حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

چند مسنون دعائیں

(انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۵؍ اپریل ۲۰۲۴ء)

[حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے احباب جماعت کو بعض دعاؤں کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا:]

ایک مرتبہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا کہ مجھے ایسی دعا سکھائیں جس کے ذریعے میں اپنی نماز میں دعا مانگوں۔ آپؐ نے فرمایا تم کہو:اَللّٰهُمَّ إِنِّي ظَلَمْتُ نَفْسِي ظُلْمًا كَثِيْرًا، وَلَا يَغْفِرُ الذُّنُوْبَ إِلَّا أَنْتَ، فَاغْفِرْ لِيْ مَغْفِرَةً مِنْ عِنْدِكَ، وَارْحَمْنِي، إِنَّكَ أَنْتَ الْغَفُوْرُ الرَّحِيْمُ۔(صحیح البخاری کتاب الدعوات باب الدعاء فی الصلوٰۃ حدیث6326)اے اللہ! مَیں نے اپنی جان پر بہت زیادہ ظلم کیا اور کوئی گناہ نہیں بخش سکتا سوائے تیرے۔پس تُو اپنی جناب سے میری مغفرت فرما اور مجھ پر رحم فرما۔ یقیناً تُو ہی بہت بخشنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے۔ آپؐ نے حضرت ابو بکر ؓکو اس کی تاکید فرمائی۔

پھر مصعب بن سعدؓ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ ایک بدوی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ مجھے کوئی ایسی بات سکھائیے جو مَیں کہا کروں آپؐ نے فرمایا یہ کہا کرو کہ لَا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيْكَ لَهُ، اَللّٰهُ أَكْبَرُ كَبِيْرًا، وَالْحَمْدُ لِلّٰهِ كَثِيْرًا، سُبْحَانَ اللّٰهِ رَبِّ الْعَالَمِيْنَ، لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللّٰهِ الْعَزِيْزِ الْحَكِيْمِ۔اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔ وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں۔ اللہ سب سے بڑا ہے اور اللہ کے لیے بہت حمد ہے۔ پاک ہے اللہ جو تمام جہانوں کا ربّ ہے نہ کوئی طاقت ہے نہ کوئی قوت ہے مگر اللہ کو جو غالب بزرگی والا اور خوب حکمت والا ہے۔

اس بدوی نے عرض کیا کہ یا رسول اللہؐ! یہ تو میرے ربّ کے لیے ہیں۔ اس کی تعریف مَیں کر رہا ہوں۔ میرے لیے کیا ہے؟ آپؐ نے فرمایا کہ یہ کہا کرو کہ اَللّٰهُمَّ اغْفِرْ لِيْ وَارْحَمْنِيْ وَاهْدِنِيْ وَارْزُقْنِيْ۔کہ اے اللہ! مجھے بخش دے۔ مجھ پر رحم فرما۔ مجھے ہدایت دے اور مجھے رزق عطا فرما۔(صحیح مسلم کتاب الذکر والدعاء… باب فضل التھلیل والتسبیح والدعاء حدیث 6848)

ایک دوسری روایت میں بیان ہے کہ جب کوئی شخص اسلام قبول کرتا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسے یہ دعا سکھایا کرتے تھے۔ ابو مالک اشجعیؓ اپنے والد سے اس کی روایت کرتے ہیں کہ جب کوئی شخص اسلام لاتا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اسے نماز سکھاتے۔ پھر آپؐ اسے ارشاد فرماتے کہ ان کلمات کے ذریعے دعا کرے۔اَللّٰهُمَّ اغْفِرْ لِيْ، وَارْحَمْنِيْ، وَاهْدِنِيْ، وَعَافِنِيْ وَارْزُقْنِيْ۔(صحیح مسلم کتاب الذکر والدعاء… باب فضل التھلیل والتسبیح والدعاء حدیث 6850)اے اللہ! مجھے بخش دے اور مجھ پر رحم فرما اور مجھے ہدایت دے اور مجھے عافیت سے رکھ اور مجھے رزق عطا کر۔اب دو سجدوں کے درمیان جو دعا ہے اس میں بھی ہم یہ دعا پڑھتے ہیں لیکن لوگ تو صرف سجدے سے اٹھتے ہیں اور پھر بیٹھ جاتے ہیں۔ لگتا ہے کہ دعا کرتے ہی نہیں۔ ان کے نزدیک تو اس کی اہمیت ہی کوئی نہیں لگتی حالانکہ اس پر بڑا غور کر کے سمجھ کے پڑھنی چاہیے۔ جہاں رزق سے مراد مادی رزق ہے وہاں روحانیت سے بھی اس کی مراد ہے۔ اس میں بھی بڑھنے سے اس کی مراد ہے۔

پس ہمیں چاہیے کہ ہم اس سوچ کے ساتھ دعا کیا کریں کہ جہاں ہم اللہ تعالیٰ کی تسبیح و تحمید کریں وہاں اپنی اصلاح اور ہدایت اور روحانیت میں بڑھنے کے لیے بھی دعا کریں۔ صرف دنیا کے حصول کے لیے ہماری دعائیں نہ ہوں بلکہ اپنی ظاہری اور باطنی حالتوں کی بہتری کے لیے جب ہم دعا کریں گے اور خاص توجہ سے کریں گے تو پھر ہر قسم کے فضلوں کی بارش ہم ہوتی دیکھیں گے۔

پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سکھائی ہوئی ایک دعا کا یوں ذکر ملتا ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاسے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب رات کو جاگتے تو فرماتے:لَا إِلٰهَ إِلَّا أَنْتَ، سُبْحَانَكَ، اللّٰهُمَّ أَسْتَغْفِرُكَ لِذَنْبِيْ، وَأَسْأَلُكَ رَحْمَتَكَ، اللّٰهُمَّ زِدْنِيْ عِلْمًا، وَلَا تُزِغْ قَلْبِيْ بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنِيْ، وَهَبْ لِيْ مِنْ لَّدُنْكَ رَحْمَةً، إِنَّكَ أَنْتَ الْوَهَّابُ۔(سنن ابی داؤد ابواب النوم باب ما یقول الرجل اذا تعار من اللیل حدیث5061)اے اللہ! تیرے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔ اے اللہ! مَیں تجھ سے اپنے گناہ کی مغفرت طلب کرتا ہوں اور تجھ سے تیری رحمت کا طلبگار ہوں۔ اے اللہ! مجھے علم میں بڑھا دے اور میرے دل کو ٹیڑھا نہ کرنا بعد اس کے جب تُو نے مجھے ہدایت دے دی اور اپنی جناب سے مجھے رحمت عطا فرما یقیناً تُو ہی بہت زیادہ عطا کرنے والا ہے۔

پھر ایک روایت میں آتا ہے حضرت انس بن مالکؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب کسی معاملے میں پریشانی ہوتی تو آپؐ فرماتے۔

يَا حَيُّ يَا قَيُّوْمُ بِرَحْمَتِكَ أَسْتَغِيْثُ۔ (سنن الترمذی ابواب الدعوات حدیث 3524)اے زندہ اور دوسروں کو زندہ رکھنے والے! اے قائم اور دوسروں کو قائم رکھنے والے! اپنی رحمت کے ساتھ میری مدد فرما۔

حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاصؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یقیناً روزہ دار کی اس کے افطار کے وقت کی دعا ایسی ہے جو ردّ نہیں کی جاتی۔ ابن ابی ملیکہ نے کہا کہ حضرت عبداللہ بن عمروؓ جب افطار کرتے تو کہتے۔اَللّٰهُمَّ إِنِّيْ أَسْأَلُكَ بِرَحْمَتِكَ الَّتِيْ وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ أَنْ تَغْفِرَ لِيْ۔(سنن ابن ماجہ کتاب الصیام باب فی الصائم لا ترد دعوتہ حدیث1753)اے اللہ! مَیں تجھ سے سوال کرتا ہوں تیری رحمت کے واسطے سے جو ہر چیز پر وسیع ہے کہ تُو مجھے بخش دے۔

پھر حضرت ام سلمہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہرَبِّ اغْفِرْ وَارْحَمْ وَاھْدِنِیْ لِلطَّرِیْقِ الْاَقْوَمِ۔(مسند احمد بن حنبل جلد8 صفحہ610 ام سلمۃ زوج النبیﷺ حدیث 27126۔ عالم الکتب بیروت 1998ء)اے میرے رب !بخش دے اور رحم فرما اور مجھے اس طریق کی ہدایت دے جو سب سے سیدھا اور درست اور مضبوط ہے۔

اب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا کر رہے ہیں تو ہمیں کس شدّت سے کرنی چاہیے۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی ایک دعا کا ذکر بھی یوں ملتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے بیان فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں دعا کیا کرتے تھے:اَللّٰهُمَّ إِنِّيْ أَعُوْذُ بِكَ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ، وَأَعُوْذُ بِكَ مِنْ فِتْنَةِ الْمَسِيْحِ الدَّجَّالِ، وَأَعُوْذُ بِكَ مِنْ فِتْنَةِ الْمَحْيَا، وَفِتْنَةِ الْمَمَاتِ، اَللّٰهُمَّ إِنِّيْ أَعُوْذُ بِكَ مِنَ الْمَأْثَمِ وَالْمَغْرَمِ۔(صحیح البخاری کتاب الاذان باب الدعاء قبل السلام حدیث 832)اے اللہ! مَیں تیری پناہ میں آتا ہوں قبر کے عذاب سے اور تیری پناہ میں آتا ہوں مسیح دجال کے فتنے سے اور تیری پناہ میں آتا ہوں زندگی کے فتنے سے اور موت کے فتنے سے۔ اے اللہ! مَیں تیری پناہ میں آتا ہوں گناہ سے اور مالی بوجھ سے۔ کسی کہنے والے نے آپؐ کی خدمت میں عرض کیا کہ آپؐ اس قدر کثرت سے کیوں مالی بوجھ سے پناہ طلب کرتے ہیں تو آپؐ نے فرمایا: جب آدمی پر مالی بوجھ پڑتا ہے تو جب وہ بات کرتا ہے تو جھوٹ بولتا ہے اور جب وعدہ کرتا ہے تو وعدہ خلافی کرتا ہے۔

اب یہ دعا جو کر رہے ہیں۔ آپؐ تو بہرحال ان چیزوں سے پاک تھے۔ یقیناً اپنی امّت کے لیے کر رہے تھے کہ وہ ان چیزوں سے بچیں۔ وہ جھوٹ سے بچیں۔ وعدہ خلافی سے بچیں۔ اب اپنے جائزےلینے کی ضرورت ہے۔ ہم یہ دعائیں کرتے ہیں تو کیا ہم ان چیزوں کی پابندی بھی کر رہے ہوتے ہیں۔ پس یہ دعا بھی کریں تاکہ اللہ تعالیٰ ان چیزوں سے بچائے اور دنیا کے حسنات سے ہمیں نوازتا رہے۔

٭…٭…٭

مزید پڑھیں: پاکستان کے احمدیوں، مسلمان امت اور فلسطینی مسلمانوں کے لیے دعا کی تازہ تحریک

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button