جلسہ یوم مسیح موعودؑ کے اغراض و مقاصد اور اس میں شمولیت کےفوائد
وقت تھا وقت مسیحا نہ کسی اور کا وقت
میں نہ آتا توکوئی اور ہی آیا ہوتا
(درثمین)
خدا تعالیٰ قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے : ہُوَ الَّذِیۡ بَعَثَ فِی الۡاُمِّیّٖنَ رَسُوۡلًا مِّنۡہُمۡ یَتۡلُوۡا عَلَیۡہِمۡ اٰیٰتِہٖ وَیُزَکِّیۡہِمۡ وَیُعَلِّمُہُمُ
الۡکِتٰبَ وَالۡحِکۡمَۃَ٭وَاِنۡ کَانُوۡا مِنۡ قَبۡلُ لَفِیۡ ضَلٰلٍ مُّبِیۡنٍ(الجمعۃ:۴)
وہی ہے جس نےاُمی لوگوں میں انہی میں سے ایک عظیم رسول مبعوث کیا۔ وہ اُن پر اس کی آیات کی تلاوت کرتا ہے اور انہیں پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب کی اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے جبکہ اس سے پہلے وہ یقیناً کھلی کھلی گمراہی میں تھے۔
۲۳؍ مارچ کا دن جماعت احمدیہ میں خاص اہمیت کا حامل ہے۔ ۱۸۸۹ءمیں اسی دن حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حضرت صوفی احمد جان رضی اللہ عنہ کے مکان بمقام لدھیانہ میں چالیس مخلص فدائین کی بیعت لے کر اس عظیم الشان جماعت کی بنیاد رکھی جس کے متعلق حدیث میں ان الفاظ میں ذکر آتا ہے کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ ٖوسلم پر سورت جمعہ نازل ہوئی۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وَاٰخَرِیۡنَ مِنۡہُمۡ لَمَّا یَلۡحَقُوۡا بِہِمۡ پڑھی (جس کے معنی یہ ہیں کہ کچھ بعد میں آنےوالے لوگ بھی ان صحابہ میں شامل ہوں گے جو ابھی ان کے ساتھ نہیں ملے) تو ایک شخص نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم یہ کون لوگ ہیں؟ (جو درجہ تو صحابہ کا رکھتے ہیں لیکن ابھی ان میں شامل نہیں ہوئے) حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نےاسے جواب نہ دیا۔ یہاں تک کہ اس نے ایک یا دو یا تین مرتبہ آپ سےپوچھا۔ وہ (حضرت ابو ہریرہؓ) بیان کرتے ہیں ہم میں سلمان فارسی رضی اللہ عنہ بھی تھے۔ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ ٖوسلم نے اپنا ہاتھ ان کے کندھے پر رکھا اور فرمایا اگر ایمان ثریا پر بھی ہو تو ان میں سے کچھ جوان مرد اسے پا لیں گے۔
( مسلم کتاب فضائل 4605۔ بحوالہ حدیقۃ الصالحین، آن لائن ایڈیشن 2019ء، صفحہ 755، حدیث نمبر 950)
یعنی آخرین سے مراد ابنائے فارس ہیں جن میں سے مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ہوں گے اور ان پر ایمان لانے والے صحابہ رضی اللہ عنہ کا درجہ پائیں گے۔
جماعت احمدیہ ۲۳؍مارچ کویوم مسیح موعودؑ نہ صرف لوگوں کو اللہ تعالیٰ کے افرادِجماعت پرافضال کی یا د دلانے، اس کی نعمت عظمیٰ کا چرچا کرنے اور اس نعمت کے ملنے کی خوشی میں مناتی ہے بلکہ وہ یہ دن اسلام کی نشاةٔ ثانیہ کے دن کے طور پربھی مناتی ہے۔ تا دس شرائط بیعت کے اس عہد کو پھر سے تازہ کریں اور اپنی زندگی میں اس روز کی بیعت توبہ کے مطابق ایک تبدیلی پیدا کریں تااسلام کا انقلاب جلد رونما ہو۔ اگر اس حقیقی اور سچی توبہ کا دن کسی انسان کو نصیب ہوجائے تویہ دن اس کی زندگی کی سب سے بڑی عید بن جائے۔
اسی تاریخی دن کی یاد میں دنیا کے دو سو سے زائد ممالک میں قائم جماعت احمدیہ جلسہ یوم مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام مناتی ہے۔ ان جلسوں کا مقصد جہاں اس تاریخی دن کو یاد کرنا ہوتا ہےوہیں یہ جلسہ جات اس بات کا ثبوت بھی پیش کرتے ہیں کہ کس طرح خدائی وعدوں اور تائیدات کے ساتھ قادیان کے دور دراز علاقہ سےاٹھنے والی آواز آج تمام شش جہات میں گونج رہی ہے اور دل خداکی حمد سے بھر جا تا ہے۔
میں تھا غریب و بے کس و گمنام بے ہنر
کوئی نہ جانتا تھا کہ ہے قادیاں کدھر
اب دیکھتےہو کیسا رجوع جہاں ہوا
اک مرجع خواص یہی قادیاں ہوا
(درثمین)
مقام غورہے کہ ہم یوم مسیح موعود علیہ السلام کیوں مناتے ہیں ؟
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں :
”جماعت احمدیہ میں یہ دن اس وجہ سے یاد رکھا جاتا ہے کہ اس دن جماعت کی بنیاد پڑی اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بیعت لی۔ پس ہمیں یہ دن ہر سال یہ بات یاد دلانے والا ہونا چاہیے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آمد کا مقصد قرآنی پیشگوئیوں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں کے مطابق تجدیدِ دین کرنا اور اسلام کی حقیقی تعلیم کو دنیا میں رائج کرنا ہے۔ اور ہم جو آپؑ کی بیعت میں شامل ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں ہم نے بھی اس اہم کام کی سرانجام دہی کے لیے اپنی اپنی صلاحیتوں کے مطابق اس میں حصہ دار بننا ہے اور بھٹکی ہوئی انسانیت کا تعلق خدا تعالیٰ سے جوڑنا ہے اور بندوں کو ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے کی طرف توجہ دلانی ہے اور ظاہر ہے اس کے لیے سب سے پہلے ہمیں اپنی اصلاح کرنی ہو گی … پس ہمیں ہر وقت ان باتوں کو سامنے رکھنا چاہیے تا کہ من حیث الجماعت ہم ترقی کرنے و الے ہوں نہ کہ نیچے گرنا شروع ہو جائیں۔ آپؑ نے اپنی بعثت اور صداقت کے بارے میں خدا کو گواہ بنا کر اعلان فرمایا ہے جو یقیناً ہمارے ایمانوں کو تقوّیت بخشتا ہے۔ اگر ہم ان باتوں کی جگالی کرتے رہیں اور ہر وقت سامنے رکھیں تو یقیناً یہ ہمارے ایمان میں ترقی کا باعث بنتی رہیں گی اور ہمیں اپنے مقصد کی طرف توجہ دلاتی رہیں گی۔“
(خطبہ جمعہ ۲۶؍ مارچ ۲۰۲۱ء، الفضل انٹرنیشنل ۲۲؍ مارچ ۲۰۲۵ء،صفحہ ۹)
لیکن جہاں یہ جلسہ جات ہم سب کوخدا تعالیٰ کےفضلوں اوراحسانات کو یاد کرنے کا ذریعہ بنتے ہیں وہیں ہمیں اپنا جائزہ لینے کاموقع بھی فراہم کرتے ہیں کہ اس جماعت کا رکن ہونے کے ناطے سےہم اپنی ذمہ داریوں کو کس حدتک پورا کر رہے ہیں۔
جلسہ یوم مسیح موعودؑ منانے کی اصل غرض اور ان میں شمولیت کاسب سے بڑا فائدہ بھی یہی ہے کہ ان میں شامل ہونے سے ہمیں اپنےاندر جھانکنے کا موقع ملتا ہے کہ کیاہم اپنے عہد کو نبھانے والے ہیں؟ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی بنصرہ العزیز اس حوالے سے نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
”پس ہر احمدی کو ہم میں سے ہر ایک کو اپنا جائزہ لینا چاہیے کہ اگر ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مانا ہے تو کیا اس ماننے اور بیعت کا حق اداکرنے والے بھی ہیں؟ اکثر میرے جائزے سےیہ بات سامنے آتی ہے میں نے دیکھا ہے کہ ہم میں سے کئی ایسے ہیں جو نمازیں بھی پوری طرح ادا نہیں کرتے۔ نمازوں کی طرف توجہ ہی نہیں ہے۔ استغفار کی طرف تو بعضوں کی بالکل توجہ نہیں۔ ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے کی طرف توجہ نہیں۔ اگر یہ حالت ہے تو ہم کس طرح کہہ سکتے ہیں کہ ہم اعمال صالحہ بجا لانے والے ہیں، ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کا حق ادا کرنے والے ہیں۔ پس بڑی فکر سے ہم میں سے ہرایک کو اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ کرے کہ ہم صرف رسمی طور پر یوم مسیح موعود منانے والے نہ ہوں، بلکہ مسیح موعودؑ کو قبول کرنے کا حق ادا کرنے والے ہوں۔ اور ہر قسم کے اندرونی اوربیرونی فتنوں سے بچنے والے ہوں۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ ہمیں اپنی پناہ میں رکھے اور ہر بلا اور ہر مشکل سے بچائے۔“ (بحوالہ خطبہ جمعہ مورخہ۲۳ ؍مارچ۲۰۱۸ء،الفضل انٹرنیشنل۱۳؍اپریل ۲۰۱۸ء،صفحہ ۹)
خدا تعالی ٰہمیں اس دن کی اہمیت کو سمجھنے اور اس ضمن میں اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے والا بنائے۔ آمین ثم آمین۔
یارو مسیح وقت کہ تھی جن کی انتظار
رہ تکتے تکتے جن کی کروڑوں ہی مر گئے
پُر کر گئے فلاح سے جھولی مراد کی
دامانِ آرزو کو سعادت سے بھر گئے
(کلام محمود)
مزید پڑھیں: 23؍مارچ کا دن جماعت احمدیہ میں یوم مسیح موعود کے نام سے جانا جاتا ہے