مکتوب

مکتوب جنوبی امریکہ (فروری۲۰۲۵ء)

(لئیق احمد مشتاق ۔ مبلغ سلسلہ سرینام، جنوبی امریکہ)

بر اعظم جنوبی امریکہ کےتازہ حالات و واقعات کا خلاصہ

وہیل کے منہ سے زندہ بچ نکلنے والا نوجوان

جب سمندر کے اندر ایک دیو ہیکل وہیل نے ادریان سیمانکاس کو نگلا تو جو پہلی چیز انہوں نے محسوس کی وہ تھوک (لعاب) کا ملغوبہ تھا۔۲۳؍سالہ ادریان سیمانکاس نے اپنی زندگی کے ناقابل فراموش لمحات سے متعلق بی بی سی کو تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ مجھے یہ سمجھنے میں ایک سیکنڈ لگا کہ میں کسی ایسی چیز کے منہ میں ہوں جو کوئی قاتل وہیل یا اسی سے ملتا جلتا سمندری عفریت ہو سکتا ہےاور شاید اسی نے مجھے نگل لیا ہے۔ادریان نے سوچنا شروع کر دیا تھا کہ وہ کس طرح وہیل کے اندر زندہ رہ سکتے ہیں لیکن پھر اسی وقت وہیل نے انہیں باہر تھوک دیا۔

وینزویلا سے تعلق رکھنے والے ادریان اپنے والد کے ساتھ چلی کے پیٹاگونین ساحل کے قریب آبنائے میجیلن میں چپو والی کشتی چلا رہے تھے کہ اچانک انہیں محسوس ہوا کہ انہیں زوردار دھکا لگا ہے۔کسی چیز نے مجھے پیچھے سے مارا اور سمیٹ کر اپنے اندر کھینچ لیا۔ میں نے اپنی آنکھیں بند کر لیں اور جب دوبارہ کھولیں تو مجھے اندازہ ہو گیا کہ میں وہیل کے منہ کے اندر ہوں۔انہوں نے بتایا کہ وہ صرف گہری نیلی اور سفید سی جھلملاہٹ دیکھ رہے تھے ۔ مجھے اپنے چہرے پر بے تحاشا تھوک کی چپچپاہٹ محسوس ہوئی۔مجھے سوچنا پڑا کہ اگر اس نے مجھے مکمل طور پر نگل لیا تو میں کیا کر سکتا ہوں کیونکہ اب میں اس کے خلاف لڑ نہیں سکتا تھا۔ اب مجھے اگلے قدم کے بارے میں سوچنا تھا۔تاہم چند ہی لمحوں میں ادریان نے محسوس کیا کہ وہ اوپری سطح کی طرف جا رہے ہیں۔میں دو سیکنڈ کے لیے اوپر گیا اور آخرکار جب میں سطح پر پہنچا تو مجھے احساس ہوا کہ اس نے مجھے نگلا نہیں تھا۔

ادریان کے والد ڈل اپنے بیٹے سے محض چند میٹر کے فاصلے پر ایک اور کشتی میں تھے۔جنہوں نے اس مختصر مگر خوفناک لمحہ کو کیمرے کی آنکھ میں محفوظ کر لیا۔ڈل بتاتے ہیں کہ میں نے اپنے پیچھے ایک زوردار آواز سنی۔جب میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو ادریان نظر نہیں آیا۔۴۹؍سالہ ڈل نے اپنے تاثرات بتاتے ہوئے کہا کہ میں ایک لمحے کے لیے پریشان ہوگیا پھرمیں نے اسے سمندر سے باہر آتے دیکھ لیا۔پھر میں نے ایک چیز دیکھی اور بہت بڑا جسم جسے دیکھتے ہی میں فوراً سمجھ گیا کہ وہ وہیل ہے کیونکہ وہ بہت بڑا تھا۔ڈل نے اپنی کشتی کے پچھلے حصے پر ابھرتی ہوئی لہروں کو ریکارڈ کرنے کے لیے ایک کیمرہ نصب کر رکھا تھا اور اسی کیمرے نے اس کے بیٹے کے ان ناقابل فراموش لمحات کو محفوظ کر لیا۔

پاناما اور کوسٹا ریکا تارکین وطن اور امریکہ سے ڈی پورٹ ہونے والوں کے لیے ’’بلیک ہول‘‘ میں تبدیل ہو رہے ہیں۔

امریکی صدر کی طرف سے تارکین وطن کی ملک بدری کا عمل جاری ہے، جس کے تحت ڈی پورٹ ہونے والے افراد کو کوسٹا ریکا اور پاناما میں حکام کے ہاتھوں شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ ان ممالک میں تارکین وطن کے پاسپورٹ اور موبائل فونز ضبط کیے جا رہے ہیں، انہیں قانونی خدمات تک رسائی سے محروم رکھا جا رہا ہے، اور کئی کو دُور دراز فوجی چوکیوں پر منتقل کیا جا رہا ہے۔ دونوں ممالک انسانی ہجرت کے بڑے بہاؤ سے نبرد آزما ہیں اور امریکہ سے بھیجے گئے سینکڑوں ڈی پورٹیز کی میزبانی کر رہے ہیں۔ کوسٹا ریکا یونیورسٹی میں سیاسیات کے پروفیسر اور پناہ گزینوں کے حقوق کے ماہر ہیرالڈ ولیگاس رومن(Harold Villegas-Román) نے کہا کہ ریاستہائے متحدہ امریکا کی موجودہ امیگریشن پالیسی میں انسانی حقوق پر کوئی توجہ نہیں ہے، صرف سیکیورٹی پر توجہ مرکوز ہے، یہ سب بہت تکلیف دہ ہے۔

مسلح افراد سے جھڑپ کے دوران کینیا کے پولیس کانسٹیبل کی ہلاکت

کینیا کا ایک پولیس افسر جو ہیٹی میں بین الاقوامی سیکیورٹی فورس کے ساتھ گشت پر تھا مقامی مسلح افراد کے ساتھ ایک جھڑپ کے دوران جان سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ ۲۶؍سالہ پولیس کانسٹیبل سیموئیل کٹوائی (Samuel Kitwai)کینیا کی قیادت میں ملٹی نیشنل سیکیورٹی سپورٹ مشن (MMS) کا پہلاسپاہی ہے جو ملک میں قیام امن کی کوششوں کے دوران ہلاک ہوا ہے ۔ اس فورس کو ملک میں امن بحال کرنے میں مدد کے لیے گذشتہ سال جون میں ہیٹی بھیجا گیا تھا، جہاں مسلح گروہوں نے تقریباً پورے دارالحکومت پورٹ اوپرنس کے ساتھ ساتھ دیہی علاقوں کے بڑے حصے پر بھی قبضہ کر لیا ہے۔۲۰۲۴ء میں ہیٹی میں جاری خانہ جنگی کے نتیجے میں ۵۵۰۰؍سے زیادہ لوگ مارے گئے اور دس لاکھ سے زیادہ لوگ اپنے گھر بار چھوڑ نے پر مجبور ہوئے۔ ملٹی نیشنل فورس کے کمانڈر جنرل گوڈفری اوٹونگ(Gen. Godfrey Otunge) نے کہا کہ کانسٹیبل کٹوائی دارالحکومت کے شمال میں واقع علاقے Artibonite میں زخمی ہوا جسے فوری طبی امداد کے لیے ہوائی جہاز میں ہسپتال لے جایا گیا، جہاں تھوڑی دیر بعد اس کی موت ہو گئی۔ بین الاقوامی امن فوج کے ترجمان جیک اومباکا نے کانسٹیبل کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ کانسٹیبل کٹوائی ایک ہیرو تھا جو ہیٹی کے لوگوں کے لیے لڑتے ہوئے مارا گیا۔ کینیا کی وزارت خارجہ اور کینیا کی نیشنل پولیس سروس نے بھی نوجوان کو خراج تحسین پیش کیا اور کہا کہ ہمارے جوان اپنی جانیں ہتھیلی پر رکھ کر ہیٹی کی پولیس فورس کے ساتھ مل کر ملک میں امن اور استحکام کی بحالی کے لیےانتھک محنت کر رہے ہیں ۔

وینزویلا کو بڑا دھچکا، ٹرمپ نے تیل کا معاہدہ منسوخ کر دیا

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ وہ اس لائسنس کو منسوخ کر دیں گے جس نے وینزویلا کو پابندیوں کے باوجود اپنا کچھ تیل امریکا کو برآمد کرنے کی اجازت دی تھی۔ یہ اقدام وینزویلا کی حکومت کے لیے ایک بڑا دھچکا ہے کیونکہ اس لائسنس کی بدولت ملک کی سرکاری تیل کمپنی امریکی تیل کمپنیChevron کے ساتھ مشترکہ منصوبوں پر کام کر رہی تھی ۔ جس کے ذریعہ اسے امریکی ڈالر میں آمد ہو رہی تھی۔ ٹرمپ نے کہا کہ نکولس مادورو کی حکومت عام انتخابات کے مکمل نتائج شائع کرنے اور پُرتشدد کارروائیوں میں ملوث مجرموں کے خلاف کارروائی کرنے میں ناکام رہی ہے۔ صدرٹرمپ نے ٹروتھ سوشل پر یہ اعلان کرتے ہوئے لکھا کہ وہ ان مراعات کو واپس لے رہے ہیں جو سابق صدرجوبائیڈن نے وینزویلا کے صدر نکولس مادورو کو تیل کے لین دین کے معاہدے پر مورخہ ۲۶؍نومبر ۲۰۲۲ء کو دی تھیں۔انہوں نے یہ واضح نہیں کیا کہ وہ کن رعایتوں کا حوالہ دے رہے ہیں لیکن وینزویلا سے متعلق واحد لائسنس اسی دن دیا گیا تھا جو امریکی ٹریژری کی طرف سے جاری کیا گیا تھا۔ جس نے شیورون کو وینزویلا میں قدرتی وسائل نکالنے کے محدود آپریشنز کو دوبارہ شروع کرنےکی اجازت دی تھی۔ وینزویلا نے اس فیصلے کو نقصان دہ قرار دیا اور کہا کہ اس سے امریکہ کی طرف ہجرت میں اضافہ ہو سکتا ہے۔

ڈومینیکا: وہ ملک جس کی آمدن کا بڑا ذریعہ اپنی شہریت کی فروخت ہے۔

سات سال قبل ایک سمندری طوفان ’’ڈومینیکا‘‘ (Dominica) نامی چھوٹے سے ملک کے ساحل سے ٹکرایا تھا جس کے نتیجے میں یہاں موسلا دھار بارشیں ہوئیں اور صرف چند گھنٹوں میں جزائر غرب الہند کے اس چھوٹے سے جزیرے پر تقریباً تمام گھر تباہ ہو گئےتھے۔سمندری طوفان کے بعد ملک عملی طور پر بجلی سے محروم ہو گیا، پینے کے پانی کی فراہمی مہینوں تک متاثر رہی اور مواصلات کا نظام مکمل طور پر بحال ہونے میں ایک سال سے زیادہ کا عرصہ لگا۔یہ ایک ایسی ایمرجنسی صورتحال تھی جس کے بعد اس ملک کی حکومت کو فوری طور پر آمدنی کے ایک ذریعے کی تلاش تھی جو اسے کم وقت میں اس ملک کی تعمیرِ نو کے قابلِ بناتی۔ اور آمدن کا یہی ذریعہ حاصل کرنے کے لیے اس ملک کی حکومت نے شہریت کی فروخت کا سہارا لیا۔یہ فیصلہ ہو جانے کے بعد ڈومینیکا کے وزیر اعظم روز ویلٹ سکیریٹ نے سرکاری ویب سائٹ پر پیغام جاری کیا کہ ’’ہم دنیا بھر سے افراد اور اُن کے خاندانوں کو اپنے ملک میں سرمایہ کاری کرنے کی دعوت دیتے ہیں اور بدلے میں ہم انہیں ڈومینیکا کی شہریت فراہم کرنے کا وعدہ کرتے ہیں۔‘‘

’’سٹیزن شپ بائی انویسٹمنٹ‘‘ پروگرام غیر ملکیوں کو ایک خاص رقم کی سرمایہ کاری کے بدلے اس ملک کی شہریت کے حصول کے قابل بناتا ہے۔ ’’دی گولڈن پاسپورٹ: گلوبل موبلٹی فار ملینیئرز‘‘ نامی کتاب کی مصنف کرسٹین سوراک کے بقول دولت کمانے کا یہ طریقہ کار چھوٹی جزیرہ نما ریاستوں کے لیے پُرکشش ہے۔ یہ ان ممالک کے غیر ملکی کرنسی کمانے کا ایک ذریعہ ہے جو عام طور پر اپنے ملک میں استعمال ہونے والی ہر چیز دیگر ممالک سے درآمد کرتے ہیں۔

ایک بین الاقوامی غیرمنافع بخش تحقیقاتی صحافتی تنظیم ’’آرگنائزڈ کرائم اینڈ کرپشن رپورٹنگ پراجیکٹ‘‘ کی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ڈومینیکا سے حاصل ہونے والی معلومات کے مطابق شہریت کی فروخت کے پروگرام کے ذریعے اس ملک نے ۲۰۱۷ءسے ۲۰۲۰ء کےدرمیان ۱.۲؍ارب امریکی ڈالر سے زیادہ کی آمدنی حاصل کی۔ تاہم ڈومینیکا کے سرکاری اعداد و شمار اس مد میں حاصل ہونے والی آمدن کو کم ظاہر کرتے ہیں۔اگرچہ شہریت کی فروخت سے حاصل ہونے والی آمدن قانونی ہے تاہم اس کو لے کر بین الاقوامی سلامتی کے حوالے سے دیگر ریاستوں کے حکام کی جانب سے سخت تنقید بھی کی جاتی ہے۔ دوسری جانب ڈومینیکا کے حکام کی دلیل ہے کہ شہریت دینے کا ان کا سرکاری پروگرام محفوظ ہے اور اُن کی جانب سے درخواست گزاروں کی سکریننگ اور اہلیت کے معیار میں بتدریج اضافہ کیا گیا ہے۔شہریت کی فروخت کوئی نئی بات نہیں ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ دنیا میں کم از کم ۲۰؍ممالک ایسے ہیں جہاں قانون کے تحت شہریت کی فروخت کی اجازت ہے لیکن اُن میں سے صرف نصف ممالک کے پاس اس ضمن میں فعال پروگرام ہیں۔ ان میں سے پانچ کیریبین ممالک ہیں اور ڈومینیکا ان میں سے ایک ہے۔یہاں سرمایہ کاری کے ذریعے شہریت کے حصول کا قانون ۱۹۹۳ء سےموجود ہے جو اسے دنیا کے پرانے ترین شہریت کے پروگراموں میں سے ایک بناتا ہے۔

سرکاری معلومات کے مطابق حالیہ برسوں میں اس پروگرام کو وسعت حاصل ہوئی ہے اور اس سے حاصل ہونے والی آمدن اس ملک کے کل جی ڈی پی کے ۳۰؍فیصد تک پہنچ گئی ہے۔تاہم اس حوالے سے ماہرین کا کہنا ہے کہ حالیہ برسوں میں اس ضمن میں ہونے والی آمدن میں اضافہ ہوا ہے اور یہ دگنی سے بھی زیادہ ہو گئی ہے۔ڈومینیکا کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق انہوں نے ۲۰۰۹ء سے اب تک سرمایہ کاری کے عوض اپنے ملک کی شہریت کی فروخت سے ایک ارب امریکی ڈالر سے زیادہ جمع کیے ہیں۔

سرمایہ کاروں کے لیے قانونی طور پر ڈومینیکا کی شہریت حاصل کرنے کے دو طریقے ہیں۔ ایک تو یہ کہ اقتصادی تنوع فنڈ کے ذریعے حکومت کے ساتھ ایک لاکھ امریکی ڈالر کی براہ راست شراکت کی جائے۔ دوسرا یہ کہ حکومت کی طرف سے منظور شدہ رئیل سٹیٹ منصوبوں میں کم از کم دو لاکھ امریکی ڈالر کی سرمایہ کاری کی جائے۔حکومت کے مطابق سرمایہ کار ڈومینیکن شہریت حاصل کرنے کے بعد یہاں کام کر سکتے ہیں اور کاروبار بھی کر سکتے ہیں۔بظاہر تو یہ اقدام اس چھوٹے سے ملک کو وسیع پیمانے پر فوائد پہنچا رہا ہے لیکن اتنی جلدی کسی ملک کی شہریت حاصل کرنے جیسے معاملے پر حال ہی میں تنقید ہونا بھی شروع ہوگئی ہے۔یورپی یونین کمیشن نے ۲۰۲۳ء کی ایک رپورٹ میں تجارت کے بارے میں سیکیورٹی خدشات کا اظہار کیا ہے اور شہریت فروخت کرنے والے ممالک کے لیے ویزا فری نظام کو معطل کرنے کی تجویز دی ہے۔

٭…٭…٭

مزید پڑھیں: مکتوب افریقہ(فروری۲۰۲۵ء)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button