کلام امام الزمان علیہ الصلاۃ والسلام

اگر دل میں صدق اور اخلاص نہ رہے تو وہ صدقہ صدقہ نہیں رہتا

کلام امام الزّماں علیہ الصلوٰۃ والسلام

اکثر لوگ غریبوں پر احسان کرتے ہیں اور احسان میں یہ ایک مخفی عیب ہے کہ احسان کرنے والا خیال کرتا ہے کہ میں نے احسان کیا ہے اور کم سے کم وہ اپنے احسان کے عوض میں شکریہ یا دعا چاہتا ہے اور اگر کوئی ممنون منت اس کا مخالف ہوجائے تو اس کا نام احسان فراموش رکھتا ہے۔ بعض وقت اپنے احسان کی وجہ سے اس پر فوق الطاقت بوجھ ڈال دیتا ہے اور اپنا احسان اس کو یاد دلاتا ہے جیسا کہ احسان کرنے والوں کو خدا تعالیٰ متنبہ کرنے کے لئے فرماتا ہے۔ لَاتُبْطِلُوْا صَدَقٰتِکُمْ بِالْمَنِّ وَالْاَذٰی (البقرہ:۲۶۵) یعنی اے احسان کرنے والو! اپنے صدقات کو جن کی صدق پر بنا چاہیے۔ احسان یاد دلانے اور دکھ دینے کے ساتھ برباد مت کرو۔ یعنی صدقہ کا لفظ صدق سے مشتق ہے۔ پس اگر دل میں صدق اور اخلاص نہ رہے تو وہ صدقہ صدقہ نہیں رہتا بلکہ ایک ریاکاری کی حرکت ہوجاتی ہے۔ غرض احسان کرنے والے میں یہ ایک خامی ہوتی ہے کہ کبھی غصہ میں آکر اپنا احسان بھی یاد دلا دیتا ہے اسی وجہ سے خدا تعالیٰ نے احسان کرنے والوں کو ڈرایا۔

(اسلامی اصول کی فلاسفی، روحانی خزائن جلد ۱۰صفحہ ۳۵۳-۳۵۴)

تقدیر کو اللہ بدل دیتا ہے اور رونا دھونا اور صدقات فردِ قرارداد جرم کو بھی ردّی کردیتے ہیں۔ اُصول خیرات کا اسی سے نکلا ہے۔ یہ طریق اللہ کو راضی کرنے کے ہیں۔ علم تعبیرالرؤیا میں مال کلیجہ ہوتا ہے۔ اسی لئے خیرات کرنا جان دینا ہوتا ہے۔ انسان خیرات کرتے وقت کس قدر صدق وثبات دکھاتا ہے اور اصل بات تو یہ ہے کہ صرف قیل وقال سے کچھ نہیں بنتا جب تک کہ عملی رنگ میں لاکر کسی بات کو نہ دکھایا جاوے۔ صدقہ اس کو اسی لئے کہتے ہیں کہ صادقوں پر نشان کردیتا ہے۔

(ملفوظات جلد اوّل صفحہ ۲۱۹۔ایڈیشن۲۰۲۲ء)

مزید پڑھیں: لیلتہ القدر انسان کے لئے اس کا وقت اصفیٰ ہے

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button