متفرق مضامین

زمیندار کا لطیفہ اور رمضان کی مقبول دعائیں

ہمارا خدانہ تو ہمارے آنسوؤں کا محتاج ہے نہ وہ ہمارے گڑ گڑانے کا محتاج ہے اور نہ وہ ہماری کسی اور حرکت کا محتاج ہے۔ وہ صرف ایک گداز دل کی آہ سننے کے لئے تیار ہوتا ہے

اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں جہاں رمضان، اس کی فرضیت نزول قرآن اور روزہ کے مسائل کا ذکر فرمایا ہے وہاں استجابت دعا کا وعدہ بھی بیان کرتے ہوئے فرمایا:وَاِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیۡ عَنِّیۡ فَاِنِّیۡ قَرِیۡبٌ ؕ اُجِیۡبُ دَعۡوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ ۙ فَلۡیَسۡتَجِیۡبُوۡا لِیۡ وَلۡیُؤۡمِنُوۡا بِیۡ لَعَلَّہُمۡ یَرۡشُدُوۡنَ (البقرۃ:۱۸۷)۔ اور جب میرے بندے تجھ سے میرے متعلق سوال کریں تو یقیناً میں قریب ہوں۔ میں دعا کرنے والے کی دعا کا جواب دیتا ہوں جب وہ مجھے پکارتا ہے۔ پس چاہئے کہ وہ بھی میری بات پر لبّیک کہیں اور مجھ پر ایمان لائیں تاکہ وہ ہدایت پائیں۔

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ اس آیت کے متعلق فرماتے ہیں: ہمیں یہ خوشخبری دی کہ میرے بندوں کو بتا دے کہ اے نبیؐ! مَیں ان کے قریب ہوں۔ دعاؤں کو سنتا ہوں۔ قبول کرتا ہوں۔ اور رمضان کے مہینے میں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نچلے آسمان پر آ جاتا ہےیعنی اپنے بندوں کی دعاؤں کو بہت زیادہ سنتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اگر تم چاہتے ہو کہ میں تمہاری دعائیں سنوں تو پھر تمہیں بھی میری باتوں کو ماننا ہو گا۔ مَیں نے جو احکامات دیے ہیں ان پر عمل کرنا ہو گا۔ صرف رمضان کے مہینے میں نہیں بلکہ ان نیکیوں کو مستقل زندگیوں کا حصہ بنانا ہو گا اور اپنے ایمانوں کو مضبوط کرنا ہوگا۔ پس قبولیت دعا کے لیے بھی بعض شرائط ہیں۔ پس ہم جب ان شرائط کے مطابق اپنی دعاؤں میں حسن پیدا کریں گے تو اللہ تعالیٰ کو بھی اپنے قریب اور دعاؤں کو سننے والا پائیں گے۔(الفضل انٹرنیشنل ۰۷؍مئی ۲۰۲۱ء)

لیکن فاسٹ فوڈ اور فاسٹ انٹرنیٹ کے ناقابلِ فرار جال میں جکڑے ہوئے اس دور کے انسان میں کبھی کبھار رمضان المبارک میں نیکیاں اکٹھی کرنے کی دوڑ کا جذبہ جس تیزی سے بیدار ہوتا ہے اسی تیزی سے ایک نئے مقصد کی طرف متوجہ ہونے کی وجہ سے خیالات اور ارادے کے منظر سے اوجھل ہوجاتا ہےاور رمضان جس بھرپور عزم سے شروع ہوتا ہے اس ماہ کے اختتام تک وہ عزم پھیکا پڑ چکا ہوتا ہے۔ اس عزم کو غیر متزلزل بنانے والے وہ الفاظ اور ایک لطیف مثال جو نہ صرف عبادات میں ایک نیا جوش اور رنگ پیدا کرنے والے بلکہ تلاوتِ قرآن کریم کو قبولیت و طریقِ دعا سے ایک نہایت پر لطف پیرایہ میں جوڑنے والے ہیں انوار العلوم جلد ٢٣ سے قارئین کے ازیادِ ایمان کے لیے پیش ہیں۔

حضرت خلیفۃالمسیح الثانی حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ اپنے خطاب فرمودہ ٢٣؍جون ١٩٥٢ء میں رمضان المبارک میں کی گئی عبادات اور قرآن کریم کی تلاوت کی کوششوں میں استقلال اختیار کرنے کے متعلق تنبیہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ جو لوگ رمضان المبارک میں محض آخری ایام میں عبادت کی طرف توجہ کرتے ہیں ان کی دعائیں وہ اثر نہیں رکھتیں جو باقاعدگی سے دروس میں شامل ہونے والوں اور تلاوتِ قرآن کریم کرنے والوں کی دعاؤں میں ہے۔ آپ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:’’جنہوں نے قرآن کریم سنا ہے وہ اگر کہیں کہ اے خدا! ہم نے تیرے نشانات دیکھے ، تیری آیات پڑھیں، تیرا کلام سنا۔ اب ہم قرآن کریم ختم کرنے لگے ہیں، اے خدا! تو ایک اور نشان ہمارے لئے دکھا جس سے ہمارے ایمان تازہ ہوں تو یہ معقول بات ہو گی۔ جس شخص نے قرآن سنایا ہے وہ اگر کہے کہ اے اللہ ! میں سُنی سنائی باتیں سناتا رہا ہوں تو اب ایک زندہ نشان میرے لئے بھی ظاہر فرما تو یہ معقول بات ہوگی لیکن جو درس میں آتا ہی نہیں رہا وہ کیا کہے گا؟ کیا وہ یہ کہے گا کہ اے خدا! سارا مہینہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نشانات سنائے جاتے رہے ، موسیٰ علیہ السلام اور عیسیٰ علیہ السلام کے نشانات سُنائے جاتے رہے لیکن میں نے اس کی پرواہ نہیں کی۔ آج اور لوگ آئے ہیں تو میں بھی آگیا ہوں تو میری دُعا بھی سُن لے۔کیا تم سمجھ سکتے ہو کہ ایسے شخص کی دُعا قبول ہوسکتی ہے؟ یہ تو ویسا ہی لطیفہ ہے جیسے کہتے ہیں کہ ایک زمیندار تھا جس نے ابھی شہر نہیں دیکھا تھا۔ اس کی بیوی اسے روز کہتی کہ مجھے بڑی شرمندگی محسوس ہوتی ہے جب لوگ مجھے طعنے دیتے ہیں کہ تیرے خاوند نے ابھی شہر بھی نہیں دیکھا۔ پانچ میل پر تو شہر ہے کسی دن جا اور جا کر شہر دیکھ آ۔ ایک دن اس نے اپنی بیوی سے کہا کہ تُو ہر روز مجھے طعنے دیتی رہتی ہے کہ تو نے ابھی تک شہر نہیں دیکھا تو مجھے آٹا گوندھ دے میں شہر دیکھ آتا ہوں۔ بیوی نے آٹا گوندھ کر دے دیا اور وہ شہر کو چل پڑا۔ چادر اس نے کندھے پر ڈال لی اور بازار میں پھرتا رہا۔ دیہات میں اگر کوئی آئے تو وہ کسی گھر میں چلا جاتا ہے اور گھر والوں سے کہتا ہے میری روٹی بھی پکا دو اور وہ اسے روٹی پکا دیتے ہیں بلکہ بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ وہ کہہ دیتے ہیں آٹے کی کیا ضرورت ہے روٹی ہم نے پکائی ہی ہے تم یہاں آکر روٹی کھالینا لیکن شہروں میں یہ رواج نہیں ہو تا وہاں تو نفسا نفسی ہوتی ہے۔ وہ زمیندار کسی گھر میں گھسا اور کہا آٹا لے لو اور میری روٹی پکا دو۔ گھر والوں نے کہا نکلو باہر تم ہمارے مکان میں کیوں گھسےہو۔ وہ دوسرے گھر گیا تو وہاں سے بھی یہی جواب ملا، تیسرے گھر گیا تو وہاں بھی یہی سلوک ہوا، یہاں تک کہ وہ تھک گیا اور عصر کا وقت آگیا کسی نے اسے روٹی پکا کر نہ دی۔ وہ اب ایک جگہ حیران ہو کر کھڑا ہو گیا۔ پاس ہی ایک حلوائی پوریاں تل رہا تھا۔ اس نے حلوائی سے دریافت کیا کہ یہ تم کیا کر رہے ہو؟ اس نے کہا میں لُچیاں تل رہا ہوں۔ زمیندار نے دیکھا کہ وہ نہایت چھوٹے چھوٹے پیڑوں کی ٹکیاں بنا کر تل رہا ہے اور انہیں لُچیاں کہتا ہے۔اس نے آٹا کی گرہ کھولی جو چادر کے ایک طرف باندھا ہوا تھا اور آٹے کا ایک بڑا سا پیڑا بنا کر زور سے کڑاہی میں دے مارا اور کہا میرا بھی لسچ تل دے۔ حلوائی کا گھی کڑاہی سے باہر جاپڑا اور وہ شور مچانے لگ گیا۔

تمہاری دُعا بھی ایسی ہی ہے۔ کچھ تو سارا ماہ لچیاں تلتے رہے یعنی درس دیتے رہے۔ کچھ لچیاں خریدتے رہے یعنی درس سنتے رہے لیکن جب آخری دن آیا تو تم نے بھی اپنا آٹا کڑاہی میں دے مارا کہ میرا بھی لچ تل دو۔ تم سمجھ سکتے ہو کہ ایسی حالت میں تمہارے ساتھ کیا سلوک ہو گا۔یہی ہو گا کہ تمہیں جیل خانہ بھیج دیا جائے۔ غرض رسموں کا طریق مُردہ قوموں کا طریق ہوتا ہےہمارا طریق نہیں اگر تمہارے اندر جرأت ہوتی۔ تو جیسے تم پہلے نہیں آئے آج بھی نہ آتے۔ اگر تیس دن گناہ میں تم نے اپنے آپ کو منافق نہیں بنایا ۔ تو آج تم اپنے آپ کو کیوں منافق بناتے ہو آج بھی تم میں جرأت ہونی چاہیے تھی۔ کہ اگر سارا ماہ تم نہیں آئے۔ تو آج بھی تم یہاں نہ آتے۔ اگر تم ایسا کرتے۔ تو یہ بات تمہارے لیے زیادہ نیکی کا موجب ہوتی۔ اگر تم ایسا کرتے۔ تو اگلے سال تمہیں خیال آتا کہ میں بھی درس میں جاؤں تا دعا میں شریک ہو سکوں۔ اگر تم چھ دن مسجد میں نہیں آتے ۔ لیکن جمعہ کے دن آجاتے ہو۔ تو ہم کہیں گے تم نے ایک دن تو نیکی کرلی ہے کیونکہ اس کا حکم قرآن کریم میں ہے لیکن اس دعا کا حکم قرآن کریم میں نہیں، اس دعا کا حکم حدیث میں نہیں۔یہ دعا تبھی دعا کہلا سکتی ہےجب تم ۳۰ دن قرآن کریم سنتے، پڑھتے اور پھر خدا تعالیٰ سے اپنے لیے رحم طلب کرتے۔ اگر تم ایسا کرتے تو تمہاری یہ بات طبعی ہوتی۔ اگر تم روٹی پکاتے ہو تو تمہاراحق ہے کہ تم روٹی کھاؤ۔ لیکن یہ نہیں کہ تم روٹی تو نہ پکاؤ لیکن اپنے ہمساۓ کی روٹی لے کر کھا لو۔ اگر تم روٹی پکاتے تو تمہارا حق تھا کہ آج آتے اور روٹی کھاتے لیکن یہ نہیں کہ آٹا کسی نے گوندھا روٹی توکسی نے پکائی اور روٹی کھانے کے لئے تم آجاؤ یعنی درس کسی نے دیا گلا کسی نے بٹھایا، سنا کسی نے لیکن آج جب قرآن کریم ختم کرنے کا وقت آیا تو تم بھی آگئے کہ ہماری دعا قبول ہوجائے۔ آج ہر دس آدمیوں میں سے نو آدمی ایسے ہیں جو دوسرے کا مال کھانے کے لئے آگے ہیں انہوں نے سارا ماہ دعا نہیں کی لیکن آج یہاں آگئے ہیں تا دعا میں شریک ہوجائیں۔ لیکن ہمارا خدا دھوکا میں نہیں آتا ممکن ہے کوئی دل آج اپنے فعل پر افسرده ہو، شرمندہ ہو۔ اور پھر یہاں آگیا ہوں ۔ تو خدا تعالیٰ اس کی دعا سن لے ۔ کیونکہ ہماارا خدا رحیم و کریم ہے لیکن جو لوگ آج رسماً یہاں آگئے ہیں خدا تعالیٰ ان کی دعا نہیں سنے گا کیونکہ یہ دعا نہیں ہے۔ بلکہ محض ایک تمسخر ہے۔ باقی وہ جن کے دلوں میں خدا تعالیٰ کا خوف تھا اور انہوں نے سارا ماہ قرآن کریم سنا، قرآن پڑھا اور روزے رکھے ان کے لیے بے شک یہ دعا کا موقعہ ہے۔ وہ کہہ سکتے ہیں کہ اے خدا! رمضان جارہا ہے۔ برکت کی گھڑیاں جو تو نے ہمیں دی تھیںوہ اب جا رہی ہیں۔ لگتے ہاتھوں اب میری دعا بھی سن لے۔

صرف ایسے ہی لوگوں کو میں کہتا ہوں کہ ہمارا خدانہ تو ہمارے آنسوؤں کا محتاج ہے نہ وہ ہمارے گڑ گڑانے کا محتاج ہے اور نہ وہ ہماری کسی اور حرکت کا محتاج ہے۔ وہ صرف ایک گداز دل کی آہ سننے کے لئے تیار ہوتا ہے۔ وہ مومن کا دل دیکھتا ہے اور اس کے دل کے درد کے مطابق اس سے سلوک کرتا ہے۔ بچہ جب سوتے سوتے رات کو درد کے ساتھ کراہتا ہے تو ماں اس کی طرف دوڑ پڑتی ہے۔ وہ یہ نہیں دیکھتی کہ بچہ چلاتا ہے یا نہیں وہ اس کے رونے کا انتظار نہیں کرتی۔ سو دُکھ کی نکلی ہوئی آواز خدا تعالیٰ سُنتا ہے۔ اگر ہمیں دُکھ ہے تو تمہاری دُعائیں اسی طرح سُنی جائیں گی جس طرح تم سے پہلی جماعتوں کی دُعائیں سنی گئیں اور خدا تعالیٰ تمہاری طرف اسی طرح دوڑے گا جس طرح وہ پہلے انبیاء کی جماعتوں کی طرف دوڑا۔ پس میں ایسے دلوں سے کہتا ہوں کہ تم دُعائیں کرو۔ کسی لمبی دُعا کی ضرورت نہیں۔ درد سے نکلا ہوا ایک فقرہ بھی خدا تعالیٰ کے عرش کو ہلا دیتا ہے۔‘‘ (انوارالعلوم جلد۲۳ صفحہ ۱۵۔۱۸۔ (الفضل ربوہ ۲۳؍مارچ ۱۹۶۰ء)

اللہ تعالیٰ کرے کہ ہم بھی اس رمضان المبارک میں انفرادی اور اجتماعی عبادات اور قرآن کریم کی تلاوت کا حق ادا کرتے ہوئے ایسی ہی دعائیں کرنے والے ہوں جو دل سے نکل کے خدا تعالیٰ تک پہنچتی ہیں۔ آمین

(مصباح احمد۔ گلڈباخ، جرمنی)

مزید پڑھیں: ’’بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے‘‘

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button