متفرق مضامین

مکھی کا دماغ:نئے حیرت کدہ کی دریافت

(محمد سلطان ظفر۔ کینیڈا)

یہ تحقیق ہمیں مکھی جیسے چھوٹے جاندار کی ذہانت کی گہرائی کو سمجھنے اور قدرت کے شاہکاروں کی قدر کرنے کا ایک نیا زاویہ فراہم کرتی ہے

اللہ تعالیٰ قرآنِ کریم میں فرماتا ہے:یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ ضُرِبَ مَثَلٌ فَاسۡتَمِعُوۡا لَہٗ ؕ اِنَّ الَّذِیۡنَ تَدۡعُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ لَنۡ یَّخۡلُقُوۡا ذُبَابًا وَّلَوِ اجۡتَمَعُوۡا لَہٗ ؕ وَاِنۡ یَّسۡلُبۡہُمُ الذُّبَابُ شَیۡئًا لَّا یَسۡتَنۡقِذُوۡہُ مِنۡہُ ؕ ضَعُفَ الطَّالِبُ وَالۡمَطۡلُوۡبُ(الحج:۷۴) اے انسانو! ایک اہم مثال بیان کی جارہی ہے پس اسے غور سے سنو۔ یقیناً وہ لوگ جنہیں تم اللہ کے سوا پکارتے ہو ہرگز ایک مکھی بھی نہ بنا سکیں گے خواہ وہ اِس کے لیے اکٹھے ہوجائیں اور اگر مکھی ان سے کچھ چھین لے تو وہ اُس کو اس سے چھڑا نہیں سکتے۔ کیا ہی بے بس ہے (فیض کا) طالب اور وہ جس سے (فیض) طلب کیا جاتا ہے۔

معزز قارئین! آپ کے گھر میں کتنی تاریں ہوں گی؟ شاید بیس تیس پچاس یا چند سو تاریں؟ ان میں کتنے کنکشن ہوں گے؟ دس بیس یا چند سو کنکشنز؟

اور آپ کے گھر کا رقبہ کتنا ہے؟ پانچ مرلے؟ دس مرلے ؟ کنال؟ دو کنال؟ یا کئی ایکڑ؟

اب اگر آپ کو بتایا جائے کہ ایک سوئی کی نوک، جی ہاں وہی سوئی جو آپ گھر میں کپڑے سینے کے لیے استعمال کرتے ہیں، اس سوئی کی نوک جتنی جگہ پر ایک لاکھ تیس ہزار تاریں اور پانچ کروڑ سے زیادہ کنکشن ہوسکتے ہیں تو آپ کو یقین نہیں آئے گا۔ اور اکتوبر ۲۰۲۴ء سے پہلے دُنیا میں کسی کو بھی اس پر یقین نہیں آتا تھا۔ مگر اکتوبر۲۰۲۴ءمیں یہ ثابت ہوگیا ہے اور ابھی یہ ابتدائی تحقیق ہے۔

کیڑوں کے گروہ Diptera سے تعلق رکھنے والی مکھیوں کی ایک قسم فروٹ فلائی بھی ہے۔ اس کا سائنسی نام Drosophila melanogaster ہے اور یہ Drosophilidae خاندان سے تعلق رکھتی ہے۔ یہ مکھی عام طور پر ۲ سے ۴ ملی میٹر لمبی ہوتی ہے، یعنی بہت چھوٹی اور نازک ہوتی ہے۔ اس کی آنکھیں بڑی اور سرخی مائل ہوتی ہیں، اور جسم زردی مائل بھورا ہوتا ہے۔ فروٹ فلائی زیادہ تر پھلوں، سبزیوں، اور گلے سڑے نامیاتی مادوں پر انڈے دیتی ہے۔ یہ عام طور پر گھروں کے اندر پائی جاتی ہے، خاص طور پر کچن میں، جہاں کٹے ہوئے یا گلے سڑے پھل موجود ہوں۔یہ بہت تیزی سے افزائش کرتی ہے۔ ایک مادہ مکھی ۵۰۰تک انڈے دے سکتی ہے، اور ان کا لاروا چند دنوں میں بالغ مکھی میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ یہ عام طور پر بیماریوں کا سبب نہیں بنتی اور نہ ہی انسانی صحت کے لیے زیادہ نقصان  دہ سمجھی جاتی ہے۔

فروٹ فلائی حیاتیاتی اور جینیاتی تحقیق کے لیے ایک اہم ماڈل آرگنزم ہے۔ سائنس دان اس کا استعمال انسانی جینز، نیوروسائنس اور بیماریوں کے مطالعہ کے لیے کرتے ہیں کیونکہ اس کے جینز کی بڑی تعداد انسانوں سے ملتی جلتی ہے۔

اس مکھی کے دماغ میں ایک لاکھ تیس ہزار وائرز اور پانچ کروڑ سے زیادہ پیچیدہ کنکشنز ہیں۔یہ جتنا پیچیدہ ہے اتنا ہی خوبصورت دکھائی دیتا ہے۔

مکھی کے دماغ کے کنکشز کا ایک نقشہ

وہ پیروں کے بل چل سکتی ہیں، اُڑ سکتی ہیں، اور نر مکھی تو مادہ مکھی کا دل جیتنے کے لیے پیار بھرے گیت بھی گا سکتی ہے۔ اور یہ سب کچھ ایک ایسے دماغ کی مدد سے ممکن ہوتا ہے جو سوئی کی نوک سے بھی چھوٹا ہوتا ہے۔

پہلی بار سائنسدانوں نے تحقیق کے دوران مکھی کے سوئی کی نوک سے بھی چھوٹے دماغ میں موجود ایک لاکھ ۳۰ ہزار خلیوں کی شکل، مقام اور حتیٰ کہ مکھی کے دماغ میں موجود پانچ کروڑ سے زیادہ ’کنکشنز‘ یعنی رابطوں کی غیر معمولی نشان دہی کی ہے۔

یہ کسی بھی بالغ کیڑے (حشرات) کے دماغ کا کیا گیا اب تک کا سب سے تفصیلی سائنسی جائزہ ہے جسے ماہرین نے انسانی دماغ کو سمجھنے کے عمل میں ایک بڑی پیش رفت قرار دیا ہے۔

تحقیق کا پس منظر

مکھیوں کے دماغ کو چھوٹا اور نسبتاً سادہ سمجھا جاتا تھا، لیکن جدید تحقیق نے یہ ثابت کیا کہ یہ دماغ اپنے حجم کے لحاظ سے غیرمعمولی صلاحیتوں کا مالک ہے۔ تحقیق کا مقصد یہ سمجھنا تھا کہ اتنے چھوٹے دماغ کے اندر اتنی پیچیدہ اور مربوط سرگرمیاں کیسے ممکن ہیں، جیسے کہ سمت کا تعین، حرکت کی ہم آہنگی اور دیگر حسیاتی افعال۔

تحقیق کے نمایاں پہلو

۱۔دماغی نیٹ ورک کی ساخت: سائنس دانوں نے جدید اسکیننگ تکنیکوں اور مصنوعی ذہانت پر مبنی تجزیاتی آلات کا استعمال کرتے ہوئے مکھی کے دماغ کی ساخت کو تھری ڈی(۳D) ماڈل میں ڈھالا۔ اس ماڈل سے ظاہر ہوا کہ مکھی کا دماغ انتہائی پیچیدہ نیورل نیٹ ورکس پر مشتمل ہے، جن میں ۲۰۰۰۰۰ کے قریب نیورونز (Neurons)موجود ہیں۔

۲۔فیصلہ سازی کی صلاحیت: تحقیق کے دوران ایک حیران کن انکشاف یہ ہوا کہ مکھی کے دماغ میں فیصلہ سازی کی غیر معمولی صلاحیت موجود ہے۔ اگرچہ یہ دماغ بہت چھوٹا ہوتا ہے، لیکن یہ مختلف خارجی محرکات کو فوری طور پر پراسیس کرکے درست فیصلہ لینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ مثال کے طور پر، مکھی تیزی سے حرکت کرنے والے خطرات (جیسے کہ ہاتھ کی جھپٹ) کو محسوس کرکے فوراً فرار کی حکمت عملی اپناتی ہے۔

۳۔ یادداشت اور سیکھنے کی صلاحیت: تحقیق سے یہ بھی ثابت ہوا کہ مکھی نہ صرف سادہ یادداشت رکھتی ہے بلکہ مخصوص حالات میں سیکھنے کی صلاحیت بھی رکھتی ہے۔ تجربات میں یہ مشاہدہ کیا گیا کہ مکھی مختلف خوشبوؤں اور رنگوں کو پہچاننے کے بعد ان کے مطابق اپنا رویہ بدل سکتی ہے۔

۴۔ حسیاتی نظام کی پیچیدگی: مکھی کے دماغ کے حسیاتی نظام کی تفصیلات نے سائنس دانوں کو متاثر کیا۔ مکھی اپنی آنکھوں کے ذریعے ۳۶۰ ڈگری منظر دیکھ سکتی ہے، اور اس کا دماغ ان تمام مناظر کو فوری طور پر پراسیس کرکے مناسب ردعمل دیتا ہے۔ یہ نظام انتہائی پیچیدہ اور حیرت انگیز حد تک مؤثر ہے۔

۵۔ نیورل نیٹ ورک کا ہم آہنگی کا نظام:تحقیق میں یہ بھی معلوم ہوا کہ مکھی کا نیورل نیٹ ورک غیرمعمولی ہم آہنگی کے ساتھ کام کرتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ مکھی کا دماغ اپنے تمام نیورونز کو اس طرح مربوط رکھتا ہے کہ یہ بیک وقت کئی افعال انجام دے سکتا ہے، مثلاً پرواز، کھانے کی تلاش اور خطرات سے بچاؤ۔

مکھی کے دماغ میں موجود لاکھوں سرکٹس میں سے ایک سرکٹ کا خاکہ

تحقیق کی اہمیت

یہ تحقیق نہ صرف حیاتیاتی سائنس میں ایک اہم پیش رفت ہے بلکہ مصنوعی ذہانت اور روبوٹکس میں بھی اس کے دُور رس اثرات ہو سکتے ہیں۔ مکھی کے دماغ کی ساخت اور کام کرنے کے اصولوں کو سمجھ کر سائنس دان ایسے روبوٹس تیار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جو محدود وسائل کے ساتھ زیادہ مؤثر اور تیز ردعمل دے سکیں۔

تحقیق کا مستقبل

ماہرین کا کہنا ہے کہ مکھی کے دماغ پر مزید تحقیق سے قدرتی دماغی نظام اور مصنوعی ذہانت کے درمیان تعلق کو بہتر طور پر سمجھا جا سکے گا۔ یہ تحقیق یہ بھی ثابت کرتی ہے کہ قدرت کے بظاہر معمولی مخلوقات میں بھی حیرت انگیز طور پر پیچیدہ نظام موجود ہیں، جنہیں سمجھنے کے لیے جدید ترین ٹیکنالوجی کی ضرورت ہے۔

یہ تحقیق ہمیں مکھی جیسے چھوٹے جاندار کی ذہانت کی گہرائی کو سمجھنے اور قدرت کے شاہکاروں کی قدر کرنے کا ایک نیا زاویہ فراہم کرتی ہے۔

مکھی کے دماغ پر تحقیق کرنے والی ٹیم کے سربراہ کا دعویٰ ہے کہ اس سائنسی جائزے سے سوچنے کے عمل سے متعلق مزید تفصیلات معلوم ہوں گی۔

تصاویر بشکریہ: Amy Sterling, Murthy and Seung Labs, Princeton University

(اس مضمون کی تیاری کے لیے مندرجہ ذیل ویب سائٹس سے استفادہ کیا گیاہے۔)

https://www.nih.gov/news-events/nih-research-matters/complete-wiring-map-adult-fruit-fly-brain?utm_source=chatgpt.com

https://www.sciencedaily.com/releases/2024/10/241002123138.htm?utm_source=chatgpt.com

https://www.nature.com/nature/volumes/634/issues/8032?utm_source=chatgpt.com

مزید پڑھیں: انار کے چھلکوں کے حیران کن فوائد

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button