حاصل مطالعہ
خشک ٹہنی نہ بنیں
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام فرماتے ہیں:’’ایسا شخص جو میری جماعت میں ہو کر میرے منشاء کے موافق نہ ہو، وہ خشک ٹہنی ہے۔ اُس کو اگر باغبان کاٹے نہیں تو کیا کرے۔ خشک ٹہنی دوسری سبز شاخ کے ساتھ رہ کر پانی تو چوستی ہے، مگر وہ اُس کو سرسبز نہیں کر سکتا بلکہ وہ شاخ دوسری کو بھی لے بیٹھتی ہے۔ پس ڈرو میرے ساتھ وہ نہ رہے گا جو اپنا علاج نہ کرے گا۔‘‘(ملفوظات جلد ۱ صفحہ ۳۳۶۔ایڈیشن۱۹۸۸ء)
قبولیت دعا کے لیے دو شرائط
حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں:’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فَلۡیَسۡتَجِیۡبُوۡا لِیۡ وَلۡیُؤۡمِنُوۡا بِیۡ۔ اگر میں نے کہا ہے کہ میں پکارنے والے کی پکار کو سنتا ہوں تو اس سے یہ نہ سمجھ لینا کہ میں ہر ایک پکار کو سن لیتا ہوں۔ جس پکار کو میں سنتا ہوں اس کے لئے دو شرطیں ہیں۔ اوّل میں اس کی پکار کو سنتا ہوں جو میری بھی سنے۔(۲) میں اس کی پکار سنتا ہوں جسے مجھ پر یقین ہو مجھ پر بد ظنّی نہ ہو۔ اگر دعا کرنے والے کو میری طاقتوں اور قوتوں پر یقین ہی نہیں تو میں اس کی پکار کو کیوں سنوں؟ پس قبولیت دعا کے لئے دو شرطیں ہیں جس دعا میں یہ دو شرطیں پائی جائیں گی وہی قبول ہو گی۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے یہاں اَلدَّاعِ فرمایا ہے جس کے معنے ہیں ایک خاص دعا کرنے والا۔ اور اس کے آگے وہ شرائط بتا دیں جو اَلدَّاعِ میں پائی جاتی ہیں اور وہ یہ ہیں کہ وہ میری سنے اور مجھ پر یقین رکھے۔ یعنی وہ دعا میرے مقرر کردہ اصولوں کے مطابق ہو۔ جائز ہو نا جائز نہ ہو۔ اخلاق کے مطابق ہو۔ سنت کے مطابق ہو۔ اگر کوئی شخص ایسی دعائیں کرے گا تو میں بھی اس کی دعاؤں کو سنوں گا۔…
پس فَلۡیَسۡتَجِیۡبُوۡا لِیۡ وَلۡیُؤۡمِنُوۡا بِیۡ میں اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ تمہیں چاہیے کہ تم میری باتیں مانو اور مجھ پر یقین رکھو۔ اگر تمہیں مجھ پر یقین نہیں ہے تو میں تمہاری دعا کیسے سن سکتا ہوں؟ پس قبولیت دعا کے لئے دو شرطیں ہیں۔ اوّل فَلۡیَسۡتَجِیۡبُوۡالِیۡ تم میری باتیں مانو۔(۲) وَلۡیُؤۡمِنُوۡا بِیۡ اور مجھ پر یقین رکھو۔ جو لوگ ان شرائط کو پورا نہیں کرتے وہ دین دار نہیں۔ وہ میرے احکا م پر نہیں چلتے۔‘‘(تفسیر کبیر جلد ۳ صفحہ۲۰۸۔ ایڈیشن۲۰۲۳ء)
حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نےاجنبی مسافر کے لیے جگہ خالی کردی !
مولوی غلام حسین صاحب ڈنگوی بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ مجھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ ریل میں سفر کرنے کا اتفاق نصیب ہوا۔ عام طریق یہی دیکھنے میں آتا ہے کہ جب کوئی مسافر خود ریل میں سوار ہو جاتا ہے تو بعد میں آنے والے مسافروں سے بہت ترش روئی سے پیش آتا ہے۔ اس روز بھی بعض لوگوں نے باہر سے آنے والے مسافروں کے ساتھ یہی طریق اختیار کیا۔ مولوی غلام حسین صاحب ڈنگوی بیان کرتے ہیں کہ افسوس یہ ناچیز بھی انہی لوگوں میں شامل تھا لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا نمونہ یہ تھا کہ آپ نے فوراً آنے والے اجنبی مسافر کے لئے جگہ خالی کردی۔ اخلاقِ فاضلہ کے اس بے ساختہ اظہار میں جو عجز و انکسار اور دلداری پائی جاتی ہے وہ محتاج بیان نہیں۔(ماخوذ از سیرت المہدی، جلداوّل صفحہ ۶۲۱)
اطاعتِ امام
۱۸۹۷ء کی بات ہے حضرت مسیح پاک علیہ السلام ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک کے مقدمہ کے سلسلے میں بٹالہ میں مقیم تھے۔رات عشاءکی نماز کے بعد حضور علیہ السلام نے حضرت بھائی عبد الرحمٰن صاحب قادیانیؓ سے فرمایا:’’میاں عبدالرحمٰن!آج رات ہم تو یہیں ٹھہریں گے۔ کیونکہ کل پھر مقدمہ کی سماعت ہوگی۔بہتر ہے کہ آپ قادیان جا کر خبر خیریت پہنچا دیں۔ تا کہ وہ لوگ گھبرائیں نہیں۔‘‘
فدا کار عاشق کی شان دیکھئے۔آپؓ فرماتے ہیں کہ ’’حکم پا کر میں نے سلام عرض کیا۔دست بوسی کا شرف ملا اور میں سفر کو کاٹتا،زمین کو لپیٹتا ہوا،گویا اڑ کر ہی قادیان پہنچا… تمام روئیداد تفصیلًا عرض کی اور حضرتؑ کے ارشاد کے مطابق تسلی و اطمینان دلایا۔‘‘(اصحاب احمد جلد ۹ صفحہ ۱۸۳)
انگلی بھی بچ گئی اور انگوٹھی بھی
قبولیت دعا اور نصرت الٰہی کے ایک ایمان افروز جلوہ کا ذکر کرتے ہوئے افریقہ کے کنگ آف الاڈا (King of Alada) بیان کرتے ہیں :الیس اللّٰه بکاف عبدہ کی انگوٹھی جو حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے مجھے دی تھی، وہ مجھے اتنی محبوب ہو گئی کہ میں نے پہننے کے بعد ایک دفعہ بھی نہیں اتاری اور مسلسل پہننے کی وجہ سے میری انگلی کچھ خراب ہوگئی۔ انگوٹھی اتارتے ہوئے بہت تکلیف ہوتی تھی اور وہ اتر نہیں رہی تھی۔ ڈاکٹر نے کہا کہ یا تو انگلی کٹو ا لو یا انگوٹھی کٹو ا لو۔ اب انگوٹھی تو میں نہیں کٹوانا چاہتا تھا کیونکہ ڈر تھا کہیں برکتیں کم نہ ہو جائیں اور یہ بھی نہیں چاہتا تھا کہ انگلی کٹوا لوں۔ آخر میں نے جائے نماز بچھائی اور یوں دعا کی ’’اے خلیفۃ المسیح کے خدا! انہوں نے مجھے یہ بابرکت انگوٹھی پہنائی ہے اور میں اسے کٹوانا نہیں چاہتا کہ کہیں برکتیں کم نہ ہو جائیں۔
وہ فرماتے ہیں کہ، دعا مکمل کرنے کے بعد انہوں نے پھر کوشش کی تو انگوٹھی آرام سے اترگئی اور کوئی تکلیف نہیں ہوئی۔ اس کے بعد ڈاکٹر نے انگلی کا بھی علاج کر دیا۔(ماخوذ ازالفضل انٹر نیشنل، لندن مورخہ ۲۸ ستمبر ۲۰۰۱ء)
اللہ تعالیٰ کی طرف سے عیدی مل گئی
حضرت مولانا غلام رسول صاحب را جیکیؓ اپنا ایک دلچسپ واقعہ بیان کرتے ہوئے فرماتےہیں:میں تبلیغی سفر پر مردان میں تھا۔ عید الاضحیہ کے دن سے دو روز پہلے میرے بیٹے کا خط ملا کہ مجھے اپنے تعلیمی اخراجات کے لئے فوری طور پر سو روپے کی ضرورت ہے۔ میں حالت سفر میں تھا جماعت میں کوئی واقف نہ تھا جس سے قرض مانگ لیا جاتا۔ بس ایک ہی دروازہ تھا جو میں ہمیشہ کھٹکھٹاتا تھا۔ عید کا دن آیا۔ جب میں حالتِ سجدہ میں دعا کر رہا تھا تو مجھ پر رقت طاری ہو گئی۔ اور اس کا فوری باعث یہ مشاہدہ تھا کہ احمدی بچے اپنے باپوں کے ساتھ مسجد آئے ہوئے تھے۔ بچے عیدی مانگتے اور والدین ان کو عیدی دے رہے تھے۔ اس حالت میں مَیں نے خدا تعالیٰ سے عرض کیا کہ میرے ایک بیٹے نے بھی مجھے سو روپیہ بھجوانے کا لکھا ہے۔ تُو ہی غریب الوطنی میں اس کے سامان پیدا فرما۔ آپؓ فرماتے ہیں کہ اس روز مردان سے چار سدہ جانے کے لئے روانگی تھی۔ بعض لوگ رخصت کرنے اڈہ تک آئے۔ ان میں سے ایک دوست جن سے میں قطعاً نا واقف تھا میرے پاس سے گزرے اور میری جیب میں ایک لفافہ ڈال گئے۔ منزل پر پہنچ کر لفافہ کھولا تو اس میں ایک سو روپے کا نوٹ تھا۔ ساتھ ایک کاغذ پر لکھا تھا کہ آج جب آپ نماز پڑھا رہے تھے تو میرے دل میں بڑے زور سے تحریک ہوئی کہ میں اتنی رقم آپ کی خدمت میں پیش کروں۔ سو یہ تحفہ حاضر ہے۔(ماخوذ ازحیات قدسی صفحہ ۴۳۸-۴۳۹)
لاٹری اور جوئے کی حرمت
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتےہیں:’’آج کل یہاں یورپ میں رواج ہے، مغرب میں رواج ہے لاٹری کا کہ جو لوگ لاٹری ڈالتے ہیں اور ان کی رقمیں نکلتی ہیں وہ قطعاً ان کے لئے جائز نہیں بلکہ حرام ہیں۔ اسی طرح جس طرح جوئے کی رقم حرام ہے۔ اوّل تو لینی نہیں چاہئے اور اگر غلطی سے نکل بھی آئی ہے تو پھر اپنے پر استعمال نہیں ہوسکتی۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ۱۰؍اکتوبر ۲۰۰۳ء)
مزید پڑھیں: مسیح لاہور میں