دادی جان کا آنگن

فطرانہ اورعیدفنڈ

رمضان کا مہینہ ختم ہونے والا ہے اور عید کی تیاریاںجاری ہیں۔ دادی جان نے بچوں کو بلایا اور کہا: بچو! رمضان برکتوں اور رحمتوں کا مہینہ ہے۔ پہلے تو مجھے بتائیں آپ کی تلاوت کہاں تک پہنچی ہے؟

گڑیا: دادی جان میں تو روز کا ایک پارہ ختم کرتی ہوں۔

احمد: دادی جان میں بھی ایک پارہ ختم کرتا ہوں۔ لیکن میں نے ایک دن دو پارے بھی پڑھے تھے۔ تاکہ اگر رمضان 29 کا ہوا تو میں رمضان میں قرآن ختم کر سکوں۔

محمود: دادی جان میں روزانہ دورکوع پڑھتا تھا۔ لیکن رمضان میں نصف پارہ تلاوت کرتا ہوں۔

احمد: دادی جان۔ ناظم صاحب اطفال نے کہا ہے کہ ان بچوں کو عید کی خوشیوں میں شامل کرنے کے لیے ہم بھی کچھ جمع کروائیں۔

دادی جان: ضرور۔ آپ اپنے ابو جان سے اس بارے میں بات کریں۔

محمود: دادی جان روزانہ تراویح اور نمازوں کے بعد فدیہ، فطرانہ اور عید فنڈ کا اعلان ہوتا ہے۔ ان میں فرق تو بتائیں۔

دادی جان: ماشاء اللہ۔ آج تو محمود میاں نے اچھا سوال کیا ہے۔ آپ میں کوئی اس کا جواب دینا چاہے گا؟

گڑیا: فدیہ تو وہ رقم ہوتی ہے، جو روزے نہ رکھ سکتے ہوں وہ ادا کریں۔

دادی جان: جی اسے تھوڑا بہتر کرتے ہیں۔ قرآن کریم کے مطابق جن افراد پر روزہ فرض ہوتا ہے اگر وہ بیمار ہوں اور مسافر ہوں تو روزہ نہیں رکھ سکتے۔ تو ان کے لیے رمضان کی برکت سے فائدہ اٹھانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے متبادل کے طور پر فرمایا کہ دورانِ رمضان تو وہ اس کا فدیہ ادا کریں۔ یعنی کسی فرد کو کھانا کھلائیں یا اس کے برابر رقم دے دیں۔ اور اس رمضان کے بعداور اگلے رمضان سے پہلے پہلے اپنی 30 یا 29 روزوں کی گنتی بھی پوری کر لیں۔

احمد: دادی جان! جو مستقل بیمار ہوں تو وہ فدیہ بھی دیں گے اور بعد میں روزہ بھی رکھیں گے؟

دادی جان: قرآن کریم کے مطابق فدیہ کے بعد روزہ رکھنا استطاعت پر منحصر ہے۔ یعنی جو روزے کی طاقت رکھتے ہوں وہ گنتی پوری کر لیں۔ حضرت اماں جانؓ کی ایک روایت کے مطابق حضرت مسیح موعودؑ نے آخری بیماری میں فدیہ ادا فرمایا تھا لیکن پھر دوبارہ روزے نہیں رکھے تھے۔

گڑیا: جزاکم اللہ دادی جان۔ اب یہ بتائیں کہ فطرانہ کا مَصْرَف کیا ہے؟

اور مصرف کیا ہوتا ہے؟ محمود فوراً بولا

دادی جان: فطرانے کا لفظ فطر سے نکلا ہے اسی سے افطار کا لفظ ہے۔ ان سب الفاظ کا مطلب روزہ کھولنا ہے۔ اور مصرف کہتے ہیں جہاں خرچ کیا جائے۔ فطرانہ کو عربی میں صَدَقَۃُالفِطر، زکوٰۃِرمَضَان اور زکوٰۃُ الصوم کہتے ہیں۔ صدقۃ الفطر رمضان کے داخل ہونے سے ہی واجب ہوجاتا ہے لیکن اس کی ادائیگی عید کی نمازسے قبل یکم شوال تک ضروری ہے۔ بہتر یہی سمجھا جاتا ہے کہ غرباء کو عید کی تیاری کے لیے پہلے فطرانہ دے دیا جائے تا کہ وہ عید کی خوشیوں میں برابر کے شریک ہو سکیں۔ ہماری جماعت میں حالات کے مطابق گندم کی جوقیمت ہواس لحاظ سے ایک صاع یعنی قریباً دو سیر گندم کی قیمت کا انداز ہ کر کے رقم معین کر دی جاتی ہے۔ اور اس کی ادائیگی کا اعلان کر دیا جاتاہے۔

حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول خدا ﷺ نے صدقۃ الفطر ایک صاع کھجور یا جَو ہر آزاد و غلام، ہرمرد و عورت اور ہرچھوٹے بڑے مسلمان پر فرض فرمایا تھا اورحکم دیا تھا کہ لوگوں کے عید کی نماز کے لیے جانے سے پہلے یہ ادا کیا جائے۔

محمود: اور عید فنڈ کیا ہوتا ہے؟

دادی جان: حضرت مسیح موعودؑ نے عید فنڈ جاری فرمایا تھا جس سے عید کے موقع پر غریبوں کو عید کی خوشیوں میں شامل کرنا ہوتا ہے۔ اس کی کوئی حدّ نہیں لیکن حسبِ توفیق کوشش کرنی چاہیے۔ حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن فرمائے گا اے ابنِ آدم! میں بیمار ہوا تھا تُو نے میری عیادت نہیں کی تھی۔ وہ کہے گا تُورب العالمین ہے میں تیری عیادت کس طرح کرتا؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کیا تجھے معلوم نہیں ہوا تھا کہ میرا فلاں بندہ بیمار ہے اور تُو نے اس کی عیادت نہیں کی؟ کیا تجھے یہ سمجھ نہ آئی اگر تُو اس کی عیادت کرتا تو مجھے اس کے پاس پاتا؟ اے ابنِ آدم! میں نے تجھ سے کھانا مانگا مگر تُو نے مجھے کھانا نہ کھلایا۔ وہ کہے گا اے میرے ربّ! تُو تو رب العالمین ہے تمام جہانوں کو کھانا کھلانے والا ہے میں تجھے کیسے کھانا کھلاتا؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کیا تجھے علم نہیں کہ میرے فلاں بندے نے تجھ سے کھانا مانگا تھا اور تُو نے اسے کھانا نہیں کھلایا تھا؟ کیا تجھے یہ سمجھ نہ آئی کہ اگر تُو اسے کھانا کھلاتا تو گویا تُو نے مجھے یہ کھانا کھلایا ہوتا۔ پھر فرمایا اے ابنِ آدم! میں نے تجھ سے پانی مانگا لیکن تُو نے مجھے پانی نہ پلایا۔ وہ کہے گا اے میرے رب تُو رب العالمین ہے، میں تجھے کیسے پانی پلاتا؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا میرے فلاں بندے نے تجھ سے پانی مانگا تھا۔ تُو نے اسے پانی نہیں پلایا تھا۔ کیا تجھے یہ سمجھ نہ آئی کہ اگر تُواسے پانی پلاتا تو گویا تُو نے یہ پانی مجھے ہی پلایا ہوتا۔

تو یہ ثواب ہے کسی کی مدد کرنے کا۔ گویا ہم اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کر لیتے ہیں۔

محمود: دادی جان عید والے دن کھانا کیوں ضروری ہے؟ امی جان نے پچھلے سال بھی کہا تھا کہ عید والے دن کچھ کھا کر جاؤ۔

دادی جان: یہ تو سنتِ نبوی ﷺ ہے۔ حضرت انس بن مالک ؓبیان کرتے ہیں کہ رسول اکرمﷺ عیدالفطر کے دن نماز کے لیے تشریف نہیں لے جایا کرتے تھے جب تک کہ چند کھجوریں نہ کھا لیں۔ ایک دوسری روایت میں ہے کہ آنحضور ﷺ طاق تعداد میں کھجوریں کھاتے تھے۔ ایک روایت میں ہے کہ نبیﷺ عیدالفطر کے دن عید کے لیے کچھ کھائے بغیر نہ جاتے تھے اور عید الاضحی کے دن جب تک کہ نماز عید نہ پڑھ لیتے کچھ نہ کھاتے۔

حضرت مسیح موعود ؑ بھی ایسا ہی کرتے تھے۔ ایک روایت میں ہے کہ آپ نے نماز عید سے پیشتر احباب کے لیے میٹھے چاول تیار کروائے اور سب احباب نے مل کر تناول کیے۔

گڑیا: اس بار ہم بھی میٹھے چاول بنا کر تقسیم کریں؟
دادی جان: اچھی سوچ ہے۔ مسجد میں عید کے بعد ریفریشمنٹ کا انتظام تو ہوتا ہے۔ میں آپ کے ابو جان کو کہتی ہوں کہ صدر صاحب سے بات کر لیں اس بار میٹھے چاول ہم بنا کر لے جائیں گے۔

٭… ٭… ٭… ٭… ٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button