہیں جو صرف نمازیں پڑھتے ہیں یا ظاہراً نمازیں پڑھ رہے ہوتے ہیں۔ ٹکّریں ماریں اور چلے گئے۔ نماز کا کوئی اثر ہی نہیں ہو رہا ہوتا۔ روحانی حسّوں کے ثبوت کے لئے انہی کی شہادت قبول ہو گی جن میں یہ حسّ زیادہ ہو۔ جن کو اثر زیادہ ہوتا ہو، جو عبادت کرتے ہوں اور عبادت کا اثر بھی ان پر ظاہر ہوتا ہو۔(خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۹؍جنوری ۲۰۱۶ء)
بچوں کےروزے
چھوٹی عمر میں بچوں کو روزہ نہ رکھوانے کے حوالے سے حضرت مسیح موعودؑ کا اسوہ بیان کرتے ہوئےفرمایا:’’مجھے یاد ہے جب ہم چھوٹے تھے ہمیں بھی روزہ رکھنے کا شوق ہوتا تھا۔ مگر حضرت مسیح موعودؑ ہمیں روزہ نہیں رکھنے دیتے تھے۔ اور بجائے اس کے کہ ہمیں روزہ رکھنے کے متعلق کسی قسم کی تحریک کرنا پسند کریں ہمیشہ ہم پر روزہ کا رعب ڈالتے تھے۔ تو بچوں کی صحت کو قائم رکھنے اور ان کی قوت کو بڑھانے کے لئے روزہ رکھنے سے انہیں روکنا چاہیے۔ اس کے بعد جب ان کا وہ زمانہ آجائے جب وہ اپنی قوت کو پہنچ جائیں جو پندرہ سال کی عمر کا زمانہ ہے۔ تو پھر ان سے روزے رکھوائے جائیں اور وہ بھی آہستگی کے ساتھ پہلے سال جتنے رکھیں دوسرے سال اس سے کچھ زیادہ اور تیسرے سال اس سے زیادہ رکھوائے جائیں۔ اس طرح بتدریج اس وقت ان کو روزہ کا عادی بنایا جائے۔ ‘‘ (خطباتِ محمود جلد نہم صفحہ ۸۸-۸۹)
عقیدہ چھپانا
اعلیٰ افسر کی خوش آمد کی غرض سے ماتحت کا اپنا عقیدہ چھپانے کا ایک واقعہ یوں بیان فرمایاکہ ’’حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک گورداسپور کے ہی اعلیٰ افسر کا ذکر فرمایا کرتے تھے۔ وہ ای اے سی تھا اور وہابی عقیدہ کا تھا۔ ان ایام میں وہابیوں کے متعلق گورنمنٹ کو کچھ شبہات تھے۔ ان ڈپٹی صاحب کے متعلق کسی نے ڈپٹی کمشنر سے جاکر رپورٹ کر دی کہ فلاں شخص وہابی ہے۔ اس پر ڈپٹی کمشنر نے ان کو بلا کر پوچھا مجھے رپورٹ پہنچی ہے کہ آپ وہابی ہیں۔ میں تو آپ کے متعلق ایسا خیال نہیں کرتا۔ اس پر انہوں نے کہا کہ یہ بالکل جھوٹ ہے میں ہرگز وہابی نہیں ہوں۔ میرے متعلق آپ کے پاس کسی نے غلط رپورٹ کی ہے۔ اس وقت کے وہابیوں اور دوسرے لوگوں میں بڑا امتیاز یہ تھا کہ وہابی کنچنیوں وغیرہ کے نچوانے کو جائز نہ سمجھتے تھے۔ ان ڈپٹی صاحب نے ڈپٹی کمشنر کے پاس سے واپس آکر بڑی دعوت کی اور کنچنیاں نچوائیں تا ڈپٹی کمشنر اور لوگوں کو یقین ہو جائے کہ وہ وہابی نہیں ہیں۔ پس جب تعلیم یافتہ لوگ اپنے افسروں کو خوش کرنے کے لئے اپنے عقائد تک کو چھوڑ بیٹھتے ہیں تو جو لوگ غیر تعلیم یافتہ ہوں ان پر اپنے افسروں اور حکاموں کا اور بھی زیادہ اثر اور رعب ہوگا۔‘‘(خطباتِ محمود جلد نہم صفحہ ۱۲۴-۱۲۵)
نماز باجماعت کا خیال
حضرت مسیح موعودؑ نماز با جماعت کےحوالے اپنی اولاد کی کس قدر نگرانی فرماتےتھے ،اس کا ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ’’ایک دفعہ حضرت صاحب (حضرت مسیح موعود علیہ السلام) کچھ بیمار تھے اس لئے جمعہ کے لئے مسجد میں نہ جا سکے۔ مَیں اس وقت بالغ نہیں ہوا تھا کہ بلوغت والے احکام مجھ پر جاری ہوں۔ تاہم مَیں جمعہ پڑھنے کے لئے مسجد کو آ رہا تھا کہ ایک شخص مجھے ملا۔ اس وقت کی عمر کے لحاظ سے تو شکل اس وقت تک یاد نہیں رہ سکتی۔ مگر اس واقعہ کا اثر مجھ پر ایسا ہوا کہ اب تک مجھے اس شخص کی صورت یاد ہے۔ محمد بخش ان کا نام ہے۔ وہ اب قادیان میں ہی رہتے ہیں۔ مَیں نے ان سے پوچھا۔ آپ واپس آرہے ہیں۔ کیا نماز ہو گئی ہے؟ تو انہوں نے کہا۔ آدمی بہت ہیں ۔ مسجد میں جگہ نہیں تھی۔ مَیں واپس آگیا۔ میں بھی یہ جواب سن کر واپس آ گیا اور گھر میں آ کر نماز پڑھ لی۔ حضرت صاحب نے یہ دیکھ کر مجھ سے پوچھا مسجد میں نماز پڑھنے کیوں نہیں گئے؟خدا تعالیٰ کا فضل ہے کہ میں بچپن سے ہی حضرت صاحب کا ادب ان کے نبی ہونے کی حیثیت سے کرتا تھا۔ مَیں نے دیکھا کہ آپ کے پوچھنے میں ایک سختی تھی اور آپ کے چہرہ سے غصہ ظاہر ہوتا تھا۔ آپ کے اس رنگ میں پوچھنے کا مجھ پر بہت اثر ہوا۔ جواب میں مَیں نے کہا کہ میں گیا تو تھا لیکن جگہ نہ ہونے کی وجہ سے واپس آ گیا۔ آپ یہ سن کر خاموش ہوگئے۔ لیکن جس وقت جمعہ پڑھ کر مولوی عبدالکریم صاحب آپ کی طبیعت کا حال پوچھنے کے لئے آئے تو سب سے پہلی بات جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آپ سے دریافت کی وہ یہ تھی کہ کیا آج لوگ مسجد میں زیادہ تھے؟ اس وقت میرے دل میں سخت گھبراہٹ پیدا ہوئی۔ کیونکہ میں خود تو مسجد میں گیا نہیں تھا۔ معلوم نہیں بتانے والے کو غلطی لگی یا مجھے اس کی بات سمجھنے میں غلط فہمی ہوئی ہے۔ میں ان کی بات سے یہ سمجھا تھا کہ مسجد میں جگہ نہیں ۔مجھے فکر یہ ہوئی کہ اگر مجھے غلط فہمی ہوئی ہے یا بتانے والے کو ہوئی ہے دونوں صورتوں میں الزام مجھ پر آئے گا۔ کہ میں نےجھوٹ بولا ۔ مولوی عبدالکریم صاحب نے جواب دیا کہ ہاں حضور! آج واقعہ میں بہت لوگ تھے۔ میں اب بھی نہیں جانتا کہ اصلیت کیا تھی۔ خدا نے میری بریّت کے لئے یہ سامان کر دیا کہ مولوی صاحب کی زبان سے بھی اس کی تصدیق کرا دی یا فی الواقعہ اس دن غیرمعمولی طور پر زیادہ لوگ آئے تھے۔ بہر حال یہ ایک واقعہ ہوا ہے جس کا آج تک میرے قلب پر گہرا اثر ہے۔ اس سے معلوم ہو سکتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو نماز باجماعت کا کتنا خیال رہتا تھا۔
بڑا آدمی اگر خود نماز با جماعت نہیں پڑھتا تو وہ منافق ہے۔ مگر وہ لوگ جو اپنے بچوں کو نماز باجماعت ادا کرنے کی عادت نہیں ڈالتے وہ ان کے خونی اور قاتل ہیں۔ اگر ماں باپ بچوں کو نماز با جماعت کی عادت ڈالیں تو کبھی ان پر ایسا وقت نہیں آسکتا کہ یہ کہا جا سکے کہ ان کی اصلاح نا ممکن ہے اور وہ قابل علاج نہیں رہے۔‘‘(خطبات محمود جلد نہم صفحہ ۱۶۳-۱۶۴)
آزمائش کے نیچے رحمتوں کا خزانہ
ظاہری طور پر تباہی اور بربادی کے سامانوں میں مومنین کے لیے ترقی اور کامیابی کے سامان پیدہونے کا ذکر کرتے ہوئے مولانا روم کے اس شعرکہ
ہر بلا کیں قوم راحق داده است
زیرآں گنج کرم بنهاده است
یعنی ’’ہر آزمائش جو خدا نے اس قوم کے لیے مقدر کی ہے اس کے نیچے رحمتوں کاخزانہ چھپا رکھاہے۔‘‘کا ذکر کرکے فرمایا کہ[اس شعر ]کو ہمیشہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام بھی پڑھ کر فرمایا کرتے تھے[کہ] اگر کوئی قوم یا جماعت واقعہ میں مسلمان بن جائے تو اس کے تمام مصائب اور تمام خطرات جن میں وہ گرفتار ہو۔ اس کے لئے موجب نجات اور ترقی ہو جاتے ہیں اور اس پر کوئی مصیبت نہیں آتی۔ جس کا نتیجہ اس کے لئے سکھ نہیں ہوتا۔ قرآن شریف ایک قوم کی یہ مثال پیش کرتا ہے کہ اس نے دیکھا گھٹا ٹوپ بادل اٹھا ہے۔ انہوں نے سمجھا اب بارش ہو گی اور ان کی کھیتیاں سیراب ہو کر خوب سرسبز اور شاداب ہوں گی۔ لیکن جب وہ بادل آیا تو ایسا برسا کہ بجائے سیرابی اور شادابی کے ان کے لئے تباہی اور بربادی کا موجب بنا۔ مومنین کی حالت بالکل اس کے برعکس ہوتی ہے۔ مومنین کے لئے جب ایسے امکان پیدا ہو جاتے ہیں۔ جن سے بظاہر ان کی تباہی اور بربادی نظر آتی ہے تو خدا تعالیٰ انہیں تباہی اور بربادی کے سامانوں میں سے ان کے لئے ترقی اور کامیابی کے سامان پیدا کر دیتا ہے۔‘‘(خطبات محمود جلد نہم صفحہ ۱۶۶-۱۶۷)
معاف کرانے سے پہلے عورتوں کو حق مہر دینا ضروری ہے
حضرت مسیح موعودؑ کے زمانے میں حق مہر کی ادائیگی کے حوالے سے ایک دلچسپ واقعہ کا ذکرکرتے ہوئے فرمایا:’’حکیم فضل دین صاحب جو ہمارے سلسلہ میں سابقون الاولون میں سے ہوئے ہیں۔ ان کی دو بیویاں تھیں۔ ایک دن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ۔ مہر شرعی حکم ہے اور ضرور عورتوں کو دینا چاہیے۔ اس پر حکیم صاحب نے کہا میری بیویوں نے مجھے معاف کر دیا ہوا ہے۔ حضرت صاحب نے فرمایا۔ کیا آپ نے ان کے ہاتھ میں رکھ کر معاف کرایا تھا۔ کہنے لگے نہیں حضور یونہی کہا تھا اور انہوں نے معاف کر دیا۔ حضرت صاحب نے فرمایا پہلے آپ ان کی جھولی میں ڈالیں پھر ان سے معاف کرائیں (یہ بھی ادنی درجہ ہے اصل بات یہی ہے کہ مال عورت کے پاس کم از کم ایک سال رہنا چاہیے اور پھر اس عرصہ کے بعد اگر وہ معاف کرے تو درست ہے) ان کی بیویوں کا مہر پانچ پانچ سو روپیہ تھا حکیم صاحب نے کہیں سے قرض لے کر پانچ پانچ سو روپیہ ان کو دے دیا اور کہنے لگے تمہیں یاد ہے تم نے اپنا مہر مجھے معاف کیا ہوا ہے۔ سو اب مجھے یہ واپس دے دو۔ اس پر انہوں نے کہا اس وقت ہمیں کیا معلوم تھا کہ آپ نے دے دینا ہے اس وجہ سے کہہ دیا تھا کہ معاف کیا اب ہم نہیں دیں گی۔ حکیم صاحب نے آکر یہ واقعہ حضرت صاحب کو سنایا کہ میں نے اس خیال سے کہ روپیہ مجھے واپس مل جائے گا ایک ہزار روپیہ قرض لے کر مہر دیا تھا مگر روپیہ لے کر انہوں نے معاف کرنے سے انکار کر دیا۔ حضرت صاحب یہ سن کر بہت ہنسے اور فرمانے لگے درست بات یہی ہے کہ پہلے عورت کو مہر ادا کیا جائے اور کچھ عرصہ کے بعد اگر وہ معاف کرنا چاہے تو کر دے ورنہ دیےبغیر معاف کرانے کی صورت میں تو ’’مفت کرم داشتن‘‘ والی بات ہوتی ہے۔ عورت سمجھتی ہے نہ انہوں نے مہر دیا اور نہ دیں گے چلو یہ کہتے جو ہیں معاف ہی کر دو۔ مفت کا احسان ہی ہے نا۔ تو جب عورت کو مہر مل جائے پھر اگر وہ خوشی سے دے تو درست ہے ورنہ دس لاکھ روپیہ بھی اگر اس کا مہر ہو۔ مگر اس کو ملا نہیں تو وہ دیدے گی کیونکہ وہ جانتی ہے کہ میں نے جیب سے نکال کے تو کچھ دینا نہیں صرف زبانی جمع خرچ ہے۔ اس میں کیا حرج ہے۔ پس عورتوں سے معاف کرانے سے پہلے ان کو مہر دیا جانا ضروری ہے اور اگر یہ مہر ایسے وقت میں دیا جاتا ہے۔ جب ان کو اپنی ضروریات کی خبر نہیں یا جب کہ والدین ان سے لینا چاہتے ہیں۔ تو یہ نا جائز ہے اور بردہ فروشی ہے جو کسی طرح درست نہیں ہو سکتی۔’’(خطبات محمود جلد نہم صفحہ ۲۱۷)
٭…٭…٭
مزید پڑھیں: قبولیت دعا کے بہار کا موسم ماہِ صیام