حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

دعاؤں اور صدقات کا آپس میں بڑا گہرا تعلق ہے

حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ فرماتے ہیں:

ایک روایت میں آتا ہے کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ صدقہ دے کر آگ سے بچو خواہ آدھی کھجور خرچ کرنے کی ہی استطاعت ہو۔ (بخاری کتاب الزکوٰۃ باب اتقوا النار ولو بشق تمرۃ)یعنی معمولی سا صدقہ بھی ہو وہ بھی دو تا کہ اللہ میاں تمہارے گناہ بخشے۔ اور صدقہ اسی طرح ہے کہ اللہ تعالیٰ کی خاطر خالص ہو کر اس کی رضا کی خاطر دینا چاہئے۔

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ ’’تمام مذاہب کے درمیان یہ امر متفق ہے کہ صدقہ خیرات کے ساتھ بلا ٹل جاتی ہے۔ اور بلا کے آنے کے متعلق اگر خداتعالیٰ پہلے سے خبر دے تو وہ وعید کی پیشگوئی ہے۔ پس صدقہ و خیرات سے اور توبہ کرنے اور خداتعالیٰ کی طرف رجوع کرنے سے وعید کی پیشگوئی بھی ٹل سکتی ہے‘‘۔ یعنی جو انبیاء کی طرف سے ایسی پیشگوئیاں ہوں جن میں انذار بھی ہو وہ بھی ٹل جاتی ہیں۔ ’’ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر اس بات کے قائل ہیں کہ صدقات سے بلا ٹل جاتی ہے۔ ہندو بھی مصیبت کے وقت صدقہ و خیرات دیتے ہیں‘‘ یعنی جن کا اللہ تعالیٰ پہ اتنا یقین نہیں بھی ہے وہ بھی دیتے ہیں ۔ ’’اگر بلا ایسی شے ہے کہ وہ ٹل نہیں سکتی تو پھر صدقہ خیرات سب عبث ہو جاتے ہیں‘‘۔

(ملفوظات جلد 5صفحہ 176-177 بدر 21مارچ 1907ء)

… دعاؤں اور صدقات کا آپس میں بڑا گہرا تعلق ہے۔ جب اللہ تعالیٰ کا بندہ خالص ہو کر اس کے سامنے جھکتا ہے اور اس سے بخشش اور معافی طلب کرتا ہے تو وہ بھی اس پر رحم اور فضل کی نظر ڈالتا ہے۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ خداتعالیٰ کا یہ ارادہ ہے کہ اگر کوئی شخص توبہ، استغفار یا دعا کرے یا صدقہ خیرات دے تو بلا رد کی جائے گی۔

جب دعاؤں کے ساتھ صدقہ و خیرات کی طرف توجہ دیں یا صدقہ و خیرات کے ساتھ دعاؤں کی طرف توجہ دیں کیونکہ بعض لوگ صرف صدقہ کر دیتے ہیں وہ ان کو آسان لگتا ہے، نمازوں اور دعاؤں کی طرف توجہ کم ہوتی ہے، دونوں چیزیں اگر ملائیں تو اللہ تعالیٰ اپنے فضل بہت تیزی سے فرماتا ہے۔ جیسا کہ مَیں نے کہا کہ بعض لوگ صدقہ و خیرات تو کر دیتے ہیں لیکن یہ ایک حصہ ہے اس حکم کا۔ ٹھیک ہے اللہ تعالیٰ مالک ہے، وہ اپنے بندے کو کسی بھی طرح نواز سکتا ہے، بخش سکتا ہے لیکن یہ بھی اس کا حکم ہے کہ میرے سارے احکام پر عمل کرتے ہوئے میرے سامنے جھکو اور میرے سے دعا مانگو کیوں کہ میں لوگوں کی دعائیں سنتا ہوں۔…

پس اللہ تعالیٰ سے اس دعا کے رابطے کو قائم رکھنے کے لئے، اور ہدایت پر قائم رہنے کے لئے، اس کے فضلوں کو ہمیشہ سمیٹنے کے لئے اللہ تعالیٰ کے تمام احکامات پر عمل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ جب اس طرح دعاؤں کے ساتھ احکامات پر عمل کرتے ہوئے، صدقہ وخیرات پیش کر رہے ہوں گے، چندے دے رہے ہوں گے تو اللہ تعالیٰ اپنے وعدوں کے مطابق ہماری دعائیں سنے گا بھی اور ان قربانیوں کو قبول بھی فرمائے گا۔

(خطبہ جمعہ ۲۶؍نومبر۲۰۰۴ء، مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۱۰؍دسمبر ۲۰۰۴ء)

مزید پڑھیں: لیلۃ القدرکا قومی اتحاد اور اتفاق سے تعلق ہے

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button