طوطے کی کہانی
حکایتِ مسیح الزماںؑ
صوفی کہتے ہیں کہ ہر ایک شخص کو جو خدا تعالیٰ سے ملنا چاہے ضروری ہے کہ وہ باب الموت سے گزرے۔ مثنوی میں اس مقام کے بیان کرنے میں ایک قصہ نقل کیا ہے۔
’’ایک شخص کے پاس ایک طوطا تھا جب وہ شخص سفر کو چلا تو اس نے طوطے سے پوچھا کہ تُو بھی کچھ کہہ طوطے نے کہا کہ اگر تو فلاں مقام پر گزرے تُو ایک بڑا درخت ملے گا اس پر بہت سے طوطے ہوں گے ان کو میرا یہ پیغام پہنچا دینا کہ تم بڑے خوش نصیب ہو کہ کھلی ہوا میں آزادانہ زندگی بسر کرتے ہو اور ایک میں بے نصیب ہوں کہ قید میں ہوں۔
وہ شخص جب اس درخت کے پاس پہنچا تو اس نے طوطوں کو وہ پیغام پہنچایا۔ ان میں سے ایک طوطا درخت سے گرا اور پھڑک پھڑک کر جان دے دی۔ اس کو یہ واقعہ دیکھ کر کمال افسوس ہوا کہ اس کے ذریعہ سے ایک جان ہلاک ہوئی۔
مگر سوائے صبر کے کیا چارہ تھا۔ جب سفر سے وہ واپس آیا تو اس نے اپنے طوطے کو سارا واقعہ سنایا اور اظہار غم کیا۔ یہ سنتے ہی وہ طوطا بھی جو پنجرہ میں تھا پھڑکا اور پھڑک پھڑک کر جان دے دی۔ یہ واقعہ دیکھ کر اس شخص کو اور بھی افسوس ہوا کہ اس کے ہاتھ سے دوخون ہوئے۔ آخر اس نے طوطے کو پنجرہ سے نکال کر باہر پھینک دیا تو وہ طوطا جو پنجرہ سے مردہ سمجھ کر پھینک دیاتھا اڑ کر دیوار پر جا بیٹھا اور کہنے لگا کہ دراصل نہ وہ طوطا مرا تھا اور نہ میں۔ میں نے تو اس سے راہ پوچھی تھی کہ اس قید سے آزادی کیسے حاصل ہو؟ سو اس نے مجھے بتایا کہ آزادی تو مر کر حاصل ہوتی ہے پس میں نے بھی موت اختیار کی تو آزاد ہو گیا۔ ‘‘
پس یہ سچی بات ہے کہ نفس امارہ کی تاروں میں جو جکڑا ہوا ہے ا سے رہائی بغیر موت کے ممکن ہی نہیں۔
(ملفوظات جلد پنجم صفحہ 239-240 ایڈیشن 2022ء)
٭… ٭… ٭… ٭… ٭