عید الفطر۔ حقیقی عید اور سچی خوشی۔ حضرت مصلح موعودؓ کے بیان فرمودہ دلچسپ واقعات وحکایات کی روشنی میں (قسط اول)
ان کے لئے جو خدا کے عبدہوں ہر روز عید کا روز ہوتا ہے اور دنیا کی کوئی مصیبت ان پر اثر نہیں ڈال سکتی کیونکہ ان کو دل کا اطمینان حاصل ہوتا ہے۔لیکن وہ شخص جس کا دل دکھوں اور آفتوں میں گھِرا ہوا ہو اور جس کا دل آفتوں کا شکار ہو، وہ خواہ اچھے کپڑے پہن لے، اچھا کھانالے، اس کے لئے کوئی عید نہیں ہے(المصلح الموعودؓ)
خوشی کے موقع پر عبادت کرنے سے انسان نقصان سے محفوظ رہتاہے
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا صدقہ وخیرات بہت کیا کرتی تھیں۔عبداللہ ابن زبیر ان کےبھتیجے نے کہیں کہہ دیا کہ ان کو روکنا چاہئے کیونکہ اس طرح ان کے وارثوں کو کیا ملے گا۔ ان کو یہ خبر پہنچ گئی۔انہوں نے کہا۔میں اگر اسے ملوں تو میں نذر دوں گی۔ ایک دن قریش کے ایک دو آدمیوں نے عبداللہ بن زبیر کو ساتھ لیا اور دروازے پر جاکر دستک دی اور کہا۔ ہم اندر آنا چاہتے ہیں۔(اب ہم کے لفظ میں عبداللہ بن زبیر بھی شامل تھے اور ان کو پس پردہ کیا معلوم تھا کہ وہ بھی ساتھ ہیں)آپؓ نے اجازت دے دی۔ جب اندر گئے تو عبداللہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے لپٹ گئے۔تب حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ میں نے جو نذر مانی ہوئی تھی۔اب اسے پورا کروں۔ وہی بات جس سے عبداللہ بن زبیر نے روکنا چاہا اسے کیا۔تو گویا انہوں نے اپنے بھتیجے کے ملنے کی خوشی میں ایک عبادت کی۔ اور صدقہ وخیرات کیا۔ یہ باتیں انہوں نے نبی کریم ﷺ سے ہی سیکھیں۔آپؐ نے فرمایاکہ رمضان آیا روزے رکھو،عبادت کرو۔جب گزرا تو خوشی کرو کہ خد ا تعا لیٰ نے ہمیں توفیق دی کہ روزے رکھے اور اس خوشی میں عبادت کرو۔ یہی ایک نہیں بلکہ ہر ایک خوشی میں عبادت رکھی۔
کیونکہ انسان خوشی میں اندھا ہو جاتا ہے اس لئے فرمایا خوشی میں عبادت بھی کرلیا کروتاکہ تم اپنی غلطیوں کے ضرر سے بچ جاؤ اور تمہیں اس سے فائدہ پہنچے۔( خطبات محمود جلد ۱ صفحہ۱۵۔خطبہ عید الفطر فرمودہ ۲۴ ؍ اگست ۱۹۱۴ء بمقام میدان نزد مسجد نور۔ قادیان۔مطبوعہ الفضل ۳۰؍ اگست ۱۹۱۴ء)
اصل خوشی وہی ہے جو حقیقی خوشی ہو
حضرت خلیفہ اول ؓکے پاس جب ہم پڑھا کرتے تھے ایک دن ایک عورت آئی اور اس طرح ہنستے ہنستے کہ گویا اسے کوئی بڑی خوشی حاصل ہوئی ہے کہنے لگی مولوی صاحب میرا بیٹا طاعون سے مر گیا ہے یہ کہہ کر پھر ہنستی ہوئی چلی گئی۔ دوسرے دن پھر آئی۔اور ہنستے ہنستے اور اسی طرح بے اختیار ہو کر کہ اس کے منہ سے مارے ہنسی کے لفظ بھی بمشکل نکلتا تھا۔حضرت مولوی صاحب کو کہنے لگی حضور ! میرا دوسرا لڑکا بھی مر گیا ہے۔تیسرے دن پھر آئی اور اسی طرح ہنستے ہوئے کہا مولوی صاحب میرا خاوند بھی مر گیا ہے۔ اس کے ہاں چار موتیں ہوئیں اور اس نے ہر ایک کا حال مولوی صاحب کو ہنس ہنس کر سنایا۔وہ اس قدر زیادہ ہنستی کہ اس کی آنکھوں میں آنسو آ جاتے۔ لیکن کیا وہ کسی خوشی کی وجہ سے ہنستی تھی۔نہیں بلکہ اسے مراق کی بیماری تھی۔اس کا دل غمگین تھا اور جو واقعات اسے پیش آئے تھے وہ رلانے والے تھے اس لئے اسے رونا چاہئے تھا مگر اسے رونے کی بجائے ہنسی آتی تھی۔ کیا اس کی ظاہری خوشی درحقیقت خوشی تھی۔نہیں بلکہ وہ خوشی اسے پاگل ظاہر کر رہی تھی۔( خطبات محمود جلد ۱صفحہ۴۲-۴۳۔خطبہ عید الفطر فرمودہ ۲۲؍ جولائی ۱۹۱۷؍ مطابق یکم شوال ۱۳۳۵ھ بمقام مسجد اقصیٰ۔قادیان۔مطبوعہ الفضل ۴؍ اگست ۱۹۱۷ء )
حقیقی خوشی چاہتے ہو تو ضائع شدہ مال و منال کی تلاش کرو
انجیل میں حضرت مسیح ؑنے ایک واقعہ مثال کے طور پر بیان کیاہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص کے کئی بیٹے تھے۔ اس نے بہت سامال ان میں تقسیم کیا اور ہر ایک کو اپنی زندگی میں ہی ایک معقول رقم دی تا مرنے کے بعد فساد نہ ہو اور جھگڑا نہ ہو۔اس کے بیٹے مال لے کر مختلف جہات کو گئے اور انہوں نے مختلف ذرائع سے اپنے اموال کو بڑھایا اور فائدہ اٹھایا۔مگر ایک لڑکے نے اپنا روپیہ اپنی غفلت اور سُستی اور غلط کاری وعیاشی کے باعث تمام کا تمام ضائع وبرباد کر دیا اور کچھ بھی اس کے پاس باقی نہ رہا۔ نوبت یہا ں تک پہنچی کہ وہ بھوکا اور ننگا ہو گیا اور مجبور اً اسے ایک سؤر پالنے والے کی ملازمت اختیار کرنی پڑی۔آخر ایک دن اس کے دل میں خیال آیا کہ میرے باپ کے کئی نوکر چاکر ہیں وہ ان کو کھانا کھلاتا ہے اور کپڑے پہناتا ہے اگر میں بھی واپس جاؤں تو کیا وہ مجھے کھانے اور پہننے کو نہ دے گا۔ اس خیال سے وہ واپس آیا اور شرم کے مارے اپنے باپ کے سامنے تو نہ گیا بلکہ اس کے نوکروں میں بیٹھ گیا۔ کسی نے اس کے باپ کو اطلاع کر دی۔
حضرت مسیح ؑفرماتے ہیں:بتاؤ اس کے باپ نے یہ خبر پاکر کیا کیا ہو گا؟فرماتے ہیں:اس نے فوراً ایک موٹا تازہ بکرا منگایا اور قربانی کیا اور اس کے واپس آنے کی بہت بڑی خوشی منائی۔نوکروں میں سے اٹھاکر عزت کی جگہ بٹھلایا۔ تب اس کے دوسرے بیٹوں نے باپ سے کہا کہ ہم بھی آپ کے لڑکے تھے اور ہم نے آپ کے مال کی حفاظت کی اور خوب اس کو بڑھایا مگر آپ نے ہمارے آنے پر اس قدر خوشی کا اظہار نہیں کیا جس قدر کہ اس لڑکے کے آنے پر اور اس کے لئے موٹا بکرا ذبح کیا مگر ہمارے لئے ایک دُبلی بکری بھی ذبح نہ کی۔ اس پر ان کے باپ نے کہا کہ تمہاری غلطی ہے تم کھوئے نہ گئے تھے کہ میں نے تم کو پایا مگر یہ میرا بیٹا کھویا گیا تھا اور اب میں نے اسے پایا ہے۔ پس اس کے آنے پر اسی قدر خوشی چاہئے تھی۔ یہ تو ایک ایسے باپ کا ذکر ہے جس کے کئی بیٹے تھے۔اگر کسی کا ایک ہی بیٹا ہو اور وہ کھویا جائے۔ پھر مدتوں بعد واپس آجائے تو اس کی خوشی کتنی بڑی خوشی ہوگی اور وہ اس کے واپس آ جانے پر کیا خوشی کرے گا اندازہ کر لیں۔…حضرت مسیح ؑنے تو بہت سے بیٹوں کی مثال دی ایک گم ہو گیا مگر باقی موجود تھے کیونکہ حضرت مسیح ؑ تمام دنیا کے لئے مبعوث نہ ہوئے تھے بلکہ آپ کی بعثت صرف بنی اسرائیل کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کے لئے تھی ان کی مثال بتاتی ہے کہ اگر ان کی اپنی قوم حق وراستی سے دور ہو کر راہ راست سے گم گشتہ تھی تو بعض اور قومیں دنیا میں اس وقت ایسی بھی موجود تھیں جن میں نیکی اور تقویٰ اور خدا پرستی موجود تھی۔ ان کی مثال بتاتی ہے کہ اس باپ کے اکثر بیٹے لائق اور ہونہار تھے صرف ایک بیٹا نالائق اور عیاش تھا جو ان کی اپنی قوم کی طرف اشارہ ہے۔ حضرت مسیح ؑ کے زمانہ میں دنیا میں نیک اور خدا پرست لوگ کثرت سے موجود تھے اس لئے ان کی مثال میں ظَھَرَ الْفَسَادُ فِیْ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ کا نقشہ نہیں پایا جاتا بلکہ ظَھَرَ الْفَسَادُ فِیْ بَنِیْۤ اِسْرَاءِیْلَ کا رنگ نظر آتاہے۔
مگر برخلاف ان کے ہمارے رسول کریم ﷺ چونکہ تمام دنیا کے واسطے مبعوث ہوئے تھے اور آپ ﷺ کی تعلیم کسی خاص ملک یا قوم کے لئے نہ تھی بلکہ تمام دنیا کے واسطے بلا تخصیص زمانہ و مکان تھی اور آپ ﷺ کی بعثت کے وقت ظَھَرَ الْفَسَادُ فِیْ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ کا پورا پورا نقشہ موجود تھا۔ لہٰذا آپ ﷺ نے جو مثال دی وہ بھی اس مضمون کی شاہد ناطق ہے۔آپ ﷺ فرماتے ہیں کہ ایک شخص اونٹنی پر سوار ایک بہت بڑے وسیع جنگل میں جارہا ہو اور وہ جانتاہو کہ اس سواری کے بغیر اس جنگل سے گزرنے کی اور کوئی سبیل نہیں اور نہ کوئی اور چارہ ہے۔ اتفاقاً وہ سواری اس سے گم ہو جائے اور وہ اس کی تلاش میں ادھر ادھر بے تابانہ پھرتا رہے لیکن اسے وہ سواری نہ ملے آخر دوپہر تک کی تلاش کے بعد تھک کر ایک درخت کے نیچے لیٹ جائے اور اپنی سواری سے ناامید ہو کر سو جائے مگر اچانک اس کی آنکھ کھلنے پر اپنے پاس ہی اپنی ناقہ کو کھڑا دیکھے تو اس کے ملنے پر اسے کس قدر خوشی ہوگی۔ خداتعالیٰ کو بھی اپنے بندے کے واپس آنے پر اور اپنے مولا کی طرف رجو ع کرنے پر ایسی ہی خوشی ہوتی ہے۔
ان دونوں مثالوں میں فرق ہے۔ حضرت مسیح ؑجب دنیا میں مبعوث ہو کر آئے اس وقت بنی اسرائیل کے سوا باقی اکثر اقوام میں صلاحیت اور تقویٰ،نیکی اور دینداری موجود تھی اور روحانی پانی ان کو سیراب کرتا تھا۔جیسا کہ حضرت مسیح ؑکی مثال سے مستنبط ہوتاہے کہ باپ کے بیٹے قابل،لائق، ہونہار اور فرمانبردار موجود تھے صرف ایک گمراہ تھا جس کا ذکر کر کے حضرت مسیح ؑنے بنی اسرائیل کو بتایا کہ بنی اسرائیل کی مثال اس نالائق اور نادان بیٹے کی سی ہے اور کہ آپ ﷺ اس قوم کی اصلاح کو مبعوث ہوئے ہیں۔
برعکس اس کے ہمارے رسول کریمﷺکےزمانہ بعثت میں تمام دنیا میں گمراہی اور جہالت پھیلی ہوئی تھی اور کوئی ملک اور کوئی قوم بلا تخصیص ملکی و قومی گمراہی اور گناہ کے اتھاہ گڑھے سے باہر نہ تھی۔ نہ کوئی ملک اور نہ کوئی قوم اس وقت دنیا کی آبادی میں ایسی موجود تھی جو روحانی پانی سے سیراب ہوتی ہو اور انسانوں میں سے کوئی جماعت بھی خداتعالیٰ کی طرف متوجہ نہ تھی۔گویا سب کے سب بندے خدا تعالیٰ کے راستے سے کھوئے گئے تھے۔ اس وقت آپ ﷺمبعوث ہوئے اور کھوئے ہوئے بندوں کو پھر خدا تعالیٰ کے پاس لائے۔پس حضرت مسیح ؑ نے ایک ایسےشخص کی مثال دی جس کی اکثر اولاد نیک تھی اور ایک خراب تھی تا اپنے احاطہ ٔتبلیغ کی طرف اشارہ کرے اور رسول کریم ﷺ نے ایک ایسے شخص کی مثال دی جس کا سب کچھ کھویا گیا تھا۔ تاکہ ان کی احاطۂ تبلیغ کی طرف اشارہ ہو۔اور یہ دونوں مثالیں ان دونوں نبیوں کے مدارج کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔
پس عید ہم کو اس بات کی طرف متوجہ کرتی ہے کہ اگر حقیقی خوشی چاہتے ہو تو ضائع شدہ مال و منال کی تلاش کرو۔اس کے حاصل کرنے کی کوشش کرو۔( خطبات محمود جلد ۱ صفحہ ۵۱ تا ۵۳۔خطبہ عید الفطرفرمودہ ۱۱؍ جولائی ۱۹۱۸ء بمقام ڈلہوذی۔مطبوعہ الفضل ۲۳؍ جولائی ۱۹۱۸ء)
عید اسی کی ہے جس کا دل خوش ہو
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی مثال ہمارے سامنے موجود ہے جب آپؑ نے اپنی طاقتوں کو خدا کی راہ میں خرچ کیا تو اللہ تعالیٰ نے آپ پر ایسا عید کا دن چڑھایا کہ جو پھر غروب نہ ہوا۔ آپ کے دشمنوں نے آپ کو ہزار ہا قسم کی تکلیفیں پہنچائیں لیکن آپؑ کو اس جنت سے جس میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو داخل کیا تھا نہ نکال سکے آپ پر ایسے ایسے شدائد آئے کہ جن سے کمر ٹوٹ جائے لیکن دنیا کے کسی بڑے سے بڑے حادثے نے آپ پر کوئی اثر نہ کیا۔ گورداسپور میں جن دنوں مقدمہ تھا میں تو چھوٹا تھا لیکن بعض دوستوں نے سنایا ہے کہ ایک صاحب بھاگے ہوئے آئے اور کہا کہ حضور! جج تو اس بات پر آمادہ ہے کہ چاہے ایک ہی دن کی سزا دےمگر دے ضرور تاکہ اپیل بھی نہ ہو سکے اس پر کہا گیا کہ کسی طرح صلح کر لینی چاہیے اس وقت حضرت صاحب لیٹے ہوئے تھے آپ اٹھ بیٹھے اور کہا کہ وہ خدا کے شیر پر کیا ہاتھ ڈالے گا خدا کےشیر پر ہاتھ ڈالنا آسان نہیں خدا کے نبی خدا کے شیر ہوتے ہیں ان پر ہاتھ ڈالنا اپنی ہلاکت کا سامان کرنا ہے۔
اسی طرح جن دنوں کلارک کا مقدمہ تھا۔ میری عمر اُس وقت دس سال کے قریب تھی۔ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے جب اوروں کو دعاؤں کے لئے کہا تو مجھے بھی کہا کہ دعا اور استخارہ کرو۔میں نے اس وقت رؤیا میں دیکھا کہ ہمارے گھر کے اردگرد پہرے لگے ہوئے ہیں۔میں اندر گیا جہاں سیڑھیاں ہیں وہاں ایک تہہ خانہ تھا میں نے دیکھا کہ حضرت صاحب کو وہاں کھڑا کر کے آگے اُپلے چن دیئے گئے ہیں اور ان پر مٹی کا تیل ڈال کر کوشش کی جا رہی ہے کہ آگ لگا دیں مگر جب دیا سلائی سے آگ لگاتے ہیں تو آگ نہیں لگتی۔وہ بار بار آگ لگانے کی کوشش کرتے ہیں مگر کامیاب نہیں ہوتے۔میں اس سے بہت گھبرایا لیکن جب میں نے اس دروازہ کی چوکھٹ کی طرف دیکھا تو وہاں لکھا تھا کہ ’’جو خدا کے بندے ہوتے ہیں ان کو کوئی آگ نہیں جلا سکتی۔‘‘ غرض مصائب پر مصائب آئے مگر وہ اس طرح گذر گئے جس طرح جسم پر اُنڈیلا ہوا گھڑے کا پانی گذر جاتا ہے۔
پس ان کے لئے جو خدا کے عبدہوں ہر روز عید کا روز ہوتا ہے اور دنیا کی کوئی مصیبت ان پر اثر نہیں ڈال سکتی کیونکہ ان کو دل کا اطمینان حاصل ہوتا ہے۔لیکن وہ شخص جس کا دل دکھوں اور آفتوں میں گھِرا ہوا ہو اور جس کا دل آفتوں کا شکار ہو، وہ خواہ اچھے کپڑے پہن لے، اچھا کھانالے، اس کے لئے کوئی عید نہیں ہے۔ان کے مقابلہ میں خدا کے بندے ایک ایسے باغ میں ہوتے ہیں جہاں کوئی آفت اثر نہیں کر سکتی۔وہ ہر دکھ سے محفوظ ہوتے ہیں اور ایسے مصائب جو دنیا کی کمر توڑ دینے والے ہوتے ہیں ان پر کوئی اثر نہیں کرتے۔
مبارک احمد جس دن فوت ہوا۔میں پاس ہی تھا میں نے دیکھا کہ حضرت مولوی صاحب نبض دیکھ رہے تھےکہ یہ کہتے ہوئے کہ حضرت مُشک لاؤ۔حضرت مشک لاؤ لڑ کھڑا کر زمین پر بیٹھ گئے۔حضرت صاحب نے ٹرنک کھولا۔آخر آپ سمجھ گئے کہ فوت ہو گیا ہے۔ آپ نے کاغذ اور قلم دوات لے کر خطوط لکھنے شروع کر دئے جن میں لوگوں کو تسلی دیتے ہوئے لکھا۔مبارک احمد کی وفات خدا کا ایک نشان ہے کیونکہ اس کے پیدا ہونے سے پہلے ہی خدا نے کہا تھا کہ یہ چھوٹی عمر میں فوت ہو جائے گا۔
حضرت مولوی صاحب نے بعد میں فرمایا کہ اُس وقت میری حالت اس لئے ایسی ہو گئی تھی کہ میں نے خیال کیا کہ حضرت صاحب کو جو اس سے اتنی محبت ہے اور اب یہ فوت ہوگیا ہے تو اس سے آپ کی طبیعت پر بہت اثر پڑے گا۔ اس خیال سے میری حالت غش کے قریب پہنچ گئی تھی اور اگر میں کھڑا رہتا تو ضرور غش کھا کے گر جاتا۔ایسا ہی اَور لوگوں کا اس وقت خیال تھا کہ خدا جانے اس واقعہ کا حضرت صاحب پر کیا اثر ہوتا ہے مگر آپ کے چہرے پر کوئی رنج وغم نہ تھا نہ کوئی آنسو آپ کی آنکھوں میں تھا۔
یہ عید ہے جو مومن کو حاصل ہونی چاہیے ورنہ یہ عید نہیں کہ کپڑے سفید پہن لئے جاویں جب دل رنج میں ہو تو عید کیسے ہو سکتی ہے ؟عید اسی کی ہے جس کا دل خوش ہو اور دل اسی کا خوش ہو سکتاہے جس کو اس کا خدا مل جائے یا اس کے حصول کے ذرائع مل گئے ہوں۔اور جو خدا کے انعام کا وارث ہوتاہے دنیا اس کو دیکھ کر حیران ہو جاتی ہے کیونکہ خدا کے عبد کے لئے کوئی رنج نہیں وہ نفس مطمٔنہ ہوتاہے اور ایسی جگہ ہوتاہے جہاں خدا اس سے راضی اور وہ خدا سے راضی۔ یہ عید اس کے لئے خدا کی رضا کے لئے نشان ہو جاتی ہے خدا کے فرشتے اس کے محافظ اور پہرہ دار ہو جاتے ہیں۔خدا تعالیٰ ہماری جماعت کو ایسی ہی عید نصیب کرے۔(خطبات محمود جلد ۱صفحہ۶۹-۷۰۔ خطبہ عید الفطرفرمودہ ۳۰؍ جون ۱۹۱۹ء بمقام مسجد اقصیٰ قادیان۔ مطبوعہ الفضل ۱۵؍ جولائی ۱۹۱۹ء )
عید کی خوشی اُس کے لئے ہے جس نے خدا کے حکم کو پورا کیا
عید دل کی خوشی کا نام ہے اور جس کا دل خوش نہیں اس کے لئے کوئی عید نہیں اب میں آپ سے سوال کرتا ہوں کہ آپ لوگ جو آج خوش ہیں اور تم میں سے ہر ایک کہتاہے کہ آج عید ہے کیا کل کے اور آج کے دن میں کوئی فرق ہے ؟ جیسا کل تھا ویسا ہی آج ہے وہی حالت ہے پھر کیا اس لئے خوشی ہے کہ بعضوں نے عمدہ کپڑے پہنے ہیں، یا کیا اس بات کی خوشی ہے کہ بعضوں نے عمدہ کھانے تیار کیے ہیں۔اگر یہی ہے تو کیا کل نئے کپڑے نہیں پہنے جاسکتے،یا اچھے کھانے نہیں پکائے اور کھائے جاسکتے تھے۔ پھر آج کیوں خوش ہو۔ کیا اس لئے کہ لوگ جمع ہوئے ہیں؟ مگر کیاکل جمع نہیں ہوسکتے تھے۔ پھر جانتے ہو کہ آج تمہاری خوشی کا کیا سبب ہے تمہارے آج خوشی محسوس کرنے کی وجہ یہ ہے کہ تم پر خدا کی طرف سے فرض عائد کیا گیا تھا وہ تم نے پورا کر لیا ہے اس لئے تم خوش ہو اور یہ ایسی بات ہے کہ اس پر تم جس قدر خوشی مناؤ جائز ہے۔ پس عید خوشی ہےمگر اس کے لئے جس نے خدا کے حکم کو پورا کیا۔ تمہیں رمضان میں روزے رکھنے کا حکم تھا۔ تمہیں ایک خاص وقت سے خاص وقت تک کھانے سے منع کیا گیا تھا۔تمہیں حکم تھا کہ بیوی سے تعلقات چھوڑو سوائے اس وقت کے جس میں تم کو اجازت تھی۔ اللہ تعالیٰ چاہتاہے کہ تم اس سے دعائیں کرو اور اس کی زیادہ سے زیادہ عبادتیں کرو سوائے مجبوری کے،اگر کسی شخص نے ان احکام کو نہیں پورا کیا کھانا پینا ایک خاص وقت تک نہیں چھوڑا، خدا تعالیٰ سے دعائیں نہیں کیں، عبادتوں میں وقت نہیں لگایا تو وہ کیسے خوش ہو سکتا ہے۔ اس کی خوشی کی وجہ کیا ہو سکتی ہے۔اور وہ شخص مجنون ہوتاہے جو بلا وجہ خوش ہوتاہے۔یہاں ایک عورت ہمارے مزار عوں میں سے ہی تھی۔ میں جن دنوں حضرت خلیفہ اول سے پڑھتا تھا وہ آپ کے پاس آئی۔ آپ نے مجھے فرمایا کہ آؤ میاں آج تمہیں ایک بات بتائیں۔آپ نے اس عورت سے دریافت کیا کہ تیرے بھائی کا کیا حال ہے۔ وہ عورت ہنسی اور اتنا ہنسی کہ اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔اور پھر ہنستے ہنستے ہی اس نے کہا کہ وہ تو مر گیا ہے۔میں حیران ہوا کہ یہ ہنسنے کی کیا بات ہے۔ پھر آپ نے اس کے ایک اور رشتہ دار کے متعلق پوچھا تو وہ اسی طرح ہنسی اور کہا کہ وہ بھی مر گیا۔حضرت خلیفۃ المسیح نے مجھے فرمایا اسے مرض ہے اور اسے ہنسنے کا جنون ہو گیا ہے۔ تو بے موقع خوشی جنون کی علامت ہے۔وہ لڑکا جس نے اپنا سبق یاد نہیں کیا وہ امتحان کےسرپر آنے سے خوش نہیں ہوگا بلکہ وہی لڑکا سکول جانے اور امتحان میں شامل ہونے سے خوش ہوگا جس نے سبق یاد کیا ہے کیونکہ وہ جانتاہے کہ جب میں سبق سناؤں گا تو استاد خوش ہوگا اور میری تعریف کرے گا لیکن جس نے سبق یاد نہیں کیا وہ اگر خوش ہوگا تو مجنون ہوگا۔
پس وہ شخص جس نے اللہ تعالیٰ کے احکام کی پیروی کی اس کے لئے تو آج خوشی ہے مگر جس نے احکام الٰہی کی پیروی نہیں کی اس کے لئے ماتم ہے۔کیونکہ یہ حساب کا دن ہے۔ لوگ جمع ہیں، ہر ایک شخص کا لباس اور اس کی حالت بتا رہی ہے کہ وہ حساب دینے کے لئے حاضر ہے اور آج یوم حساب ہے اور اس حالت نے حشر کا نظارہ پیدا کر دیا ہے۔پس وہ شخص جس نے کچھ کام نہیں کیا اور احکام کو نہیں مانا اس کے لئے رونے کا دن ہے نہ کہ خوش ہونے کا۔اور جس نے ان احکام کو پورا کیا ہے میں تمہیں کہتاہوں کہ اسی کی عید آج حقیقی عید ہے۔اور اس کی خوشی سچی خوشی ہے۔(خطبات محمود جلد ۱ صفحہ ۹۲-۹۴۔ خطبہ عیدالفطر فرمودہ ۲۹؍ مئی ۱۹۲۲ء بمقام باغ حضرت مسیح موعود علیہ السلام قادیان۔مطبوعہ الفضل۸؍ جون ۱۹۲۲ء)
سچی خوشی سچی امید سے پیدا ہوتی ہے
یہ ایک ثابت شدہ بات ہے کہ سچی خوشی سچی امید سے پیدا ہوتی ہے۔ یقین کو دل سے نکال دو ہر وقت دوزخ میں انسان رہے گا۔ امید کو نکال دو کبھی خوشی نہ حاصل ہو سکے گی کیونکہ خوشی امید اور یقین سے حاصل ہوتی ہے۔حتّٰی کہ چھوٹے بچے بھی اسی عید سے خوشی پاتے ہیں۔ میں نے کسی جگہ پڑھا ہے ایک عورت اور اس کا چھوٹا سا بچہ تھا۔ عورت بیمار ہوئی اور مکان کے اندر مر گئی۔ جب دیر تک اس کا دروازہ نہ کھلا تو ہمسائیوں نے دروازہ توڑ کر کھولا اور دیکھا کہ ماں مری ہوئی ہے اور بچہ اس سے کھیل رہا ہے۔چونکہ بچہ کو یہی یقین تھا کہ اس کی ماں زندہ ہے اس لئے اس سے کھیل رہا تھا حالانکہ اس کا یہ یقین جھوٹا تھا۔ جب جھوٹی امید اور یقین بھی انسان کے لئے خوشی اور مسرت پیدا کر دیتا ہے تو جسے سچا یقین ہو کہ دنیا میں میں غالب ہوں گا خدا تعالیٰ نے میرے لئے برکات رکھی ہیں وہ کبھی غمزدہ نہیں ہو سکتا۔(خطبات محمود جلد ۱ صفحہ۱۵۷۔ خطبہ عید الفطر فرمودہ ۲۴؍ مارچ ۱۹۲۸ء بمقام باغ حضرت مسیح موعود علیہ السلام قادیان۔مطبوعہ الفضل ۳؍ اپریل ۱۹۲۸ء)
عید کرنے کی خوشی میں جھوٹ بولتے رہے
ایک دوست نے سنایا۔ایک شہر میں سات سال تک ایک گاؤں کے لوگ آکر قسمیں کھاتے رہے کہ ہم نے چاند دیکھ لیا ہے اور ان کی قسموں پر اعتبار کر کے وہاں عید کر لی جاتی رہی۔ آخر جب یہ سوال پیدا ہوا کہ کیا وجہ ہے ہر سال اسی گاؤں کے رہنے والوں کو چاند نظر آتا ہے کیا باقی سب لوگ اندھے ہو جاتے ہیں کہ انہیں دکھائی نہیں دیتا تو ان لوگوں نے اقرار کر لیا کہ ہم عید کرنے کی خوشی میں جھوٹ بولتے رہے ہیں۔ (خطبات محمود جلد ۱ صفحہ۱۶۳۔ خطبہ عید الفطر فرمودہ ۱۳؍ مارچ ۱۹۲۹ء بمقام باغ حضرت مسیح موعود علیہ السلام قادیان۔مطبوعہ الفضل ۱۹؍ مارچ ۱۹۲۹ء)
عید کے دن مومن نئے کپڑے اپنے لئے نہیں بلکہ خدا کے لئے پہنتاہے
حضرت مسیح ناصری علیہ السلام کے متعلق بائیبل میں لکھا ہے کہ ایک دفعہ آپ ایک گھر میں کھانا کھانے بیٹھے تھے اس وقت کچھ لوگوں نے جو ان کے مخالف تھے ان کے پاس آکر کہا کیا سبب ہے کہ ہم اور فریسی تو روزے رکھتے ہیں مگر تمہارے شاگرد روزہ نہیں رکھتے۔حضرت مسیح علیہ السلام نے ان سے کہا کیا براتی جب تک دولہا ان کے ساتھ ہے ماتم کر سکتے ہیں۔مگر وہ دن آئیں گے کہ دولہا ان سے جدا کیا جائے گا اس وقت وہ روزہ رکھیں گے۔(متی باب ۹ آیت ۱۰ تا۱۵)
اب دیکھو! روزے جیسی لطیف عبادت کے متعلق حضرت مسیح علیہ السلام نے جو کچھ فرمایا بظاہر یہ ناموزوں معلوم ہوتاہے مگر صحیح بات یہی ہے کہ بعض ایام روزہ چھوڑنے والے ہوتے ہیں اور یہ عید کا دن بھی ایسا ہی ہے جب روزہ رکھنا ناجائز ہے کیونکہ یہ دن مومن کے لئے وہی خوشی اپنے اندر رکھتاہے جو خاوند کے گھر آنے پر ایک عورت کو ہوتی ہے۔آج کے دن مومن یہ فرض کرتاہے کہ میرا خدا میرے گھر آنے والا ہے مومن اپنے فعل کو عبث قرار نہیں دیتا وہ بے ایمان نہیں ہوتا۔اسے خدا پر پورا پورا یقین ہوتاہے وہ سمجھتا ہے میں نے جو فاقے تیس دن (یا جو معذور تھا اس نے کم و بیش ) خدا تعالیٰ کے لئے کئے ہیں ان کے نتیجہ میں میرا خدا مجھے مل گیا ہے گویا ان تیس ایام کی عبادت کے بعد وہ خدا تعالیٰ کے متعلق یقین کرتاہے کہ وہ اسے مل گیا ہے اور جس طرح وہ عورت جس کا خاوند ایک عرصہ کے بعد باہر سے آئے سوگ نہیں کیا کرتی بلکہ اپنے کپڑے صاف کرتی،بناؤ سنگار کرتی ہے،گھر کی صفائی کرتی ہے، عمدہ عمدہ کھانے پکاتی ہے، اور یہ سب کچھ اس امید پر کرتی ہے کہ جب میرا خاوند گھر آئے گا تو یہ دیکھ کر خوش ہوگا کہ مکان آراستہ پیراستہ،اور ہر چیز قرینہ سے رکھی ہے۔اسی طرح آج کے دن مومن بھی اس لئے کہ سمجھتاہے آج میرا خدا میرے گھر آنے والا ہے اپنے بدن اور کپڑوں کی صفائی کرتاہے اور عمدہ عمدہ کھانے پکاتاہے۔ وہ آج اپنے لئے نئے کپڑے نہیں پہنتا بلکہ خدا کے لئے پہنتاہے۔وہ آج کے دن اس لئے خوشی کرتاہے کہ یہ خدا تعالیٰ کی ملاقات کا دن ہے۔ جس سے بڑھ کر خوشی اور کوئی نہیں ہو سکتی۔ ایک بزرگ کے متعلق مشہور ہے کہ ہمیشہ میلے کپڑے پہنے رہتے تھے یوں تو اسلام کی سنت ہے کہ انسان صاف ستھرا رہے مگر یہ نسبتی امر ہے گویا وہ صفائی کا زیادہ خیال نہیں رکھتے تھے۔ ان کے پاس ایک نہایت بیش قیمت جوڑا تھا اور ان کے عقیدتمند ہمیشہ ان سے پوچھا کرتے تھے یہ آپ نے کس دن کے لئے رکھا ہوا ہے اسے کیوں نہیں پہنتے۔اس پروہ یہی جواب دیتے کہ ابھی اس کے پہننے کا وقت نہیں آیا جب وقت آئے گا تب پہنوں گا۔ایک دن انہوں نے اپنے احباب کو بلایا اور ان سے کہا اب وقت آگیا ہے کہ میں اپنے محبوب کے پاس جاؤں اور یہ چونکہ خوشی کا دن ہے اس لئے جب میں مر جاؤں تو مجھے اچھی طرح غسل دے کر خوشبو لگانا اور یہ بیش قیمت لباس پہنچا کر دفن کر دینا۔
پس عید کے دن جو تبدیلی مومن اپنے ظاہری لباس وغیرہ میں کرتاہے اس کے یہی معنی ہوتے ہیں کہ وہ سمجھتاہے کہ چونکہ میرے باطن میں تبدیلی ہو چکی ہے اور میرا مولیٰ میرے گھر آنے لگاہے اس لئے مجھے خوشی منانی چاہیے۔اور خوشی کی تمام علامات ظاہر کرنی چاہئیں۔(خطبات محمود جلد ۱ صفحہ۱۸۳-۱۸۴۔ خطبہ عید الفطر فرمودہ۲۰؍فروری ۱۹۳۱ء بمقام عید گاہ قادیان۔ مطبوعہ الفضل۲۸؍فروری ۱۹۳۱ء)
عید کھانے پینے کا دن ہے
رسول کریم ﷺ نے اس عید کو کھانے کا دن فرمایا ہے اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس دن خوب پیٹ بھر کر کھایا جائے کیونکہ مومن اپنے ایک اندازہ سے زیادہ نہیں کھایا کرتا۔ حدیث میں آتاہے۔مومن اگر ایک انتڑی سے کھاتاہے تو کافر سات انتڑیوں سے کھاتاہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل کوایک دفعہ انتڑ یوں میں کچھ تکلیف ہو گئی اسہال کی شکایت تھی اس وجہ سے آپ دہی کھایا کرتے تھے۔اور صبح ہی صبح ادھ رڑ کا پیا کرتے تھے۔ والدہ صاحبہ نے بھینس رکھی ہوئی تھی آپ دہی بھیج دیا کرتی تھیں۔کبھی میر محمد اسحٰق صاحب اور کبھی میں لے جاتا تھا۔دہی سے نفح پیدا ہوتا ہے اس سے آپ کو ریح پیدا ہو گئی اور ہوا خارج ہونے لگی۔ ایک دفعہ مجھے یاد نہیں میں لے کر گیا تھا یا میر صاحب مگر اس دن آپ نے فرمایا آج سے میں اَدھ رِڑکا نہیں پیوں گا کیونکہ رات کو مجھے الہام ہوا ہے۔ بَطْنُ الْاَنْبِیَاءِ صَامِتٌ یعنی انبیاء کا پیٹ خاموش ہوتا ہے اس لئے انبیاء کی صفت سے حصہ لینے کے لئے میں دہی کا استعمال بند کرتا ہوں۔ سو مومن کی غذا ہمیشہ ہی کم ہوتی ہے۔پس عید کے دن کو کھانے کا دن کہنے سے یہ مراد نہیں کہ اس دن خوب پیٹ بھرو۔ یہ بات سنت انبیا ء کے خلاف ہے۔بلکہ مطلب یہ ہے کہ اس دن مومن یہ سمجھ کر کھاتا ہے کہ میرا خدا مجھے کھلاتا ہے اور اصل کھانا یہی ہے۔
سید عبدالقادر جیلانی ؒ کے متعلق آتا ہے انہوں نے فرمایا میں کھانا نہیں کھاتا جب تک خدا تعالیٰ مجھے الہام نہیں کرتا کہ اے عبد القادر! تجھے میری ہی ذات کی قسم کھا۔اسی طرح آپ بہت قیمتی لباس پہنا کرتے تھے۔لکھا ہے آپ کا ایک ایک جوڑا ہزار دینار یعنی قریباً چودہ ہزار روپیہ کی مالیت کا ہوتا تھا۔ اور آپ اسے بہت جلدی جلدی تبدیل کیا کرتے تھے۔آپ پر جب اعتراض کیا گیا کہ یہ اسراف ہے تو آپ نے فرمایا کہ میں تو کوئی کپڑا نہیں پہنتا جب تک میرا خدا مجھے نہیں کہتا کہ اے عبد القادر! تجھے میری ذات کی قسم ایسا کپڑا پہن۔اور نہیں کھاتا جب تک خدا تعالیٰ نہیں کھلاتا۔ اولیاء اللہ تو کبھی بھی خدا کے حکم کے بغیر نہیں کھاتے اور نہیں پہنتے لیکن یہ عید کا دن ایسا ہے جب ہر مومن کو خدا کھلاتا ہے۔ پس عید کے متعلق رسول کریمﷺ کا یہ فرمانا کہ یہ کھانے پینے کا دن ہے اس کا یہی مطلب ہے کہ اس دن مومن خدا کے حکم سے کھاتا پیتاہے نہ یہ کہ اس طرح پیٹ بھر کر کھاؤ جس طرح ہندو پانڈے کھاتے ہیں اور اصل کھانا یہی ہے جو خدا کے حکم سے کھایا جائے۔ ( خطبات محمود جلد ۱ صفحہ۱۸۷-۱۸۸۔ خطبہ عید الفطر فرمودہ۲۰؍ فروری ۱۹۳۱ء بمقام عید گاہ قادیان۔ مطبوعہ الفضل۲۸؍ فروری ۱۹۳۱ء)
مومن کے لئےعید کے دن کا کھانا خدا تعالیٰ کی طرف سے دعوت ہے
ہندوؤں میں برہمن کو کھلانا بہت ثواب سمجھا جاتا ہے۔ شرادھ کے دنوں میں امراءا نہیں خوب کھلاتے ہیں جب وہ خوب کھا چکیں توپھر ان کے لئے انعام مقرر کرتے ہیں مثلاً یہ کہ جتنے لڈو کوئی کھائے اتنے ہی روپے دئیے جاتے ہیں۔پھر فی لڈو دو روپیہ تین روپیہ دینے لگ جاتے ہیں۔یہ لوگ بھی کئی کئی مہینے قبل زیادہ کھانے کی مشق شروع کر دیتے ہیں۔ ان میں زیادہ شریف خاندان وہی سمجھا جاتا ہے جس میں زیادہ حادثات ایسے ہو چکے ہوں کہ زیادہ کھانے کی وجہ سے موت واقع ہو چکی ہو۔
ایک قصہ مشہور ہے کہتے ہیں ایک برہمنی ساس نے اپنی بہو سے کہا تیرا خاوند اور خُسر آئیں گے اور زیادہ کھانے کی وجہ سے وہ بیٹھ نہیں سکیں گے اس لئے ان کے آنے سے قبل بستر بچھا دو تاکہ وہ آتے ہی لیٹ جائیں۔اتنا سننا تھا کہ بہو چیخیں مار کر رونے لگ گئی اور بد دعائیں دینی شروع کر دیں کہ پرمیشور میرے ماں باپ کا بیڑا غرق کرے انہوں نے مجھے ذلیل کردیا۔ ساس بہتیرا چُپ کراتی اور رونے کا سبب دریافت کرتی مگر وہ زیادہ سے زیادہ شور مچاتی جاتی۔ ساس ہاتھ جوڑتی، پاؤں پڑتی اور دریافت کرتی کہ آخر میں نے کیا کہا جو تم اس طرح رو رہی ہو مگر وہ برابر روتی جاتی اور کوئی جواب نہ دیتی حتٰی کہ شور سن کر محلّہ کے لوگ جمع ہونے شروع ہو گئے اور انہوں نے بھی رونے کی وجہ پوچھنی شروع کی۔ بہت اصرار کے بعد اس نے بتایا کہ میری قسمت تو برباد ہو گئی کہ میں ایسے کمینے خاندان میں بیاہی گئی جس کے افراد شرادھ کھانے کے بعد پیدل چل کر گھر آ جاتے ہیں۔ ہمارے خاندان کے آدمی تو کھانے کے بعد چل ہی نہیں سکتے اور ڈولیوں میں پڑ کر آتے ہیں۔
اگرچہ ہندوؤں میں شرادھوں کی یہ حالت ہو گئی ہے لیکن معلوم ہوتا ہے یہ درحقیقت اسی نکتہ سے نکلے ہیں اور ان کا بھی کسی زمانہ میں وہی مفہوم تھا جو ہماری عید کے دن کھانے کا ہے کہ چونکہ اس دن کھانے پینے کا حکم خدا نے دیا ہے اس لئے اصل کھانا اسی دن کا ہے۔مگر لوگوں کی نا سمجھی سے اب یہ ایک عجیب سی رسم بن گئی ہے۔ دراصل حکم یہی ہو گا کہ خدا کے لئے کھاؤ لیکن جس طرح بیوقوف ملانوں نے عید کا یہ مفہوم سمجھ لیا کہ اتنا کھانا کھانا چاہئے کہ یا تخمہ ہو جائے یا ہیضہ۔ اسی طرح پنڈتوں نے بھی غلط سمجھ لیا۔دراصل شرادھ کا مطلب بھی یہی ہو گا۔
اور رسول کریم ﷺ کے اس ارشاد کا کہ یہ کھانے کا دن ہے یہی مطلب ہے کہ آج انسان خدا کے لئے کھاتا پیتا ہے یہ نہیں کہ اتنا کھاؤ کہ بدہضمی کی ڈکاریں آنی شروع ہوجائیں۔ اور عارف لوگ تو ایسے خوشی کے موقع پر اپنی مقدار کے لحاظ سے بھی کم کھاتے ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کا نزول ہو رہا ہوتا ہے اور ان کا خیال اس طرف لگا ہوتا ہے کھانے کی طرف ان کا ذہن کہاں جاتا ہے۔ حضرت مظہر جان جاناں دہلی کے ایک مشہور بزرگ گزرے ہیں ان کے متعلق لکھا ہے ایک دن کوئی شخص ان کے پاس بالائی کے لڈو لایا۔دہلی میں بالائی کے لڈو خاص طور پر بنتے ہیں جو بہت چھوٹے چھوٹے ہوتے ہیں۔انہوں نے ان میں سے دو لڈو اپنے ایک شاگر د کو دیئے کہ کھا لو۔تھوڑی دیر کے بعد پوچھا میاں لڈو کھا لیئے۔اس نے کہا وہ تو میں نے اسی وقت کھا لئے تھے۔آپ نے فرمایا کیا دونوں کھا گئے۔اس نے کہا وہ دونوں تھے ہی کتنے بڑے میں نے تو اسی وقت کھا لئے۔ان کی مقدار ہی کتنی ہوتی ہے۔بہت چھوٹے چھوٹے ہوتے ہیں۔دو لڈو ایک ہی دفعہ منہ میں ڈالے جا سکتے ہیں۔آپ نے فرمایا کہ معلوم ہوتا ہے تمہیں لڈو کھانے نہیں آتے۔ اس نے کہا پھر آپ سکھا دیجئے۔انہوں نے کہا پھر کبھی لڈو آئے تو یاد دلانا تمہیں لڈو کھانے سکھاؤں گا۔کچھ عرصہ کے بعد پھر لڈو آئے اور اس نے کہا حضور اب سکھایئے۔ آپ نے ایک رومال بچھایا۔ایک لڈو اس پر رکھ کر اس میں سے ایک چھوٹا سا ٹکڑا توڑا اور شاگرد سے کہا۔کیا تم نے کبھی سوچا کہ یہ لڈو کن چیزوں سے بنتا ہے۔اس میں گھی استعمال ہوتا ہے،شکر ڈالی جاتی ہے اور پھر دوسرے اجزاء کے نام لئے اور پھر پوچھا۔تمہیں معلوم ہے شکر کس طرح تیار ہوتی ہے؟ہزاروں لوگ اس کام پر لگے ہوتے ہیں۔اس کے لئے پہلی چیز زمین ہے۔جس میں نیشکر بویا جائے۔ بھلا انسان اسے پیدا کر سکتا ہے۔ہر گز نہیں۔مگر اللہ تعالیٰ نے اسے پیدا کیا۔پھر اگر زمین بھی ہوتی مگر اس میں نیشکر نہ پیدا ہو سکتا تو انسان کیا کر سکتا۔مگر خدا نے زمین میں یہ خاصیت رکھی کہ اس میں نیشکر پیدا ہو اور اس لئے رکھی کہ تا مظہر جان جاناں لڈو کھائے۔ لڈو تو آج میں کھا رہا ہوں مگر اس کی تیاری میں ایک عرصہ سے کئی لوگ لگے ہوئے تھے۔ایک زمیندار گنا بونے کے لئے راتوں کو جاگتا رہا،پہلے اس نے زمین میں قلبہ رانی کی،پھر اس میں بیج ڈالا، پھر اس کی آبپاشی کرتا رہا اس نے یہ ساری مصیبتیں اس لئے جھیلیں کہ تا مظہر جان جاناں لڈو کھا سکے۔اسی طرح لڈو کے دوسرے اجزاء کے متعلق بیان کرتے رہے کہ اتنے میں کسی نے آکر کہا عصر کی نماز کا وقت ہو گیا ہے۔اس پر آپ لڈو وہیں چھوڑ کراٹھ کھڑے ہوئے۔آخر وہ روز تو اس طرح نہ کھا سکتے تھے یہ تو سبق سکھایا ہے اور یوں تو اولیاء اللہ کا ہر کام ہی خدا تعالیٰ کے لئے ہوتا ہے اور وہ ہر وقت ہی اس کے احسانات یاد رکھتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کھانا کھاتے وقت انگلیوں سے روٹی کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے توڑتے جاتے تھے کوئی ٹکڑہ منہ میں بھی ڈال لیتے تھے گویا یوں معلوم ہوتا تھا کہ آپ دیکھتے ہیں ان میں سے حلال کونسا ریزہ ہے اور حرام کونسا اور ساتھ ہی ساتھ سبحان اللہ، سبحان اللہ کہتے جاتے۔ اصل بات یہی ہے کہ اولیاءاللہ کا ہر کام ہر وقت خدا تعالیٰ کے لئے ہی ہوتا ہے اور ان کے لئے ہر وقت ہی عید ہوتی ہے۔مگر اکثر بندے چونکہ غافل ہوتے ہیں اس لئے خدا تعالیٰ نے ایسا انتظام کر دیا کہ کچھ دن مجاہدہ کے رکھ دیئے اور پھر کہا۔ آج تمہارے اس مجاہدہ کی تکمیل میں تمہاری خوشی میں ہم بھی خوشی مناتے ہیں۔پس یہ عید ہے مومن کی اور اس کی حقیقی غرض یہی ہے کہ مومن یقین کر لیتا ہے کہ آج مجھے خدا مل گیا ہے اور آج میں جو کھانا کھاتا ہوں وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے دعوت ہے۔ (خطبات محمود جلد ۱ صفحہ۱۸۹ تا ۱۹۲۔ خطبہ عید الفطر فرمودہ۲۰؍ فروری ۱۹۳۱ء بمقام عید گاہ قادیان۔ مطبوعہ الفضل۲۸؍ فروری ۱۹۳۱ء)
ہم لوگ کس قسم میں سے ہیں اور ہماری عید کیسی ہے
ہمارے ملک میں ایک لطیفہ مشہور ہے کہ ایک لونڈی تھی جو رمضان کے دنوں میں باقاعدہ اٹھ کر سحری کھایا کرتی مگر روزہ نہیں رکھا کرتی تھی۔ایک دن اس کی مالکہ نے اسے کہا تو روزانہ سحری کے وقت اٹھتی ہے اور سحری کے باوجود روزہ نہیں رکھتی تجھے کیا ضرورت پڑی ہے کہ سحری کے وقت اٹھتی ہے۔ اس نے کہا بی بی!میں نماز نہیں پڑھتی، روزہ نہیں رکھتی،کیا سحری بھی نہ کھاؤں اور کافرہی ہو جاؤں۔ گویا اس کے نزدیک اسلام کے تین رکن تھے۔ نماز، روزہ اور سحری کھانا اگر پہلے دو رُکن نماز اور روزہ چھوٹ جاتے ہیں تب تو اسلام قائم رہتا ہے لیکن اگر تیسرا رکن سحری کھانا چھوٹ جائے تو انسان کا فر ہو جاتا ہے یہ ہے تو لطیفہ لیکن اگر غور کیا جائے تو بہت لوگ ایسے ہی ہوتے ہیں۔نمازیں وہ نہیں پڑھتے،روزے وہ نہیں رکھتے، مگر عید میں سب سے زیادہ خوشی مناتے بلکہ سب سے پہلے آکر شامل ہو جاتے ہیں۔ وہ عید مناتے ہیں اور پوری طرح مناتے ہیں، نہاتے ہیں،اچھے کپڑے پہنتے ہیں، بناؤ سنگھا ر کرتے ہیں، خوب کھاتے پیتے ہیں گویا جو کمی نمازوں اور روزوں کی وجہ سے ان کے ایمان میں رہ گئی تھی اسے عید کے روز کھانے، پینے اور عمدہ کپڑے پہننے سے پورا کرنا چاہتے ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ ہم نے اسلام کے ارکان کو پورا کر لیا۔
لیکن اس قسم کے دھوکوں کے ساتھ خدا تو دھوکے میں نہیں آ سکتا اور نہ ہی ہمارے نفس کو کچھ فائدہ ہو سکتا ہے۔پس ہمیں اپنے دلوں میں غور کرنا چاہیے کہ ہم لوگ کس قسم میں سے ہیں اور ہماری عید کیسی ہے۔( خطبات محمود جلد ۱ صفحہ۱۹۸-۱۹۹۔ خطبہ عید الفطر فرمودہ۹؍ فروری ۱۹۳۲ء بمقام عید گاہ قادیان۔ مطبوعہ الفضل۱۶؍ فروری ۱۹۳۲ء)
(باقی ہفتہ ۲۹؍ مارچ ۲۰۲۵ء کو ان شاء اللہ)
مزید پڑھیں: نمازجمعہ کی اہمیت