خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 7؍مارچ 2025ء
اللہ تعالیٰ بڑا حیا والا ہے بڑا کریم ہے اور سخی ہے۔ جب بندہ اس کے حضور دونوں ہاتھ بلند کرتا ہے تو وہ ان کو خالی اور ناکام واپس کرنے سے شرماتا ہے (الحدیث)
رمضان میں عبادتوں کی طرف توجہ اللہ تعالیٰ نے اس لیے دلائی ہے کہ پھر تم اسے اپنی زندگی کا حصہ بنا لو۔ اگر یہ نہیں تو صرف رمضان کی عبادتیں کچھ کام نہیں کریں گی
اللہ تعالیٰ کے عشق میں تو سوائے نفع کے اَور کچھ ہے ہی نہیں۔ فائدہ ہی فائدہ ہے کیونکہ وہ ہر خیر کا سرچشمہ ہے۔ ہر برائی سے بچانے والا ہے۔ ہر تکلیف سے نجات دینے والا ہے۔ وہ کہتا ہے مجھ سے مانگو۔ تم دعا کرو میں تمہیں جواب بھی دوں گا اور سچا عاشق تو اللہ تعالیٰ کا قرب مانگتا ہے۔ اس لیے ہمیں یہ کوشش کرنی چاہیے کہ ہم اللہ تعالیٰ کا قرب مانگنے کی کوشش کریں
سب سے بڑی چیز یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ سے اس کا رحم اور شفقت مانگو اور اس کے حکموں پر عمل کرنے کی کوشش کرو
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہےکہ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کی دعائیں سنتا ہے جو بے صبری نہیں دکھاتے
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم میں سے جس کے لیے بابِ دعا کھولا گیا تو گویا اس کے لیے رحمت کے دروازے کھول دیےگئے اور اللہ تعالیٰ سے جو چیز مانگی جاتی ہے اس میں سب سے زیادہ اس سے عافیت مطلوب کرنا محبوب ہے
اس رمضان میں ہمیں یہ عہد کرنا چاہیے کہ ہم اپنی عبادتوں کو زندہ کریں گے اور پھر اس کے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا بھی مانگیںکہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس عہد کو پورا کرنے کی توفیق دے اور پھر بھرپور کوشش سے اس کو پورا کرنے کے لیے اپنی تمام طاقتوں کو استعمال کرنے کی بھی کوشش ہونی چاہیے
ایک روایت میں آتا ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص یہ چاہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ تکالیف کے وقت اس کی دعاؤں کو قبول کرے تو اسے چاہیے کہ فراخی اور آرام کے وقت کثرت سے دعا کرے
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں بندے کے گمان کے مطابق سلوک کرتا ہوں۔ جس وقت بندہ مجھے یاد کرتا ہے میں اس وقت اس کے ساتھ ہوں گا۔ اگر وہ مجھے اپنے دل میں یاد کرے گا تو میں اس کو اپنے دل میں یاد کروں گا۔ اگر وہ میرا ذکر محفل میں کرے گا تو میں اس کا ذکر اس سے بہتر محفل میں کروں گا۔ اگر وہ میری جانب ایک بالشت آئے گا تو میں اس کی طرف ایک ہاتھ جاؤں گا۔ اگر وہ میری طرف ایک ہاتھ آئے گا تو میں اس کی طرف دو ہاتھ جاؤں گا۔ اگر وہ میری طرف چل کر آئے گا تو میں اس کی طرف دوڑ کے جاؤں گا
’’میں تمہیں یہ سمجھانا چاہتا ہوں کہ جو لوگ قبل از نزولِ بلا دعا کرتے ہیں اور استغفار کرتے اور صدقات دیتے ہیں اللہ تعالیٰ ان پر رحم کرتا ہے اور عذاب الٰہی سے ان کو بچا لیتا ہے۔‘‘ (حضرت مسیح موعودؑ)
اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کرنی چاہیے کہ ہمیں ظالموں سے نجات دے اور ان سے انتقام لے اور جو ہم سے دشمنی رکھتے ہیں تُو ہی ان کے خلاف ہماری مدد فرما اور اس طرح جب ہم رمضان میں دعائیں کریں گے تو اللہ تعالیٰ ایک انقلاب عظیم پیدا فرمائے گا اور پھر ہم دیکھیں گے چاہے وہ پاکستان کا مولوی ہے یا طاقتور انسان ہے یا کسی اَور حکومت کا کوئی طاقتور انسان ہے وہ کبھی ہمیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتااور ہم اگر خالص ہو کراللہ تعالیٰ کی طرف جھکیں گے تو اللہ تعالیٰ پھر ہماری مدد کو آئے گا۔ ولی اور دوست بننے کا حق ادا کرے گا
قرآن و احادیثِ نبویﷺ اور حضرت اقدس مسیح موعودؑ کے ارشادات کی روشنی میں دعاؤں کی اہمیت کا بصیرت افروز بیان نیز رمضان المبارک کے حوالے سے احباب جماعت کو زرّیں نصائح
خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 7؍ مارچ 2025ء بمطابق7؍ امان 1404 ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے)،یوکے
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾
اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾
اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾
وَ اِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیۡ عَنِّیۡ فَاِنِّیۡ قَرِیۡبٌ اُجِیۡبُ دَعۡوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ فَلۡیَسۡتَجِیۡبُوۡا لِیۡ وَ لۡیُؤۡمِنُوۡا بِیۡ لَعَلَّہُمۡ یَرۡشُدُوۡنَ (البقرۃ:187)
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب میرے بندے تجھ سے میرے متعلق سوال کریں تو یقیناً میں قریب ہوں۔ مَیں دعا کرنے والے کی دعا کا جواب دیتا ہوں جب وہ مجھے پکارتا ہے۔ پس چاہیے کہ وہ بھی میری بات پر لبیک کہیں اور مجھ پر ایمان لائیں تاکہ وہ ہدایت پائیں۔
رمضان کے شروع ہوتے ہی یہ خیال دل میں فوراًپیداہو جاتا ہے کہ نمازوں کی طرف توجہ ہو کیونکہ یہ برکتوں والا مہینہ ہے۔ اس میں دعائیں قبول ہوتی ہیں۔ اس لیے عموماً لوگ مسجد کی طرف بھی زیادہ رخ کرتے ہیں۔ مسجدوں کی حاضری بھی بڑھتی ہے فجر کی نمازہو یا عشاء کی نماز ہو۔ عام دنوں میں تو فجر اور مغرب عشاء کی نماز پراتنی حاضری نہیں ہوتی جتنی رمضان میں ہو جاتی ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ لوگوں کو کم از کم ان دنوں میں خیال آ جاتا ہے کہ ہمیں مسجد کی طرف جانا ہے اور اللہ تعالیٰ سے اس کا فضل مانگنا ہے۔
اس کی ایک بنیاد یہ بھی ہے کہ
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں رمضان کے دنوں میں جہنم کے دروازے بند کر دیتا ہوں۔ شیطان کو جکڑ دیتا ہوں اور جنت کے دروازے کھول دیتا ہوں۔
(بخاری کتاب بدء الخلق باب صفۃ ابلیس و جنودہ حدیث 3277)
اس سے لوگ صرف یہ خیال کرتے ہیں کہ شاید رمضان میں ہی عبادتوں کی ضرور ت ہے اور رمضان میں جو دعائیں کی جائیں یا عبادتیں کی جائیں وہی ہماری بخششوں کا سامان پیدا کر دیں گی۔ غیراحمدی چینلز ہیں، اسلامی ملکوں کے چینلز ہیں ان میں بھی یہ حدیث باربار دہرائی جاتی ہے حالانکہ یہ غلط سوچ ہے۔
رمضان میں عبادتوں کی طرف توجہ اللہ تعالیٰ نے اس لیے دلائی ہے کہ پھر تم اسے اپنی زندگی کا حصہ بنا لو۔ اگر یہ نہیں تو صرف رمضان کی عبادتیں کچھ کام نہیں کریں گی۔
بلکہ اللہ تعالیٰ فرمائے گا یہ تو تم نے ایک مہینے کی عبادت کی۔ گیارہ مہینے میں کیا کیا؟ پس اس قسم کی غلط فہمی کو انسان کو اپنے اندر سے نکال دینا چاہیے کہ صرف یہی کافی ہے کہ رمضان میں نمازیں پڑھ لیں اور مسجدوں کو آباد کر دیا۔ کیونکہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جو شخص ایمان کے تقاضے اور ثواب کی نیت سے رمضان کی راتوں میں اٹھ کر نماز پڑھتا ہے اس کے گذشتہ گناہ بخش دیےجاتے ہیں۔
(بخاری کتاب الصوم باب من صام رمضان ایمانا … حدیث 1901)
بیشک یہ آپؐ کا ارشاد ہے۔ اب یہ سوچ ہو سکتی ہے کہ جب انسان مستقل اپنی زندگی کا حصہ ان نیکیوں کو بنانے کی کوشش کرے اور نمازوں کی طرف توجہ دے، تہجد کی طرف توجہ دے، نوافل کی طرف توجہ دے تو رمضان میں زیادہ توجہ پیدا ہو گی۔ جو عبادت کرنے والے ہیں، مستقل عبادت کرنے والے ہیں وہ اس سوچ کے ساتھ یہ کام کرتے ہیں۔ لیکن بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ صرف رمضان میں ہی راتوں کو اٹھ لیا یہی کافی ہے۔
انسان غلطیوں کا پتلا ہے، غلطیاں ہوتی ہیں لیکن اللہ تعالیٰ بھی بڑا رحمان اور رحیم ہے۔ وہ بخشنے والا بھی ہے اس لیے اس نے ہمیں یہ موقع مہیا کیا ہے کہ اگر تمہارے سے سال کے دوران میں غلطیاں ہو گئی ہیں تو اب نئے سرے سے یہ عہد کرو اور پھر اس پر قائم رہنے کی کوشش کرو کہ تم آئندہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کا حق ادا کرنے والے بنو گے اور ان تمام نیکیوں کو بجا لانے والے بنو گے جن کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا۔
پس اس بات کو ایک مسلمان کو خاص طور پر یاد رکھنا چاہیے کہ رمضان کی عبادت کا جو اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے وہ اس لیے دیا ہے کہ تمہارے اندر رشد اور ہدایت پیدا ہو اور رشد ایک مہینے کے لیے نہیں پیدا ہوتی بلکہ مستقل پیدا کرنے والی چیز ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہی بات فرمائی ہے کہ اللہ تعالیٰ یاددہانی کروانے کے لیے اور اپنی رحمانیت کا اظہار کرنے کے لیے بار بار رمضان کو لے کے آتا ہے تا کہ انسان جو بھولا بھٹکا ہے اس کو دوبارہ اپنے فرائض یاد آ جائیں۔ حقوق اللہ بھی یاد آ جائیں ا ور حقوق العباد بھی یاد آ جائیں اور پھر وہ دیکھے کہ کس طرح وہ اللہ تعالیٰ کے اور بندوں کے حقوق ادا کر سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے حقوق پر عمل کر سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ جب یہ فرماتا ہے کہ سَاَلَکَ عِبَادِیۡ کہ جب میرے بندے یہ سوال کریں تو میرے بندے سے یہاں مراد عاشقانِ الٰہی ہیں۔ اب عاشق ہو جب کسی کا تو وہ یہ نہیں کہتا کہ سال کے گیارہ مہینے تو عشق کا اظہار نہ کرے اور صرف ایک مہینہ عشق کا اظہار کرے۔ تو
اللہ تعالیٰ کے عاشق کا تو یہ کام ہے، اللہ تعالیٰ کے بندوں کا یہ کام ہے کہ مستقل اس کام کو کرنے کی کوشش کریںجن کا حکم اللہ تعالیٰ نے دیا ہے اور اگر گیارہ مہینے میں کوتاہیاں ہوئی ہیں تو ان دنوں میں خاص طور پر ان کے لیے خاص کوشش کرے یا اہتمام کرے تا کہ یہ کوتاہیاں اور کمیاں دوبارہ سرزد نہ ہوں۔
سچے عاشق تو اپنے محبوب کی ہر بات مانتے ہیں۔ دنیاوی عشق لوگ کرتے ہیں اور دنیاوی محبوب کے اندر تو بہت ساری برائیاں ہوتی ہیں اور ان سے نقصان بھی پہنچ سکتے ہیں یا کم از کم بسا اوقات فائدے ان سے حاصل نہیں ہوتے لیکن
اللہ تعالیٰ کے عشق میں تو سوائے نفع کے اور کچھ ہے ہی نہیں۔ فائدہ ہی فائدہ ہے کیونکہ وہ ہر خیر کا سرچشمہ ہے، ہر برائی سے بچانے والا ہے، ہر تکلیف سے نجات دینے والا ہے۔ وہ کہتا ہے مجھ سے مانگو۔ تم دعا کرو میں تمہیں جواب بھی دوں گا اور سچا عاشق تو اللہ تعالیٰ کا قرب مانگتا ہے۔ اس لیے ہمیں یہ کوشش کرنی چاہیے کہ ہم اللہ تعالیٰ کا قرب مانگنے کی کوشش کریں۔
اپنی عبادتوں میں، رمضان کی عبادتوں میں صرف اپنے دنیاوی مفادات حاصل کرنے کے لیے ہی دعا نہ کریں بلکہ اپنے محبوب کا قرب حاصل کرنے کی دعا کریں۔ اس سے یہ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنا قرب عطا فرما، ہمیں مقبول دعاؤں کی توفیق عطا فرما، ہمیں لقاء عطا فرما، ہمارے روزوں کو قبول فرما اور جب یہ ہو گا تو پھر رمضان کے بعد بھی کوئی برائی سرزد نہیں ہو گی بلکہ نیکیوں کی بھی توفیق ملتی چلی جائے گی۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں بار بار توجہ دلائی ہے کہ حقوق اللہ کیا ہیں۔ حقوق العباد کیا ہیں۔ تم ان کو ادا کرنے کی کوشش کرو۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ قرآن کریم میں سات سو حکم ہیں۔
(کشتی نوح، روحانی خزائن جلد19صفحہ 26)
اور قرآن کریم پڑھنے کی طرف بھی رمضان میں خاص طور پر توجہ دلائی گئی ہے اور جب ہم اس کو پڑھیں گے تو ان حکموں کو بھی تلاش کریں گے جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں دیےہیں۔ بلکہ ایک جگہ تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے سات سو سے زیادہ احکام کا بتایا۔ پس جب ان حکموں کی تلاش کریں گے تو ہم عمل کرنے کی کوشش کریں گے اور یہی ایک سچے عاشق کا کام ہے کہ پھر اپنے محبوب کی باتوں کو ماننے کے لیے ہر ممکن کوشش کرے کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے بندوں سے کہو کہ مجھ پر ایمان لائیں تا کہ ہدایت پائیں اور کامل ایمان یہی ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کی سچی اطاعت کی جائے جیسا کہ مَیں نے کہا، پھر یہ بھی کہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ ایمان اور اعمالِ صالحہ ایسی چیزیں ہیں جو ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ اس لیے اس آیت میں یہ بھی لکھا ہے کہ میری بات پر لبیک کہیں۔ وہ باتیں یہی ہیں کہ اعمال صالحہ بجا لائیں۔ نیک اعمال بجا لائیں۔ نیکیوں پر قائم ہوں۔ عبادت کرتے ہوئے دعائیں مانگیں تو پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں تمہارا دوست بن جاؤں گا جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا ہے۔ اَللّٰہُ وَلِیُّ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا (البقرۃ:258) کہ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کا دوست ہوتا ہے جو ایمان لاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی دوستی اور ایمان پھر تمہیں اللہ تعالیٰ کا قرب عطا کرے گا اور پھر یہ قرب عطا کرتا چلا جائے گا، اس میں ترقی ہوتی چلی جائے گی۔ یہ قرب ایسا نہیں کہ ایک جگہ رکنے والا ہے۔ وہ دعاؤں کو بھی سنے گا۔
پس رمضان میں یہ مقام حاصل کرنے کی کوشش ہمیں کرنی چاہیے اور ہم یہ سوچیں کہ اس کے بعد اگر ہم اس مقام سے پیچھے ہٹ گئے اور ان عبادات کا اس طرح حق ادا نہ کیا جس طرح رمضان میں ادا کرتے رہے ہیں اور اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کی کوشش نہ کی تو پھر اللہ تعالیٰ دوست کس طرح بنے گا۔ اللہ تعالیٰ ولی تو نہیں پھر بن سکتا۔ اللہ تعالیٰ نے بھی کچھ شرائط رکھی ہیں،
دعاؤں کی قبولیت کے لیے بھی شرائط ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے پہلی تو یہی بات کی ہے کہ عبد بن کے رہنا ہو گا۔ خالص اس کا ہو نا ہے۔ خالص ہو کر اس کی عبادت کرنی ہے۔ اس کو سب طاقتوں کا سرچشمہ سمجھنا ہےاور کوئی دنیاوی خدا نہیں بنانے۔ جھوٹے خدا نہیں بنانے۔ چھوٹے چھوٹے لوگوں کو اپنے مقاصد کے لیے لاشعوری طور پر اپنا خدا نہیں بنا لینا۔ یہ تو پھر شرک کی طرف چلا جائے گا۔ ابھی پچھلے دنوں حفاظت خاص جرمنی کے بھی لوگ آئے ہوئے تھے وہ یہی سوال کرتے تھے کہ کس طرح ہم اپنے فلاں افسروں کو خوش کریں تو ان کو مَیں نے یہی کہا ہے کہ تم لوگ جو کام کرو خدا تعالیٰ کو راضی کرنے کے لیے کرو اور خدا تعالیٰ کو راضی کرنے کے لیے کام کرو گے تو اللہ تعالیٰ خود تمہارے افسران کی توجہ بھی اس طرف پھیر دے گا اور وہ تمہاری بہتری کے سامان پیدا کرنے کی کوشش کریں گے اور تم پر رحم اور شفقت کا سلوک کریں گے لیکن
سب سے بڑی چیز یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ سے اس کا رحم اور شفقت مانگو اور اس کے حکموں پر عمل کرنے کی کوشش کرو۔
اب ہم مثال دیتے ہیں حضرت چودھری ظفرا للہ خان صاحبؓ کی کہ کس طرح انہوں نے ایک دفعہ ملکہ کے دربار میں بے چینی کا اظہار کیا۔ وہ بیٹھے ہوئے تھے اور بار بار اپنی گھڑی دیکھنی شروع کی۔ جب افسران نے پوچھا کہ کیا وجہ ہے؟ تو انہوں نے کہا کہ میری عبادت کا وقت ہے اور عبادت کا یہ وقت اب قریب آ رہا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے جسے مجھے کرنا ضروری ہے۔ اس لیے میں بےچین ہوں کہ یہ وقت ضائع نہ چلا جائے تو انہوں نے اس کا انتظام کر دیا۔ (ماخوذ از ماہنامہ خالد ربوہ، دسمبر1985ء، جنوری 1986ء صفحہ89)تو یہ جرأت ہے اور یہ وہ ایمان کا تقاضا ہے جو ہر احمدی میں ہونا چاہیے۔ ہم مثالیں دیتے ہیں، ہمیں یہ نمونے اپنانے بھی چاہئیں۔
پھر
آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بے شمار باتیں ہمیں نیکیوں کی طرف توجہ دلانے کے لیے فرمائیں۔ بےشمار احادیث ہیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس زمانے میں آپؐ کے غلامِ صادق ہونے کا حق ادا کیا ہے اور ہمیں نیکیوں کی طرف توجہ دلائی ہے۔ اپنی شرائط بیعت میں اکثر شرائط یہی ہیں کہ حقوق اللہ اور حقوق العباد کی طرف توجہ کرو۔ پس یہ چیزیں ہیں جن کی طرف ہمیں توجہ کرنی چاہیے اور جب ہم یہ کریں گے تو پھر اللہ تعالیٰ ہمارا ولی بن جائے گا۔ ہمارا دوست بھی بن جائے گا۔ ہماری دعاؤں کو بھی سنے گا۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہےکہ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کی دعائیں سنتا ہے جو بے صبری نہیں دکھاتے۔
(مسلم کتاب الذکرو الدعاء باب بیان انہ یستجاب للداعی … حدیث 6936)
اور یہ نہیں کہتے کہ میں نے بہت دعائیں کر لی ہیں اور اللہ تعالیٰ تو سنتا ہی نہیں۔ یہ کفر ہے اور ایمان سے دور لے جانے والی باتیں ہیں۔ ایک مومن کو ہمیشہ اس سے بچنا چاہیے۔ پس یہ چیزیں ہیں جن کی طرف توجہ کی ضرورت ہے۔
بعض لوگ مجھے بھی لکھ دیتے ہیں کہ ہم نے بہت دعائیں کی ہیں۔ پہلی بات تو یہ کہ دعائیں اللہ تعالیٰ کا قرب پانے کے لیے نہیں کیں۔ انہوں نے اپنے دنیاوی مقصد کے لیے دعائیں کی ہیں اور اس وقت کیں جب ان کو دنیاوی مسائل پیدا ہوئے۔ جب صرف دنیاوی مسائل کے حل کے لیے اللہ تعالیٰ کے قریب جائیں گے تو اللہ تعالیٰ ایسی باتیں کیوں سنے گا۔ دوست تو اس وقت دوستی کا حق ادا کرتا ہے جب اس سے عام حالات میں بھی دوستی کا حق ادا کیا جائے اور اس کی باتوں کو سنا جائے، اس کو مانا جائے تب وہ تمہاری باتیں بھی سنے گا۔ پس یہ بات ہمیشہ یاد رکھنی چاہیے کہ صرف ہم اپنے مقصد کے لیے اپنے دنیاوی کاموں کے لیے اللہ تعالیٰ کے پاس نہ جائیں بلکہ اللہ تعالیٰ کا قرب پانے کے لیے اللہ تعالیٰ کے پاس جانے کی کوشش کریں اور جب ہم یہ کریں گے تو انشاءاللہ پھر اللہ تعالیٰ ہماری دعائیں بھی قبول کرے گا ۔ پھر وہ سنتا بھی ہے، ان کا جواب بھی دیتا ہے کیونکہ اس نے تو خود کہا ہے کہ مَیں اپنے بندوں کو جواب دیتا ہوں۔حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ یہ تو دو دوستوں کا معاملہ ہوتا ہے کبھی دوست اپنے دوست کی مان لیتا ہے کبھی دوست سے اپنی منواتا ہے۔ اسی طرح خدا معاملہ کرتا ہے لیکن بظاہر جو ایک مومن کی دعاخدا ردّ کرتا ہے تو یہ بھی اصل میں اس کے فائدے کے لیے کر رہا ہوتا ہے۔
(ماخوذ از ملفوظات جلد3صفحہ 386، ایڈیشن 1984ء)
یہ مفہوم ہے ان باتوں کا جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمائی ہیں کیونکہ اب یہ کہنا کہ مَیں نے دعا کی، پہلی بات تو یہ ہے کہ دعا صرف اس وقت کی جب اپنے دنیاوی مقاصد تھے۔ دین کی خاطر اور اس کی بہتری کے لیے، دین میں ترقی کرنے کے لیے، خدا تعالیٰ کا قرب پانے کے لیے تو دعا کوئی نہیں کی اور پھر اگرایک مومن ہے اور اس کی بھی بعض دفعہ دعائیں نہیں قبول ہوتیں تو آپؑ نے فرمایا کہ یہ تو دوستی کا معاملہ ہے کبھی مان لیا کبھی نہیں مانا اور جو نہ مانا اس میں بھی اللہ تعالیٰ اپنے دوست کی بہتری کے لیے سامان کرتا ہے۔ بعض ایسی باتیں ہیں جو نہیں مانتا اور اس کے بدلے میں اس کو اور ذریعوں سے اجر دے دیتا ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ یعنی جب میرے بندے میرے بارے میں سوال کریں کہ خدا کے وجود پر دلیل کیا ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ میں بہت نزدیک ہوں یعنی کچھ بڑے دلائل کی حاجت نہیں۔ میرا وجود اقرب طریقے سے سمجھ آ سکتا ہے۔ نہایت آسانی سے میری ہستی پر دلیل پیدا ہوتی ہےاور فرمایا دلیل یہ ہے کہ جب کوئی دعا کرنے والا مجھے پکارے تو میں اس کی سنتا ہوں اور اپنے الہام سے اس کی کامیابی کی بشارت دیتا ہوں جس سے نہ صرف میری ہستی پر یقین آتا ہے بلکہ میرے قادر ہونے پر بھی بپایہ یقین تک پہنچتا ہے۔ جب اللہ تعالیٰ سنتا ہے تو جواب بھی دیتا ہے۔
ہمارے ریویو آف ریلیجنز والےکئی سالوں سے God Summitکرتے آ رہے ہیں۔ مختلف وقتوں میں انہوں نے کیا۔ اس سال بھی انہوں نے کیا اور لوگ اپنی دعاؤں کی قبولیت کے قصے بھی اس میں سناتے ہیں، واقعات سناتے ہیں کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے ان کی دعاؤں کو سنا اور کس طرح ان کو ان دعاؤں کی قبولیت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی ہستی پر یقین پیدا ہوا لیکن شرط یہ ہے۔ فرمایا
چاہیے کہ لوگ ایسی حالت تقویٰ اور خدا ترسی کی پیدا کریں کہ میں ان کی آواز سنوں۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ حالتِ تقویٰ پیدا کرو، خدا ترسی پیدا کرو تا کہ ان کی آواز سنوں۔ آپؑ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ تو یہ کہتا ہے کہ تقویٰ کی حالت اور خدا ترسی پیدا کرو تب میں سنوں گا، یونہی نہیں سنوں گا۔ اب یہ خدا ترسی اور تقویٰ کی حالت اللہ تعالیٰ کو اپنی آواز سنوانے کے لیے پیدا کرنی ہو گی۔ پھر آپؑ نے فرمایا کہ چاہیے کہ مجھ پر ایمان لائیں، آپؑ اس آیت کی وضاحت فرما رہے ہیں اور قبل اس کے جو ان کو معرفت کاملہ ملے اس بات کا اقرار کریں کہ خدا موجود ہے اور تمام طاقتیں اور قدرتیں رکھتا ہے کیونکہ جو شخص ایمان لاتا ہے اس کو عرفان دیا جاتا ہے۔ اب یہ بھی اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے اس آیت میں کہ فَلۡیَسۡتَجِیۡبُوۡا لِیۡ وَ لۡیُؤۡمِنُوۡا بِیۡ کہ وہ میری بات پر لبیک کہیں اور مجھ پر ایمان لائیں۔ اور فرمایا بھی ان لوگوں کو ہے جو اپنے بندے ہیں۔ اپنے بندوں کو اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے جو حقیقی مومن ہیں، حقیقی بندے ہیں۔ بعض وقت جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا کمزوری کی حالت بھی پیدا ہو جاتی ہے تب وہ اللہ تعالیٰ کے قریب جا کے اپنے ایمانوں کو مضبوط کریں۔ اور جب یہ حالت ہو گی تواللہ تعالیٰ ہی ہے جو سب قدرتوں کا مالک ہے اور اس پر ایمان کی ترقی بھی ہوتی چلی جائے گی۔ جب وہ دیکھے گا کہ میرا بندہ اتنے قریب آنے کی کوشش کر رہا ہے تو وہ بندے کے ایمان کو ترقی دے گا۔
پھر فرمایا اس کو عرفان دیا جاتا ہے تب ہی وہ اس حالت میں ہو گا جب اللہ تعالیٰ اس کی دعاؤں کو سنے گا بھی اور وہ اللہ تعالیٰ کی حقیقت بھی پہچانے گا یا اگر کسی دعا کو اللہ تعالیٰ نہیں سنتا تو دل کو ایسی تسکین عطا فرمائے گا کہ انسان کو یہ خیال نہیں آئے گا کہ خدا تعالیٰ نے میری دعا سنی نہیں۔ اس کو یہ خیال آئے گا کہ اللہ تعالیٰ کسی اور رنگ میں میری جو ضروریات ہیں وہ پوری فرما دے گا۔ آپؑ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ خدا ترسی ہو، اللہ تعالیٰ کے حقوق بھی ادا کر رہے ہو اور اللہ تعالیٰ کے بندوں کے حقوق بھی ادا کر رہے ہو۔ یہ خدا ترسی ہے۔ تو پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں تمہاری دعا سنوں گا اور ایمان اور یقین میں پھر انسان کو بڑھتے چلے جانا چاہیے۔ ایک عرفان پیدا ہوتا چلا جائے گا پھر عرفان میں اور بڑھتا چلا جائے گا۔ معرفتِ تامہ آپؑ نے فرمایا پیدا ہوتی چلی جائے گی۔
(ماخوذ از ایام الصلح، روحانی خزائن جلد14صفحہ 260-261)
پھر قرآن کریم میں جو آتا ہے کہ یُؤۡمِنُوۡنَ بِالۡغَیۡبِ کہ غیب پر ایمان ہو۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃو السلام نے اس کی نہایت لطیف تشریح فرمائی ہے۔ ایک جگہ فرمایا کہ
غیب بھی خدا کا نام ہے۔
( ماخوذ از ملفوظات جلد 10صفحہ 11، ایڈیشن 2022ء)
فرمایا کہ ہر دعا سے پہلے یہ یقین ہو کہ خدا ہے اور وہ بے انتہا صفات کا حامل ہے۔ سب قدرتیں اور طاقتیں رکھتا ہے۔ جب اس یقین کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی طرف بڑھو گے، اس کے آگے جھکو گے، اس سے دعائیں مانگو گے تو پھر تمہیں اللہ تعالیٰ کی مکمل پہچان ہو گی، عرفان حاصل ہو گا اور قبولیتِ دعا کے نشانات بھی دیکھو گے۔ کئی لوگ اللہ تعالیٰ کے فضل سے دیکھتے ہیں، کچھ واقعات بھی بیان کرتے ہیں جیسا کہ میں نے کہا ہے کہ God Summit میں کئی لوگوں نے بیان کیےاور اس سے ان کا ایمان مضبوط ہوتا ہے۔ یہ نہیں ہوتا کہ منہ سے تو کہہ دیا کہ ہم اللہ تعالیٰ کی ذات پر مکمل یقین اور ایمان رکھتے ہیں لیکن اس کے احکام پر عمل نہیں۔ نمازیں سال کے سال صرف رمضان میں پڑھنے کی کوشش ہو جس طرح آجکل مسجدیں آباد ہیں۔ یہ مسجدیں ہمیشہ آباد رہنی چاہئیں۔ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ احمدی نمازوں کی طرف بہت توجہ دیتے ہیں لیکن ابھی بھی جہاں جہاں کمزوریاں ہیں ان کو اپنی کمزوریوں پر نظر رکھنی چاہیے اور دیکھنا چاہیے کہ ہم اس رمضان کو ایسا رمضان بنائیں جو ہماری عبادتوں کے معیار کو بلند کرنے والا ہو، ہمیں خدا تعالیٰ کا قرب دلانے والا ہو تا کہ ہم اللہ تعالیٰ کے خالص بندے بننے والے ہوں۔ اس کی باتوں کو ماننے والے ہوں اور پھر نتیجے میں اللہ تعالیٰ ہماری دعاؤں کو بھی قبول فرمائے۔ پس
اس رمضان میں ہمیں یہ عہد کرنا چاہیے کہ ہم اپنی عبادتوں کو زندہ کریں گے اور پھر اس کے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا بھی مانگیںکہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس عہد کو پورا کرنے کی توفیق دے اور پھر بھرپور کوشش سے اس کو پورا کرنے کے لیے اپنی تمام طاقتوں کو استعمال کرنے کی بھی کوشش ہونی چاہیے۔
پس جب یہ کوشش ہو گی اور اس کے لیے ہم اپنی ساری طاقتیں استعمال کرتے ہوئے، پوری طاقتوں سے اس طرف لگیں گے تو پھر خود اللہ تعالیٰ سے اتنا قریبی تعلق پیدا ہو جائے گا کہ خدا تعالیٰ ایک دوست بن جائے گا جیسا کہ اس نے کہا ہے کہ میں ولی بن جاتا ہوں ان لوگوں کا جو میری باتیں مانتے ہیں۔
ایک روایت میں آتا ہے حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیان کیا کہ
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم میں سے جس کے لیے بابِ دعا کھولا گیا تو گویا اس کے لیے رحمت کے دروازے کھول دیےگئے اور اللہ تعالیٰ سے جو چیز مانگی جاتی ہے اس میں سب سے زیادہ اس سے عافیت مطلوب کرنا محبوب ہے۔
(ترمذی کتاب الدعوات باب من فتح لہ منکم باب الدعاء حدیث 3548)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دعا اس ابتلا کے مقابلے پر جو آ چکا ہے اور اس کے مقابلے پر جو ابھی آنا ہو نفع دیتی ہے اور اے اللہ کے بندو! تم پر لازم ہے کہ تم دعا کرنے کو اختیار کرو۔ اب صرف رمضان کے دنوں میں تو آفات نہیں آتیں یا مشکلات نہیں آتیں۔ مختلف وقتوں میں آتی رہتی ہیں تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم صرف ان دنوں میں دعائیں نہ کرو یا تمہیں جب ان بلاؤں کو دُور کرنے کے لیے ضرورت پڑے تو اس وقت دعائیں نہ کرو بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دعا جو مشکلات ابھی نہیں بھی آئیں اور وہ مشکلات کسی وقت بھی آ سکتی ہیں ان سے بھی بچانے کا کام دیتی ہے اس لیے تم مستقل دعا کرتے رہو۔ اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آنے کی کوشش کرتے رہو۔ اللہ تعالیٰ جو مشکلات آئی ہیں ان سے بھی بچا کے رکھے اور جو اللہ تعالیٰ کے انعامات ہیں ان سے بھی نوازتا رہے اور اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ اگر آئندہ بھی کوئی مشکل آنے والی ہے تو اللہ تعالیٰ ان بلاؤں کو، ان مشکلات کو دور کر دے اور ہمیشہ نفع عطا فرماتا رہے۔ جب یہ حالت ہو گی تو تبھی انسان وہ حقیقی مومن کہلا سکتا ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے مومن کے زمرے میں ڈالا ہے۔ پس جب دعاؤں میں نیکی کی راہوں کو اللہ تعالیٰ سے مانگو گے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ گذشتہ ابتلا سے بھی حفاظت میں آنے کے سامان ہوں گے اور آئندہ بھی بچتے رہو گے۔ پس یہ رحمت کے دروازے کھولنے کے لیے ہمیں مستقل اپنی زندگیوں میں وہ انقلاب پیدا کرنا ہو گا کہ ہمارا تعلق خدا تعالیٰ سے قائم رہے اور ہم خوشی غمی آسانی اور مشکل ہر وقت اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو طلب کرتے رہیں۔ حضرت ابوہریرہؓ ایک روایت بیان فرماتے ہیں کہ
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ ہمارا رب ہر رات قریبی آسمان تک نزول فرماتا ہے جب رات کا تیسرا حصہ باقی رہ جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ کون ہے جو مجھے پکارے تو میں اس کا جواب دوں۔ کون ہے جو مجھ سے مانگے اور میں اس کو دوں۔ کون ہے جو مجھ سے بخشش طلب کرے تو میں اس کو بخش دوں۔
(بخاری کتاب الدعوات باب الدعاء نصف اللیل حدیث 6321)
اب یہ کوئی رمضان کے ساتھ تو مشروط نہیں ہے۔ یہاں تو عام حالات کی بات ہو رہی ہے کہ جب بھی کوئی بندہ مجھ سے رات کے پہر میں مانگتا ہے میں اس کو بخشتا ہوں۔ میں اس کو دیتا ہوں اس کی باتوں کا جواب بھی دیتا ہوں۔ تو رمضان میں تو اللہ تعالیٰ نے ایک ایسا موقع پیدا کر دیا ہے کہ عبادتوں کی طرف کیونکہ ساروں کی توجہ ہوتی ہے اس لیے ان دنوں میں تم بھی توجہ کر لو گے تو تمہیں پھر ان نیکیوں کی عادت پڑ جائے گی اور جب ایک مہینے میں عادت پڑ جائے گی تو پھر مستقل اس کو زندگی کا حصہ بنانے کی کوشش کرو گے۔
ایک روایت میں آتا ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص یہ چاہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ تکالیف کے وقت اس کی دعاؤں کو قبول کرے تو اسے چاہیے کہ فراخی اور آرام کے وقت کثرت سے دعا کرے۔
(ترمذی کتاب الدعوات باب ما جاء ان دعوۃ المسلم مستجابۃ حدیث 3382)
جیسا کہ پہلے بھی حدیث کے حوالے سے بیان ہوا ہے۔ پس یہ باتیں بہت ضروری ہیں جو ہمیں یاد رکھنی چاہئیں۔ ہمارا تعلق اللہ تعالیٰ سے ہمیشہ ہونا چاہیے نہ کہ ہم تنگی اور پریشانی اور دکھوں میں اللہ تعالیٰ کی طرف دوڑیں اور آہ و زاری کریں بلکہ اللہ تعالیٰ کا حقیقی دوست بننے کے لیے ہمیں کوشش کرنی چاہیے اور اللہ تعالیٰ کو اپنا ولی بنانے کے لیے ہمیں چاہیے کہ ہم مستقل اس کے آستانے پر جھکے رہیں۔ پس جیسا کہ میں نے کہا مستقل مزاجی سے عام حالات میں توجہ ہونی چاہیے۔ یہ حدیث بھی یہی بتا رہی ہے کہ صرف تکلیف اور ضرورت کے وقت ہی اللہ تعالیٰ کو نہیں پکارنا بلکہ ہر وقت پکارنا ہے۔ ایک روایت میں یہ بھی آتا ہے کہ
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں بندے کے گمان کے مطابق سلوک کرتا ہوں۔ جس وقت بندہ مجھے یاد کرتا ہے میں اس وقت اس کے ساتھ ہوں۔ اگر وہ مجھے اپنے دل میں یاد کرے گا تو میں اس کو اپنے دل میں یاد کروں گا۔ اگر وہ میرا ذکر محفل میں کرے گا تو میں اس کا ذکر اس سے بہتر محفل میں کروں گا۔ اگر وہ میری جانب ایک بالشت آئے گا تو میں اس کی طرف ایک ہاتھ جاؤں گا۔ اگر وہ میری طرف ایک ہاتھ آئے گا تو میں اس کی طرف دو ہاتھ جاؤں گا۔ اگر وہ میری طرف چل کر آئے گا تو میں اس کی طرف دوڑ کے جاؤں گا۔
(بخاری کتاب التوحید باب ما یذکر فی الذات والنعوت حدیث 7405)
پس ہر احمدی کو یہ کوشش کرنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کے ذکر سے ہم اپنی زبانوں کو تر رکھیں اور یہ کوشش ہونی چاہیے کہ ہمارا ہر فعل ہر عمل اللہ تعالیٰ کی طرف بڑھنے والا ہو۔ ہمارا ہر قدم ایسا ہو جو اللہ تعالیٰ کی طرف لے جانے والا ہو تا کہ اللہ تعالیٰ دوڑ کر ہمارے پاس آئے اور ہمیں اپنے پیار کی چادر میں لپیٹ لےاور ہماری ضروریات کو پورا کرے۔ تنگی اور آسائش اور عسر اور یسر ہر حالت میں ہم اللہ تعالیٰ کے ہی بندے بن کر رہیں۔ ایک روایت میں آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ذوالنون یعنی حضرت یونس نے مچھلی کے پیٹ میں جو دعا کی وہ یہ تھی کہ لَا اِلٰہَ اِلَّا اَنۡتَ سُبۡحٰنَکَ اِنِّیۡ کُنۡتُ مِنَ الظّٰلِمِیۡنَ۔(الانبیاء:88) اور فرمایا کہ اس دعا کو جو بھی مسلمان کسی ابتلا کے وقت کرے گا اللہ تعالیٰ اس دعا کو ضرور قبول فرمائے گا۔
(ترمذی کتاب الدعوات باب فی دعوۃ ذی النون حدیث 3505)
پس یہ بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہم پر شفقت ہے کہ ہمیں ساتھ ساتھ ان دعاؤں کی طرف بھی توجہ دلاتے رہے کہ انسان سے کمزوریاں سرزد ہوتی ہیں۔ انسان بعض دفعہ اللہ تعالیٰ کے حق ادا نہیں کرتا لیکن اللہ تعالیٰ پھر بھی بندوں پر مہربان ہے اور اللہ تعالیٰ نے خود ان کو دعائیں سکھائی ہوئی ہیں۔ قرآن کریم میں جو مختلف دعائیں سکھائی ہیں وہ کس لیے سکھائی ہیں اللہ تعالیٰ نے؟ کس لیے ان کا ذکر کیا گیا ہے نبیوں کی دعاؤں کے ساتھ؟ اللہ تعالیٰ نے یہ دعائیں ہمیں اس لیے سکھائی ہیں کہ ہم یہ مانگیں تو چونکہ اللہ تعالیٰ کی سکھائی ہوئی دعائیں ہیں اللہ تعالیٰ ان کو قبول فرمائے گا لیکن بات وہی ہے کہ ہم پہلے اس کا حق ادا کرنے والے ہوں۔ فَلۡیَسۡتَجِیۡبُوۡا لِیۡ کا حکم اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ میری بات پر لبیک کہو۔ میری بات سنو اور اپنے ایمان کو تازہ کرو۔ پس ہم اپنی حالتوں کا خود ہی جائزہ لے سکتے ہیں کہ ہم کس حد تک اللہ تعالیٰ کے حکم مانتے ہیں۔
حضرت یونسؑ کی دعا جو میں نے ابھی پڑھی ہے اس کی وضاحت کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ اس سے ایک سبق ملتا ہے کہ تقدیر کو اللہ تعالیٰ بدل دیتا ہے اور رونا دھونا اور صدقات جو حضرت یونس علیہ السلام کی قوم کا واقعہ ہوا تھا یا اس واقعہ میں جو ذکر ہےفردِ قراردادِ جرم کو بھی رد کر دیتی ہے۔ الزام لگ گیا سزا کا فیصلہ بھی ہو گیا تب بھی دعا اس کو ردّ کر دیتی ہے۔
(ماخوذ از ملفوظات جلد اوّل صفحہ 238 ایڈیشن 1984ء)
اب بعض لوگ کہتے ہیں جیسا کہ پہلے بھی میں نے کہا کہ جب اللہ تعالیٰ نے تقدیر میں یہ لکھا ہوا ہے اور اللہ تعالیٰ کو پتہ ہے کہ یہ ہونا ہے تو پھر ہمیں دعائیں کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ ہمیں پھر نیکیاں کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ آپؐ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تو یہ دعا سکھائی ہوئی ہے اور حضرت یونس کا واقعہ بیان کر کے یہ ثبوت بھی دے دیا ہے کہ میں تقدیر کے فیصلے جو میرے فیصلے ہیں ان کو میں بدل دیتا ہوں۔ اگر تمہارا رونا دھوناہو اور تمہارا صحیح تعلق ہو خدا تعالیٰ سے اور اگر تم نیکیاں کرنے لگ جاؤ اور برائیوں سے بچنے لگ جاؤ اور اللہ تعالیٰ کے آستانے پر گر کےآہ و زاریاں کرو تو آپ فرماتے ہیں کہ
’’میں تمہیں یہ سمجھانا چاہتا ہوں کہ جو لوگ قبل از نزول بلا دعا کرتے ہیں اور استغفار کرتے اور صدقات دیتے ہیں اللہ تعالیٰ ان پر رحم کرتا ہے اور عذاب الٰہی سے ان کو بچا لیتا ہے۔‘‘
یہی آپؑ نے فرمایا ہے کہ بلائیں جب آ جاتی ہیں تب بھی اللہ تعالیٰ اتنا مہربان ہے کہ وہ تب بھی تمہیں بچا لیتا ہے اگر تمہاری دعائیں حقیقت میں صدق دل سے کی گئی دعائیں ہیں اور تمہارا سچااستغفار ہے۔ فرمایا کہ ’’میری ان باتوں کو قصہ کے طور پر نہ سنو۔ میں نصحاً للہ کہتا ہوں اپنے حالات پر غور کرو اور آپ بھی اور اپنے دوستوں کو بھی دعا میں لگ جانے کے لیے کہو۔ استغفار عذابِ الٰہی اور مصائب شدیدہ کے لیے سپر کا کام دیتاہے۔‘‘ استغفار بہت زیادہ کرو۔ یہ ڈھال ہے۔ یعنی یہ ڈھال ہے تمہاری۔ استغفار کرو گے تو اللہ تعالیٰ تمہیں بچائے گا۔ گذشتہ دنوں میں میں نے دعاؤں کی تحریک بھی کی تھی اس میں استغفار کی طرف بھی توجہ دلائی تھی۔ استغفار ایک ڈھال ہے آپؑ نے فرمایا۔ آپؑ فرماتے ہیں ’’قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے مَا کَانَ اللّٰہُ مُعَذِّبَہُمۡ وَ ہُمۡ یَسۡتَغۡفِرُوۡنَ۔(الانفال:34)‘‘ اللہ تعالیٰ نے خود فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہیں عذاب کیوں دے گا اگر تم استغفار کر رہے ہو۔ اللہ تعالیٰ ان کو عذاب نہیں دیتا جو لوگ استغفار کر رہے ہوتے ہیں۔ حقیقی استغفار ہو۔ ’’اس لیے‘‘ فرمایا کہ ’’اگر تم چاہتے ہو کہ اس عذاب الٰہی سے تم محفوظ رہو تو استغفار کثرت سے پڑھو۔‘‘
(ملفوظات جلد 1 صفحہ 207 ایڈیشن 1984ء)
پس اللہ تعالیٰ نے اس دعا میں یہی فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسا نہیں ہے کہ انہیں عذاب دے جبکہ وہ بخشش مانگ رہے ہوں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کی تشریح میں فرمایا کہ اگر تم چاہتے ہو کہ اس عذابِ الٰہی سے بچو تو استغفار بہت کیا کرو۔ پھر ایک روایت میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ
اللہ تعالیٰ بڑا حیا والا ہے۔ بڑا کریم ہے اور سخی ہے۔ جب بندہ اس کے حضور دونوں ہاتھ بلند کرتا ہے تو وہ ان کو خالی اور ناکام واپس کرنے سے شرماتا ہے۔
(ترمذی کتاب الدعوات باب ان اللہ حیی کریم حدیث 3556)
یعنی صدق دل سے مانگی گئی دعا کو ردّ نہیں کرتا بلکہ اس کو قبول کر لیتا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ سے ہم جو دعائیں مانگیں ان کو صدق دل سے مانگنا چاہیے۔ گذشتہ گناہوں اور غلطیوں کی ہم معافی مانگیں اور آئندہ کے لیے نیکیوں پر قائم رہنے کی توفیق اللہ تعالیٰ سے مانگیں اور پھر اس پر قائم رہنے کی کوشش کریں۔ رمضان میں بھی اس کے لیے کوشش کریں اس کے لیے دعائیں کرتے رہیں اور رمضان کے بعد بھی اس کے لیے کوشش کریں پھر دیکھیں اللہ تعالیٰ کس طرح دوڑ کر ہماری طرف آتا ہے اور ہمیں اپنی آغوش میں لے لیتا ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں ’’جس طرح خدا تعالیٰ کی کتابوں میں نیک انسان اور بد انسان میں فرق کیا گیا ہے اور ان کے جدا جدا مقام ٹھہرائے ہیں اسی طرح خدا تعالیٰ کے قانونِ قدرت میں ان دو انسانوں میں بھی فرق ہے جن میں سے ایک خدا تعالیٰ کو چشمہ فیض سمجھ کر بذریعہ حالی اور قالی دعاؤں کے اس سے قوت اور امداد مانگتا اور دوسرا صرف اپنی تدبیر اور قوت پر بھروسہ کر کے دعا کو قابل مضحکہ سمجھتا ہے بلکہ خدا تعالیٰ سے بے نیاز اور متکبرانہ حالت میں رہتا ہے۔ جو شخص مشکل اور مصیبت کے وقت خدا سے دعا کرتا اور اس سے حل مشکلات چاہتا ہے وہ بشرطیکہ دعا کو کمال تک پہنچاوے‘‘ یہ شرط ہے یعنی یہ شرط لگائی ہے کہ دعا کو کمال تک پہنچانا ہے ’’خدا تعالیٰ سے اطمینان اور حقیقی خوشحالی پاتا ہے۔‘‘ جب کمال تک پہنچ جائے۔ ’’اور اگر بالفرض وہ مطلب اس کو نہ ملے تب بھی کسی اور قسم کی تسلی اور سکینت خدا تعالیٰ کی طرف سے اس کو عنایت ہوتی ہے‘‘ اور فرمایا کہ ’’اور وہ ہرگز ہرگز نامراد نہیں رہتا اور علاوہ کامیابی کے ایمانی قوت اس کی ترقی پکڑتی ہے اور یقین بڑھتا ہے۔‘‘
(ایام الصلح، روحانی خزائن جلد 14 صفحہ 236-237)
اب یہ باتیں دیکھیں کہ ہم نے اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو حاصل کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تو خود نیک اور بد میں فرق یہی رکھا ہے۔ جو نیک ہے وہ اللہ تعالیٰ کو چشمۂ فیض سمجھتا ہے۔ ہر ایک فیض کا چشمہ اللہ تعالیٰ کی ذات کو سمجھتا ہے۔ ہر ایک فیض جو ہے اللہ تعالیٰ سے حاصل ہونے کو سمجھتا ہے اور اس سے قوت مانگتا ہے تو یہ یقینا ًمومن ہے۔ ایک متکبر ایسی حالت نہیں کرتا۔ وہ سمجھتا ہے کہ میں دنیاوی اسباب استعمال کر کے بہت کچھ حاصل کر لوں گا۔ جب ایسی حالت ہو تو پھر اللہ تعالیٰ بھی ایسے بندوں کو کسی نہ کسی وقت پکڑتا ہے۔ ایک روایت میں آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں روایت ہے کہ جب کسی مجلس سے آپ اٹھتے تھے تو آپ دعا کرتے تھے کہ
اے میرے اللہ! تُو ہمیں اپنا خوف عطا کر جسے تُو ہمارے اور گناہوں کے درمیان روک بنا دے اور ہم سے تیری نافرمانی سرزد نہ ہو اور ہمیں اطاعت کا وہ مقام عطا کر جس کی وجہ سے تُو ہمیں جنت میں پہنچا دے اور اتنا یقین بخش جس سے دنیا کے مصائب تُو ہم پر آسان کر دے۔ اے اللہ !میرے اللہ! ہمیں اپنے کانوں، اپنی آنکھوں اور اپنی طاقتوں سے زندگی بھر صحیح فائدہ اٹھانے کی توفیق دے اور ہمیں اس بھلائی کا وارث بنا اور جو ہم پر ظلم کرے اس سے تُو ہمارا انتقام لے اور جو ہم سے دشمنی رکھتا ہے اس کے خلاف ہماری مدد فرما اور دین میں کسی بھی ابتلا کے آنے سے بچا اور ایسا کر کہ دنیا ہمارا سب سے بڑا غم اور فکر نہ ہو اور نہ ہی دنیا ہمارا مبلغ علم ہو یعنی ہمارے علم کی پہنچ صرف دنیا تک ہی نہ رہے ہماری فکریں صرف اور ہمارا غم صرف دنیا ہی نہ ہو اور فرمایا کہ ایسے شخص کو ہم پر مسلط نہ کر جو ہم پر رحم نہ کرے اور مہربانی سے پیش نہ آئے۔
(ترمذی کتاب الدعوات باب اللھم اقسم لنا … حدیث 3502)
پس اس دعا کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ سے آپؐ نے یہ کتنی درد سے بھری دعا کی ہے۔ بڑی جامع دعا ہے جو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں عطا فرمائی ہے۔ پس ہم اللہ تعالیٰ سے دعا مانگتے ہیں کہ ہماری ساری طاقتیں، ہمارے اعضا، ہماری آنکھ کان ناک زبان دماغ دل ہر چیز اللہ تعالیٰ اس کو فائدہ پہنچانے والا ہو اور ہمارا ہر عضو اللہ تعالیٰ کا شکر گزار ہو جائے اور ہم اس کے انعامات کے وارث بننے والے ہوں اور اللہ تعالیٰ ہی ہمیں ظالموں سے بچائے اور آجکل دنیا میں بعض جگہ جو حالات ہیں اور پاکستان میں بھی بنگلہ دیش میں بھی اور دوسرے علاقوں میں بھی دوسری جگہوں پر بھی ملکوں میں بھی الجیریا وغیرہ ہیں یا باقی جگہ ہیں افریقہ کے ملک ہیں بعض غلط قسم کے گروہوں نے قبضے کیےہوئے ہیں یا ان گروہوں کی طرف سے بعض حملے ہوتے ہیں۔ اور یہ گروہ جو ہیں ان سے حکومتیں بھی ڈر کے ان کی باتوں کو مان لیتی ہیں۔ تو
اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کرنی چاہیے کہ ہمیں ظالموں سے نجات دے اور ان سے انتقام لے اور جو ہم سے دشمنی رکھتے ہیں تو ہی ان کے خلاف ہماری مدد فرما اور اس طرح جب ہم رمضان میں دعائیں کریں گے تو اللہ تعالیٰ ایک انقلاب عظیم پیدا فرمائے گا اور پھر ہم دیکھیں گے چاہے وہ پاکستان کا مولوی ہے یا طاقتور انسان ہے یا کسی اور حکومت کا کوئی طاقتور انسان ہے وہ کبھی ہمیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتااور ہم اگر خالص ہو کراللہ تعالیٰ کی طرف جھکیں گے تو اللہ تعالیٰ پھر ہماری مدد کو آئے گا۔ ولی اور دوست بننے کا حق ادا کرے گا۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ حصولِ فضل کا اقرب طریق دعا ہے اور دعائے کامل کے لوازمات یہ ہیں کہ اس میں رقت ہو، اضطراب ہو گدازش ہو۔ ایک عاجزی اور ایک بےچینی ہو۔ اضطراب پیدا ہو جائے۔ فرمایا کہ جو دعا عاجزی اضطراب و شکستہ دلی سے بھری ہوئی ہو وہ خداتعالیٰ کے فضل کو کھینچ لاتی ہے اور قبول ہو کر اصل مقصد تک پہنچاتی ہے مگر مشکل یہ ہے کہ یہ بھی خدا تعالیٰ کے فضل کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتی اور پھر اس کا علاج یہی ہے کہ دعا کرتا رہے خواہ کیسی بھی بےدلی اور بےذوقی ہو لیکن یہ سیر نہ ہو۔ چاہے مزہ آئے دعا میں یا نہ آئے لیکن دعا کرتے رہو کہ میرے لیے تیرے علاوہ تو اَور کوئی ہے ہی نہیں۔ اللہ کو ہم نے تو یہی کہنا ہے کہ ہم نے کہیں جانا ہی نہیں۔ میں نے کسی اور کے پاس نہیں جانانہ جا سکتا ہوں۔ پس میں تیرے پاس ہی بیٹھا ہوں اور میرا دل اس وقت تک چین نہیں پائے گا جب تک تُو میری باتیں نہیں مانے گا۔ آپ نے فرمایا کہ چاہے تکلف اور تصنع ہی ہو لیکن اسی طرح دعا کرتے رہو۔ پھر ایسی حالت پیدا ہو جائے گی کہ ایک وقت میں وہ تکلف اور تصنع جو ہے وہ حقیقی دعا کا روپ دھار لے گی۔
آپؑ فرماتے ہیں کہ اصلی اور حقیقی دعا کے واسطے بھی دعا ہی کی ضرورت ہے۔ فرمایا کہ بہت سے لوگ دعا کرتے ہیں ان کا دل سیر ہو جاتا ہے اور وہ کہہ اٹھتے ہیں کہ کچھ نہیں بنتا۔ آپ نے فرمایا کہ ہماری نصیحت یہ ہے کہ اس خاک پیزی میں ہی برکت ہے۔ اس خاک کو چھاننے میں ہی برکت ہے کیونکہ گوہر مقصود اسی سے نکل آتا ہے۔ جو مقصد پانا ہے، جو موتی حاصل کرنا ہے اسی سے نکلتا ہے۔ اب سونا حاصل کرنے والے لوگ جانتے ہیں، جو لوگ روایتی طریقے سے حاصل کرتے ہیں وہ دریاؤں کے کنارے پر بیٹھے ہوتے ہیں اور چھاننیوں سے مٹی چھانتے چلے جاتے ہیں ۔کئی کئی دن لگے رہتے ہیں۔کئی کلو بلکہ منوں مٹی چھانتے رہتے ہیں اور پھر تھوڑا سا سونا ایک تولہ یا اس سے بھی کم ان کو ملتا ہے اسی پر وہ خوش ہو جاتے ہیں ۔ تو اس طرح اللہ تعالیٰ کے آگے جھکے رہو گے تو برکت ملے گی۔ فرمایا کیونکہ آخر گوہر مقصود اسی سے نکل آتا ہے اور ایک دن آ جاتا ہے کہ جب اس کا وہ دل زبان کے ساتھ متفق ہو جاتا ہے۔ اور پھر خود ہی وہ عاجزی اور رقت اور جو دعا کے لوازمات ہیں پیدا ہو جاتے ہیں۔ رقت پیدا کرنا بڑا ضروری ہے۔ فرمایا کہ جو رات کو اٹھتا ہے خواہ کتنی ہی عدم حاضری ہو۔ توجہ نہ ہو بیشک، اور بےصبری ہو۔ جلدی جلدی بھی نماز پڑھے تب بھی، لیکن اگر وہ اس حالت میں بھی دعا کرتا ہے کہ الٰہی دل تیرے ہی قبضہ اور تصرف میں ہے تو اس کو صاف کر دے اور عین قبض کی حالت میں اللہ تعالیٰ سے بسط چاہے تو اس قبض میں سے بسط نکل آئے گا۔ جو بے دلی کی کیفیت ہے اس میں سے بھی اللہ تعالیٰ ایسی حالت پیدا کر دے گا کہ اس میں توجہ پیدا ہونی شروع ہو جائے گی اور جو دل کی روک ہے وہ دور ہو جائے گی اور رقت پیدا ہو جائے گی۔ جو گھٹن کی کیفیت ہے وہ کُھل جائے گی اور دعا کرنے کی ضرورت کی طرف توجہ صرف نہیں پید اہو گی بلکہ دل سے دعائیں نکلنی شروع ہو جائیں گی اور فرمایا کہ یہی وہ وقت ہوتا ہے جو قبولیت کی گھڑی کہلاتا ہے۔جب ایسی حالت ہو تو سمجھو کہ قبولیت دعا کی گھڑی ہو گئی۔ وہ دیکھے گا کہ اس وقت روح آستانہ الوہیت پر بہتی ہےاور گویا ایک قطرہ ہے جو اوپر سے نیچے کی طرف گرتا ہے۔ پس ایسی حالت میں جب رقت طاری ہو جاتی ہے پھر جب انسان مستقل لگا رہتا ہے تو پھر اللہ تعالیٰ رقت پیدا فرما دیتا ہے اور پھر دعاؤں کی قبولیت ظاہر ہونا شروع ہو جاتی ہے۔
(ماخوذ از ملفوظات جلد 6 صفحہ 93-94 ایڈیشن 1984ء)
پھرآپؑ فرماتے ہیں کہ
وہ خدا جس کی طرف ہم بلاتے ہیں نہایت کریم اور رحیم، حیا والا، صادق، وفادار، عاجزوں پر رحم کرنے والا ہے۔ پس تم بھی وفادار بن جاؤ۔ تم بھی وفادار بن جاؤ اور پورے صدق اور وفا سے دعا کرو کہ وہ تم پر رحم فرمائے گا۔ دنیا کے شور و غوغا سے الگ ہو جاؤ اور نفسانی جھگڑوں کا دین کو رنگ مت دو۔ خدا کے لیے ہار اختیار کرو اور شکست کو قبول کر لو تو بڑی بڑی فتحوں کے تم وارث بن جاؤ گے۔
فرمایا کہ چھوٹی چھوٹی باتوں میں، دنیاوی باتوں میں بھی اپنے آپ کو ان سے بچانا ہو گا اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کے لیے ان چیزوں سے بچنا ہوگا۔ حقوق العباد کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہو گی۔ اپنے رحمی رشتوں کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہو گی۔ اپنے دوستوں کے حق ادا کرنے کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہوگی۔ تب ہی اللہ تعالیٰ کے حق ادا کرنے کی طرف توجہ پیدا ہو گی اور پھر دعاؤں کی قبولیت کا بھی نشان انسان دیکھے گا۔ آپؑ فرماتے ہیں کہ دعا کی پہلی نعمت یہ ہے کہ انسان میں پاک تبدیلی پیدا ہوتی ہے۔ قبولیت دعا کے لیے جو بڑی ضروری چیزہے کہ پھر پاک تبدیلی پیدا ہو۔ صرف رمضان میں پاک تبدیلی تو نہیں پیدا ہونی بلکہ مستقل پاک تبدیلی پیدا ہوتی ہے تب قبولیتِ دعا کا اثر انسان پر ظاہر ہوتا ہے۔ پھر آپؑ نے فرمایا اس تبدیلی سے خدا تعالیٰ بھی اپنی صفات میں تبدیلی پیدا کرتا ہے اور اس کی صفات غیر متبدل ہیں مگر تبدیلی یافتہ کے لیے اس کی ایک الگ تجلی ہوتی ہے۔ یہ نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ کی صفات بدل جاتی ہیں بلکہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی جو رحم اور انعامات کی صفات ہیں ان کو حرکت میں لاتا ہے اور انسان کو ان سے فیضیاب کرتا ہے۔ فرمایا ان باتوں کو دنیا نہیں جانتی۔ ایسی حالت جب انسان میں پیدا ہوتی ہے، جب خدا کا ہو جائے تو یوں لگتا ہے جیسے وہ اَور خدا ہے حالانکہ اَور کوئی خدا نہیں ہے مگر نئی تجلی نئے رنگ میں اس کو ظاہر کرتی ہے۔ تب اس خاص تجلی کی شان میں اس تبدیلی یافتہ کےلیے وہ کام کرتا ہے جو دوسروں کے لیے وہ نہیں کرتا۔
(ماخوذ از لیکچر سیالکوٹ، روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 223)
جو لوگ کہتے ہیں کہ یہ تقدیر ہے۔ یہ تو اسی طرح ہونا ہے تو کس طرح دعا ہوگی ،کس طرح قبول ہو گی۔فرمایا اگر نیک نیتی سے دعا ہو گی تو پھر اللہ تعالیٰ تقدیر بدل دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے فیصلے بدل دیتا ہے۔ بدانجام نیک انجاموں میں تبدیل ہو جاتاہے۔
پس دعاؤں کی طرف ہمیں بہت توجہ دینے کی ضرورت ہے اور اس رمضان کو ایسا رمضان بنائیں جو دعاؤں کی قبولیت کا رمضان ہو۔ اپنے آپ میں پاک تبدیلی پیدا کرنے کا رمضان ہو اور پھر مستقل یہ پاک تبدیلی ہماری زندگیوں کا حصہ بن جائے
اور ہمیں اللہ تعالیٰ دشمنوں سے، تمام مخالفین سے نجات دے۔ تمام ظالموں سے ہمیں نجات دے۔ ہمیں اللہ تعالیٰ یہ توفیق دے کہ ہم اس رمضان کو مستقل اپنی زندگیوں میں پاک تبدیلی پیدا کرنے کا ذریعہ بنا لیں اور پھر یہ پاک تبدیلی ہماری زندگیوں کا دائمی حصہ بن جائے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔