حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

حضرت مسیح موعودؑ کی چند دعائیں

(انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۵؍ اپریل ۲۰۲۴ء)

[حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے احباب جماعت کو بعض دعاؤں کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا:]

اب ان دعاؤں کے بارے میں مَیں بیان کروں گا جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کی طرف سے ہمیں ملتی ہیں۔

جن میں بعض ارشادات ہیں اور بعض دعائیں ہیں۔ اپنے ایک خط میں مولوی نذیر حسین صاحب سخاؔ دہلوی نے حضرت اقدسؑ کی خدمت میں لکھا کہ حصولِ حضور کا کیا طریقہ ہے ؟کس طرح ہم اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ پیدا کریں۔ اس پر حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے جو جواب دیا وہ یہ تھا کہ ’’اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَةُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہٗ۔ طریق یہی ہے کہ نماز میں اپنے لئے دعا کرتے رہیں اور سرسری اور بے خیال نماز پر خوش نہ ہوں بلکہ جہاں تک ممکن ہو توجہ سے نماز ادا کریں اور اگر توجہ پیدا نہ ہو تو پنج وقت ہر یک نماز میں خدا تعالیٰ کے حضور میں بعد ہر رکعت کے کھڑے ہو کر یہ دعا کریں۔‘‘ یعنی جب قیام کرتے ہیں اس وقت یہ دعا کریں ’’کہ اے خدائے تعالیٰ قادر ذوالجلال! مَیں گنہگار ہوں اور اس قدر گناہ کے زہر نے میرے دل اور رگ و ریشہ میں اثر کیا ہے کہ مجھے رقت اور حضور نماز حاصل نہیں ہو سکتا تُو اپنے فضل و کرم سے میرے گناہ بخش اور میری تقصیرات معاف کر اور میرے دل کو نرم کر دے اور میرے دل میں اپنی عظمت اور اپنا خوف اور اپنی محبت بٹھا دے تاکہ اس کے ذریعہ سے میری سخت دلی دُور ہو کر حضور نماز میں میسر آوے۔‘‘ (مکتوباتِ احمد جلد پنجم صفحہ 471۔ایڈیشن 2015ء)

پھر ایک جگہ آپؑ نے یہ دعا کی ہے کہ ’’اے میرے محسن اور میرے خدا! مَیں ایک تیرا ناکارہ بندہ پُر معصیت اور پُرغفلت ہوں تُو نے مجھ سے ظلم پر ظلم دیکھا اور انعام پر انعام کیا اور گناہ پرگناہ دیکھا اور احسان پر احسان کیا۔ تُو نے ہمیشہ میری پردہ پوشی کی اور اپنی بے شمار نعمتوں سے مجھے متمتع کیا۔ سو اب بھی مجھ نالائق اور پُرگناہ پر رحم کر اور میری بے باکی اور ناسپاسی کو معاف فرما اور مجھ کو میرے اس غم سے نجات بخش کہ بجز تیرے اَور کوئی چارہ گر نہیں۔آمین‘‘ (مکتوباتِ احمد جلد دوم صفحہ 10۔ایڈیشن 2015ء)

یہ ایسی دعا ہے جسے مَیں سمجھتا ہوں روزانہ ضرور پڑھنا چاہیے۔ اپنا جائزہ لینا چاہیے۔ یہ دعا آپؑ نے حضرت خلیفة المسیح الاوّل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نام ایک خط میں لکھی تھی۔ ان کا مقام دیکھ کر ہمیں غور کرنا چاہیے کہ کس توجہ سے ہمیں یہ دعا کرنی چاہیے۔ حضرت خلیفہ اوّلؓ کو اگر یہ دعا لکھی تھی تو ہمیں اَور بڑھ بڑھ کے یہ دعا توجہ سے کرنی چاہیے۔ دل سے نکلی ہوئی دعا ہوگی تو اللہ تعالیٰ کے فضلوں کوبھی کھینچنے والی ہوگی۔

پھر حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰة والسلام کی ایک دعا ہے جو جہاں آپؑ کی عاجزی اور خشیت اللہ کا اظہار کرتی ہے وہاں ہمیں اس طرف توجہ دلاتی ہے کہ ہم بھی اپنی حالت کا جائزہ لے کر یہ دعا کریں۔ آپؑ فرماتے ہیں کہ ’’اے رب العالمین! تیرے احسانوں کا مَیں شکر نہیں کر سکتا تُو نہایت ہی رحیم و کریم ہے اور تیرے بے غایت مجھ پر احسان ہیں۔ میرے گناہ بخش تامَیں ہلاک نہ ہو جاؤں۔ میرے دل میں اپنی خالص محبت ڈال تا مجھے زندگی حاصل ہو اور میری پردہ پوشی فرما اور مجھ سے ایسے عمل کرا جن سے تُو راضی ہو جائے۔ مَیں تیری وجہ کریم کے ساتھ اس بات سے پناہ مانگتا ہوں کہ تیرا غضب مجھ پر وارد ہو۔ رحم فرما اور دنیا اور آخرت کی بلاؤں سے مجھے بچا کہ ہر ایک فضل و کرم تیرے ہی ہاتھ میں ہے۔آمین‘‘ (ملفوظات جلد1صفحہ 235۔ایڈیشن 1984ء)

پھر آپؑ کی ایک دعا ہے جو آپؑ نے پیغامِ صلح کے شروع میں تحریر فرمائی ہے جس کی طرف ہمیں بہت توجہ دینی چاہیے۔ فرمایا کہ ’’اے میرے قادر خدا! اے میرے پیارے رہنما!! تُو ہمیں وہ راہ دکھا جس سے تجھے پاتے ہیں اہلِ صدق و صفا اور ہمیں ان راہوں سے بچا جن کا مدعا صرف شہوات ہیں یا کینہ یا بغض یا دنیا کی حرص و ہوا۔‘‘ (پیغام صلح، روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 439)

پھر ایک جگہ نصیحت کرتے ہوئے آپؑ نے فرمایا۔ ’’سب سے عمدہ دعا یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی رضامندی اور گناہوں سے نجات حاصل ہو کیونکہ گناہوں ہی سے دل سخت ہو جاتا ہے اور انسان دنیا کا کیڑا بن جاتا ہے۔ ہماری دعا یہ ہونی چاہئے کہ خدا تعالیٰ ہم سے گناہوں کو جو دل کو سخت کر دیتے ہیں دُور کر دے اور اپنی رضامندی کی راہ دکھلائے۔‘‘ (ملفوظات جلد7صفحہ 39۔ایڈیشن 1984ء)

پھر آپؑ کی ایک دعا ہے کہ ’’ہم تیرے گنہگار بندے ہیں اور نفس غالب ہیں تُو ہم کو معاف فرما اور آخرت کی آفتوں سے ہم کو بچا۔‘‘ (اخبار البدر جلد نمبر۲صفحہ۳۰)

دنیا کی اصلاح کے درد میں آپؑ کی ایک دعا کا یوں ذکر ملتا ہے کہ ’’اے خداوند قادر مطلق! اگرچہ قدیم سے تیری یہی عادت اور یہی سنت ہے کہ تو بچوں اور اُمیوں کو سمجھ عطا کرتا ہے اور اس دنیا کے حکیموں اور فلاسفروں کی آنکھوں اور دلوں پر سخت پردے تاریکی کے ڈال دیتا ہے مگر مَیں تیری جناب میں عجز اور تضرع سے عرض کرتا ہوں کہ ان لوگوں میں سے بھی ایک جماعت ہماری طرف کھینچ لا‘‘ یعنی جو بڑے پڑھے لکھے لوگ ہیں ان لوگوں میں سے ایک جماعت ہماری طرف کھینچ لا ’’جیسے تُو نے بعض کو کھینچا بھی ہے اور ان کو بھی آنکھیں بخش اور کان عطا کر اور دل عنایت فرما تا وہ دیکھیں اور سنیں اور سمجھیں اور تیری اس نعمت کا جو تُو نے اپنے وقت پر نازل کی ہے‘‘ یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کانازل ہونا، آنا۔ ’’قدر پہچان کر اس کے حاصل کرنے کے لئے متوجہ ہو جائیں۔ اگر تُو چاہے تو تُو ایسا کر سکتا ہے کیونکہ کوئی بات تیرے آگے اَن ہونی نہیں۔ آمین‘‘ (ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد3صفحہ 120)

آج بھی اس دعا کی ہمیں آپؑ کی پیروی میں ضرورت ہے۔دنیا کی اور خاص طور پر مسلم امہ کی اصلاح ہو گی اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کی طرف توجہ پیدا ہو گی تو تب ہی ان کی کھوئی ہوئی عظمت انہیں ملے گی اور دنیا میں جو آج ان کی ہر جگہ سبکی ہو رہی ہے اس سے بھی نجات ملے گی۔ خدا تعالیٰ ہمارے لیڈروں کو اور علماء کو بھی عقل دے۔ ان میں سے بھی بعض ایسے نیک فطرت ہوں گے اللہ تعالیٰ انہیں اس طرف کھینچ کے لائے۔ پس ہمیں بڑے درد سے اس دعا کو بھی کرنا چاہیے۔

پھر آپؑ کی ایک دعا کا ذکر یوں ملتا ہے۔ حضرت نواب محمد علی خان صاحب کو ایک خط میں آپؑ نے یہ دعا لکھی تھی کہ ’’دعا بہت کرتے رہو اور عاجزی کو اپنی خصلت بناؤ۔جو صرف رسم اور عادت کے طور پر زبان سے دعا کی جاتی ہے یہ کچھ بھی چیز نہیں۔‘‘ جو صرف رسم اور عادت کے طور پر زبان سے دعا کی جاتی ہے وہ کچھ بھی چیز نہیں ہوتی۔ ’’…جب دعا کرو تو بجز صلوٰة فریضہ کے یہ دستور رکھو کہ اپنی خلوت میں جاؤ اور اپنی ہی زبان میں نہایت عاجزی کے ساتھ‘‘ یعنی صرف فرض نمازیں نہیں بلکہ نفل نمازوں میں بھی۔ نہایت عاجزی کے ساتھ ’’جیسے ایک ادنیٰ سے ادنیٰ بندہ ہوتا ہے خدائے تعالیٰ کے حضور میں دعا کرو۔ کہ اے رب العالمین! تیرے احسان کا مَیں شکر نہیں کر سکتا۔ تُو نہایت ہی رحیم و کریم ہے اور تیرے بےنہایت مجھ پر احسان ہیں۔ میرے گناہ بخش تا مَیں ہلاک نہ ہو جاؤں۔ میرے دل میں اپنی خالص محبت ڈال تا مجھے زندگی حاصل ہو اور میری پردہ پوشی فرما اور مجھ سے ایسے عمل کرا جن سے تُو راضی ہو جاوے۔ مَیں تیرے وجہ کریم کے ساتھ اس بات سے پناہ مانگتا ہوں کہ تیرا غضب مجھ پر وارد ہو۔ رحم فرما اور دنیا اور آخرت کی بلاؤں سے مجھے بچا کہ ہر ایک فضل و کرم تیرے ہی ہاتھ میں ہے۔ آمین‘‘ (مکتوباتِ احمدجلد دوم صفحہ 158-159۔ایڈیشن2015ء)

اور ان دعاؤں کی قبولیت کے لیے یہ بھی بہت ضروری ہے کہ ہم زیادہ سے زیادہ درود شریف پڑھیں۔ درود کے بغیر ہماری دعائیں ہوا میں معلق ہو جاتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ تک پہنچتی نہیں۔پساَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَعَلٰى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا صَلَّيْتَ عَلٰى إِبْرَاهِيْمَ، وَعَلٰى آلِ إِبْرَاهِيْمَ، إِنَّكَ حَمِيْدٌ مَّجِيْدٌ، اَللّٰهُمَّ بَارِكْ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَّعَلٰى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا بَارَكْتَ عَلٰى إِبْرَاهِيْمَ، وَعَلٰى آلِ إِبْرَاهِيْمَ إِنَّكَ حَمِيْدٌ مَّجِيْدٌ۔

اس کا بہت زیادہ ہمیں ورد کرنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق بھی دے کہ ہم اپنے دل سے یہ دعائیں کرنے والے ہوں۔ اپنی زبان میں بھی دعائیں کریں اور وہ حقیقی بےقرار اور مضطر بن کر دعائیں کریں جن کے دل کی گہرائیوں سے یہ دعائیں نکل رہی ہوں۔

٭…٭…٭

مزید پڑھیں: چند مسنون دعائیں

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button