الفضل ڈائجسٹ
اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔
پاکستان کی تخلیق کا ایک اہم مرحلہ
پاکستان کی تخلیق کے حوالے سے حضرت چودھری سرمحمد ظفراللہ خان صاحبؓ کی ایک گرانقدر خدمت کا تذکرہ روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ ۳؍جنوری۲۰۱۴ء میں مکرم ڈاکٹر مرزا سلطان احمد صاحب کے ایک مضمون میں کیا گیا ہے۔ یہ مضمون دراصل ڈاکٹر اشتیاق احمد صاحب کے ایک مضمون پر تبصرہ ہے جو Splitting India کے عنوان سے اخبار ’’فرائیڈے ٹائمز‘‘ ۱۸؍اکتوبر۲۰۱۳ء میں شائع ہوا تھا۔ اس مضمون میں یہ افسانوی مفروضہ پیش کیا گیا تھا کہ چودھری صاحبؓ نے قرارداد پاکستان کی تشکیل میں جو کردار ادا کیا تھا اسے ادا کرنے کے لیے انہیں وائسرائے یا کسی اَور برطانوی ایجنسی نے اشارہ کیا ہوگا کیونکہ وہ وائسرائے کی انتظامی کونسل کے ممبر تھے اور یہ حیثیت انہیں اس بات سے روکتی تھی کہ وہ ایسی بات کہیں جس سے برطانوی مفادات کو نقصان پہنچتا ہو۔
تاریخی حقیقت یہ ہے کہ حضرت چودھری صاحب نے وائسرائے کو ایک میمورنڈم لکھ کر بھجوایا تھا جس میں آزادی کے وقت برصغیر کی تقسیم کی قریباً وہی تجاویز پیش کی گئی تھیں جن کا اعلان بعدازاں لاہور کے جلسے میں پیش کی جانے والی قرارداد پاکستان میں کیا گیا تھا۔ حضرت چودھری صاحبؓ نے اپنی زندگی میں کبھی اس عظیم الشان خدمت کی تشہیر نہیں کی اور شاید اس کی خبر بھی کسی کو نہ ہوتی اگر پاکستان کے مشہور سیاستدان خان عبدالولی خان صاحب اپنی کتاب Facts are Facts کی تیاری کے لیے لندن جاکر ریکارڈ تلاش نہ کرتے۔ چونکہ جنرل ضیاءالحق کا زمانہ تھا اس لیے ایک طبقے نے گھبراہٹ میں اس میمورنڈم کی تردید اور وضاحتوں کا سلسلہ شروع کردیا جس کا کم از کم یہ فائدہ ضرور ہوا کہ یہ میمورنڈم ’’پاکستان ٹائمز‘‘۲۳؍جنوری۱۹۸۲ء کے شمارے میں شائع ہوکر منظرعام پر آگیا۔
مضمون نگار نے ڈاکٹر اشتیاق صاحب کے الزامات کے ردّ کے طور پر مذکورہ میمورنڈم کے کچھ حصے پیش کرکے فیصلہ قارئین پر چھوڑ دیا ہے۔ظاہر ہے کہ اگر یہ میمورنڈم وائسرائے کو خوش کرنے کے لیے لکھا گیا تھا تو اس کے مضمون سے اختلاف نہ کیا جاتا جبکہ میمورنڈم کے آغاز میں ہندوستان کے آئینی مستقبل کے بارے میں وائسرائے اور گورنرجنرل ہند Linlithgow اور گاندھی جی کے بیانات کا ذکر کرنے کے بعد آپؓ لکھتے ہیں کہ جہاں تک مسلمانوں کا تعلق ہے، ان دونوں میں سے کوئی بھی موقف منظور کیا جائے تو بےچینی کا منظر سامنے آتا ہے۔ آج اقلیتیں بالخصوص مسلمان اپنے مستقبل کے بارے میں اتنی تشویش میں مبتلا ہیں جتنا آج سے پہلے کبھی نہیں ہوئے تھے۔ ہمیں افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اوسط برطانوی سیاستدان ہندوستان کے حالات کے متعلق مکمل طور پر لاعلم ہے۔ جبکہ کانگریس وائسرائے اور سیکرٹری آف سٹیٹ کو مجبور کرکے اُن سے ایک کے بعد دوسرا اعلامیہ نکلوارہی ہے۔
مذکورہ فقرات سے ظاہر ہوتا ہے کہ ڈاکٹر اشتیاق صاحب کا یہ مفروضہ ہی مضحکہ خیز ہے کہ میمورنڈم برطانوی حکام کے اشارے پر لکھا گیا تھا۔ آپؓ نے واضح طور پر لکھا ہے کہ برطانوی سیاستدان کانگریس کے ہاتھ میں کھیل رہے ہیں۔
آپؓ وائسرائے کو مزید لکھتے ہیں کہ آپ کی تقریر کے بعد مسلمانوں کے لیے پوزیشن اتنی خراب ہوگئی ہے کہ اس سے زیادہ خراب ہونا مشکل ہے۔
پھر ریاستوں کے بارے میں برطانوی مدبّرین اور سیاستدانوں کی آراء کا ذکر کرکے لکھتے ہیں کہ برطانوی اکابرین کی یہ تجاویز انتہائی غیرمنصفانہ اور غیرمتوازن ہونے کے ساتھ ساتھ غیرجمہوری بھی ہیں۔
برطانوی حکومت نے ہندوستان کے لیے ۱۹۳۵ء میں ایک آئینی ڈھانچہ منظور کیا تھا۔ اس کے بعض اہم پہلوؤں کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ہمارے نزدیک یہ انتظامات اسی طرح ہیں جیسے کسی چیز کی ٹانگیں اوپر اور سر نیچے ہو۔
اخبار ’’پاکستان ٹائمز‘‘ میں اس میمورنڈم کے ساتھ وائسرائے لارڈ Linlithgow کا ایک خط بھی شائع ہوا ہے جو برطانیہ کے وزیر لارڈ Zetland کو لکھا گیا تھا۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وائسرائے کے نزدیک تقسیم ہند کی تجویز ایک انتہائی نقطہ نگاہ تھی چنانچہ انہوں نے بعد میں حضرت چودھری صاحبؓ سے کہا کہ مجھے بھی اس کی تفصیلات کے متعلق کچھ اعتماد میں لیا جائے۔ اس پر چودھری صاحب نے کہا کہ اس کی کاپیاں قائداعظم محمدعلی جناح اور حیدری صاحب کو بھجوائی جاچکی ہیں۔
………٭………٭………٭………
حضرت چودھری سرمحمد ظفراللہ خان صاحبؓ
اور قرارداد پاکستان
’’فرائیڈے ٹائمز‘‘ ۲۰؍ستمبر تا ۸؍نومبر میں جناب اشتیاق احمد کے شائع شدہ مضمون کی قسط پنجم میں حضرت چودھری سرمحمد ظفراللہ خان صاحبؓ کے تاریخی اہمیت کے حامل نوٹ کے بارے میں بعض تحفّظات کا اظہار کیا گیا ہے جن کا جواب مکرم مرزا خلیل احمد قمر صاحب کے قلم سے روزنامہ ’’الفضل‘‘ربوہ ۲۷؍فروری۲۰۱۴ء میں شامل اشاعت ہے۔
قائداعظم اور چودھری صاحب کے تعلقات کا آغاز ۱۹۲۸ء سے ہوا۔ ۱۹۳۲ء میں آپؓ آل انڈیا مسلم لیگ کے صدر منتخب ہوئے۔ آپؓ کے دَور میں پہلی دفعہ مسلم لیگ کے منشور میں تبدیلی کرکے ’’مکمل آزادی‘‘ کو نصب العین قرار دیا گیا۔ آپؓ عارضی طور پر وائسرائے ہند کی کونسل کے مسلمان ممبر بھی رہے اور مسلمانانِ ہند کے حقوق کی جدوجہد کے لیے ہمیشہ سرگرم کردار ادا کیا۔ یہ وہ دَور تھا جب مسلمانوں کی ہندونواز جماعتیں (جمعیت علمائے ہند، مجلس احرارِ اسلام، خاکسار پارٹی، مومن پارٹی وغیرہ)مسلمانوں کی قیادت پر قبضہ کرنے کے لیے کوشاں تھیں۔ قائداعظم نے آپؓ کی کارکردگی کو سراہتے ہوئے فرمایا:’’آنریبل سر محمد ظفراللہ خاں … میرا اُن کی تعریف کرنا ایسا ہی ہے جیسا کہ ایک باپ اپنے بیٹے کی ستائش کرے۔ اس میں ذرہ بھربھی شک نہیں کہ انہوں نے معاہدے کے متعلق اپنے فرض کو احسن طور پر سرانجام دیا ہے اور اس کے لیے انہیں مبارکباد پیش کرتے ہوئے مختلف اطراف سے جو کچھ کیا گیا مَیں اُس کی تائید کرتا ہوں۔‘‘(ہماری قومی جدوجہد از ڈاکٹر عاشق حسین بٹالوی)
چودھری صاحبؓ کا قائداعظم سے مکمل رابطہ تھا چنانچہ آپؓ نے مسلم لیگ کے مطالبہ ’’علیحدہ وطن‘‘ کو نہایت مدلّل انداز میں وضاحت سے اپنے ۱۲؍مارچ۱۹۴۰ء کے نوٹ میں تحریر کیا جو ۳۲؍ صفحات اور ۴۹؍ پیراگرافس پر مشتمل ہے۔ اسی مطالبے کو ۲۳؍مارچ۱۹۴۰ء کو مسلم لیگ کے اجلاس میں پیش کیا گیا۔ اگر آپؓ کی تحریر (جو زیڈاے سلہری ایڈیٹر روزنامہ پاکستان ٹائمزکے قلم سے۲۹؍جنوری۱۹۸۲ء میں شائع ہوئی) اور جلسے میں قائداعظم کی تحریر کو سامنے رکھا جائے تو خان عبدالولی خاں صاحب کے ۲۰؍جنوری۱۹۸۲ء کے روزنامہ جنگ میں کیے گئے اس انکشاف کا ردّ ہوتا ہے کہ ’’پاکستان کا منصوبہ ظفراللہ خاں نے انگریز کے کہنے پر تیار کیا تھا۔‘‘ جبکہ حقائق یہ بھی بتاتے ہیں کہ وائسرائے ہند لارڈ Linlithgow نے وزیرہند لارڈ فرٹلینڈ کو لکھے گئے خط میں یہ اظہار کیا اس دستاویز سے نسبتاً انتہاپسندانہ نقطہ نظر مترشح ہوتا ہے اور مَیں نے اُن (چودھری صاحب) سے کہا ہے کہ مجھے اس نوٹ کے بارے میں کچھ تفصیل سے آگاہ کرو۔
مضمون نگار نے چودھری صاحبؓ کے محررّہ نوٹس کے متعدد نکات اورگیارہ روز بعد منعقد ہونے والے مسلم لیگ کے جلسے میں قائداعظم کی تقریر (یعنی قرارداد لاہور جو بعد میں قراردادِ پاکستان کے نام سے مشہور ہوئی) کا تقابلی جائزہ لیتے ہوئے ثابت کیا ہے کہ قائداعظم کی تقریر بھی من و عن انہی نکات پر مشتمل تھی جو چودھری صاحبؓ نے قبل ازیں تحریر کیے تھے۔ چنانچہ ۱۳؍فروری ۱۹۸۲ء کے ’’پاکستان ٹائمز‘‘ میں چودھری صاحبؓ کا ایک خط شائع ہوا ہے جس میں آپؓ کے محرّرہ نوٹس کی تاریخی اہمیت اور قرارداد پاکستان سے ان نوٹس کے تعلق کو واضح کرتا ہے۔ اس خط میں آپؓ فرماتے ہیں:
٭…’’…مَیں زبانی اور تحریری طور پر مسلسل یہ بات کہتا رہا ہوں کہ جہاں تک انسانی کوششوں کا تعلق ہے پاکستان کا قیام فردواحد یعنی قائداعظم محمد علی جناح مرحوم کی مخلصانہ کوششوں کا رہین منت ہے۔ وہ اکیلے شخص تھے جنہوں نے دم توڑتی ہوئی آل انڈیا مسلم لیگ میں زندگی کی روح پھونکی اور اسے اپنی جاندار اور انقلاب انگیز قیادت میں ایک مؤثر اور متحرک سیاسی تنظیم میں بدل دیا۔ اس راہ میں حائل ناقابل عبور مشکلات پر قابو پاکر انہوں نے اپنا وہ مقصد حاصل کرلیا جسے آپ نے خود ہی اپنے لیے متعیّن کیا تھا۔ اگرچہ اس کام میں کئی اصحاب نے اخلاص اور فرمانبرداری سے آپ کا ہاتھ بٹایا لیکن اس کامیابی کا سہرا صرف اور صرف جناب محمد علی جناح کے سر بندھتا ہے۔ اس بارے میں کسی طرح سے کوئی ادنیٰ سا شبہ بھی نہیں کیا جاسکتا۔‘‘
٭…’’مَیں پورے اعتماد سے قطعی طور پر کہتا ہوں کہ میرا نوٹ جس کا ذکر لارڈ لنلتھگو کے ۱۴؍مارچ ۱۹۴۰ء کے خط میں ہے، اس حقیقت کو ظاہر کررہا ہے کہ ہندوستان کے مسلمان ایک واضح طور پر علیحدہ قوم ہیں اور ان کے لیے واحد تسلّی بخش قابل قبول آئینی مسائل کا حل یہ ہے کہ شمال مشرقی اور شمال مغربی فیڈریشنیں قائم کی جائیں۔ اور یہ قطعی طور پر وہی مطالبہ تھا جو چند دنوں کے بعد مسلم لیگ کی قرارداد میں ۲۳؍مارچ کو پیش کیا گیا۔ دو قومی نظریہ اور فیڈریشنوں کے قیام کا نظریہ جس تفصیل اور جس وضاحت سے میرے نوٹ میں پیش کیا گیا ہے یہ بات میرے ہم عصروں پر مجھ سے پہلے آنے والوں کی کسی دستاویز یا بیان میں قطعاً موجود نہیں تھا۔ … میرے نوٹ میں پیش کی گئی فیڈریشنوں کی تجویزسے ذرہ بھر بھی قیامِ پاکستان کے لیے قائداعظم کو دیے جانے والے کریڈٹ کو نقصان نہیں پہنچتا کیونکہ قائداعظم اکیلے ہی تھے جن پر پاکستان کا سہرا بندھ سکتا ہے۔‘‘
اکتوبر۱۹۴۱ء سے وائسرائے کی کونسل سے الگ ہونے کے بعد چودھری صاحبؓ فیڈرل کورٹ آف انڈیا کے جج کی حیثیت سے خدمات سرانجام دینے لگے۔ یہ عہدہ گو کہ غیرسیاسی تھا مگر آپؓ کو جہاں بھی موقع ملتا وہاں مسلمانوں کے حقوق اور ہندوستان کی آزادی کے لیے کوشاں رہتے۔ آپؓ کے اصرار اور اس مطالبے پر بارہا وائسرائے ہند اور برطانوی حکام بھی سیخ پا ہوجاتے جس کا ذکر ٹرانسفر آف پاور کی جلدوں میں بیسیوں جگہ ملتا ہے۔ حتیٰ کہ آپؓ نے امریکی صدر روزویلٹ سے ملاقات میں بھی یہ معاملہ اٹھایا تھا۔ قائداعظم کا آپؓ پر اعتماد ہی تھا کہ انہوں نے باؤنڈری کمیشن کے سامنے مسلم لیگ کا کیس پیش کرنے کے لیے آپؓ کو نامزد کیا۔ قیامِ پاکستان کے بعد اقوام متحدہ میں پاکستانی وفد کا سربراہ مقرر کیا اور ۲۵؍دسمبر ۱۹۴۷ء کو پہلا وزیرخارجہ مقرر فرمایا۔
………٭………٭………٭………
روزنامہ’’الفضل‘‘ربوہ ۱۳؍اگست ۲۰۱۴ء کی زینت محترم ثاقب زیروی صاحب کی اپنے پاک وطن کے حوالے سے کہی جانے والی ایک نظم میں سے انتخاب پیش ہے:
اے وطن جب بھی تجھے میری ضرورت ہوگی
میری ہر سانس تحفّظ کی ضمانت ہوگی
مَیں کہ اِک راندۂ درگاہ ترا ٹھہرا ہوں
دیکھنا مجھ سے ہی اِک دن تری زینت ہوگی
جاگزیں قائداعظم کے ارادوں میں جو تھی
تیری عظمت کی ضمانت وہی قوّت ہوگی
اب حقائق بھی بدلنے لگے یارانِ وطن
اِس سے بڑھ کر کہاں توہینِ صداقت ہوگی
ذکرِ محبوب پہ کٹتی ہے زباں دیکھیے تو
یہ نہ سوچا تھا کہ اِک روز یہ صورت ہوگی
جہاں مذہب ہو ریاکاری ، عقیدہ ہو فریب
کیسے کہہ دوں کہ وہاں بارشِ رحمت ہوگی
اُس سے بڑھ کر ہے بھلا کون علیم اور خبیر
’’مَیں اگر عرض کروں گا تو شکایت ہوگی‘‘
مزید پڑھیں: مقدمہ دیوار۔ تائیدو نصرتِ الٰہی کا عظیم نشان