اسلام اور دنیا کی گرتی ہوئی شرح پیدائش
تکلیفیں بے شک ہوتی ہیں لیکن ہمیشہ چھوٹی اسکیمیں بڑی اسکیم کے ماتحت قربان کی جاتی ہیں۔ بڑی سکیم یہی ہے کہ نسل انسانی کو بڑھنے دو جب اس کے مصائب انتہا کو پہنچیں گے وہ خود اپنا علاج نکال لے گی اور قانون قدرت کی طرف لوٹے گی(المصلح الموعودؓ)
جب کبھی کہا جاتا ہے کہ اسلام کامل دین ہے اور اپنے اندر ہر مسئلہ کا حل رکھتا ہے تو لوگ سمجھتے ہیں کہ شاید صرف مذہبی معاملات کا ذکر ہو رہا ہے۔ اور اسلام کے کم مطالعہ کی وجہ سے یہ سمجھ نہیں سکتے کہ عربی زبان میں دین کا مطلب طریقہ اور رَوِش بھی ہوتا ہے۔ یعنی اسلام زندگی کے ہر پہلو میں وہ طریقہ کار بتاتا ہے جو انجام کار کے لحاظ سے بہترین ہوتا ہے۔ انگریزی کا ایک محاورہ کیا ہی خوب ہے کہ All is well that ends well۔ یعنی ہر وہ چیز اچھی ہے جو اپنے انجام کے لحاظ سے اچھی ہے۔ اب خود دیکھیں کہ ایک کاشتکار زمین میں بیج پھینکتا ہے مگر اسے یقین ہوتا ہے کہ انجام کار اس کو اسی میں فائدہ ہے لہذا وہ ایسا کرنے سے نہیں گھبراتا۔
زندگی کے بکثرت پہلوؤں میں سے ایک نہایت اہم پہلو شادی اور بچوں کی پیدائش ہے۔ مگر موجودہ زمانے میں ہم ایک نیا رواج دیکھ رہے ہیں جس میں بچوں کی شرح پیدائش ہر گزرتے دن کے ساتھ کم ہوتی جا رہی ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں اس کی کیا وجوہات ہیں اور اسلام نے اس پہلو میں کیا راہنمائی کی ہے۔
اس مسئلہ کو سمجھنے کے لیے دیکھنا یہ ہوگا کہ گذشتہ صدی میں کیا واقعات ہوئے جنہوں نے دنیا کو اس طرف دھکیل دیا۔ دوسری جنگ عظیم سےقبل امریکہ کی اکانومی ۹۹؍ بلین ڈالر تھی جوکہ جنگ عظیم کے بعد ۲۱۲؍ ملین کو چھونے لگی۔ جنگ کے فوراً بعد ۱۴؍ لاکھ امریکی فوجی واپس گھر پہنچا۔(نیشنل ورلڈوار ۲ میوزیم، ہوم الائیو بائی ۴۵ ،۲؍اکتوبر ۲۰۲۰ء)تو ان کے لیے اکانومی کے وہ تمام پہلو جن کا تعلق عوام سے تھا، کھلی بانہوں سے ملے۔ لہٰذا اس پُرامن اور مستحکم معاشرے نے شادیوں کو فروغ دیا جس کے نتیجے میں شرح پیدائش جو دوسری جنگ عظیم سے قبل ۱۸؍بچے (یعنی ایک ہزار افراد میں سال میں ۱۸؍بچوں کی پیدائش)تھی وہ بڑھ کر ۲۶؍بچوں تک چلی گئی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس اضافہ کو اخباروں اور رسائل نے The baby boom کے نام سے لکھنا شروع کیا اور یہی وہ نسل ہے جو بعد میں بومرز (boomers)کہلائی۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ملک میں کام کرنے والوں کی کثرت ہوئی تو امریکہ کی اکانومی ۱۹۷۰ء سے ۱۹۹۰ء کی دو دہائیوںمیں ہی چار ٹریلین سے دس ٹریلین کو پہنچ گئی۔ اس اضافہ کو لانے والی وہ نسل تھی جو اس وقت جوان ہو کر کاروبار میں شامل ہو رہی تھی۔ اس دوران دنیا میں دوسری طرف کیا ہو رہا تھا۔ دنیا کے دوسرے کنارے میں چین ایک ملک تھا جنہوں نے ۱۹۷۸ء میں The Reform and Opening-Up policy کا آغاز کیا جس میں انہوں نے پرائیویٹ کمپنیوں اور بیرونی ممالک سے سرمایہ داری کو فروغ دیا جس کی وجہ سے کثرت سے ملک میں انڈسٹری لگی۔ اور ۱۹۷۹ء میں چین نے One-Child Policy شروع کی۔ جس کا مقصد یہ تھا کہ بچوں کی پیدائش کم ہو اور ملک میں انڈسٹری بڑھے تا جوانوں کو نوکری کے مواقع زیادہ میسر آئیں اور ملک کی معاشی صورتحال اچھی ہو۔ اس کے بہترین نتائج دنیا کے سامنے آنے شروع ہوئے۔ وہ ملک جس کا ۱۹۸۰ء میں GDPایک ٹریلین ڈالر بھی نہ تھا صرف ۲۵؍ سال میں ساڑھے سات ٹریلین ڈالر تک پہنچ چکا تھا۔ دنیا نے اس مالی ترقی کو تو دیکھا مگر اس کے ساتھ ہونے والے بداثرات کو نہ دیکھا۔ سال ۲۰۰۰ء کے آغاز سے ہی اس پالیسی کے بداثرات چین پر واضح ہو چکے تھے جب وہاں مردوں کی تعداد عورتوں سے بڑھ گئی۔ وہاں ۱۰۰؍ عورتوں کے مقابل پر مردوں کی تعداد ۱۲۰؍ تھی۔ (چین کی مردم شماری سنہ ۲۰۰۰ء، وکیپیڈیا)۔دوسری طرف بزرگوں کی تعداد بڑھ رہی تھی اور نوجوانوں کی تعداد کم ہو رہی تھی۔ حتیٰ کہ ۲۰۱۰ء میں ساٹھ سال سے بڑے افراد کی تعداد چین میں ۱۷۸؍ملین تھی جو پورے ملک کا ۱۳؍فیصد تھی۔ (چین کی مردم شماری سنہ ۲۰۰۰ء، وکیپیڈیا)۔چنانچہ ۲۰۱۱ء میں چین کے پاس اس کی لیبر یعنی کام کرنے والوں کی تعداد سب سے زیادہ تھی۔ اور پھر اس کا زوال شروع ہوا۔ جب چین کو اس کا احساس ہوا تو انہوں نے ۲۰۱۵ء میں One-Child Policy کا اختتام کر دیا۔ ۲۰۱۶ء میں چین نے Two-Child Policy کا آغاز کیا مگر تیزی سے گرتی ہوئی شرح پیدائش کو دیکھ کر ۲۰۲۱ء میں Three-Child Policyکا اعلان کر دیا۔ مگر وہ اس تیزی سے گرتی شرح کو روک نہ سکے۔ ۱۹۸۰ء میں ایک ہزار افراد میں ۱۸؍بچوں کی پیدائش تھی جو ۲۰۲۴ء میں کم ہو کر ۶؍رہ گئی۔اس کو آسانی سے یوں سمجھا جا سکتا ہے کہ ۲۰۲۴ء میں چین کی آبادی ۱۴۰۰؍ملین تھی اور اس پورے سال میں صرف ۹.۵؍ملین بچے پیدا ہوئے(گلوبل ٹائمز،شمارہ ۱۷؍جنوری ۲۰۲۵ء)۔ یہی حال مغرب کا تھا جہاں امریکہ کی شرح پیدائش (ہر ایک ہزار افراد پر ایک سال میں )۱۲؍بچے اور جرمنی کی ۹؍بچے ہو چکی ہے۔
کوئی آدمی یہاں سوال کر سکتا ہے کہ آخر گرتی ہوئی شرح پیدائش پریشانی کا باعث کیوں ہے ؟ اور بظاہر یہ اچھا لگتا ہے کہ کمانے والے زیادہ ہوں اور کھانے والے کم ہوں۔ تو چلیے مذہب کی طرف جانے سے قبل اس پہلو کو بھی دیکھ لیتے ہیں۔ ہر معاشرہ میں اندازاً پندرہ سے بیس فیصد لوگوں کو بچے کے زمرہ میں شمار کیا جاتا ہے (یعنی وہ لوگ جو پندرہ سال کی عمر سے کم ہوں )۔ یہ لوگ اکانومی میں کمانے والے شمار نہیں ہوتے۔ ۶۵ سے ۷۰؍فیصد وہ لوگ ہوتے ہیں جو کمانے والے کہلائے جاتے ہیں۔ (یعنی جن کی عمر ۱۵؍سال سے ۶۴؍سال کے درمیان ہوتی ہے )اور دس سے بیس فیصد وہ لوگ ہوتے ہیں جو بزرگ ہوتے ہیں۔ اس طرح ہر تین کام کرنے والوں کے ذمہ ایک پنشن والا شخص ہوتا ہے۔ یوں ملک کے لیے بوجھ نہیں ہوتا۔ مگر اقتصادی حالت تب خراب ہوتی ہے جب کام کرنے والے کم ہوتے جائیں اور پنشن والے زیادہ ہوتے جائیں۔ جیسا کہ چین کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ جس تیزی سے شرح پیدائش کم ہو رہی ہے اس کو اگر روک بھی دیا جائے (جو کہ ناممکن ہے )تب بھی ۲۰۳۵ء میں ملک کے ۳۳؍فیصد لوگ پنشن کی عمر کے ہوں گے جب کہ صرف ۴۷؍فیصد لوگ کام کرنے والے ہوں گے(سٹیٹ کونسل انفارمیشن آفس، گورنمنٹ آف چین،اعلانیہ ۲؍جنوری ۲۰۲۵ء)۔یوں ہر تین نوجوانوں پرملک کی طرف سے دو بزرگوں کی پنشن اور مالی ذمہ داری ہوگی جو کہ معیشت چلانے کے لیے نہایت ہی مشکل امر ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ میڈیکل، تعلیم، فوج وغیرہ میں شدید کمی دیکھنے میں آئے گی۔
اب ایک اور سوال بھی پیدا ہوتا ہے، وہ یہ کہ کیا ایسا پہلے نہیں ہوا؟ اس کاجواب یہ ہے کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد جرمنی نے ان حالات کا سامنا کیا۔ مگر اس وقت دنیا میں یہ شرح پیدائش کی کمی کا مسئلہ نہ تھا۔ جرمنی نے ۱۹۵۰ء میں ایک سکیم شروع کی جس کا نام Gastarbeiter رکھا۔ جس کا مطلب تھا مہمان کارکن۔ اس سکیم کے تحت انہوں نے ترکی، اٹلی، یونان اور یوگوسلاویہ سے کام کرنے والے ہنر مند افراد کی ایک اکثریت منگوائی اور ان کو شہریت اور آسان سہولیات دیں جس کی وجہ سے ملک کی اکانومی تیزی سے ترقی کرنے لگی۔
مگر اب صورتحال بالکل مختلف ہے۔ اس وقت دنیا میں ۷۰؍ ممالک ایسے ہیں جن کی شرح پیدائش اس حد تک کم ہوچکی ہے کہ وہ اپنی ضرورت سے نیچے جا چکے ہیں،جسے replacement level کہا جاتا ہے۔(انسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ میٹریکس، اعلانیہ ۲۰؍مارچ ۲۰۲۴ء)اور ان میں سر فہرست دنیا کے مضبوط ترین اور طاقتور ترین ممالک ہیں جیسا کہ جاپان، جنوبی کوریا، اٹلی، جرمنی، سپین، روس، فرانس، برطانیہ، چین، سویڈن، پرتگال، یونان، پولینڈ، ہنگری، جنوبی افریقہ، تائیوان، سنگا پور، ہانگ کانگ۔الغرض یہ فہرست بہت ہی لمبی ہے۔ جاپان میں اس وجہ سے ایک بحران جنم لے رہا ہے جسے Akiya crisis کہا جاتا ہے، یعنی متروک اور خالی گھروں کا مسئلہ۔ وہاں شرح پیدائش اس حد تک کم ہوچکی ہے کہ بزرگ فوت ہو رہے ہیں اور ان کے گھروں میں رہنے کے لیے نئے نوجوان موجود نہیں۔ جاپان کے خبر رساں ادارے نپون (Nipon) کے ۲۰؍مئی ۲۰۲۴ء کے اعلانیہ کے مطابق ۹؍ملین گھر جاپان میں خالی پڑے ہیں۔گویا ملک کے ۱۳؍ فیصد گھروں میں رہنے والا ہی کوئی نہیں۔
اس ساری تاریخ اور اعداد و شمار کو دیکھنے سے چند امور سامنے آتے ہیں جو اس زوال کا باعث بنے۔
۱۔ مال کی طلب: یعنی مالی کشائش کو ترجیحی بنیادوں پر رکھا جانا۔اور مالی کشائش کا ایک معیار قائم کر لینا کہ جب تک وہ حاصل نہ کر لیا جائے تب تک بچوں کی پیدائش مناسب نہیں۔
۲۔ مہنگائی: ہر روز کی بڑھتی ہوئی مہنگائی اور اس بات کا خوف کہ اگر بچے ہو گئے تو ان کا خرچ کیسے برداشت ہو سکے گا۔
۳۔ عورت اور مرد دونوں کا کام کے لیے جا نا: اقتصادی تعاون کی تنظیم (OCED) کے سروے کے تحت جن ممالک میں عورت اور مرد دونوں کام کرنے جاتے ہیں وہاں شرح پیدائش کم سے کم تر ہوتی جا رہی ہے۔
۴۔ مانع حمل ادویات کی فراہمی: ورلڈ بینک (data.worldbank.org/indicator/SP.DYN.TFRT.IN) کے ڈیٹا کے مطابق یہ ادویات بچوں کی پیدائش کی شرح میں کمی کی ایک بنیادی وجہ ہیں۔ اور قارئین کے علم کے لیے بتاتا چلوں کہ ۱۹۳۰ءسے ۱۹۶۰ء کے درمیان ایک انقلاب آیا جسے جنسیاتی انقلاب (sexual revolution) کہا جاتا تھا جو انہی مغربی ترقی یافتہ ممالک (یعنی روس، امریکہ، برطانیہ، فرانس، سویڈن)میں آیا جس میں ان مانع حمل ادویات کی فراہمی کو سرکاری طور پر اجازت اور فروغ ملا۔
۵۔ ذمہ داری کے بوجھ سے نجات کی خواہش:تحقیقی ادارہ پاپولیشن یورپ کے ایک مضمون میں مصنف میکیلا کرنفیلڈ لکھتی ہیں کہ یورپ میں ایسے شادی شدہ جوڑوں کی تعداد ۱۵ سے ۲۰؍ فیصد تک پہنچ چکی ہے جو بچے پیدا ہی نہیں کرنا چاہتے۔ ڈاکٹر سمینتھا سٹالین جو سائیکالوجی کی ڈاکٹر ہیں وہ اس کی بنیادی وجوہات درج ذیل بتاتی ہیں۔۱: لوگ بچوں سے پیدا ہونے والی ذمہ داریوں کو اٹھانے کی خواہش ہی نہیں رکھتے۔۲:اپنی نوکری کو ترجیح دیتے ہیں۔۳: وہ لوگ سمجھتے ہیں کہ دنیا کے حالات ایسے ہیں کہ اس میں بچے کو پیدا کر کے اس کی زندگی مشکل میں ڈالنے کی کیا ضرورت ہے۔۴: بچے اپنی ذات میں اور آئندہ ۲۰؍سالوں میں ان پر ہونے والے خرچ بہت زیادہ ہیں جس کا بوجھ اٹھانا بہت مشکل ہے۔۵: اپنے بچپن کے حالات ایسے تھے کہ ان کا ذہنی اثر اتنا گہرا ہے کہ وہ آئندہ بچے پیدا ہی نہیں کرنا چاہتے۔
آئیے اب دیکھتے ہیں اسلام ان پہلوؤں کے بارے میں کیا کہتا ہے۔
۱۔ مال کی طلب: اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے: زُیِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّہَوٰتِ مِنَ النِّسَآءِ وَالۡبَنِیۡنَ وَالۡقَنَاطِیۡرِ الۡمُقَنۡطَرَۃِ مِنَ الذَّہَبِ وَالۡفِضَّۃِ وَالۡخَیۡلِ الۡمُسَوَّمَۃِ وَالۡاَنۡعَامِ وَالۡحَرۡثِ ؕ ذٰلِکَ مَتَاعُ الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا ۚ وَاللّٰہُ عِنۡدَہٗ حُسۡنُ الۡمَاٰبِِ۔(آل عمران:۱۵) اس کی تشریح میں حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:’’اس کا ترجمہ ہے کہ لوگوں کے لئے طبعاً پسند کی جانے والی چیزوں کی یعنی عورتوں کی اور اولاد کی اور ڈھیروں ڈھیر سونے چاندی کی اور امتیازی نشان کے ساتھ داغے ہوئے گھوڑوں کی اور مویشیوں اور کھیتیوں کی محبت خوبصورت کرکے دکھائی گئی ہے۔ یہ دنیوی زندگی کا عارضی سامان ہے اور اللہ وہ ہے جس کے پاس بہت بہتر لوٹنے کی جگہ ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ دنیا دار طبعاً یہ پسند کرتے ہیں کہ ان کے پاس خوبصورت اور مالدار عورتیں ہوں ان کی زوجیت میں، آج کل بھی دیکھ لیں مالدار لوگ یا پیسے والے لوگ یا اس کی سوچ کو رکھنے والے اکثر مالدار گھرانے میں اس لئے شادیاں کرتے ہیں کہ یا تو ان کی طرف سے کچھ مال مل جائے گا یا دونوں طرف کا مال اکٹھا ہو کر ان کے مال میں اضافہ ہو گا۔ اس بات کی پرواہ کم کی جاتی ہے کہ جن چار وجوہات کی بنا پر رشتہ کیا جانا چاہئے یعنی مال(جیساکہ حدیث میں آیاہے)، خاندان، خوبصورتی یا دینداری۔ ان میں سے اللہ تعالیٰ کی نظر میں سب سے زیادہ پسندیدہ دین ہے، اس کی پرواہ کم کی جاتی ہے۔ لیکن مال کی طرف سب سے زیادہ توجہ دی جاتی ہے۔ اور پھر یہ خواہش بھی ہوتی ہے کہ اولاد ہو اور اولاد میں بھی یہ خواہش ہوتی ہے کہ زیادہ لڑکے ہوں۔ آجکل کے پڑھے لکھے لوگوں میں بھی، ترقی یافتہ زمانے میں بھی یہ سوچ ہے اور یہ سوچ بڑی کثرت سے پائی جاتی ہے کہ لڑکے پیدا ہوں اور باپ کی طرح دنیاداری کے کاموں میں باپ کے ساتھ کام کریں۔ پھر جیسا کہ میں نے ذکر کیا کہ مال ہو، ڈھیروں ڈھیر مال کی خواہش ہو اور جتنا مال آتا ہے اتنی زیادہ حرص بڑھتی چلی جاتی ہے اور کوشش ہوتی ہے کہ جس ذریعے سے بھی مال حاصل ہو سکتا ہے کیا جائے۔ دوسروں کی زمینوں پر قبضہ کرکے بھی زمینیں بنائی جا سکیں تو بنائی جائیں، دوسروں کے پلاٹوں پر بھی قبضہ کیا جائے، کاروبار پھیلایا جائے، کارخانے لگائے جائیں، سواریوں کے لئے کاریں خریدی جائیں، ایک گاڑی کی ضرورت ہے توتین تین چار چار گاڑیاں رکھی جائیں اور پھر ہر نئے ماڈل کی کار خریدنا فرض سمجھا جاتا ہے۔ توفرمایا کہ یہ سب دنیوی زندگی کے عارضی سامان ہیں ایک مومن کی یہ شان نہیں ہے کہ ان عارضی سامانوں کے پیچھے پھرتا رہے۔ دنیا کے پیچھے پھرنا تو کافروں کا کام ہے، غیر مومنوں کا کام ہے، تمہارا مطمح نظر تو اللہ تعالیٰ کی رضا، اس کی عبادت اور اس کی مخلوق کی خدمت ہونا چاہئے۔… پس ان حالات میں خاص طور پر احمدیوں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے اور ہر طبقہ کے احمدی پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ قناعت اور سادگی کو اپنائیں۔ تو دین کی خدمت کے مواقع بھی میسر آئیں گے، دین کی خاطر مالی قربانی کی بھی توفیق ملے گی، اپنے ضرورت مند بھائیوں کی خدمت کی بھی توفیق ملے گی، ان کی خدمت کرکے خداتعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کی بھی توفیق ملے گی اور دنیا کے کاموں میں فنا ہونے سے بچ کر اللہ تعالیٰ کی عبادات بجا لانے کی بھی توفیق ملے گی۔ اور آخر کو انسان نے اللہ تعالیٰ کے حضور ہی حاضر ہونا ہے، اسی طرح زندگی چلتی ہے۔ ایک دن اس دنیا کو چھوڑنا ہے۔ تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وہی بہترین جگہ ہے اور یہ بہترین جگہ اس وقت حاصل ہو گی جب دنیاداری کو چھوڑ کر میری رضا کے حصول کی کوشش کرو گے اور میرے احکامات پر عمل کرو گے۔ ‘‘(خطبہ جمعہ ۳۰؍اپریل ۲۰۰۴ء)
حضرت ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ متقی بنو، سب سے بڑے عابد بن جاؤ گے۔ قناعت اختیار کرو سب سے زیادہ شکر گزار بن جاؤ گے۔ لوگوں کے لئے وہی چاہو جو اپنے لئے چاہتے ہو حقیقی مومن بن جاؤ گے۔ اپنے پڑوسیوں سے اچھا سلوک کرو حقیقی مسلمان بن جاؤ گے۔ کم ہنسو کیونکہ زیادہ ہنسنا دل کو مردہ بنا دیتا ہے۔ (سنن ابن ماجہ کتاب الزھد باب الورع وا لتقویٰ) ایک اور حدیث میں ہے کہ ہمیشہ مالی معاملات یا دنیاوی معاملات میں اپنے سے اوپر نظر نہ رکھو بلکہ اپنے سے کم تر کو دیکھو یہ اس بات کے زیادہ قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نعمت کو حقیر نہ جانو اور شکر ادا کر سکو۔ (مسند احمد جلد ۲ صفحہ ۲۵۴) پھر ایک اور حدیث میں ہے ’’دو بھوکے بھیڑیے جن کو بھیڑ بکریوں کے ریوڑ میں چھوڑ دیا جائے اتنا خرابی اور فساد کا باعث نہیں بنتے جتنا ایک شخص کا مال کا حرص کرنا اور اپنے آپ کو بڑا سمجھنا۔اس کے دین کی خرابی اور فساد کا موجب ہے۔‘‘(مشکوٰۃ کتاب الرقاق)
پس اسلام نے ہمیشہ یہی بتایا کہ مال حاصل کرو مگر حرص نہ کرو اور ہمیشہ اپنے سے کم تر کو دیکھتے رہو یوں لالچ پیدا نہ ہو گا۔ اور بہت ہی واضح الفاظ میں بتایا کہوَمَا مِنۡ دَآبَّۃٍ فِی الۡاَرۡضِ اِلَّا عَلَی اللّٰہِ رِزۡقُہَا وَیَعۡلَمُ مُسۡتَقَرَّہَا وَمُسۡتَوۡدَعَہَا ؕ کُلٌّ فِیۡ کِتٰبٍ مُّبِیۡنٍ (ھود:۷) کہ زمین میں کوئی چلنے پھرنے والا جاندار نہیں مگر اس کا رزق اللہ پر ہے اور وہ اس کا عارضی ٹھکانہ بھی جانتا ہے اور مستقل ٹھہرنے کی جگہ بھی۔ ایک جگہ اللہ تعالیٰ اپنے رزاق ہونے کا ذکر کرتے ہوئے یوں فرماتا ہے کہ وَکَاَیِّنۡ مِّنۡ دَآبَّۃٍ لَّا تَحۡمِلُ رِزۡقَہَا ٭ۖ اَللّٰہُ یَرۡزُقُہَا وَاِیَّاکُمۡ ۫ۖ وَہُوَ السَّمِیۡعُ الۡعَلِیۡمُ(ا لعنکبوت:۶۱)اور کتنے زمین پر چلنے والے جاندار ہیں جو اپنا رزق نہیں اٹھاتے پھرتے۔ اللہ تعالیٰ ہی ہے جو انہیں رزق عطا کرتا ہے اور تمہیں بھی۔ اور وہ خوب سننے والا اور دائمی علم رکھنے والا ہے۔
حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:’’پس ہمیشہ اس بات کو یاد رکھو کہ اَللّٰہُ یَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ یَّشَآءُ مِنْ عِبَادِہٖ وَیَقْدِرُلَہٗ (العنکبوت:۶۳) یعنی کہ اللہ ہی ہے جو اپنے بندوں میں سے جس کے لئے چاہتا ہے رزق فراخ کر دیتا ہے اور جس کے لئے چاہتا ہے تنگ کر دیتا ہے۔ پس دنیاوی ذریعوں پر اپنے رزق کا انحصار نہ سمجھو۔ رزق دینا اور روکنا اللہ تعالیٰ پر منحصر ہے۔ جو انسان دنیاوی ذریعوں پر انحصار کرتا ہے اس کا حال تو آج کی دنیا دیکھ رہی ہے۔ ان امیر ملکوں میں رہنے والوں میں بھی رزق کی تنگی کا شور مچنا شروع ہو گیا ہے۔ اگر کوئی بھی بڑے سے بڑا اور امیر ملک ہی رزّاق ہو تو پھر آج ان ملکوں میں رزق کی تنگی کی چیخ و پکار کیوں ہوگی۔ پس ایک مومن کو چاہئے کہ ہمیشہ اس طرف نظر رکھے کہ اللہ تعالیٰ کی مرضی کیا ہے۔ اگر انسان اللہ تعالیٰ کی طرف خالص ہو کر توجہ دیتا رہے، اس کی عبادت کرتا رہے اور اس کے روحانی رزق سے فیضیاب ہونے کی کوشش کرتا رہے تو پھر اسے کوئی فکر نہیں۔ اللہ تعالیٰ مومنوں کی دنیاوی ضرورتیں بھی پوری کرتا رہتا ہے اور قناعت بھی پیدا کرتا ہے۔ پس جو حقیقی رازق ہے اس کی طرف ہمیشہ ایک مومن بندے کی نظر رہنی چاہئے نہ کہ انسانوں کی طرف۔‘‘ (خطبہ جمعہ ۶؍ جون ۲۰۰۸ء، مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۲۷ جون ۲۰۰۸ء )
پس واضح بتا دیا کہ مال کی کوشش کرو مگر مدنظر تقویٰ رہے اور حرص سے بچے رہنا۔
۲: مہنگائی: اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتاہے:وَلَا تَقۡتُلُوۡۤا اَوۡلَادَکُمۡ خَشۡیَۃَ اِمۡلَاقٍ ؕ نَحۡنُ نَرۡزُقُہُمۡ وَاِیَّاکُمۡ ؕ اِنَّ قَتۡلَہُمۡ کَانَ خِطۡاً کَبِیۡرًا۔(بنی اسرائیل: ۳۲)حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:’’اس آیت کے یہ معنے بھی ہوسکتے ہیں جوبعض صوفیاء کرتے ہیںکہ اولاد کی پیدائش کو صرف ا س خطرہ سے روکنا منع ہے کہ اگراولاد زیادہ ہوجائے گی توپھر کھائے گی کہاں سے۔اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے اولاد کی پیدائش بند کرنا قتل اولاد کے حکم میں ہے۔اورقتل اولاد ہرحال میں منع ہے اوربراہے تومعنے یہ ہوئے کہ املاق کی وجہ سے قتل اولاد (یعنی اس کی پیدائش کو روکنا )منع ہے۔البتہ بعض اورصورتوں میں جائز بھی ہوسکتا ہے مثلاً عورت بیمار ہو اس وقت جائز ہوگاکہ اولادپیداکرنابند کردے۔کیونکہ جس چیز کی وجہ سے روکا گیا ہے وہ غیر محسوس ہے۔ ایسی وجہ کی بناء پر اولاد کی پیدائش کوروکنا منع ہے لیکن کسی محسوس اورمشاہد نقصا ن کی وجہ سے اولاد کی پیدائش کو روکنا منع نہیں۔‘‘(تفسیر کبیر جلد ۴صفحہ۳۲۷)
۳: شوہر اور بیوی دونوں کا نوکری پر جانا: اسلام تو کہتا کہ گھر کا نان نفقہ شوہر کی ذمہ داری ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے:اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوۡنَ عَلَی النِّسَآءِ بِمَا فَضَّلَ اللّٰہُ بَعۡضَہُمۡ عَلٰی بَعۡضٍ وَّبِمَاۤ اَنۡفَقُوۡا مِنۡ اَمۡوَالِہِمۡ(النساء:۳۵)حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں :’’حدیث میں آتا ہے کہ خاوند کو چاہئے کہ اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لئے بیوی کے منہ میں لقمہ اگر ڈالتا ہے تو اس کا بھی ثواب ہے۔اب اس کا مطلب صرف یہ نہیں کہ صرف لقمہ ڈالنا بلکہ بیوی بچوں کی پرورش ہے، ان کی ضروریات کو پورا کرنا ہے۔ ایک مرد کا فرض ہے کہ اپنے گھر کی ذمہ داری اٹھائے۔ لیکن اگر یہی فرض وہ اس نیت سے ادا کرتا ہے کہ خداتعالیٰ نے میرے پر یہ ذمہ داری ڈالی ہے اور خدا کی خاطر میں نے اپنی بیوی، جو اپنا گھر چھوڑ کے میرے گھر آئی ہے، اس کا حق ادا کرنا ہے، اپنے بچوں کا حق ادا کرنا ہے تو وہ ہی فرض ثواب بھی بن جاتا ہے۔ یہ بھی عبادت ہے۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۳؍مارچ۲۰۰۹ء بمقام بیت الفتوح، لندن۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۳؍اپریل ۲۰۰۹ء)
حضرت معاویہ بن حیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا اے اللہ کے رسولﷺ!ہم پر کسی ایک بیوی کا حق کیا ہے؟نبی کریمﷺ نے فرمایا:’’جب تم خود کھاؤ تو اسے بھی کھلاؤ اور جب خود لباس پہنوتو اسے بھی پہناؤ اور اس کے چہرے کو بدصورت نہ کہو اور چہرے پر نہ مارو۔‘‘(سنن أبی داؤد)
حضرت عبد اللہ بن عمرؓ نے بیان کیا کہ آپﷺ نے فرمایا :’’تم میں سے ہر کوئی نگہبان ہے اور اپنی رعیت کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ حاکم بھی نگہبان ہے اپنی رعیت کے بارے میں پوچھا جائے گا اور مرد اپنے گھر والوں کا نگہبان ہے اور اپنی رعیت کے بارے میں پوچھا جائے گا اور عورت اپنے خاوند کے گھر کی نگہبان ہے اپنی رعیت کے بارے میں پوچھی جائے گی اور غلام اپنے صاحب کے مال کا نگہبان ہے اور اپنی رعیت کے بارے میں پوچھا جائے گا۔‘‘(صحیح بخاری)
۴۔ ضبط تولید: حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ نے ۳۱؍اگست ۱۹۹۸ء کو جرمنی میں ایک مجلس سوال و جواب بزبان انگریزی میں فرمایا(جس کا اردو مفہوم پیش ہے )اسقاط حمل (Abortion) اور ضبط تولید (Birth Control) دو مختلف چیزیں ہیں۔ ضبط تولید اس صورتحال پر لاگو ہوتا ہے جہاں بچہ ابھی نطفے کی شکل میں رحم میں جڑ نہ پکڑا ہو۔ ایسے حالات کو روکنے کے عمل کو ضبط تولید کہا جاتا ہے۔ لیکن جب بچہ رحم میں قرار پکڑ لیتا ہے اور نشوونما پانے لگتا ہے، تو اگر اسے ختم کر دیا جائے تو اسے اسقاط حمل کہتے ہیں۔اسلام کا ان دونوں معاملات پر مؤقف بالکل واضح ہے۔ جہاں تک ضبط تولید کا تعلق ہے، اسلام اس کے خلاف نہیں ہے، بشرطیکہ اس کا مقصد یہ نہ ہو کہ زیادہ بچوں کی پیدائش سے کھانے والے افراد بڑھ جائیں گے اور خاندان خوراک سے محروم ہو جائے گا۔ اگر ضبط تولید کا مقصد صرف یہ خوف ہو کہ وسائل کم پڑ جائیں گے، تو اسلام اس کی سختی سے مخالفت کرتا ہے اور اسے روکتا ہے۔ لیکن اگر کوئی اور حقیقی وجوہات ہوں، تو ضبط تولید ممنوع نہیں ہے۔تو دیکھیے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ابتدائی معاشرے میں لوگ ضبط تولید پر عمل کرتے تھے، یعنی وہ اپنی بیویوں کو حاملہ ہونے سے روکنے کے لیے جو بھی طریقے میسر ہوتے، انہیں اپناتے تھے، اور عربی میں اسے ’’عزل‘‘کہا جاتا ہے۔ یہ ایک عام رواج تھا اور سبھی اس سے واقف تھے۔ لیکن اگر اس کا مقصد صرف ’’اپنے کھانے کو بچانا‘‘ اور دوسروں کو اس میں شریک نہ ہونے دینا ہو، تو اللہ تعالیٰ نے اس رویے کو سختی سے ناپسند فرمایا ہے۔البتہ، اگر کوئی اور حقیقی اور معقول وجہ ہو، تو ضبط تولید ممنوع نہیں ہے۔ مثال کے طور پر، اگر کسی عورت کی صحت کا مسئلہ ہو، یا بچوں کی مناسب پرورش اور دیکھ بھال کے پیش نظر ہو، تو ایسی صورت میں ضبط تولید کی اجازت ہے اور یہ ممنوع نہیں۔
پھر خطبہ جمعہ ۱۸؍جنوری ۲۰۰۲ء میں آپؒ فرماتے ہیں:’’کنگال ہونے کے ڈر سے قتل کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اس قسم کی فیملی پلاننگ نہیں کرنی چاہئے جس میں خوف یہ ہو کہ بچے زیادہ ہونگے تو اس سے ہمارے رزق میں کمی آجائے گی۔ اصل میں غریب ملکوں کا علاج ہی زیادہ بچے ہیں۔ زیادہ بچے ہوں تو وہ مجبور ہوجاتے ہیں باہر دنیا میں سیر کرنے پر اور ہجرت کرنے پر اور بہت سی کمائی جو باہر کے ملکوں سے غریب ملکوں میں جاتی ہے وہ کثرت اولاد ہی کی وجہ سے ہے۔ پس دوسرا اس کا معنی یہ ہے کہ صحابہ بعض دفعہ فیملی پلاننگ کرلیا کرتے تھے مگر کثرت اولاد کے خطرہ سے نہیں کیا کرتے تھے۔ وہ جانتے تھے کہ رزق اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے۔ تو فیملی پلاننگ اگر رزق کے ڈر سے نہ کی جائے تو اس کا گناہ نہیں ہے۔ اس کے جو طریقے رائج ہیں ان پر بے بیشک عمل کیا جائے لیکن رزق کی کمی کے ڈر سے فیملی پلاننگ بہرحال منع ہے۔ ‘‘(خطبہ جمعہ ۱۸؍جنوری ۲۰۰۲ء، مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۲۲؍فروری ۲۰۰۲ء )
۵۔ احساس ذمہ داری: جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا ہے کہ اب ایک مزاج پیدا ہو رہا ہے کہ آخر بچے پیدا ہی کیوں کیے جائیں ؟ مگر اسلام اس کے برعکس راہنمائی کرتا ہے۔ اسلام چونکہ کامل مذہب ہے اس لیے وہ ان تمام باتوں کو زیر بحث لاتا ہے جو بظاہر انسانی عقل سے بالا ہوتی ہیں مگر انجام کے لحاظ سے وہی بہتر ہوتا ہے جو اسلام نے بتایا ہوتا ہے۔ ایک حدیث پیش خدمت ہے۔ حضرت معقل بن یسار ؓنے بیان کیا کہ’’ایک شخص نبیﷺکے پاس آیا اور عرض کیا مجھے ایک عورت ملی ہے جو خوبصورت بھی ہے اور خاندانی بھی لیکن اس کے اولاد نہیں ہوتی تو کیا میں اس سے شادی کر لوں؟ آپؐ نے فرمایا: نہیں۔ پھر وہ دوسری مرتبہ آپؐ کے پاس آیا آپؐ نے پھر منع فرما دیا۔ پھر وہ تیسری مرتبہ آپؐ کے پاس آیا تو آپؐ نے فرمایا:ایسی عورت سے نکاح کرو جو محبت کرنے والی ہو اور زیادہ بچے جننے والی ہو کیونکہ میں تمہاری کثرت کی بنا پر ہی فخر کروں گا۔‘‘(سنن ابی داؤد) اب اس ایک واقعہ میں واضح بتایا کہ تم جوان ہو اور ابھی تمہاری ترجیحات مختلف ہیں۔ مگر آخر تم نے بوڑھے ہونا ہے اور صرف تم ایک فرد نے نہیں بلکہ اس ساری جوان نسل نے بوڑھے ہونا ہے۔ اور اگر اسلام اجازت دے دے کہ بچے معاشرہ کا ضروری حصہ نہیں ہیں بلکہ ایک فروعی حصہ ہیں ( یعنی کوئی چاہے تو بچے پیدا کرے اور چاہے تو نہ کرے )تو معاشرہ ختم ہو جائے۔ اور جب یہ جوان نسل جب وقت کے ساتھ ساتھ بوڑھی ہو تو وہ تمام امور جو اب یہ لوگ سنبھال رہے ہیں ان کو چلانے والے اور افراد موجود ہیں نہ ہوں گے۔ مثلاً اگر کوئی کاشتکار ہے۔ وہ بڑھاپے میں زمین پر ہل نہیں چلا سکتا اور اس معاشرہ نے بچے پیدا ہی نہیں کیے تو وہاں کاشتکاری کون کرے گا اور ان بوڑھوں کی خوراک، صحت وغیرہ کا ذمہ دار آخر کون ہو گا؟ تو اسلام نے واضح فرمایا جیسا کہ حدیث مبارکہ میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر ؓنے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ آگاہ ہو جاؤ تم میں سے ہر ایک نگہبان ہے اور ہر ایک سے اس کی رعایا کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔ پس حاکم لوگوں پر نگہبان ہے اور اس سے اس کی رعایا کے بارے میں سوال ہو گا۔ مرد اپنے گھر والوں کا نگہبان ہے اور اس سے اس کی رعایا کے بارے میں سوال ہو گا اور عورت اپنے شوہر کے گھر والوں اور اس کے بچوں کی نگہبان ہے اور اس سے ان کے بارے میں سوال ہوگا اور کسی شخص کا غلام اپنے سردار کے مال کا نگہبان ہے اور اس سے اس کے بارے میں سوال ہو گا۔ آگاہ ہو جاؤ کہ تم میں سے ہر ایک نگہبان ہے اور ہر ایک سے اس کی رعایا کے بارے میں پُرسش ہو گی۔‘‘(صحیح بخاری) کہ جب تک ایک نسل کے بعد دوسری نسل اپنی ذمہ داریوں کو نہیں نبھائے گی تب تک معاشرہ کی بقا ممکن نہیں۔
حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ سے ایک دوست نے بذریعہ خط سوال دریافت کیا کہ ایک آدمی کی تنخواہ بہت قلیل ہے اور آمدنی کا اور کوئی ذریعہ سوائے تنخواہ کے نہیں اور تنخواہ مثلاً یہ ۵۰ یا ۶۰؍روپے ہے اور ظاہر ہے کہ اس قدر قلیل تنخواہ میں آج کل کے زمانے میں بمشکل دو تین چارآدمیوں کا گزارہ ہو سکتا ہے۔ اب ایک خاندان میں دو میاں بیوی اور ان کے تین یا چار بچے ہیں… لیکن ظاہر ہے کہ اگر ان کے بچے زیادہ ہوجائیں گے تو ان کی پرورش اور صحیح رنگ میں تعلیم و تربیت مشکل بلکہ ناممکن ہو جائے گی تو ازروئے اسلام ان میاں بیوی کو برتھ کنٹرول یعنی ضبط تولید کی اجازت ہے یا نہیں ۔ اگر عورت کی زندگی بچانے کے لیے ضبط تولید کی اجازت ہے تو بچوں کی صحت بچانے اور ان کی اچھی طرح سے پرورش کرنے اور تعلیم و تربیت کرنے کے لئے کیوں اس امر کی اجازت نہ ہو؟حضورؓ نےان کے جواب میں فرمایا: آپ کے خط سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ پہلے اپنا ایک ماحول تجویز کرتے ہیں اور پھر کہتے ہیں کہ ہمارے اس ماحول کے مطابق خدا تعالیٰ کا قانون یہ ہونا چاہیے۔ سوال تو یہ ہے کہ یہی ماحول لڑائی کے دنوں میں قوم کا ہوتا ہے یا نہیں؟ کیا مائیں اس وقت نہیں کہتیں کہ ہمارے بچے قتل ہونے کے لئے کیوں جائیں؟ آپ اس وقت کیا کہیں گے۔ کیا یہ کہ اس قسم کا ماحول ہے بچے قتل ہوتے ہیں قوم کا نقصان ہوتا ہے ہم کیا کریں۔آج کل تو آپ کہتے ہیں کہ ۵۰، ۶۰ روپے ماہوار ملتے ہیں جس میں زیادہ آدمیوں کا گزارا نہیں ہو سکتا،سوال تو یہ ہے کہ کیا ایسا بھی ہوتا ہے یا نہیں کہ بعض کو ۵۰ بھی نہیں ملتے، بعض کو نوکری بھی نہیں ملتی۔اس کو آپ روٹی کہاں سے کھلاتے ہیں؟ کیا اس کے لئے یہ جائز قرار دیتے ہیں کہ وہ ڈر کے مارے اور لوگوں کا مال اٹھا لے؟ تکلیفیں بے شک ہوتی ہیں لیکن ہمیشہ چھوٹی اسکیمیں بڑی اسکیم کے ماتحت قربان کی جاتی ہیں۔ بڑی سکیم یہی ہے کہ نسل انسانی کو بڑھنے دو جب اس کے مصائب انتہا کو پہنچیں گے وہ خود اپنا علاج نکال لے گی اور قانون قدرت کی طرف لوٹے گی۔ آپ کی انہی دلیلوں نے ہندوستان میں مسلمانوں کو تباہ کیا ہے۔ اگر مسلمان تبلیغ اسلام کرتا اور اگر مسلمان بچے پیدا کرتا تو اس میں کوئی شبہ نہیں وہ بھوکے مرتے۔لیکن بھوکے مرنے کی کوئی حد ہوتی ہے۔ ایک دن جاکر بند ٹوٹ جاتا ہے اور وہی بھوکا مرنے والی قوم بادشاہ بن جاتی ہے۔ مسلمانوں کے ہاں تو کثرت ازواج بھی ہیں وہاں تو اور بھی زیادہ بھوکے مرنے والے بچے پیدا ہونے چاہئیں۔اگر یہ فاقہ کرنے والا ۲۰؍کروڑ ہندوستان میں ہو چکا ہوتا تو کیا وہ حال ہوتا جو آج ہوا؟ ہندوستان کی آزادی کے بعد مسلمان بجائے ایک ٹکڑی پر راضی ہونے کےآج سارے ہندوستان پر حکومت کرتا۔مجبوری اور معذوریاں صرف آپ کے قانون کے ماتحت نہیں لگتیں، وہ اور ہزاروں مثالوں میں بھی لگتی ہیں۔یہی مجبور و معذور آدمی جس کے متعلق آپ کہتے ہیں کہ اگر اس کے ہاں بچہ پیدا ہوا تو بھوکا مرے گا اگر اس کے ہاں اولاد نہ ہوتی تو وہ دوسری بیوی کرتا یا نہ کرتا ؟اور کیا اس ذریعہ سے ایک اور آدمی کا اضافہ ہو جاتا یا نہ ہو جاتا یا آپ یہ کہتے ہیں کہ چونکہ یہ مجبور و معذور ہے اس لئے اسے دوسری عورتوں سے ناجائز تعلقات کی اجازت مل جانی چاہیے۔ آخر آپ اپنے قانون کو اپنی مرضی کے دائرے میں کیوں محدود کرتے ہیں اگر وہ کوئی قانون ہے تو اسے وسیع ہونا چاہیے۔ (الفضل ۲۴؍اپریل ۱۹۵۲ء صفحہ ۴)
پس جیسا کہ حضور ؓنے فرمایا کہ آخر انسانیت قانون قدرت کی طرف ہی لوٹتی ہے اور اپنی نجات کی راہ اسی میں پاتی ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ آج کے ترقی یافتہ ممالک کو جب بچوں کی شرح پیدائش میں کمی کا احساس ہوا تو انہوں نے ہنگامی بنیادوں میں اس کو بڑھانے کی کوشش کی۔ جاپان نے اعلان کیا کہ وہ ہر بچے کی پیدائش پر ایک لاکھ ین (yen) ہر ماں کو دے گا، فن لینڈ نے کہا کہ وہ ہر ماں کو سالانہ ایک ہزار یورو دیں گے اور دس سال تک دیتے رہیں گے، روس نے اعلان کیا کہ وہ ہر ماں کو دو بچوں کی پیدائش کے بعد ہر نئے بچے کی پیدائش پر سات ہزر ڈالر دے گا، اٹلی نے کہا کہ بچے کی پیدائش پر گورنمنٹ بچے کے والدین کو ایک سال تک وہی تنخواہ دینے کی ذمہ دار ہو گی جس پر وہ پہلے نوکری کر رہے تھے، سویڈن نے اعلان کیا کہ وہ بچے کی پیدائش پر تنخواہ کے ساتھ ساتھ ۱۶؍ماہ کی چھٹی بھی دے گا۔
پس یہ چند مثالیں تھیں ان ترقی یافتہ ممالک کی جنہوں نے اپنی عقل سے بچوں کی پیدائش میں کمی پیدا کی اور نصف صدی کے اندر ہی ان کو قانون قدرت نے احساس دلا دیا کہ وہ غلطی پر ہیں اور ان اقوام کا مستقبل خطرہ میں ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:’’مَیں بڑے زور سے اور پورے یقین اور بصیرت سے کہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے ارادہ فرمایا ہے کہ دوسرے مذاہب کو مٹا دے اور اسلام کو غلبہ اور قوت دے۔ اب کوئی ہاتھ اور طاقت نہیں جو خدا تعالیٰ کے اس ارادہ کا مقابلہ کرے۔وہ فَعَّالٌ لِّمَا يُرِيدُ ہے۔ ‘‘(لیکچر لدھیانہ، روحانی خزائن جلد۲۰ صفحہ ۲۹۰)
پس ہماری ذمہ داری ہے کہ جہاں بھی ہوں وہاں دنیا کو اسلام اور خدائے واحد کی طرف لے کر آئیں، تا دنیا جنت کا نمونہ بنے۔اللہ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
(’م۔ف۔مجوکہ‘)
٭…٭…٭
مزید پڑھیں: روزہ دار کے لیے خوشیاں ہی خوشیاں