خلاصہ خطبہ جمعہ

رمضان المبارک کے اختتام کی مناسبت سے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کے پُر معارف ارشادات کی روشنی میں احباب جماعت کو زرّیں نصائح۔ خلاصہ خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۸؍مارچ ۲۰۲۵ء

(ادارہ الفضل انٹرنیشنل)

٭…جن لوگوں کو اس رمضان میں عبادات کی توفیق ملی ہے ان کا اب یہ فرض ہے کہ ان نیکیوں کو جاری رکھیں، اس کے لیے دعا بھی کریں اور کوشش بھی

٭… اس جماعت میں اگر داخل ہوئے ہو تو اس کی تعلیم پر عمل کرو۔
جماعت میں داخل ہونے کے بعد تکلیفیں بھی پہنچتی ہیں۔ اگر تکلیفیں نہ پہنچیں تو ثواب کیونکر ہے(حضرت مسیح موعودؑ)

٭… ہماری جماعت میں تو وہی داخل ہوتا ہے جو ہماری تعلیم کو اپنا دستور العمل قرار دیتا ہے (حضرت مسیح موعودؑ)

٭… اگر تباہی آنی ہی ہے تو اللہ تعالیٰ ایمان والوں کو اس تباہی سے بچائےاور اس بچنے کےلیے ضروری ہے کہ ہم اپنے اعمال اس نہج پر ڈھالیں،اس طرح اپنے اعمال بجا لائیں کہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہم پر ہمیشہ رہے

خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۲۸؍مارچ ۲۰۲۵ء بمطابق ۲۸؍ امان ۱۴۰۴؍ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ(سرے)، یوکے

اميرالمومنين حضرت خليفةالمسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيز نے مورخہ ۲۸؍مارچ۲۰۲۵ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، يوکے ميں خطبہ جمعہ ارشاد فرمايا جو مسلم ٹيلي وژن احمديہ کے توسّط سے پوري دنيا ميں نشرکيا گيا۔جمعہ کي اذان دينےکي سعادت مولانا فیروز عالم صاحب کے حصے ميں آئي۔

تشہد،تعوذاور سورة الفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورِانور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنےفرمایا:

اللہ تعالیٰ نے ہمیں توفیق دی کہ ہم اس رمضان میں سے گزرے، اور آج اس رمضان کا آخری جمعہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کا یہ احسان ہے کہ اُس نے ہم میں سے اکثر کو روزے رکھنے اور عبادات کی توفیق دی۔ لیکن اس کے ساتھ ہی

ہمیں اس طرف بھی توجہ دینی چاہیے کہ صرف رمضان کے روزے رکھنے اور عبادات سے ہمارا مقصد پورا نہیں ہوگیا بلکہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ ہدایت فرمائی ہے کہ تم نے مستقل میرے عابد بننا ہے۔ پس جن لوگوں کو اس رمضان میں عبادات کی توفیق ملی ہے ان کا اب یہ فرض ہے کہ ان نیکیوں کو جاری رکھیں، اس کے لیے دعا بھی کریں اور کوشش بھی۔

جس طرح رمضان اہم ہے، اسی طرح ہر نماز اور جمعہ اہم ہے۔ یہ نہیں کہ رمضان کا آخری جمعہ ہے تو بابرکت ہے، ایسا نہیں! ہر جمعہ اہم اور بابرکت ہے۔ اس زمانے میں اللہ تعالیٰ نے حضرت اقدس مسیح موعودؑ کو بھیجا اور ہمیں انہیں ماننے کی توفیق ملی ہے، آپؑ نے ہمیں سمجھایا ہے کہ کس طرح ہم ایک اچھے مومن اور آنحضرتﷺ کے ایک اچھے امتی بن سکتے ہیں۔ آپؑ ایک موقعے پر فرماتے ہیں کہ

مَیں نے بارہا اپنی جماعت کو کہا ہے کہ تم میری اس بیعت پر ہی بھروسہ نہ کرنا،اس کی حقیقت تک جب تک نہ پہنچو گےتب تک نجات نہیں۔ اگر مرید خود عامل نہیں تو پیر کی بزرگی اسے کچھ فائدہ نہیں دیتی۔

فرمایا :مَیں نے ایک کتاب لکھی ہے کشتی نوح، اس کتاب کو باربار پڑھو۔ اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے کہ وہ آدمی کامیاب ہوگیا جو پاک ہوگیا، جب اس پر عمل کروگے تب ہی فائدہ ہوگا۔ ہزاروں چور، زانی، بدکار،شرابی، بدمعاش یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ آنحضرتﷺ کی امت سے ہیں، مگر کیا درحقیقت وہ ایسے ہیں؟ کیا وہ حق رکھتے ہیں کہ آنحضرتﷺ کے امتی کہلا سکیں؟ ہرگز نہیں۔ امتی وہی ہے جو آنحضرتﷺ کی تعلیمات پر پورا عمل کرے۔

آپؑ نے فرمایا کہ

اس جماعت میں اگر داخل ہوئے ہو تو اس کی تعلیم پر عمل کرو۔ جماعت میں داخل ہونے کے بعد تکلیفیں بھی پہنچتی ہیں۔ اگر تکلیفیں نہ پہنچیں تو ثواب کیونکر ہے۔

پیغمبرِ خداﷺ نے مکّے میں تیرہ برس تک دکھ اٹھائے اور تمہیں تو پتا ہی نہیں کہ اس زمانے کی تکلیفیں کیا تھیں۔ پس ہمیشہ یاد رکھو کہ تکلیفیں تو پہنچتی ہی ہیں مگر جب یہ تکلیفیں آنحضرتﷺ اور صحابہؓ  کو پہنچ رہی تھیں اس وقت بھی آنحضرتﷺ نے صبر کی تعلیم دی۔ اس کا نتیجہ کیا نکلا؟ اس کا نتیجہ یہی نکلا کہ آخر دشمن فنا ہوگیا ۔ تم دیکھو گے کہ یہ جو شریر لوگ ہیں، یہ اُس وقت نظر نہیں آئیں گے ۔

اللہ تعالیٰ نے ارادہ کرلیا ہے کہ وہ اس جماعت کو دنیا میں پھیلائےگا، یہ لوگ تمہیں تھوڑے دیکھ کر دکھ دیتے ہیں مگر جب جماعت وسیع ہوجائے گی تو یہ خود ہی چپ ہوجائیں گے۔ یہی دنیا میں اُصول رہا ہے اور یہی ہم نے نبیوں کی جماعت کی تاریخ دیکھی ہے۔

حضورؑ نے فرمایا کہ صبر بھی ایک عبادت ہے…ہماری جماعت خدا کی حمایت میں ہے اور دکھ اٹھانے سے ایمان قوی ہوجاتا ہے، صبر جیسی کوئی شے نہیں ہے۔

حضرت اقدس مسیح موعودؑ نے تقویٰ کے متعلق نصیحت کرتے ہوئےفرمایا کہ یہ توتاریخ بتاتی ہے کہ اوائل میں جو سچا مسلمان ہوتا ہے اسے صبر کرنا پڑتا ہے، صحابہؓ پر بھی ایسا زمانہ آیا… جب انسان تقویٰ اختیارکرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اُس کے لیے دروازے کھول دیتا ہے۔

پھر آپؑ نے حقوق العباد کے متعلق فرمایا کہ

آپس میں مِل جُل کے بیٹھو، جس قد ر تم آپس میں ایک دوسرے سے محبت کروگے اُسی قدر اللہ تعالیٰ تم سے محبت کرے گا۔

ایک جگہ آپؑ نے نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ

ہماری جماعت کے لیے ضروری ہے کہ اس پُر آشوب زمانے میں جبکہ ہر طرف ضلالت اور غفلت اور گمراہی کی ہوا چل رہی ہے تقویٰ اختیار کریں۔

حضورِانور نے فرمایا کہ آج کے دَور میں کون سا ذریعہ ہے جو برائی کی طرف لے جانے کےلیے استعمال نہیں ہورہا، ایسے دَور میں ہمارا فرض ہے کہ ہم ان گناہوں کی راہ سے بچنے کی کوشش کریں۔

فرمایا کہ تقویٰ ایسی شے نہیں جو صرف منہ سے حاصل ہوجائے، بلکہ شیطان بہکاتا ہے اور تقویٰ کرنے والوں کو بھی پتا ہوتا ہے۔ اسی سےانسان کی کمزوری کا معلوم ہوتا ہے۔پس تقویٰ پر چلنے والوں کو بہت پھونک پھونک کر قدم اٹھانا پڑتا ہے، یہ اُسی وقت ہوسکتا ہے جب انسان کو یقین ہوکہ سب طاقتوں کا سرچشمہ خدا تعالیٰ کی ذات ہے۔ فرمایاکہ متقی بننے کے لیے ضروری ہے کہ بعد اس کے کہ موٹی باتوں جیسے کہ زنا، چوری، تلفِ حقوق، ریا ،عجب، حقارت، بخل کے ترک میں پکّاہو ، اخلاقِ رذیلہ سے پرہیزکرکےان کے بالمقابل اخلاقِ فاضلہ میں ترقی کرے۔ مگر صرف اتنا کافی نہیں بلکہ ضروری ہے کہ اس کے مقابلے میں اچھے اخلاق پیدا ہوں تو پھر اصل تقویٰ ہے۔

نیکیوں میں آگے بڑھنے کے لیے جو دیگر چیزیں ضروری ہیں اُن میں لوگوں کے ساتھ مروت سے پیش آنا، خوش خلقی دکھانا، ہمدردی کرنا، پھرخدا تعالیٰ کے ساتھ سچی وفا اور صدق دکھانا، ان باتوں سے انسان متقی کہلاتا ہے۔ حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں کہ ایسے لوگوں کا خدا تعالیٰ خود متولی ہوجاتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ خود فرماتا ہے کہ اُن پر کوئی خوف نہیں ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔ ایک اور جگہ فرمایا کہ وہ نیک لوگوں کاہی کفیل بنتا ہے۔

حضورؑ فرماتے ہیں اپنے دلوں میں خدا تعالیٰ کی محبت اور عظمت کا سلسلہ جاری رکھو اور اس کے لیے نماز سے بڑھ کر اور کوئی شے نہیں۔

اصل چیز یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور اپنی نیکیاں پیش کی جائیں اور اُس کا حق ادا کیا جائےاور اس کے لیے سب سے اعلیٰ چیز نماز ہے۔

حضورِ انور نے فرمایا کہ رمضان میں سےہم گزرے، نمازوں کی حالت میں سے ہم گزرے، نیکیوں کی حالت سے ہم گزرے، اب ان کو رمضان کے بعد جاری رکھنا، اللہ تعالیٰ کی رحمت کو جذب کرنے کےلیے ضروری ہے۔

حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا کہ روزے تو ایک سال کے بعد آتے ہیں، زکوٰة صاحبِ مال کو دینی پڑتی ہے ، وہ بھی ایک نیکی ہے،مگر نماز ہے کہ ہر ایک حیثیت کے آدمی کو پانچ وقت اداکرنی پڑتی ہے، اسے ہرگز ضائع نہ کرو ، اسے باربار پڑھو اور اس خیال سے ادا کرو کہ مَیں ایسی طاقت والے کے سامنے کھڑا ہوں کہ اگر اس کا رادہ ہو تو ابھی قبول کرلے۔

حضورؑ نے فرمایا کہ ہماری جماعت کے لیے اسی بات کی ضرورت ہے کہ اُن کا ایمان بڑھے، اللہ تعالیٰ پر سچا یقین اور معرفت پیدا ہو، نیک اعمال میں سستی اور کسل نہ ہو، کیونکہ اگرسستی ہو تو پھر وضو کرنا بھی ایک مصیبت لگتا ہے چہ جائیکہ وہ تہجد پڑھے۔ اگر اعمالِ صالحہ کی قوت پیدا نہ ہو اور مسابقت بالخیرات کے لیے جوش نہ ہو تو ہمارے ساتھ تعلق پیدا کرنا بےفائدہ ہے۔ فرمایا:

ہماری جماعت میں تو وہی داخل ہوتا ہے جو ہماری تعلیم کو اپنا دستور العمل قرار دیتا ہے اور اپنی ہمت اور کوشش کے موافق اس پر عمل کرتا ہے

اور جو محض نام رکھ کر تعلیم کے مطابق عمل نہیں کرتا وہ یاد رکھے کہ خدا تعالیٰ نے اس جماعت کو ایک خاص جماعت بنانے کا فیصلہ کیا ہے اور کوئی آدمی محض نام لکھوانے سے جماعت میں نہیں رہ سکتا۔ اس لیے جہاں تک ہوسکے اپنے اعمال کو اُس تعلیم کے مطابق کرو جو دی جاتی ہے۔ فرمایا کہ اعمال پروں کی طرح ہیں بغیر اعمال کے انسان روحانی مدارج کےلیے پرواز نہیں کرسکتا۔

خدا تعالیٰ کے ساتھ محبت سے کیا مراد ہے؟ حضورؑ فرماتے ہیں کہ اس سے یہی مراد ہے کہ اپنے والدین اور اپنی جورو اور اپنی اولاد اور اپنے نفس ہر چیز پر اللہ تعالیٰ کی رضا کو مقدم کرلیا جائے۔ اسی لیے قرآن کریم میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کو ایسا یاد کرو جیسا کہ تم اپنے باپوں کو یاد کرتے ہو بلکہ اس سے بھی زیادہ اور سخت درجے کی محبت سے یادکرو۔

حضورِانور نے فرمایا کہ اس رمضان میں جہاں ہم نے اعلیٰ اخلاق اور عبادات کی طرف توجہ کی ہے تو یہ توجہ اب سارا سال جاری رہنی چاہیے،

یہ کوشش رمضان کے ساتھ ختم نہیں ہونی چاہیے بلکہ سارا سال جاری رہنی چاہیے۔

جب یہ کوشش سارا سال جاری رہے گی تو تب ہی ہم اُس مقصد کو پانے والے ہوسکتے ہیں جو ہماری پیدائش کا حقیقی مقصد ہے۔

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں کہ اگر دنیا داروں کی طرح رہو گے تو اس سے کچھ فائدہ نہیں ہوگا۔ تم نے میرے ہاتھ پر توبہ کی ہے ، میرے ہاتھ پر توبہ کرنا ایک موت کو چاہتا ہے تاکہ تم نئی زندگی میں ایک اور پیدائش حاصل کرو۔ بیعت اگر دل سے نہیں تو کوئی نتیجہ اس کا نہیں، میری بیعت سے خدا دل کا اقرار چاہتا ہے ۔ پس جو سچے دل سے مجھے قبول کرتا ہے ، اپنے گناہوں سے سچی توبہ کرتا ہے غفور الرحیم خدا اس کے گناہوں کو ضرور بخش دیتا ہے اور وہ ایسا ہوجاتا ہے جیسے ماں کے پیٹ سے نکلا ہے، تب فرشتے اس کی حفاظت کرتے ہیں۔ اگر ایک گاؤں میں ایک نیک آدمی ہوتو اللہ تعالیٰ اس نیک کی رعایت اور خاطرسے اس گاؤں کو تباہی سے محفوظ کرلیتا ہے۔ مگرجب تباہی آتی ہے توپھر سب پرپڑتی ہے مگر پھر بھی وہ اپنے بندوں کوکسی نہ کسی نہج سے بچا لیتا ہے۔

حضورِانور نے خطبے کے آخر میں فرمایا کہ پس آج کل جو دنیا کے حالات ہیں اُن میں جہاں ہم اپنے آپ کو اور اپنی نسلوں کو بچانے کے لیے کوشش کریں وہیں دنیا کو بچانے کے لیے بھی کوشش کریں، دنیا کو آنحضرتﷺ کے جھنڈے کے نیچے لانے کےلیے کوشش کریں۔دنیا بڑی تیزی سے تباہی کی طرف جارہی ہے، اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو دنیا کو اس تباہی سے بچانے کے سامان پیدا کرسکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اگر چاہے تو دنیا کے دل پھیر دے اور انہیں تباہی سے بچا لے۔ لیکن اگر تباہی آنی ہی ہے تو

اللہ تعالیٰ ایمان والوں کو اس تباہی سے بچائے اور اس سے بچنے کےلیے ضروری ہے کہ ہم اپنے اعمال اس نہج پر ڈھالیں اس طرح اپنے اعمال بجا لائیں کہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہم پر ہمیشہ رہے۔

٭…٭…٭

مزید پڑھیں: ۲۳؍مارچ کی مناسبت سے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کے پُر معارف ارشادات کی روشنی میں مسیح موعود کی بعثت کا تذکرہ نیز پاکستانی احمدیوں اور امت مسلمہ کے لیے دعاؤں کی تحریک۔ خلاصہ خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۱؍مارچ ۲۰۲۵ء

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button