متفرق مضامین

ماحولیاتی تبدیلی۔ بھارت و پاکستان

(محمد فاروق سعید۔ لندن)

ماحولیاتی تبدیلی اس وقت دنیا کا سب سے سنگین مسئلہ بن چکا ہے اور جنوبی ایشیا جیسے خطے میں اس کے اثرات نہایت شدید ہیں۔ بھارت اور پاکستان، جو مجموعی طور پر ۱.۷؍ بلین سے زائد آبادی کا گھر ہیں، بڑھتے ہوئے درجہ حرارت، غیرمتوقع موسمیاتی تبدیلیوں اور ماحولیاتی انحطاط کے باعث سخت مشکلات کا شکار ہیں۔

۲۰۲۲ء میں پاکستان کو تباہ کن سیلاب کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ تاریخ کے مہلک ترین سیلابوں میں سے ایک تھا۔ جس کے نتیجے میں ملک کا ایک تہائی حصہ زیرِ آب آگیا۔ ۳.۳؍کروڑ افراد بےگھر ہوئے اور قریباً تیس ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔ جس کی وجہ سے اسے دنیا کی تاریخ کی مہنگی ترین قدرتی آفات میں سے ایک قرار دیا گیا۔

World Weather Attribution یعنی WWA کی ۲۰۲۲ء کی ایک تحقیق کے مطابق بارش کی شدت میں پچاس فیصد اضافہ ہوا، اور اس تباہی اور بارش کی شدت میں اضافے کا تعلق عالمی سطح پر درجہ حرارت میں اضافے سے جڑا ہے۔اسی طرح بھارت کو ۲۰۲۲۔۲۳ءمیں جان لیوا گرمی کی لہروں کا سامنا کرنا پڑاجہاں دہلی اور پنجاب کے کچھ علاقوں میں درجہ حرات ۴۹؍ڈگری سینٹی گریڈ سے تجاوز کر گیا۔ ۱۹۰۱ء کے بعد فروری ۲۰۲۳ء گرم ترین مہینہ ریکارڈ ہوا۔

بین الحکومتی پینل برائے ماحولیاتی تبدیلی (IPCC) کی ایک تحقیق کے مطابق انسانی سرگرمیوں سے ہونے والی ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے ایسی Heatwaves کا امکان اب تیس گنا بڑھ چکا ہے۔ (IPCC-2023)

اس کے علاوہ Amphan 2022 اور Tauktae 2021 جیسے طوفانوں کی شدت میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ ان طوفانوں کی وجہ سے لاکھوں افراد بے گھر ہوئے اور علاقوں کے بنیادی ڈھانچے کو شدید نقصان پہنچا۔

زرعی شعبہ جو کہ ان دونوں ممالک کی چالیس فیصد سے زائد آبادی کو روزگار فراہم کرتا ہے، ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے بہت زیادہ نقصان کا سامنا کر رہا ہے۔بے ترتیب مون سون اور خشک سالی کی وجہ سے فصلوں کی پیداوار میں کمی واقع ہو رہی ہے۔۲۰۲۳ء میں نیچر کلائمیٹ چینج میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق جنوبی ایشیا کے درجہ حرارت میں ہر۱یک ڈگری سینٹی گریڈ کے اضافے سے گندم کی پیداوار میں ۱۰ سے ۱۵؍فیصد تک کمی ہو سکتی ہے جس سے خوراک کا تحفظ خطرے میں پڑسکتا ہے (Jägermeyr et al. 2023)

پاکستان میں ۲۰۲۲ء کے سیلاب نے ۴۰؍لاکھ ایکڑ پر کھڑی فصلیں تباہ کر دیں۔ جن میں سندھ کی ۸۰؍فیصد بنیادی فصلیں تھیں۔ دوسری جانب بھارتی پنجاب زیرِ زمین پانی کی شدید قلت کا شکار ہے۔ ’’ناسا‘‘ کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ اِس علاقے میں سالانہ آبی ذخائر کی سطح میں ۳؍اعشاریہ ۲؍ سینٹی میٹر کمی ہورہی ہے۔

ہمالیائی گلیشیئر جو سندھ اور گنگا دریاؤں کے لیے زندگی کی حیثیت رکھتے ہیں، خطرناک حد تک تیزی سے پگھل رہے ہیں۔مزید برآں پنجاب اور ہریانہ میں زیرِ زمین پانی کے بےتحاشا استعمال نے قلت کو مزید سنگین بنا دیا ہے۔ ورلڈ بینک کے مطابق پانی کی قلت کی وجہ سے بھارت کو ۲۰۵۰ء تک جی ڈی پی کے ۶؍فیصد کے نقصان کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔(World bank, 2023)

ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث دونوں ممالک کے اندر علاقائی نقل مکانی میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ اور ورلڈ بینک کے مطابق ۲۰۵۰ء تک جنوبی ایشیا میں چارکروڑ افراد ماحولیاتی وجوہات کی بنا پر اپنے آبائی گھروں سے محروم ہوسکتے ہیں۔عورتیں، بچے اور دیگر پسماندہ طبقات اس بحران کے بوجھ تلے سب سے زیاہ پس جائیں گے۔

ماحولیاتی آفات سے ہونے والے معاشی نقصانات دونوں ممالک کے ترقیاتی عمل پر شدید دباؤ ڈالتے ہیں۔اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام (UNDP) کے مطابق صرف ۲۰۲۲ءمیں پاکستانی سیلاب نے ملک کی ۹؍فیصد جی ڈی پی کو نقصان پہنچایا تھا۔بڑھتے ہوئے درجہ حرارت اور آلودگی سے صحت عامہ بھی خطرات کا شکار ہے۔ بھارت میں ۲۰۱۰ء سے ۲۰۲۰ء کے درمیان ۶۵۰۰؍سے زیادہ افراد گرمی سے متعلقہ وجوہات کی بنا پر ہلاک ہوئے۔ اور اندازے بتاتے ہیں کہ ۲۰۵۰ء تک یہ شرح ڈھائی گنا بڑھ سکتی ہے(Lancet Countdown, 2024)

پاکستان کے شہری مراکز خصوصاً کراچی اور لاہور بھی اسی طرح کے خطرات سے دوچار ہیں۔ ماحولیاتی تبدیلی سے پیدا ہونے والے گرد و مٹی کے طوفان اور فصلوں کی باقیات کو جلانے جیسے عوامل جنوبی ایشیا میں فضائی آلودگی کو مزید بڑھا رہے ہیں ۔ جس کے نتیجے میں ہر سال ۲۰؍لاکھ افراد قبل از وقت موت کا شکار ہو رہے ہیں۔ مزید برآں گرم موسم میں حشرات کی وجہ سے پھیلنے والی بیماریوں Vector-born diseases میں اضافہ ہو رہا ہے۔بھارت میں ڈینگی کے کیسز ۲۰۱۵ء سے ۲۰۲۲ء کے درمیان ۳۰۰؍فیصد بڑھ چکے ہیں۔ (National Health Profile, 2023)

ان ممالک میں جنگلات کو کاٹا جا رہا ہے، ایسی گاڑیوں کی تعداد بہت زیادہ ہے جو بہت زیادہ مقدار میں دھواں خارج کرتی ہیں،فصلوں کو تلف کرنے کے مناسب انتظامات نہیں اور اس وجہ سے بھارت اور پاکستان میں ہر سال سموگ میں اضافہ ہو رہا ہے۔

لاہور اور دہلی کا شمار ان شہروں میں کیا جاتا ہے جہاں ہر سال لاکھوں لوگ سموگ کی وجہ سے نزلہ ، زکام ، کھانسی، پھیپھڑوں کا کینسر،دمہ اور آنکھوں کی جلن کا شکار ہوتے ہیں۔

بھارت اور پاکستان نے موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے مختلف اقدامات کیے ہیں، جیسے بھارت کا ’’نیشنل ایکشن پلان برائے ماحولیاتی تبدیلی‘‘ اور پاکستان کا ’’لیونگ انڈس انیشی ایٹو‘‘۔ تاہم انفرادی اقدامات کافی نہیں ہیں۔ جنوبی ایشیا کے لیے ماحولیاتی بحران ایک فوری حقیقت ہے، جس سے نمٹنے کے لیے اجتماعی کوششوں کی ضرورت ہے۔

اگر دونوں ممالک ماحولیاتی مسائل پر ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کریں، پانی کے ذخائر کی منصفانہ تقسیم، قابل تجدید توانائی کے فروغ اور جنگلات کے تحفظ جیسے اقدامات اٹھائیں، تو یہ بحران کم ہو سکتا ہے۔ مشکل ضرور ہے، مگر ناممکن نہیں۔

مزید پڑھیں: دانتوں کی صفائی۔ ایک اہم ضرورت

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button