الفضل ڈائجسٹ

الفضل ڈائجسٹ

(محمود احمد ملک)

اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا انداز فکر

حضرت اقدس مسیح موعودؑ کے اندازِ فکر کے حوالے سے چند پُرحکمت اور پاکیزہ نصائح پر مبنی مکرم پروفیسر محمداسلم سجاد صاحب کا مرتّب کردہ ایک مضمون روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ ۱۴؍نومبر۲۰۱۴ء میںشاملِ اشاعت ہے۔

٭…حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے عہد میں ایک سائل دو تین ماہ کے بعد پھیرا کیا کرتا تھا۔ وہ موٹا تازہ تھا اور آواز بھی اس کی بہت بلند تھی۔ وہ مسجد مبارک کے نیچے گلی میں کھڑے ہوکر صدا دیتا تھا اور ایک رقم مقرر کرکے سوال کرتا تھا اور حضرت صاحبؑ سے ہی لینے کا اشارہ بھی کرتا تھا اور جب تک اس کا مطالبہ پورا نہ ہو جاتا ٹلتا نہیں تھا۔ رفتہ رفتہ اس کے سوال کی رقم بڑھتی گئی اور آنوں سے روپوں تک نوبت پہنچ گئی۔ حضورعلیہ السلام شاید دوسری منزل میں رہتے تھے اور تیسری منزل پر حضرت مولانا عبدالکریم صاحب سیالکوٹی ؓکی رہائش تھی۔ وہ بہت نازک مزاج تھے اور ان کو اس سائل کی آواز بہت تکلیف دیتی۔ ایک دن انہوں نے حضرت صاحب کی خدمت میں عرض کی کہ مجھے اس فقیر نے بہت تنگ کیا ہے اور اگر ذرا اشارہ فرما دیتے تو خدام اس کو کہیں دُور چھوڑ آتے اور ایسی تنبیہ کرتے کہ دوبارہ نہ آتا ۔ یہ سن کر آپؑ نے ارشاد فرمایا کہ مولوی صاحب ! ایک گدا ہوتا ہے، اس کو جو دے دو لے کر چلا جاتا ہے۔ ایک نرگدا ہوتا ہے جو اپنا مطلب پورا کیے بغیر ٹلنے میں نہیں آتا ۔ بندے کو اللہ کے حضور میں ایسا ہونا چاہیے کہ مانگے اور مانگنے سے نہ ہٹے یہاں تک کہ خدا اس کا مطلب پورا کر دے۔

٭…حضرت مولوی فضل محمد صاحبؓ آف ہرسیاں لکھتے ہیں ایک دفعہ جبکہ شہتوت اور بیدانہ کا موسم تھا حضرت مسیح موعود علیہ السلام باغ میں تشریف لے گئے۔ خدام بھی ہمراہ تھے۔ جب حضورؑ وہاں پہنچے تو ایک شخص نے حضورؑکو بڑھ کر سلام کیا اور ایک کپڑا بچھا دیا۔ حضوؑر نہایت سادگی سے اپنی جماعت کو لے کر بیٹھ گئے اور حسب معمول باتیں کرتے رہے۔ تھوڑی دیر میں باغ کے خادم دو ٹوکریوں میں بہت عمدہ بیدانہ ڈال کر لے آئے۔ آپؑ نے اپنے خدام کو بیدانہ کھانے کا حکم دیا۔ سب کھانے میں لگے رہے۔ مَیں حضورؑ کے قریب ہی تھا۔ میں نے ادب کی وجہ سے اپنا ہاتھ نہ بڑھایا۔ میری طرف دیکھ کر فرمایا میاں تم کیوں نہیں کھاتے؟ مَیں ندامت سے اَور تو کچھ نہ کہہ سکا جلدی سے میرے منہ سے نکل گیا کہ حضور یہ گرم ہیں، میرے موافق نہیں۔ فرمایا: نہیں نہیں میاں یہ تو قبض کُشا ہوتے ہیں۔ آپؑ کے ایسا فرمانے سے مجھے جرأت ہوئی اور مَیں بھی حضورؑ کے ساتھ کھانے لگا۔

٭…حضرت مسیح موعودؑ کی مجلس میں ایک شخص آتے ہی آپؑ کو گالیاں دینے لگ گیا۔ جب تھک گیا تو بیٹھ گیا۔ آپؑ نے اُس سے فرمایا: تسلّی ہوگئی یا کچھ اَور بھی باقی ہے۔

٭…ایک دفعہ لاہور میں آپؑ کو راستے میں ایک شخص نے دھکا دے دیا۔ لوگ اُس کو مارنا چاہتے تھے مگر آپؑ نے فرمایا: اسے کچھ نہ کہو، اس نے تو اپنے اخلاص سے ہی دھکا دیا ہے۔ (دراصل وہ مدعی نبوّت تھا۔ فرمایا:) اس نے سمجھا ہے کہ ہم ظالم ہیں اور اس کا حق مار رہے ہیں۔

٭…ایک ملازم کی نسبت بہت سی شکایتیں حضورؑ کی خدمت میں کی گئیں کہ وہ ایسا ہے ویسا ہے اُسے موقوف کردینا چاہیے۔ آپؑ نے فرمایا: اگر اُس کی بجائے کوئی ایسا آدمی مہیا کرسکتے ہو جس میں کوئی نقص نہ ہو تو مَیں اُسے موقوف کردیتا ہوں ورنہ کیوں اُس کے لیے اصلاحِ حال کی دعا اور نصیحت نہ کی جائے۔ ہر ایک انسان میں کوئی نہ کوئی کمزوری ضرور ہوتی ہے۔ عفو و غفران سے کام لو۔

اسی طرح ایک دفعہ لنگر کی روٹیاں چرانے پر کسی نانبائی کی شکایت ہوئی تو آپؑ نے فرمایا: یہ ایک روٹی کے واسطے دو دفعہ جہنم میں غوطہ لگاتا ہے۔

ایک بار کسی نکتہ چین شخص کا تنقیدی خط موصول ہوا تو آپؑ نے فرمایا: اصلاح ہمیشہ رفتہ رفتہ ہوتی ہے۔ بعض مستعجل لوگ ہیں جو نکتہ چینی میں جلدی کرتے ہیں۔ اخلاص اور ثبات قدم خداتعالیٰ کا ایک فضل ہے۔ ہر ایک شخص کو چاہیے کہ وہ اپنی حالت کو دیکھے، کیا جس دن وہ اس سلسلے میں داخل ہوا اُس دن اُس کی حالت وہ تھی جو آج ہے۔ ہر ایک رفتہ رفتہ ترقی کرتا ہے اور کمزوریاں آہستہ آہستہ دُور ہوجاتی ہیں۔ گھبرانا نہیں چاہیے اور اصلاح کے واسطے کوشش کرنی چاہیے۔ اپنے بھائی کو حقارت سے نہ دیکھو بلکہ اُس کے واسطے دعا کرو۔ اُس کے ساتھ لڑائی نہ کرو بلکہ اُس کی اصلاح کی فکر کرو۔

٭…ایک بار کسی نے شادی کی تقریب پر ایک رقاصہ منگوائی جو رات بھر ناچتی رہی۔ آپؑ کو خبر ہوئی تو دریافت فرمایا کہ اُس کو رات بھر کا کیا ملا ہے؟ معلوم ہوا صرف پانچ روپے۔ فرمایا: مَیں تو شرمندہ ہی رہا کہ یہ پانچ روپے کے واسطے کتنی محنت کررہی ہے۔ ہم اللہ تعالیٰ، محسن ومربی سے ہزاردرہزار لاتعداد لاانتہا تحفے اور انعام پاکر اتنی محنت نہیں کرتے۔ اسی طرح مَیں جب رات کو چوکیدار کی آواز سنتا ہوں تو شرمندہ ہوجاتا ہوں کہ چار پانچ روپے ماہانہ پاکر یہ رات بھر پہرہ دیتا ہے، راتوں میں آرام نہیں کرتا، سردی بارش کی پروا نہیں کرتا۔ ہم اس کے بالمقابل کس قدر غافل سوتے ہیں۔ انسان خود ہی اپنے دل میں انصاف کرے۔

٭…حضرت اقدسؑ نے زندگی کی بےثباتی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ایک بار فرمایا: ہم سب کے سب عمر کی ایک تیزرفتار گاڑی میں سوار ہیں اور مختلف مقامات کے ٹکٹ ہمارے پاس ہیں۔ کوئی دس برس کی منزل پر اُتر جاتا ہے، کوئی بیس کوئی تیس اور بہت ہی کم اسّی برس کی منزل پر۔ جبکہ یہ حال ہے تو پھر کیا بدنصیب وہ انسان ہے کہ وہ اس وقت کی کچھ قدر نہ کرے جو اُس کو دیا گیا ہے۔

اسی طرح ایک بار سیڑھی کی طرف اشارہ کرکے فرمایا: مَیں سیڑھی پر ایک قدم رکھتا ہوں تو اعتبار نہیں ہوتا کہ دوسری پر بھی رکھوں گا۔

٭…ایک دفعہ عیدالاضحیہ کے موقع پر بارہ سیر گوشت بچ رہا جو حضرت امّاں جانؓ کے حکم پر باورچی خانہ میں رکھ دیا گیا۔ غلطی سے کتے اندر داخل ہوکر کھانے لگے تو کچھ لڑکوں نے ڈنڈے لے کر اُن کو مارنا شروع کردیا۔ حضورؑ نے دریافت فرمایا کہ یہ شور کیا ہے؟ جب واقعہ عرض کیا گیا تو فرمایا: ان کو مت مارو۔ کیا تم ان کو گوشت دیتے تھے۔ خدا سب کا ربّ العالمین ہے۔

٭…میرٹھ کے ایک شخص احمد حسین شوکت نے اپنے اخبار ’’شحنۂ ہند‘‘ میں جماعت کے خلاف ایک دل آزار ضمیمہ شائع کیا تو جماعت میرٹھ کے صدر نے عدالت میں نالش کرنے کے بارے میں حضورؑ کی خدمت میں عرض کیا۔ فرمایا: ہمارے لیے خدا کی عدالت کافی ہے، یہ گناہ میں داخل ہوگا کہ اگر ہم خدا کی تجویز پر تقدّم کریں۔ اس لیے ضروری ہے کہ صبر اور برداشت سے کام لیں۔

٭…ایک بار کسی نے دوسرے کو جھوٹا کہہ دیا تو وہ سخت طیش میں آکر بلند آواز سے بولنے لگا۔ حضورؑ تک آواز پہنچی اور وجہ معلوم ہوئی تو فرمایا:کیا اس شخص نے عمربھر میں کبھی جھوٹ نہیں بولا جو یہ اس قدر غیظ و غضب میں آرہا ہے۔ اتنی مدّت خداتعالیٰ نے ستّاری سے کام لیا۔ اگر ایک بار کسی کی زبان سے جھوٹا کہلوادیا تو اسے اپنی اصلاح کرلینی چاہیے تھی اور خدا کے حضور شرمسار ہونا تھا، نہ یہ کہ شور ڈال دیا۔

٭…سیالکوٹ میں ملازمت کے دوران حضورؑ کی عادت تھی کہ کچہری سے فارغ ہوکر آتے تو کمرے کا دروازہ بند کرکے ذکر الٰہی اور تلاوت قرآن میں مصروف ہوجاتے۔ ایک دن دیکھا گیا کہ آپؑ مصلیٰ پر بیٹھے ہیں اور قرآن مجید ہاتھ میں لیے دعا کررہے ہیں کہ یا اللہ! تیرا کلام ہے، مجھے تُو ہی سمجھائے گا تو مَیں سمجھ سکتا ہوں۔

٭…سخت گرمیوں کے دنوں میں حضورعلیہ السلام تالیف و تصنیف میں منہمک تھے۔ ایک مخلص دوست نے عرض کی کہ پنکھا لگوالیا جائے۔ آپؑ نے تبسّم کرتے ہوئے فرمایا: تجویز تو آپ کی اچھی ہے مگر پنکھا لگا اور ٹھنڈی ہوا چلی تو پھر نیند آجائے گی اور سونے کو جی چاہے گا۔ قوم تو آگے ہی سوئی ہوئی ہے، ہم بھی سو رہے تو دین کی تائید کون کرے گا؟

٭…مسجد اقصیٰ کی ہمسائیگی میں ایک ہندو کا مکان تھا۔ جلسہ سالانہ ۱۹۰۶ء کے موقع پر خطبہ جمعہ کے دوران اُس شخص نے گندی گالیاں دینی شروع کردیں کہ یہ لوگ میرے مکان پر سے گزرتے ہیں۔ نماز کے بعد حضورؑ نے کسی کو بھیجا کہ حدبندی کرکے تار لگادے تاکہ کوئی اُس کے مکان پر نہ جائے۔ ازاں بعد آپؑ نے فرمایا کہ مَیں آج بہت خوش ہوں کہ میری جماعت نے نہایت صبر کا نمونہ دکھایا ہے۔ حضرت مولوی نورالدین صاحبؓ نے عرض کی کہ بہتر ہوگا کہ اس مکان کو حضورؑ خرید لیں۔ فرمایا: مَیں تو اس کو ایک پیسہ میں بھی نہیں خریدتا۔ جو شاہی خیمہ کے پاس آکر خیمہ لگاتا ہے اس کی شامت آئی ہوئی ہے۔

خدا کی شان کہ وہ شخص بعد میں سخت ذلیل ہوا اور بالآخر اُس کا مکان صدرانجمن احمدیہ کے قبضے میں آگیا۔

٭…حضرت پیر سراج الحق صاحب نعمانی ؓ کا بیان ہے کہ گرمیوں کے دن تھے، نماز عشاء کے بعد مَیں مسجد مبارک کی چھت پر پہنچا جہاں حضور علیہ السلام ٹہلتے ہوئے دعائیں پڑھ رہے تھے۔ پھر آپؑ قرآن مجید ہاتھ میں لے کر لالٹین رکھ کر تلاوت فرماتے رہے۔ مَیں اس انتظار میں بیٹھا رہا کہ جب کوئی کام حضرت اقدسؑ فرمائیں گے تو مَیں کروں گا خواہ تمام رات جاگنا پڑے۔ اسی اثنا میں حضور مسجد کے فرش پر (جہاں چٹائی وغیرہ بھی نہیں تھی) لیٹ گئے اور فرمایا کہ لوگ کہتے ہیں کہ ہمیں بغیر چارپائی کے نیند نہیں آتی اور کھانا ہضم نہیں ہوتا، ہمیں تو خدا کے فضل سے زمین پر نیند آتی ہے اور ہاضمے میں کوئی فتور نہیں ہوتا۔ پھر مجھ سے فرمایا: تم تو پیر ہو، پیروں کو تو عادت ہوتی ہے کہ بغیر چارپائی اور عمدہ بستر کے نیند نہیں آتی، مَیں نیچے سے تمہارے واسطے چارپائی اور بستر لاتا ہوں۔ مَیں یہ سُن کر خوفزدہ ہوگیا کہ ایسا نہ ہو کہ آپؑ یہ تکلیف گوارا کریں اور عرض کیا کہ میرے والد مرحوم نے مجھے زمین پر سونے کی عادت ڈال دی ہے۔ آپؑ یہ سن کر خوشی سے فرمانے لگے کہ تمہارے والد صاحب کا ایسا کرنا اب کام آگیا۔ اور ایسا ہی چاہیے اور احباب کو یہی کرنا چاہیے کہ آرام طلبی نہ ہو۔ ہمارا جی چاہتا ہے کہ ہمارے دوست و احباب ایسے بن جائیں کہ گویا فرشتے ہیں اور ابھی آسمان سے اُترے ہیں۔ یہ دنیا میں ہوں مگر نہ ہوں۔

٭…ایک دفعہ حضرت مولوی نورالدین صاحبؓ نے عرض کیا کہ حضور! وہ دوائی بہت مفید ہے فلاں فلاں مریض اس سے تندرست ہوا ہے۔ فرمایا: مولوی صاحب! دوا نے تو صحت نہیں بخشی، خدا نے بخشی ہے۔ وہی دوائی کئی مریضوں کے لیے مُضر بھی ہوگی۔ نفع و ضرر خدا کے اختیار میں ہے۔ شفا کو اپنے یا کسی کی طرف منسوب کرنا ہی شرک ہے۔

٭…حضرت مسیح موعودؑ نے کسی شخص کے ہاتھ کسی کو روپے بھیجے تو ایک روپیہ الگ کرکے دیا کہ اس روپیہ میں فلاں عیب ہے، یہ اُسے دکھاکر پھر دینا۔ اور ساتھ میں ایک آنہ بھی دیا۔

٭…حضرت اقدسؑ کے پاس ایک عامل آکر رہا۔ دو تین دن کہتا رہا کہ آپ کا خرچ بہت ہے اور آمدنی کی کوئی صورت نہیں، مَیں آپ کو ایک عمل بتاتا ہوں جس سے پانچ روپے روزانہ مل جایا کریں گے۔ پوچھنے پر کہا کہ ملائکہ یا جن وہ روپیہ لاتے ہیں۔ آپؑ نے فرمایا کہ وہ کسی کا مال اٹھا لاتے ہوں گے، یہ تو حرام ہے اور ایسا خیال کرنا شرک ہے، اس سے توبہ کرو، اللہ تعالیٰ کے کلام کو مول لینا چاہتے ہو؟

٭…حضرت اقدس علیہ السلام کی ڈائری سے منقول ایک پُرمعارف عبارت: ’’خدائے تعالیٰ کی حدود کو توڑنا سخت بےایمانی کا کام ہے۔ … دانشمند خدا کے مخالف کیونکر بدی میں پڑ سکتا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ ایسے محسن کے احسانات کا لحاظ نہ رکھنا اور اس کو ناراض کرنا سخت بدذاتی ہے۔ علاوہ اس کے وہ قادر ہے کہ ایک رات میں اندھا کردے یا مجذوم کردے یا کوئی ایسی دردانگیز بیماری لگادے کہ دن رات چِلّانا کام ہو اور زندگی جہنمی بن جائے۔‘‘

………٭………٭………٭………

حاصل مطالعہ

مجلس انصاراللہ برطانیہ کے رسالہ’’انصارالدین‘‘مئی و جون ۲۰۱۴ء میں ’’مضامینِ شاکر‘‘سے ایک انتخاب بطور حاصل مطالعہ ہدیۂ قارئین ہے:

مسیحؑ بلادِشرقیہ میں

جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خداتعالیٰ سے خبر پاکر حضرت مسیح ناصری علیہ السلام کی وفات کی خبردی تو طوفانِ مخالفت اُٹھادیا گیا کہ یہ نیا عقیدہ جمہورمسلمین کے خلاف گھڑلیا گیا ہے۔ مگر حضور علیہ السلام نے قرآن مجید، حدیث شریف، کتبِ ائمہ دین ،کتب تاریخ اورکتب طب سے روز روشن کی طرح ثابت کردیاکہ حضرت عیسیٰؑ صلیب سے زندہ اتارے گئے اور بعدازاں وفات پاچکے ہیں۔ آپؑ نے اپنی لاجواب تصنیف ’’مسیح ہندوستان میں‘‘ (جوحضورؑکی وفات کے بعد شائع ہوئی)میں ثابت کردیاکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام واقعۂ صلیب کے بعد تندرست ہوکروہاں سے خدائی حکم کے ماتحت بنی اسرائیل کے دُورافتادہ قبیلوں کوپیغامِ حق پہنچانے کے لیے ہجرت کرکے مختلف ممالک کی سیاحت فرماتے ہوئے آخر میں ہندوستان آئے اورسرینگر کشمیر میں دفن ہوئے۔ اس مسئلہ پر دو مزید حوالے پیش ہیں جن سے حضرت عیسیٰؑ کے ورُودِ ہندکی سند ملتی ہے۔

۱۔ ویٹیکن لائبریری میں چالیس پچاس کتب ایسی ہیں جویہ کہتی ہیں کہ جوانی میں یسوع ہندوستان گیا اور اپنی بعض تعلیمات ہندوستانی منبعوں سے اخذکیں۔

(World History by Hays, Wayward and Moon /Macmillan)

۲۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو فلسطین میں یہودِ نامسعود کے ہاتھوں سخت تکالیف پہنچیں مگر اُس کے بعد خداتعالیٰ نے اُن کو ایک نہایت ہی سرسبز پہاڑی علاقہ میں پناہ دی: وَاٰوَیۡنٰہُمَاۤ اِلٰی رَبۡوَۃٍ ذَاتِ قَرَارٍ وَّمَعِیۡنٍ (المومنون:۵۱)۔کشمیر اور افغانستان میں بنی اسرائیل کے قبائل آباد تھے جو حضرت عیسیٰؑ پرایمان لے آئے۔ جغرافیائی طور پر بھی دیکھا جائے تو فلسطین اورکشمیرمیں بےشمار مماثلتیں موجودہیں۔ امریکہ کی سپریم کورٹ کے ایک جج مسٹرولیم او ڈگلس نے۱۹۵۰ء سے مختلف ایشیائی ممالک کی سیاحت شروع کی اور اپنے تأثرات کومختلف کتب میں نہایت شُستہ انگریزی میںشائع کرتے رہے۔اپنی کتاب Beyond the Himalayas میں لدّاخ کے بارے میں وہ لکھتے ہیں: ایک مشتبہ روایت یسوع کے متعلق بھی ہے۔ اب تک یہاں پر ایسے لوگ پائے جاتے ہیں جویہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ یسوع اس جگہ پرآیاتھا۔چودہ برس کی عمرمیں وہ یہاں آیااور ۲۸؍برس کی عمرمیں واپس گیا۔یہاں سے سیدھا مغرب کی طرف گیااورپھرکسی نے اُس کی خبرنہ سنی۔ روایت میں تفصیلات بھی موجودہیں جوبتاتی ہیں کہ یسوع نے ہمیسؔ (لداخ سے اوپر بُدھوں کی ایک مشہور خانقاہ) کی طرف عیسیٰ کے نام سے سفر اختیار کیا۔ (صفحہ ۱۵۲)

چُونکہ مصنف کے عقیدہ کے خلاف یہ بات ثابت ہورہی ہے ۔ اس واسطے اُس نے بجاطورپراسے ’’مشتبہ‘‘ قرار دیا ہے اورلداخیوںکایہ خیال کہ ’’پھرحضرت عیسیٰؑ کی کوئی خبرنہ سنی گئی‘‘ بھی درست ہے کیونکہ لداخ کا سرینگر سے فاصلہ چار سو میل سے زیادہ ہے ۔آج بھی جبکہ سفرکی سہولتیں میّسرہیں یہ سخت مشکل سفر ہے تواُس زمانہ میں پھر کس نے خبردینی تھی ۔

بنگال کے متعلق ایک پیشگوئی

لارڈکرزن وائسرائے ہندنے ۱۹۰۵ء میں بنگال کو دو حصوں میں تقسیم کردیا جس پر ہندوؤں نے ہندوستان بھرمیں مخالفت کی آگ بھڑکادی اور پُرتشدّد مظاہرے کیے لیکن حکومت نے اپنا حکم واپس نہیں لیا۔ پھر لارڈ منٹو آئے تو انہوں نے بھی مخالفت کی پروا نہیں کی۔ چنانچہ یہ تقسیم مستقل سمجھ لی گئی۔ مگر اُس زمانہ میں خداتعالیٰ نے حضور علیہ السلام کو ۱۱؍فروری ۱۹۰۶ء کو بذریعہ الہام خبردی کہ ’’پہلے بنگالہ کی نسبت جو کچھ حکم جاری کیا گیا تھا۔ اب ان کی دلجوئی ہوگی۔‘‘ (تذکرہ صفحہ۵۰۶،ایڈیشن۲۰۰۴ء)

۱۹۱۰ء میں لارڈ منٹو واپس چلے گئے اور بادشاہ ایڈورڈ ہفتم کابھی انتقال ہوگیا تو ۱۲؍دسمبر ۱۹۱۱ء کوشاہ جارج پنجم نے دہلی میں عظیم الشان دربار منعقدکیا۔ جارج پنجم کا ایک سوانح نگارلکھتاہے کہ دربارکے خاتمے پر جب وائسرائے اپنی تقریر ختم کرچکے تھے توبادشاہ سلامت خود اُٹھے، جس پرسبھی حیران ہوئے، اور نہایت واضح الفاظ میں اعلان کیاکہ اہل بنگال کی دلجوئی کی خاطر تقسیمِ بنگال کو منسوخ کیا جاتا ہے۔

(King George V, His Life & Reign
by Harold Nicolson. p.168)

یوں کوئی کہتا پھرے کہ مرزاصاحب ؑنے آخر کیامعجزہ دکھایا۔ چشمِ بصیرت رکھنے والوں کے لیے تو بےشمارنشان ہیں۔ مگر تعصّب کی نظر رکھنے والوں کاکیاعلاج!

………٭………٭………٭………

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ ۲۱؍مارچ۲۰۱۴ء میں شائع ہونے والی محترم ظفرمحمد ظفر صاحب کی ایک خوبصورت طویل نظم میں سے انتخاب ہدیۂ قارئین ہے:

اے مقدّس سرزمیں اے قادیاں
اے زمینِ محترم دارالاماں
اے پیارے ہم غریبوں کے وطن
اے ہماری جان کی روحِ رواں
اے کہ ہستی تھی تری گمنام تر
جانتا کوئی نہ تھا نام و نشاں
کون سا وہ لعل پیدا کر دیا
ہو گئی جس سے تُو مقبولِ جہاں
بن گئے رستے ترے فَجٍّ عَمِیْق
عشق میں پھنس کر گیا سارا جہاں
یہ شرف تجھ کو ملا اس ذات سے
جس کو کہتے ہیں مسیحائے زماں
عیسٰیٔ ثانی لقب جس کا ہؤا
ہو گئی اس کے سبب ذی عزّ و شاں
ثانی جنّت بنی جس کے طفیل
ہے غلامِ احمدِ آخر زماں

مزید پڑھیں: ۲۲؍مارچ:پانی کا عالمی دن

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button