بنیادی مسائل کے جوابات

بنیادی مسائل کے جوابات (قسط ۹۳)

(مرتبہ:ظہیر احمد خان۔انچارج شعبہ ریکارڈ دفتر پی ایس لندن)

٭… سورت یوسف میں ہے کہ حضرت یوسفؑ کے مالک کی بیوی نے عورتوں کے ہاتھوں میں چھریاں پکڑائیں۔ سوال یہ ہے کہ عزیز مصر کی بیوی نے ان عورتوں کو چھریاں کیوں پکڑائی تھیں؟

٭… حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے چشمہ معرفت میں تحریر فرمایا ہے کہ ’’سورج ۳۶۴ دن میں اپنے دورہ کو پورا کرتا ہے۔‘‘ جبکہ ہم اب تک یہی سنتے آئے ہیں کہ زمین سورج کے گرد چکر کاٹنے کے لیے تقریباً ۳۶۴ دن لیتی ہے۔ اس بارے میں راہنمائی کی درخواست ہے؟

٭… حضرت مسیح موعودؑ کے کتب کے مجموعے کا نام ’’روحانی خزائن‘‘ کس نے رکھا تھا؟

٭… کیا قرآن کریم کو یاد کرنے اور سمجھنے کی نیت سے نفل نماز میں قرآن کریم سے براہ راست پڑھ کر استفادہ کرنا ٹھیک ہے؟

٭… جماعت کی طرف سے ملنے والے تعلیمی سرٹیفکیٹس پر والد کے نام کے ساتھ والدہ کا نام کیوں نہیں ہوتا۔ اگر والدہ کا نام بھی لکھ دیا جائے تو کیا ہرج ہے؟

سوال: یوکے سے ایک خاتون نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے استفسار کیا کہ سورت یوسف میں ہے کہ حضرت یوسفؑ کے مالک کی بیوی نے عورتوں کے ہاتھوں میں چھریاں پکڑائیں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے تفسیری نوٹ میں لکھا ہے کہ ان عورتوں نے حضرت یوسف کو اپنے ہاتھوں کی پہنچ سے دُور پایا، ہاتھ نہیں کاٹے۔ سوال یہ ہے کہ عزیز مصر کی بیوی نے ان عورتوں کو چھریاں کیوں پکڑائی تھیں؟حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مورخہ ۷؍جولائی۲۰۲۳ء میں اس سوال کا درج ذیل جواب عطا فرمایا۔ حضور انور نے فرمایا:

(قسط ۹۳)عزیز مصر امراء سلطنت میں سے تھا اور اس کے گھر میں ہونے والی دعوت یقیناً کوئی عام دعوت تو نہیں تھی، بڑی پُرتعیش دعوت ہی تھی۔لہٰذا اس میں اس زمانہ کے لحاظ سے کھانے کے بہترین انتظامات کیے گئے ہوں گے، جس میں کھانے کے لیے چھریاں کانٹے بھی رکھے گئے ہوں گے،یا پھل وغیرہ کاٹنے کے لیے مہمانوں کے سامنےچھریاں رکھی گئی ہوں۔ چنانچہ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ اس آیت کی تشریح میں سِکِّیْن کاترجمہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:سِكِّينًا:چھری۔ میوہ کاٹنے کے لیے۔ (حقائق الفرقان جلد دوم صفحہ ۳۹۲)

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ چھریاں رکھنے کی وجہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:اس نے انہیں کھانے یا ناشتہ کی دعوت دی۔ میز وغیرہ لگائی گئی۔ اور ہر ایک کے سامنے ایک ایک چھری رکھ دی گئی۔(اس سے معلوم ہوتا ہے پرانے زمانہ سے کھانے میں چھریوں کا استعمال چلا آتا ہے اور آجکل کی طرح یہ بھی قاعدہ تھا کہ چھریاں پہلے رکھ دی جاتیں پھر کھانے کی اشیاء آتیں)(تفسیر کبیر جلد سوم صفحہ ۳۰۷،مطبوعہ قادیان ۲۰۰۴ء)

پس عزیز مصر کی بیوی نے اپنی حیثیت کے مطابق اپنی سہیلیوں کےلیے بہترین دعوت کا انتظام کیا جس میں اس نے پھل اور دیگر میوہ جات کاٹنے کے لیے چھریاں بھی رکھیں۔

اس آیت کے الفاظ کہ انہوں نے ’’اپنے ہاتھ کاٹے‘‘ اس بارے میں بھی بتا دوں کہ اس کی دونوں قسم کی تشریحات ہی جماعتی لٹریچر میں موجود ہیں۔ ہاتھ کاٹنے کا یہ مطلب بھی ہے کہ انہوں نے حضرت یوسفؑ  کو دیکھ کر ان کی نیکی اور شرافت کی وجہ سے محویت کے عالم میں حیرانگی کی وجہ سے اپنے دانتوں کے نیچے اپنی انگلیاں دبا لیں۔ اور ان کی نیکی اور شرافت کی وجہ سے انہیں اپنے مذموم ارادوں کے لیے اپنی پہنچ سے دور پایا۔ اور یہ بھی درست ہے کہ انہوں نے حضرت یوسفؑ کے رعبِ حسن کی وجہ سے حیرت کے عالم میں پھل کاٹنے کی بجائے اپنے ہاتھ کاٹ لیے۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں: اور خود وہ محویت کا ہی اثر تھا جس سے زلیخا کی سہیلیوں نے اپنی انگلیاں کاٹ لیں۔(مکتوبات احمد جلد اوّل صفحہ ۵۹۴ جدید ایڈیشن)

حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ اس بارے میں فرماتے ہیں:قَطَّعْنَ أَيْدِيَهُنَّ:یہ محاورہ ہے، مطلب یہ ہے کہ اظہار تعجب کیا اور تعجب سے ہاتھ منہ میں کاٹا۔ بعض نے یہ معنے کیے ہیں کہ بوجہ حیرت و رعبِ حسن و لٹّو ہونے کے بجائے پھلوں کے اپنے ہاتھ کاٹ لیے۔ (ضمیمہ اخبار بدر قادیان نمبر ۱۰، جلد ۹، مؤرخہ ۳۰ دسمبر ۱۹۰۹ء صفحہ ۱۳۰)

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے تفسیر صغیر میں اس آیت کا درج ذیل ترجمہ کیا ہے:پس جب انہوں نے اسے دیکھا تو اسے (بہت) بڑی شان کا انسان پایا اور (اسے دیکھ کر حیرت سے) اپنے ہاتھ کاٹے یعنی انگلیاں دانتوں میں دبا لیں۔ اور کہا کہ (یہ شخص محض )اللہ کے لیے (بدی کے ارتکاب سے )ڈرا ہے۔ یہ بشر (ہے ہی) نہیں۔ یہ (تو) صرف ایک معزز فرشتہ ہے۔ (تفسیر صغیر صفحہ ۲۹۳ و حاشیہ )

اسی طرح تفسیر کبیر میں اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے حضور ؓفرماتے ہیں:یہ جو فرمایا ہے کہ انہوں نے ہاتھ کاٹے۔ اس کے دو معنے ہو سکتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ ان کی سادگی اور شرافت کے نظارہ میں ایسی محو ہوئیں کہ بعض کے ہاتھوں کو چھریوں سے زخم لگ گئے اور یہ بھی مراد ہو سکتی ہے کہ انہوں نے اپنے دانتوں میں انگلیاں حیرت سے دبائیں کہ کیا ہم ایسے شخص کا نام اس طرح لیتی ہیں؟ چنانچہ عربی میں عَضّ الْاَنَامِل انگلیوں کو دانتوں سے کاٹنےکا محاورہ حیرت کے معنوں میں آتا بھی ہے اور یہ عربی کا محاورہ ہے کہ جزو کے لیے کُل کا لفظ بعض دفعہ استعمال کر لیتے ہیں۔ پس ہو سکتا ہے کہ أَيْدِيَ، أَنَامِلَ کی جگہ استعمال کر لیا گیا ہو۔

طالمود میں جو یہود کی حدیث کی کتاب ہے لکھاہے کہ عزیز کی بیوی نے ان عورتوں کے سامنے سنگترے رکھے تھے اور انہیں ان کی خدمت کا حکم دیا وہ ان کی طرف دیکھتی رہیں اور بے توجہی میں ان کے ہاتھ زخمی ہو گئے۔ (تفسیر کبیر جلد سوم صفحہ ۳۰۷،مطبوعہ قادیان ۲۰۰۴ء)

پس ’’ہاتھ کاٹنے‘‘ کے الفاظ کی دونوں تفاسیر درست ہیں جو اپنے محاورہ اور سیاق و سباق کے مطابق مختلف معانی پر مبنی ہیں۔

سوال: انڈیا سے ایک دوست نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں لکھاکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے چشمہ معرفت میں تحریر فرمایا ہے کہ ’’سورج ۳۶۴ دن میں اپنے دورہ کو پورا کرتا ہے۔‘‘ جبکہ ہم اب تک یہی سنتے آئے ہیں کہ زمین سورج کے گرد چکر کاٹنے کے لیے تقریباً ۳۶۴ دن لیتی ہے۔ اس بارہ میں راہنمائی کی درخواست ہے؟حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مورخہ ۷؍جولائی ۲۰۲۳ء میں اس سوال کا حسب ذیل جواب عطا فرمایا۔ حضور انور نے فرمایا:

جواب: حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ ہر گز نہیں فرمایا کہ سورج زمین کے گرد گھومتا ہے، بلکہ حضور علیہ السلام نے یہ فرمایا ہے کہ سورج اپنے دورہ کو پورا کرتا ہے اور وہ دورہ یقیناًزمین کے سورج کے گرد گھومنے سے ہی پورا ہوتا ہے۔ اور یہی حضور علیہ السلام کی مراد ہے کہ جب زمین سورج کے گرد گھومتی ہے تو سورج کا یہ دورہ ۳۶۴ دنوں میں پورا ہوتا ہے۔

پھر یہ بھی سورج کا دورہ ہی ہے جس سے موسموں میں تبدیلی آتی اور گرمیوں اور سردیوں میں سورج کا رخ بھی اسی وجہ سے مختلف ہوتا ہے۔ چنانچہ اس بارے میں بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک اور جگہ فرماتے ہیں:اور مسخر کیا تمہارے لیے سورج اور چاند کو جو ہمیشہ پھرنے والے ہیں۔ یعنی جو باعتبار اپنی کیفیات اور خاصیات کے ایک حالت پر نہیں رہتے مثلاً جو ربیع کے مہینوں میں آفتاب کی خاصیت ہوتی ہے وہ خزاں کے مہینوں میں ہر گز نہیں ہوتی ۔ پس اس طور سے سورج اور چاند ہمیشہ پھرتے رہتے ہیں کبھی ان کی گردش سے بہار کا موسم آ جاتا ہے اورکبھی خزاں کا اور کبھی ایک خاص قسم کی خاصیتیں ان سے ظہور پذیر ہوتی ہیں اور کبھی اس کے مخالف خواص ظاہر ہوتے ہیں۔ (توضیح مرام، روحانی خزائن جلد۳ صفحہ ۷۵)

دوسری یہ بات پیش نظر رکھنے والی ہے کہ حضور علیہ السلام یہاں پر ایک عام انسان کی سمجھ کے لحاظ سے زمین پر دکھائی دینے والی ظاہری صورت کے مطابق یہ ارشاد فرما رہے ہیں، کیونکہ جب ہم دیکھتے ہیں کہ سورج زمین کی ایک طرف سے طلوع ہو کر دوسری طرف غروب ہو جاتا ہے تو ایک عام انسان جو خود کو زمین پر ایک ہی جگہ موجود پاتا ہے وہ یہی سمجھتا ہے کہ سورج ہمارے گرد گھوم رہا ہے۔ پس اس اعتبار سے حضور علیہ السلام نے ایک عام انسان کو بات سمجھانے کے لیے یہ مثال دی ہے۔ کیونکہ حضورؑ چشمہ معرفت میں اس جگہ اصل میں یہ مضمون بیان فرما رہے ہیں کہ اس کائنات کا سب کچھ خدا تعالیٰ کی ملکیت ہے اور کائنات میں تمام اشیاء اسی نے پیدا کی ہیں اور ہر مخلوق کی طاقت اور کام کی اس نے ایک حد مقرر کر دی ہے جس سے وہ باہر نہیں نکل سکتی۔ اور اسی ضمن میں حضور علیہ السلام نے چاند اور سورج کی مثال بیان فرمائی ہے۔

باقی آپ کے لیے یہ وضاحت بھی میں کر دیتا ہوں کہ اس کائنات میں تمام ستارے اور سیارے اپنے اپنے محور اور مدار میں گردش کرتے ہیں۔ زمین کے سورج کے گرد گھومنے کا یہ ہر گز مطلب نہیں کہ سورج اپنی جگہ پر جامد کھڑا ہےا ور زمین اس کے گرد چکر لگا رہی ہے۔ بلکہ زمین اپنے مدار میں گردش میں ہے اور سورج اپنے مدار میں گردش کررہا ہے۔ چنانچہ جس طرح زمین سورج کے گرد گھوم کر اپنا چکر تقریباً۳۶۴ دنوں میں پورا کرتی ہے اور چاند زمین کے گرد گھوم کر اپنا چکر ۲۹ یا ۳۰ دنوں میں پورا کرتا ہے، اسی طرح سورج اپنے Axis کے گرد گھوم کر ۲۷ دنوں میں ایک چکر مکمل کرتا ہے اور اس کے علاوہ سورج اپنے محور میں بھی گھوم رہا ہےجس میں وہ اپنا ایک چکر ۲۳۰ ملین سال میں مکمل کرتا ہے۔

سوال: کینیڈا سے ایک دوست نےحضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں استفسار بھجوایا کہ روحانی خزائن کا نام ’’روحانی خزائن‘‘ کس نے رکھا تھا؟حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مورخہ ۱۱؍جولائی۲۰۲۳ء میں اس سوال کا درج ذیل جواب عطا فرمایا۔ حضور انور نے فرمایا:

جواب: سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تالیف فرمودہ کتب کا مجموعہ پہلی دفعہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں ۱۹۵۷ء میں شائع ہونا شروع ہوا، اور اسی وقت اس مجموعہ کا نام ’’روحانی خزائن‘‘ رکھا گیا۔اور پھر خلافت ثالثہ کے ابتدائی سالوں میں ۱۹۶۸ء میں اس کی اشاعت مکمل ہو گئی۔

اس مجموعہ کی اشاعت شروع ہونے سے قبل اور دوران اشاعت مختلف وقتوں میں روز نامہ الفضل ربوہ میں اس بارے میں اعلانات شائع ہوتے رہے اور صدر انجمن احمدیہ ربوہ کی سالانہ رپورٹس میں بھی اس کا ذکر آتا رہا۔ (روزنامہ الفضل ربوہ مورخہ ۱۷ مارچ ۱۹۵۷ء صفحہ۸، روزنامہ الفضل ربوہ مورخہ ۲۰؍اپریل ۱۹۵۸ء صفحہ ۴، سالانہ رپورٹ صدر انجمن احمدیہ ربوہ بابت ۵۸۔۱۹۵۷ء صفحہ ۵۸)

علاوہ ازیں اس مجموعہ کی اشاعت شروع ہونے سے قبل روز نامہ الفضل ربوہ میں الشرکۃ الاسلامیہ لمیٹڈ کے حوالے سے ایک اعلان شائع ہوا جس میں اس علمی مجموعہ کا ان الفاظ میں ذکر کیا گیا:اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو الہام فرمایا ’’اُکْتُبْ وَلْیُطْبَعْ وَ لْیُرْسَلْ فِی الْاَرْضِ‘‘ یعنی ان الہامات اور علوم کو جو آپؑ کو عطا فرمائے گئے ہیں لکھ لو اور پھر انہیں چھاپا جائے اور لوگوں کو بھیجا جائے۔

الشرکۃ الاسلامیہ لمیٹڈ کے قیام کا اصل مقصد قرآن مجید کے علوم کی اشاعت اور ان علمی اور روحانی خزائن کی اشاعت ہے جو اللہ تعالیٰ نے اس زمانہ کے مصلحِ اعظم حضرت بانیٔ جماعت احمدیہؑ کو عطا فرمائے۔ آپؑ فرماتے ہیں۔

وہ خزائن جو ہزاروں سال سے مدفون تھے

اب میں دیتا ہوں اگر کوئی ملے امیدوار

پس جو دوست الشرکۃ الاسلامیہ لمیٹڈ کے حصص خریدتے ہیں وہ یقیناً اللہ تعالیٰ کے اس منشاء کو پورا کرتے ہیں جو مذکورہ بالا الہام میں ظاہر کیا گیا۔ (روزنامہ الفضل ربوہ ۲۳؍ جولائی ۱۹۵۶ء صفحہ ۷)

اور چونکہ یہ علمی اور روحانی کام حضرت مصلح موعودرضی اللہ عنہ کے عہد مبارک میں شروع ہوا تھا اس لیے یقین کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ اس علمی مجموعہ کا نام بھی حضرت مصلح موعود ؓکی منظوری اور ہدایت پر ہی روحانی خزائن رکھا گیا ہو گا۔ جس کے پس منظر میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہی مذکورہ بالا شعر ہو گا۔

سوال: امریکہ سے ایک دوست نےحضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں لکھا کہ میں نے ۲۸؍ سورتیں اور کچھ آیات یاد کر لی ہیں۔کیا قرآن کریم کو یاد کرنے اور سمجھنے کی نیت سے نفل نماز میں قرآن کریم سے براہ راست پڑھ کر استفادہ کرنا ٹھیک ہے؟حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مورخہ ۱۱؍جولائی۲۰۲۳ء میں اس سوال کا درج ذیل جواب عطا فرمایا۔ حضور انور نے فرمایا:

جواب: فرض نماز ہو یا نفل اس کے لیے عام طریق یہی ہے کہ جس قدر قرآن کریم کسی کو زبانی یاد ہو اسی کو وہ نماز میں پڑھے۔ اور مزید قرآن کریم یاد کرنے کی کوشش کرتا رہے، کیونکہ قرآن کریم کو یاد کرنا اور اسے پڑھنا یہ بھی ایک نیکی اور قابل ثواب عمل ہے۔ حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ اپنی کتاب ذکر حبیب میں بیان کرتے ہیں: ’’ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب نے ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت میں عرض کیا کہ قرآن شریف کی لمبی سورتیں یاد نہیں ہوتیں اور نماز میں پڑھنے کی خواہش ہوتی ہے۔ کیا ایسا کر سکتے ہیں کہ قرآن شریف کو کھول کر سامنے کسی رحل یا میز پر رکھ لیں یا ہاتھ میں لے لیں اور پڑھنے کے بعد الگ رکھ کر رکوع سجود کر لیں اور دوسری رکعت میں پھر ہاتھ میں اٹھا لیں۔ حضرت صاحبؑ نے فرمایا۔’’اس کی کیا ضرورت ہے۔ آپ چند سورتیں یاد کر لیں اور وہی پڑھ لیا کریں۔‘‘ (ذکر حبیب صفحہ۱۳۶، مطبوعہ ضیاء الاسلام پریس ربوہ)

کتب حدیث و فقہ میں بعض ایسے آثار ملتے ہیں، جن سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض صحابہ کرامؓ جن میں حضرت عثمانؓ، حضرت انسؓ اور حضرت عائشہ ؓوغیرہ شامل ہیں جب نوافل پڑھتے تو کسی شخص کو قرآن دے کر پاس بٹھا لیتے جو ان کے بھولنے پر انہیں لقمہ دے دیتا یا کسی ایسے شخص کی اقتدا میں وہ نوافل ادا کرتے جو قرآن سے دیکھ کر انہیں امامت کرواتا۔(کشف الغمۃ عن جمیع الامۃ لشیخ عبد الوھاب الشعرانی۔کتاب الصلاۃ، فصل فی الفتح علی الامام)( صحیح بخاری کتاب الاذان بَاب إِمَامَةِ الْعَبْدِ وَالْمَوْلَى)

فقہاء اربعہ میں سے امام ابو حنیفہ ؒ کا مسلک یہ ہے کہ نماز میں قرآن کریم سے دیکھ کر پڑھنے سے نماز فاسد ہو جاتی ہے۔ جبکہ امام شافعیؒ نیز امام احمد ؒ کے ایک قول کے مطابق نماز فاسد نہیں ہوتی۔ اور امام مالک ؒ نیز امام احمد ؒ کے ایک دوسرے قول کے مطابق نفل نماز میں ایسا کرنا جائز ہے لیکن فرض نماز میں یہ جائز نہیں ہے۔(کتاب المیزان للشعرانی ، باب صفۃ الصلاۃ۔جلد۲ صفحہ ۴۷ مطبوعہ عالم الکتب ۱۹۸۹ء )

ان آثار اور فقہاء کی آراء پر تبصرہ فرماتے ہوئے حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:جہاں تک قاری یا سامع کا نماز کے دوران قرآن کریم سے دیکھ کر پڑھنے اور سامع کا پڑھ کے لقمہ دینے کا مسئلہ ہے۔میرے نزدیک تو امام ابو حنیفہ ؒ کا مو قف ہی درست ہے (یعنی ایسا کرنے سے نماز فاسد ہو جاتی ہے۔ناقل) یہ جو مثا لیں دی گئی ہیں کہ مثلاً حضرت عا ئشہؓ کے غلام ذ کوان قرآن کریم سے پڑھ کر ان کی امامت کرواتے تھے یہ حدیث نہیں بلکہ اثر ہے اور ایسا اثر نہیں جس کی اجازت حضرت رسول اللہ ﷺ سے ثابت ہو۔ ایسے اہم دینی معاملات میں اثر کی وہ حیثیت نہیں جو حدیث کی ہے۔(مکتوب حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ بنام سیکر ٹری صاحب مجلس افتا ء مورخہ ۱۱؍سمئی ۱۹۹۳ء)

اسی طرح حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کے عہد خلافت میں مجلس افتاء میں یہ معاملہ پیش ہونے پر حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے ۱۷؍جون ۱۹۷۱ء کو اس بارے میں یہ فیصلہ فرمایا کہ ’’نوافل میں بھی قرآن مجید سے دیکھ کر پڑھنا مستحب نہیں۔ نیز اس کی اجازت دینے سے حفظ قرآن کی ترغیب کا مقصد بھی فوت ہو جاتا ہے، لہٰذا اس طریق کو اختیار کرنا ناپسندیدہ ہے۔‘‘ (رجسٹر فیصلہ جات مجلس افتاء صفحہ۴۹غیر مطبوعہ)

پس اس بارے میں میرا بھی موقف یہی ہے کہ قرآ ن کریم کا جتنا حصہ کسی کو یاد ہو اسی کو وہ نمازوں میں پڑھ لے اور مزید قرآن کریم یاد کرنے کی کوشش کرے۔

سوال: جرمنی سے ایک خاتون نےحضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں لکھا کہ جماعت کی طرف سے ملنے والے تعلیمی سرٹیفکیٹس پر والد کے نام کے ساتھ والدہ کا نام کیوں نہیں ہوتا۔ اگر والدہ کا نام بھی لکھ دیا جائے تو کیا ہرج ہے؟حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مورخہ ۱۳؍جولائی۲۰۲۳ء میں اس بارے میں درج ذیل راہنمائی فرمائی۔ حضور انور نے فرمایا:

جواب: اس میں کوئی شک نہیں کہ بچے کی پیدائش اور اس کی پرورش میں والد اور والدہ دونوں کا برابر کا حصہ ہوتا ہے۔ اسی لیے قرآن کریم نے بچہ کو والد اور والدہ دونوں کی طرف منسوب کیا ہے۔ جیسا کہ فرمایا لَا تُضَارَّ وَالِدَةٌ بِوَلَدِهَا وَلَا مَوْلُودٌ لَهُ بِوَلَدِهِ۔(البقرہ:۲۳۴)کہ کسی ماں کو اس کے بچہ کے تعلق میں تکلیف نہ دی جائے اور نہ ہی باپ کو اس کے بچہ کی وجہ سے (دکھ دیا جائے)۔اس آیت میں بچہ کو ماں اور باپ دونوں کی ملکیت قرار دیا گیا ہے۔

لیکن اس کے ساتھ جہاں بچہ کو کسی کے نام کے ساتھ پکارنے کی بات ہے تو اس بارے میں قرآن کریم نے واضح طور پر فرمایا کہ اُدْعُوْهُمْ لِاٰبَآئِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِنْدَ اللّٰهِ۔ (الاحزاب:۶)یعنی ان (لے پالک بچوں ) کو ان کے باپوں کا بیٹا کہہ کر پکارو۔ یہ اللہ کے نزدیک زیادہ منصفانہ فعل ہے۔

اسی طرح حدیث میں بھی آتا ہے۔ حضرت ابو الدرداءؓ کی روایت ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا کہ قیامت کے دن تمہیں اپنے اور اپنے باپوں کے ناموں سے پکارا جائے گا لہٰذا تم اپنے اچھے نام رکھا کرو۔ (سنن کتاب الادب بَاب فِي تَغْيِيرِ الْأَسْمَاءِ)

پس قرآن و حدیث کی ان ہدایات کی روشنی میں جماعت کی طرف سے ملنے والے تعلیمی سرٹیفکیٹس پر بچہ اور اس کے والد کا نام درج ہوتا ہے، والدہ کا نام درج نہیں کیا جاتا۔

٭…٭…٭

مزید پڑھیں: بنیادی مسائل کے جوابات(قسط۹۲)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button