عید الفطر۔حقیقی عید اور سچی خوشی. حضرت مصلح موعودؓ کے بیان فرمودہ دلچسپ واقعات وحکایات کی روشنی میں (قسط دوم۔آخری)
حقیقی عید وہی ہے جس میں انسان کو عمل میں لذت محسوس ہونے لگے اور وہ خدا کے لئے ہر قسم کی قربانیوں کی آگ میں کودنے کے لئے تیار رہے اور کبھی ترک عمل کے قریب بھی نہ جائے۔یہ مقام جب کسی فرد یا قوم کو حاصل ہو جاتا ہے تو اسے حقیقی عید میسر آ جاتی ہے اور دینی اور دنیوی مقاصد میں وہ کامیاب ہو جاتا ہے
[تسلسل کے لیے دیکھیں الفضل انٹرنیشنل۲۷؍مارچ ۲۰۲۵ء]اسلام کہتا ہے کہ عید کرو، غم کرو مگر دونوں حد کے اندر
صرف نماز روزہ کہہ دینا کافی نہیں۔دیکھنا یہ ہے کہ ان کا مفہوم کیا ہے اور تفاصیل کیاہیں۔مثلاًنماز کو ہی لے لو۔ ایک طرف یہ نماز ہے جس میں اس حد تک غلو کیا جاتا ہے کہ سورج نکلا تو اس کی پر ستش کےلئے اس کی طرف دیکھنا شروع کیا اور شام تک دیکھتےہی رہے،یا گرمیوں میں اردگرد الاؤجلا کر بیٹھے رہے، سردیوں میں ٹھنڈے پانی میں کھڑے رہے، ۲۴ گھنٹےاُلٹےہی لٹکے رہے۔ پھر ایک یہ نماز ہے کہ ساتویں دن گرجامیں جمع ہوئے،کچھ شعر پڑھے گانا سنا،باجا بجایا، کچھ وعظ بھی سن لیا اور گھر آگئے۔وعظ کے متعلق تو عام شکایت کی جاتی ہے کہ اس میں لوگ سوئے رہتے ہیں صرف اُسی وقت تک جاگتے ہیں جب تک یاباجا بجتا رہے یا گیت گائے جاتے ہوں۔وعظ کے وقت سو جاتے ہیں پھر اس میں بھی یہ تفریق ہے کہ امیر غریب الگ الگ بیٹھتے ہیں۔جس طرح تھیٹروں میں ٹکٹ ہوتے ہیں اور سیٹیں ریزرو ہوتی ہیں اسی طرح گرجوں میں بھی بڑے آدمیوں کے لئے کوچ ریزرو ہوتے ہیں۔اگر کوئی غریب آدمی اس پر جا بیٹھے تو پادری صاحب فوراً اٹھا دیتے ہیں۔پھر ایک عبادت آریوں نے نکالی ہے وہ بھی ساتویں دن مندر میں جمع ہو کر گا لیتے اور چھینے وغیرہ بجالیتے ہیں مگر یہ عبادت ایسی ہی ہےجیسے میرے ایک عزیز سنا یا کرتے ہیں کہ زمانہ طالب علمی میں میرے ایک دوست تھے جو میرے ساتھ رہا کرتے تھے۔ ایک دن میں نے دیکھا کہ وہ سخت مغموم ہیں گویا کوئی بہت بڑا صدمہ پہنچا ہے۔ میں نے وجہ دریافت کی تو کہنے لگے مجھ سے بہت غفلت ہو گئی ہے امتحان سر پر ہے اور میں نے آج سبق یاد نہیں کیا یونہی وقت ضائع کردیا۔اس کے لئے میں نے اپنے آپ کو سزا دی ہے۔ جس کا مجھے افسوس ہے انہوں نے پوچھا کیا سزا دی ہے کہنے لگے میں نے اپنے پر دو آنہ جرمانہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا کیا آپ نے کسی غریب کو دو آنے دے دیئے۔کہنے لگے نہیں اگر ایسا کر سکتا تو خوشی نہ ہوتی۔میں نے دو آنہ کی مٹھائی لے کر کھائی ہے۔ تو جیسا یہ جرمانہ ہے ویسی ہی یہ عبادت ہے اگر یہ عبادت ہے تو سب سے زیادہ عابد تھیٹروں والے ہیں جو ہر روز گاتے بجاتے رہتے ہیں۔بلکہ ان سے بھی زیادہ عابد کنچنیاں ہیں جنہیں آٹھ آنے دے کر جس کا جی چاہے گانا سن لے۔غرض ایک طرف تو یہ عبادت ہے اور دوسری طرف بالکل انسانیت سے خارج کر دینے والی عبادت ہے یعنی اُلٹے لٹکے رہنا یا بعض لوگ ایسی چارپائی پر سوتے ہیں جس میں کیل ہی کیل لگے ہوتے ہیں۔ساری رات وہ بدن میں چُبھتے رہتے ہیں ظاہر ہے کہ ایسی حالت میں نیند کیا خاک آئے گی اور یہ عبادت ہو رہی ہوتی ہے۔ پھر روزہ ہے ایک طرف تو ایسے لوگ ہیں جو چھ چھ ماہ روزے رکھتے ہیں اور کچھ وہ ہیں جنہوں نے روزہ کی یہ صورت سمجھ رکھی ہے کہ آگ پر پکی ہوئی چیز نہیں کھائیں گے۔یوں دن بھر دو درجن کیلے،سیر بھر مونگ پھلی دو چار سیر دودھ اور دیگر مٹھائیاں اور پھل وغیرہ کھا جائیں گے اور پھر بھی یہی کہیں گے کہ ہم نے روزہ رکھا تھا۔
گاندھی جی کی خوراک کے متعلق ایک اخبار نے لطیفہ شائع کیا تھا کہ وہ اتنی نارنگیاں، اتنی مونگ پھلی،اتنا دودھ روزانہ پیتے ہیں جو عام آدمیوں کی خوراک سے بہت زیادہ ہے اور پھر کہا جاتا ہے کہ وہ کھانا بالکل نہیں کھاتے۔حالانکہ ان کی خوراک ہماری خوراک سے دوتین گُنا ہو جاتی ہے۔ پھر صدقہ زکوٰۃ ہے اس کے متعلق بھی یہی حال ہے بعض لوگ کسی قومی تحریک میں کوئی رقم دے دیتے ہیں اور سمجھ لیتے ہیں کہ اس فرض سے سبکد وش ہو گئے۔اس کے عوض میں وہ خان بہادر یا سر بھی ہو جاتے ہیں اور اس طرح اس کی قیمت بھی مل جاتی ہے۔ لیکن دوسری طرف انجیل میں آتا ہے کہ جب تک تو سارا مال خدا کی راہ میں نہیں لُٹا دیتا اس وقت تک خدا کی بادشاہت میں داخل نہیں ہو سکتا۔ ایک نے تو صدقہ کو سودے کی چیز بنا رکھا ہے اور دوسرے نے یہ تعلیم دی ہے کہ اپنا سب کچھ لُٹا دو۔اگر تمہارے گھر میں مال ہے تو تم نجات نہیں پا سکتے۔ غرض کہ سب جگہ افراط تفریط ہے سوائے اسلام کے۔ اسلام ہر روز پانچ نمازیں ادا کرنے کا حکم دیتا ہے۔مگر اُلٹے لٹکے رہنے یا ایسی عبادتوں کو جو جسم کو کُچل ڈالتی ہیں حرام کرتا ہے۔اسی طرح روزہ کے متعلق وہ چھ ماہ کا حکم نہیں دیتا بلکہ صرف ایک ماہ کے روزے مقرر کرتا ہے۔اور اس میں بھی یہ ہدایت ہے کہ بغیر سحری کھائے روزہ رکھنا ناپسندیدہ ہے اور افطاری بھی جلدی کرنے کی تاکید کرتا ہے۔پھر کھانے پینے کے متعلق حکم ہے کہ کُلُوۡا وَاشۡرَبُوۡا وَلَا تُسۡرِفُوۡا یعنی کھاؤ پیو مگر ایک حد کے اندر۔اسراف نہ کرو۔یہ نہیں کہ کھانے لگے تو کھاتے ہی گئے اور پینا شروع کیا تو پیتے ہی گئے بلکہ ایک حد تک کھاؤپیو۔ اسی طرح خوشی غمی کے متعلق بھی حد بندی کر دی۔دوسری اقوام کی عیدیں عیدیں نہیں بلکہ بد مستیاں ہوتی ہیں اور غمی غمی نہیں بلکہ مایوسی ہوتی ہے مگر اسلام نے اس معاملہ میں بھی حدبندی کر دی۔غم کے وقت انسان رونے لگتا ہے تو اسلام کہتا ہے صبر کرو۔اور خوشی میں ہنسنے لگتا ہے تو کہتا ہے زیادہ مت ہنسو۔گویا اس نے ہمیں ایسے مقام پر کھڑا کر دیا ہے کہ اگر انسان ہر وقت سوچ سوچ کر قدم نہ رکھے تو ہلاکت کے گڑھے میں گرنے کاخطرہ ہے۔ کیاعجیب بات ہے کہ اسلام نہ تو ہمیں ہنسنے دیتا ہے اور نہ رونے،دونوں سے روکتا ہے۔میں ابھی گھر سے عید کےلئے آیا تھا تو خیال آیا کہ اسلام کہتا ہے کہ جاؤ عید کرو لیکن جب ہم خوشی منانے لگتے ہیں تو کہتا ہے اس طرح نہیں۔پھر کہتا ہے جاؤ غریب انسانوں سے ہمدردی کرو لیکن جب ہم رونے لگتے ہیں تو کہتا ہے اس طرح نہیں۔اس پر مجھے ایک شاعر کی رباعی یاد آگئی ہے جو اگرچہ کہی تو اس نے اپنے عشق کا اظہار کرنے کے لئے ہے لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس نے اس میں اسلامی تعلیم کو بیان کیا ہے۔وہ کہتا ہے:
کسی کی شبِ ہجر روتے کٹے ہے
کسی کی شبِ وصل سوتے کٹے ہے
ہماری یہ شب کیسی شب ہے الٰہی
نہ روتے کٹے ہے نہ سوتے کٹے ہے
ہمارا مذہب نہ ہمیں رونے دیتا ہے اور نہ ہنسنے۔وہ کہتا ہے کہ عید کرو، غم کرو مگر دونوں حد کے اندر۔غم کے وقت تمہارے اندر مایوسی نہ ہونی چاہئے اگرچہ تمہارے سامنے مصائب کا پہاڑہو۔ تمہیں یہ سوچنا چاہئے کہ ہمارے سر پر ایک خدا ہے جو سب مشکلات کو دور کر سکتا ہے۔پھر عید کرو تو اس میں بھی انتہاء نہ کرو اور یہ خیال کرو کہ تمہارے اوپر ایک خدا ہے جو تمہاری ساری نعمتیں چھین سکتا ہے۔ وہ غم کیا جس نے انسان پر مایوسی طاری کر دی وہ تو موت ہے۔اور وہ خوشی کیا جو امیدوں کو آرزؤں سے بدل دے۔ حقیقی غم وہی ہے جو آئندہ کے امید دلا تا ہے اور حقیقی خوشی وہی ہے جو آئندہ کے خطرات سے آگاہ کرتی ہے۔ اس کے بغیر نہ غم غم ہے اور نہ خوشی خوشی۔ چاہئے کہ جب انسان غم میں ہو تو ساتھ ہنستا بھی ہو اور عید میں ہو تو ساتھ غم بھی ہو گویا بعینہٖ وہی حالت ہو کہ
ہماری بھی شب کیسی شب ہے الٰہی
نہ روتے کٹے ہے نہ سوتے کٹے ہے
یہی وہ مقام ہے جو انسان کو خدا تعالیٰ کے قریب کر دیتا ہے جو شخص غم میں مایوس ہو جاتا ہے وہ جہنمی ہے اور خدا سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔کتنا ہی دکھ اور کتنی ہی مصیبت ہو ہمت قائم رہنی چاہئے اور امیدیں انسان کے دل میں مضبوطی سے قائم ہونی چاہئیں۔وہ مصائب کا پہاڑ سامنے دیکھے مگر کہے میرا خدا انہیں دور کر سکتا ہے۔غم وہموم کے بادل اس کے سر پر منڈلا رہے ہوں مگر وہ یقین رکھے کہ خدا ہے جو انہیں پھاڑ سکتا ہے۔پھر خواہ دنیا کی ساری عیدیں اس کے لئے جمع ہوں مگر وہ کہے بے شک مجھے خوشی ہے مگر میرے سامنے ایک ایسی منزل ہے کہ ایک قدم آگے اٹھانے پر میں ایسی ٹھوکر کھاؤں کہ گر جاؤں۔مجھ پر ساری دنیا کی ذمہ داری ہے اور جب تک ایک بھی ایسا انسان ہےجسے خوشی میسر نہیں اس وقت تک میری عید نہیں ہو سکتی۔( خطبات محمود جلد ۱ صفحہ۲۲۷ تا۲۳۰۔ خطبہ عید الفطر فرمودہ۱۷؍ جنوری ۱۹۳۴ء بمقام عید گاہ قادیان۔ مطبوعہ الفضل۲۸؍ جنوری ۱۹۳۴ء)
خدا کے لیے اپنا سب کچھ قربان کردینا ہی حقیقی عید ہے
دیکھتے نہیں ہو اللہ تعالیٰ کے نبیوں پر لوگ ایمان لاتے ہیں پھر مخالف انہیں مارتے ہیں،ستاتے ہیں،گالیاں دیتے ہیں،بائیکاٹ کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس کی مجلس میں نہ جاؤ۔مگرجو نہی وہ آزاد ہوتے ہیں سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر اپنے نبی کے پاس پہنچ جاتے ہیں۔ ایسے ایسے دُکھ انبیاء علیہم السلام پر ایمان لانے والوں کو دیئے گئے ہیں کہ جن کی کوئی نظیر نہیں مل سکتی مگر انہی حالات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ جونہی ان کے ہاتھ پاؤں کُھلے وہ دوڑ کر اپنے نبی کے پاس پہنچ گئے۔
حضرت ابوذر غفاریؓ کی مثال ہی احادیث میں پائی جاتی ہے۔ جب وہ پہلے پہل رسول کریمﷺ پر ایمان لائے تو اس وقت تک بہت تھوڑے لوگ آپؐ پر ایمان لائے تھے۔ سولہ سترہ کے قریب آدمی تھے جو اسلام میں داخل تھے انہوں نے کسی مسلمان سے رسول کریمﷺ کی باتیں سنیں تو آپؐ پر ایمان لے آئے لیکن عرض کیا یا رسول اللہ!(ﷺ) میرے قبیلہ کے لوگ چونکہ ابھی ایمان نہیں لائے اس لئے آپؐ مجھے اجازت دیں کہ میں اپنا ایمان اس وقت تک چُھپائے رکھوں جب تک کہ وہ ایمان نہیں لاتے۔رسول کریمﷺنے انہیں اجازت دے دی لیکن آپ جب رسول کریم ﷺ کی مجلس سے اُٹھ کر باہر آئے تو دیکھا کہ ایک جگہ کفار کی مجلس لگی ہوئی ہے اور مکہ کے بڑے بڑے عمائد رسول کریمﷺ کو برابھلا کہہ رہے ہیں۔ان سے برداشت نہ ہو سکا اور انہوں نے زور سے کہا لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّ سُوْلُ اللّٰہِ۔ ایسے شدید دشمنوں کے پاس جنہیں اپنی طاقت وقوت پر بھی بہت گھمنڈ تھا جب انہوں نے بلند آواز سے کلمہ پڑھا تو کفار کو جوش آگیا اور انہوں نے آپ کو اتنا مارا کہ آپ زخمی ہو کر زمین پر گر پڑے۔ حضرت عباس کہیں پاس سے گذرے تو انہوں نے کفار سے کہا غفار قبیلہ سے تمہارے پاس غلہ آتاہے اگر تم اسے نہ چھوڑو گے اور اس کی قوم نے اس کا ساتھ دیا تو تمہارے پاس غلہ آنا بند ہو جائے گا اور تم بھوکے مر جاؤ گے اس لئے بہتر ہے کہ اسے چھوڑ دو۔آخر بڑی مشکلوں سے انہوں نے حضرت ابوذرؓ کو ان کے ہاتھ سے چھڑایا۔وہ گھر گئے اور چند دن ٹکوریں کرتے رہے۔جب آرام آ گیا تو باہر نکلے اور دیکھا کہ کفار کی پھر ایک مجلس لگی ہوئی ہے اور وہ رسول کریمﷺ کو بُرا بھلا کہہ رہے ہیں انہیں پھر جوش آ گیا اور وہ بلند آواز سے کہنے لگے۔اَشْھَدُاَنْ لَّااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدً ارَّ سُوْلُ اللّٰہِ انہوں نے پھر آپ کو مارا اور شدید طور پر زخمی کر دیا۔وہ پھر گھر میں زخموں کا چند دن علاج کرنے کے بعد جب باہر نکلے تو اسی طرح ایک اور مجلس میں انہوں نے بلند آواز سے اپنے اسلام کا اظہار کر دیا اور لوگوں نے پھر انہیں مارا۔ اب دیکھو یہ ایک لذت تھی جو انہیں آرہی تھی اور جس کے نتیجہ میں وہ باربار اپنے اسلام کا ذکر کرتے اور باربار لوگوں سے مار کھاتے اور گو رسول کریمﷺ کی طرف سے انہیں اس بات کی اجازت تھی کہ وہ اپنے اسلام کو چھپائیں لیکن عمل کی لذت کی وجہ سے وہ اعلان کرنے پر مجبور ہو گئے۔اور انہوں نے ماریں کھائیں۔ اسی طرح رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں ایک بچہ تھا بارہ تیرہ سال اس کی عمر تھی کہ وہ مسلمان ہو گیا۔وہ اپنے ماں باپ کا اکلوتا بچہ تھا لیکن چونکہ وہ مسلمان ہو گیا اور اس کے ماں باپ سخت متعصب تھے اس لئے جب کھانا کھانے کا وقت آتا تو اُس کی ماں اس کے آگے اس طرح روٹی پھینک دیتی جس طرح کتے کے آگے روٹی پھینکی جاتی ہے برتن میں وہ اس لئے رکھ کر نہ دیتی کہ اس طرح برتن پلید ہو جاتا ہے۔آخر جب اسلام پر وہ مضبوطی سے قائم رہا تو اسے ماں باپ نے گھر سے نکال دیا اور کہا یا تُو محمد(ﷺ) کے پاس جانا چھوڑ دے یا گھر سے چلا جا۔اس نے گھر چھوڑ دیا اور غالباً حبشہ کی طرف ہجرت کر کے چلا گیا۔سالہا سال کے بعد وہ واپس آیا۔اس کی ماں کو پتہ لگا تو اس نے کہلا بھیجا کہ میں تجھ سے ملنا چاہتی ہوں مجھے آکر مل جاؤ۔ وہ چھوٹی عمر کا بچہ تھا جب وہ اپنے والدین سے جُدا ہوا۔پھر وہ اپنے والدین کا اکلوتا بچہ تھا وہ سالہا سال اپنے گھر سے باہر رہنے کی وجہ سے خیال کرتا تھا کہ شاید اس کی ماں کے دل میں نرمی پیدا ہو گئی ہو گی مگر جب وہ اپنی ماں سے ملنے کے لئے گیا تو اس نے بڑے پیار سے اپنے بیٹے کو گلے لگاتے ہوئے کہا بیٹا !اب تو امید ہے کہ تم اس صابی کے پاس نہیں جاؤ گے۔وہ صحابی فوراً علیحدہ ہو گیا اور اس نے کہا۔ اماں !میں نے تو سمجھا تھا کہ میرے دور جانے کی وجہ سے تمہارا بُغض دُور ہو گیا ہو گا۔مگر تمہاری کیفیت تو اب تک وہی ہے۔ میں تمہاری وجہ سے محمد رسول اللہ ﷺ کو نہیں چھوڑ سکتا۔یہ کہہ کر وہ نوجوان اسی وقت گھر سے نکل گیا اور پھر اس نے کبھی اپنی ماں کا منہ نہیں دیکھا۔ پس حقیقی عید وہی ہے جس میں انسان کو عمل میں لذت محسوس ہونے لگے اور وہ خدا کے لئے ہر قسم کی قربانیوں کی آگ میں کودنے کے لئے تیار رہے اور کبھی ترک عمل کے قریب بھی نہ جائے۔یہ مقام جب کسی فرد یا قوم کو حاصل ہو جاتا ہے تو اسے حقیقی عید میسر آ جاتی ہے اور دینی اور دنیوی مقاصد میں وہ کامیاب ہو جاتا ہے۔ پس کوشش کرو کہ تمہیں یہ عید میسر آئے اور تمہاری تمام ترلذت اور تمہاری ساری خوشی اسی بات میں ہو جائے کہ تم خدا کے لئے اپنا سب کچھ قربان کر دو اور اسی کو اپنی عید سمجھو۔اللہ تعالیٰ تمہارے ساتھ ہو اور وہ تمہیں اس حقیقی عید سے حصہ دے جس کے میسر آنے کے بعد دنیا کی کوئی تکلیف انسان کو پریشان نہیں کر سکتی۔( خطبات محمود جلد ۱ صفحہ۲۶۳ تا ۲۶۵۔ خطبہ عید الفطر فرمودہ۱۶؍ دسمبر ۱۹۳۶ء بمقام عید گاہ قادیان۔ مطبوعہ الفضل۲۲؍ فروری ۱۹۶۳ء)
اصل عید اس شخص کی ہے جسے خدا مل جائے
جس شخص کو اس کا محبوب مل جائے اس کی عید بن جاتی ہے غالب کہتاہے اصل خوشی اس شخص کی ہےجس کے بازو پر اس کے محبوب نے سر رکھ دیا ہو۔ پس اصل خوشی اسی شخص کی ہے جس نے خدا تعالیٰ کو دیکھا ہو اور اس سے باتیں کی ہوں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی عادت تھی کہ آپ اپنی نوٹ بک میں مختلف نوٹ لکھ دیتے تھے اور بعد میں جب موقع ملتا انہیں مضمون کی صورت میں بدل دیتے۔جب میں نے ہوش سنبھالا میں ایسے نوٹوں کی تلاش میں رہتا جو کسی کتاب یا اخبار میں چھپے نہ ہوں اور اگر کوئی غیر مطبوعہ نوٹ مل جاتا تو اسے تشحیذ الاذہان میں شائع کر دیتا۔ ایک دن میں آپؑ کی نوٹ بک سے کوئی غیر مطبوعہ نوٹ تلاش کر رہا تھا کہ میں نے ایک جگہ پر لکھا ہوا پایا کہ دنیا مجھے ڈراتی ہے،دشمن مجھے دھمکیاں دیتا ہے، وہ مجھے خائف کرنا چاہتا ہے لیکن مجھے حیرت ہے کہ وہ کس طرح یہ سمجھتا ہے کہ اپنے منصوبوں اور خوف دلانے میں وہ کامیاب ہو جائے گا آخر کسی میں ڈرنے کا مادہ ہوتو وہ ڈرتا ہے لیکن میں تو جب تکیہ پر سر رکھتا ہوں خدا تعالیٰ میرے پاس آجاتا ہے اور کہتا ہے میں تیرے ساتھ ہوں۔ اگر خدا تعالیٰ خود آکر مجھے کہتا ہے کہ میں تیرے ساتھ ہوں تو کیا مخالفوں سے میں ڈر جاؤں گا۔ پس جس کے ساتھ خدا تعالیٰ ہوتا ہے کسی اَور شخص میں یہ طاقت ہی نہیں ہوتی کہ اسے نقصان پہنچا سکے۔ رسول کریمﷺ کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ رسول کریمﷺ حضرت ابوبکرؓ کو ساتھ لے کر غار ثور میں جا چھپے۔دشمن کھوجیوں کو ہمراہ لئے آپؐ کی تلاش میں اس غار پر جا پہنچا۔غار ثور جیسا کہ عام مسلمانوں کا خیال ہے کوئی چھوٹی سی غار نہیں بلکہ ڈیڑھ گز لمبی اور اتنی ہی چوڑی جگہ ہے۔اس میں چوبیس پچیس آدمی بیٹھ سکتے ہیں۔اتنی بڑی جگہ میں بھلا جھانکنا کونسا مشکل تھا۔رسول کریمﷺ اور حضرت ابوبکرؓ اس غار کے ایک طرف بیٹھے ہوئے تھے۔غار کے منہ پر آکر کھوجیوں نے کہا کہ اگر محمد(ﷺ) زمین پر موجود ہے تو پھر اسی غار میں ہے۔ حضرت ابوبکرؓ اُس وقت گھبراگئے اور آپ نے خیال کیا کہ کہیں ایسا نہ ہو دشمن آپ کو دیکھ لے اور دکھ پہنچائے اور آپ کا رنگ فق ہو گیا۔جب رسول کریمﷺ نے یہ کیفیت دیکھی تو آپ ؐ نے فرمایا۔لَا تَحزَنْ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا ابوبکر! تم گھبراتے کیوں ہو خدا تعالیٰ ہمارے ساتھ ہے۔ایسے موقع پر آپ کا یہ یقین اور وثوق اس بات کا ثبوت تھا کہ خدا تعالیٰ آپ کے ساتھ ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر ۱۹۰۲ء میں مخالفین کی طرف سے ایک کیس چلایا گیا۔ا ور جس مجسٹریٹ کے سامنے یہ کیس پیش تھا وہ آریہ تھا۔اسے لاہور سے بلا کر آریہ لیڈروں نے قسم دلائی کہ اس مقدمہ میں مرزا صاحب سے پنڈت لیکھرام کا بدلہ ضرور لینا ہے اور اس نے اپنے لیڈروں کے سامنے ایسا کرنے کا وعدہ کر لیا۔خواجہ کمال الدین صاحب کو رپورٹ پہنچی کہ اس اس طرح مجسٹر یٹ کو لاہور بلا کر قسم کھلائی گئی ہے۔ حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام مقدمہ کے سلسلہ میں گورداسپور تشریف رکھتے تھے۔خواجہ کمال الدین صاحب نے آپ سے کہا کہ کسی نہ کسی طرح اس مقدمہ میں صلح کر لی جائے کیونکہ یہ پکی بات ہے کہ مجسٹر یٹ کو لاہور بلا کر اس سے یہ وعدہ لیا گیا ہے کہ وہ ضرور سزا دے اور اس نے سزا دینے کا وعدہ کر لیا ہے۔ حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام لیٹے ہوئے تھے۔خواجہ کمال الدین صاحب کی یہ عادت تھی کہ وہ بات لمبی کرتے تھے۔انہوں نے کہا حضور مجسٹریٹ ضرور قید کردے گا اور سزا دے دے گا بہتر ہے کہ فریق ثانی سے صلح کر لی جائے۔ حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلا م کہنیوں پر سہارا لے کر بیٹھ گئے اور فرمایا۔خواجہ صاحب ! خدا تعالیٰ کے شیر پر ہاتھ ڈالنا کوئی آسان بات ہے۔میں خدا تعالیٰ کا شیر ہوں وہ مجھ پر ہاتھ ڈال کر تو دیکھے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔دو مجسٹریٹوں میں سے جو اس مقدمہ کا فیصلہ کرنے کے لئے مقرر تھے ایک کالڑکا پاگل ہو گیا۔اس کی بیوی نے اسے لکھا (وہ حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کو خدا تعالیٰ کا مامور تو نہیں مانتی تھی)کہ تم نے ایک مسلمان فقیر کی ہتک کی ہے جس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ ایک لڑکا پاگل ہو گیا ہے اب دوسرے کے لئے ہوشیار ہو جاؤ۔وہ تعلیم یافتہ تھا اور ایسی باتوں پر یقین نہیں رکھتا تھا اس نے اس طرف کوئی توجہ نہ کی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اس کا دوسرا لڑکا دریا میں ڈوب کر مر گیا۔ وہ دریائے راوی پر گیا وہاں نہا رہا تھا کہ مگر مچھ نے اس کی ٹانگ پکڑلی اس طرح وہ بھی ختم ہوگیا۔ وہ مجسٹر یٹ حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلا م کو اس قدر تنگ کیا کرتا تھا کہ مقدمہ کے دوران میں سارا وقت آپ کو کھڑا رکھتا اگر پانی کی ضرورت محسوس ہوتی تو پینے کی اجازت نہ دیتا۔ایک دفعہ خواجہ صاحب نے پانی پینے کی اجازت بھی مانگی مگر اس نے اجازت نہ دی۔بعد میں اس کی یہ حالت ہوئی کہ اس نے خود مجھ سے دعا کے لئے درخواست کی میری عمر چھوٹی تھی کوئی بیس بائیس سال کی ہوگی میں کہیں جانے کے لئے اسٹیشن پر کھڑا تھا کہ وہ میرے پاس آیا اور ایک گھنٹہ میرے پاس کھڑا رہا اور اس نے درخواست کی کہ میرے لئے دعا کریں کہ کسی طرح یہ عذاب مجھ سے دور ہو جائے۔دوسرے مجسٹریٹ نے بظاہر آپ کو مقدمہ میں کوئی تکلیف نہیں دی تھی لیکن آخر میں آپ کو جرمانہ کی سزا دے دی۔وہ بھی ذلیل وخوار ہوا اور ملازمت سے الگ کر دیا گیا۔
یہ چیزیں بتاتی ہیں کہ جو خدا تعالیٰ کا ہو جاتا ہے اگر دشمن اس پر کوئی مصیبت لانے کی کوشش بھی کرتا ہے تو وہ عارضی ہوتی ہے۔غرض ایک عید اس شخص کی ہوتی ہے جسے اس کا محبوب یعنی خدا تعالیٰ مل جائےاور یہ وہ حقیقی عید تھی جو صحابہ ؓ کو حاصل تھی اسی طرح یہ عید خلفائے راشدین کے زمانہ میں اور اس کے بعد بھی ایک عرصہ تک چلی گئی۔لیکن پھر ایک ایسا زمانہ آیا کہ خدا تعالیٰ کا ملنا تو الگ رہا مسلمانوں نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ خدا تعالیٰ مل ہی نہیں سکتا اور وہ کسی سے کلام نہیں کرتاحالانکہ خدا تعالیٰ اب بھی اپنے بندوں سےکلام کرتاہے اور ان کی ہر کام میں مدد اور نصرت کرتاہے۔ مجھے اپنی ذات کا تجربہ ہے مجھے ایک دفعہ کوئی تکلیف پہنچی اس وقت میں نے اپنی دعا میں زور پیدا کرنے کے لئے یہ ارادہ کیا کہ جب تک میری وہ تکلیف دور نہ ہو گی میں زمین پر سویا کروں گا۔ہمارے صوفیا میں یہ چیز پائی جاتی ہے۔اسی طرح عیسائیوں میں بھی یہ چیز پائی جاتی تھی کہ کس طرح اپنے آپ کو تکلیف میں ڈال کر خدا کے رحم کو کھینچا جائے۔بہر حال میں نے ارادہ کیا کہ جب تک میری وہ تکلیف دور نہ ہو گی میں زمین پر سویا کروں گا۔جب پہلے دن میں زمین پر سویا تو میری آنکھ ابھی لگی ہی تھی کہ خدا تعالیٰ کی ایک صفت انسان کی شکل میں متشکل ہو کر میرے سامنے آگئی۔اس کے ہاتھ میں تازہ ملائم اور نرم نرم سبز چھڑی تھی اور جس طرح کوئی بناوٹی غصہ سے چہرہ کی شکل بناتا ہے ویسی ہی شکل بنا کر اس نے چھڑی اٹھائی اور مجھے مخاطب کرتے ہوئے کہا محمود ! چار پائی پر سوتا ہے یا نہیں۔مجھے یاد نہیں کہ وہ چھڑی مجھے لگی یا نہیں لیکن میں نے اسی وقت چار پائی پر کود کر جانے کی کوشش کی اور جب میری آنکھ کھلی میں چارپائی پر تھا۔ غرض اب بھی خدا تعالیٰ اپنےنیک بندوں سے اتنی محبت کرتا ہے کہ اسے اس بات سے بھی تکلیف ہوتی ہے کہ کیوں اس کے بندے نے اپنے آپ کو تکلیف میں ڈالا اور کیوں اس نے یہ خیال کر لیا کہ جب تک وہ اپنے آپ کو تکلیف میں نہیں ڈالے گا میں اس کی بات نہیں مانوں گا۔ بہرحال اس واقعہ کے بعد میری طبیعت پر جو بوجھ تھا وہ ختم ہو گیا اور جو تکلیف تھی وہ بھی کچھ وقت کے بعد دور ہو گئی۔ لیکن جب تک وہ تکلیف قائم رہی اس نے میری طبیعت پر کچھ اثر نہ ڈالا۔میں یہ سمجھتا تھا کہ جب خدا تعالیٰ نے یہ پسند نہیں کیا میں زمین پر سوؤں اور اپنی بات منوانے کے لئے اپنے نفس کو تکلیف میں ڈالوں تو وہ آئندہ بھی یہ کس طرح پسند کرے گا کہ مجھے کوئی تکلیف پہنچے۔ بہرحال ان وجوہات میں سے جن کی وجہ سے صحابہؓ عید منایا کرتے تھے ایک وجہ یہ بھی تھی کہ انہیں ان کا محبوب یعنی خدا تعالیٰ مل گیا تھا۔( خطبات محمود جلد ۱ صفحہ۴۲۷ تا ۴۳۰۔ خطبہ عیدالفطر فرمودہ۲۸؍ جولائی۱۹۴۹ء یارک ہاؤس کوئٹہ۔ مطبوعہ الفضل۸؍ اپریل ۱۹۵۹ء)
حقیقی عید اس قوم کو میسر آتی ہے جو خود فاقہ کرکےقوم اور ملک کی خدمت کے لیے اپنا مال خرچ کرے
وہ سبق جو اس عید میں ہمیں دیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ اصل عید وہ ہے جب انسان کو کھانے پینے کی توفیق ہو اور پھر وہ ایک لمبے عرصہ تک کھانے پینے سے گریز کرے اور مال ودولت کے ہوتے ہوئے اسے اپنی ذات پر خرچ نہ کرے بلکہ بنی نوع انسان کی خدمت کے کاموں پر خرچ کرے تب اسے اور اس کی قوم کو حقیقی عید میسّر آتی ہے۔
انگریزوں پر لوگ بڑے بڑے اعتراض کرتے ہیں لیکن ان کی تاریخ پڑھو اور ملکہ ایلز بتھ سے لے کر ملکہ وکٹوریہ کے زمانہ تک اور وکٹوریہ کے زمانہ سے لے کر ترک ہندوستان تک ان کی قوم کو دیکھو تمہیں معلوم ہو گا کہ اس وقت انگریز جرنیل کو بھی اتنی تنخواہ نہیں ملتی تھی جتنی ہمارے لفٹنٹ کو ملتی ہے حالانکہ ان کا ملک گراں تھا۔ان کا سارا فخر اس بات پر ہوا کرتا تھا کہ فلاں لارڈ کالڑکا فوج میں ہے۔وہ خود ڈیوک ہوتا تھا اس کی حیثیت ایسی ہی ہوتی تھی جیسے نواب بھوپال حیدر آباد کی حیثیت تھی مگر فوج میں اس کا لڑکا سو ڈیڑھ سو روپیہ تنخواہ لیتاتھا اور بڑا فخر سمجھا جاتا تھا کہ فلاں ڈیوک کا بیٹا ملک کی خدمت کر رہا ہے۔ ہمارے کر نیل اور جرنیل بھی یہ توفیق نہیں رکھتے کہ ان کے پاس ریس کے گھوڑے ہوں۔مگر انگریزی زمانہ میں ان لفٹینٹوں کے پاس بھی ریس کے گھوڑے ہوا کرتے تھے۔مجھے ایک دفعہ موٹر خریدنے کی ضرورت تھی مجھے یاد ہے ان دنوں اخبار میں فوج کے ایک انگریز لفٹنٹ کی طرف سے اشتہار چھپا کہ میرے پاس رولز رائس ہے میں چونکہ ولایت جانا چاہتا ہوں اس لئے جو شخص سب سے پہلے پچاس ہزار روپیہ دے گا اسے میں یہ کار دے دوں گا۔ اب دیکھو ایک لفٹنٹ تھا مگر وہ اعلان کر رہا تھا کہ میرے پاس ’’رولزرائس‘‘ ہے اور میں پچاس ہزار روپیہ میں فروخت کرنا چاہتا ہوں۔ ہمارے ہاں کسی جرنیل کو بھی یہ توفیق نہیں ہوتی کہ وہ یہ کار خرید سکے حالانکہ اس کی تنخواہ زیادہ ہوتی ہے۔یہ فرق اس لئے ہے کہ وہ خاندانی لحاظ سے امیر ہوتے تھےاور گھر سے روپیہ منگوایا کرتے تھے۔انگریزوں میں دوقسم کے میجر ہوا کرتے تھے ایک تو وہ جو صرف تنخواہ پر گزارہ کرتا تھا اور وہ ادنیٰ سمجھا جاتا تھا اور دوسرے کو وائسرائے تک بلاتا تھا کیونکہ اس کاباپ اسے روپیہ بھیجتا تھا۔گورنمنٹ سے اسے دو سو یا اڑھائی سو روپیہ ملتا تھا اور باپ اسے آٹھ دس ہزار روپیہ ماہوار بھیج دیتا تھا جس کے نتیجہ میں وہ ریس کے گھوڑے بھی رکھتا تھا اور بڑی شان سے رہتا تھا۔کئی وائسرائے ایسے گزرے ہیں جنہوں نے اپنی لڑکیوں کی شادی فوج کے اے۔ڈی۔سی سے کر دی۔اس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ وہ لفٹنٹ یا کپتان ہوتا تھا بلکہ وہ اس وجہ سے شادی کر دیتے تھے کہ ان کا باپ اتنی حیثیت کا مالک ہوتا تھا کہ وہ سمجھتے تھے اس لڑکے سے شادی کر دینے میں کوئی حرج نہیں۔
غرض اس قوم کی ہسڑی بتاتی ہے کہ اس نے اپنے اوپر رمضان گزارا ہے۔ان کے گھروں میں مال بھی تھا مگر انہوں نے قوم کی خدمت کے لئے اور ملک کی خدمت کے لئے فاقہ کیا۔یہی سبق ہے جو عید الفطر سے ہمیں حاصل ہوتاہے۔ آخر روزے صرف غرباء نہیں رکھتے بلکہ امراء بھی رکھتے ہیں۔اور بعض ایسے بھی ہوتے ہیں جو خود بھی کھا سکتے ہیں اور پچاس اور کو بھی روزانہ کھلا سکتے ہیں مگر انہوں نے خدا تعالیٰ کے لئے اور قوم کی ترقی کے لئے بھوک برداشت کی ہوتی ہے۔ اس کے بعد وہ دن آتاہے کہ خدا کہتا ہے کہ اب روزہ کھول دو اور رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں کہ جو شخص عید کے دن روزہ رکھے وہ شیطان ہوتاہے۔لیکن رمضان میں روزہ رکھنے والا فرشتہ ہوتاہے۔اس لئے کہ روزے کے دنوں میں خدا کہتاہے کہ نہ کھاؤ اور عید کے دن خدا کہا ہے کہ اگر تمہارے پاس کچھ نہیں ہے تب بھی کھاؤ پس چونکہ وہ خدا کی فرمانبرداری اور قوم کی ترقی کے لئے فاقہ کرتا ہے اس لئے اسے خدا کی طرف سے اعزاز مل جاتاہے۔پس یہ عید ہمیں توجہ دلاتی ہے کہ قومیں کس طرح ترقی کرتی ہیں۔ ( خطبات محمود جلد ۱ صفحہ۴۷۸-۴۷۹۔خطبہ عید الفطر فرمودہ۱۲؍ مئی۱۹۵۶ء بمقام مری۔ مطبوعہ الفضل۱۸؍ اپریل ۱۹۵۸ء)
جس دن مسلمان غرباء کی فلاح وبہبود کے لیے خرچ کریں گے وہی دن ان کے لیے حقیقی عید کا دن ہو گا
ہمارے ملک کے لوگوں کی یہ حالت ہے کہ وہ ذرا ذرا سےفائدے کے لئے ایک دوسرے کا گلا کاٹنے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں حالانکہ رمضان بتاتا ہے کہ دوسروں کا کیا چھیننا ہے خود بھی فاقے سے رہو اور جو کچھ تمہارے پاس ہے اسے بھی غرباء کی فلاح وبہبود کے لئے خرچ کرو۔یہ روح جس دن مسلمانوں میں پیدا ہو گئی درحقیقت وہی دن ان کے لئے حقیقی عید کا دن ہو گا۔ کیونکہ رمضان نے ہمیں بتایا ہے کہ تمہاری کیفیت یہ ہونی چاہئے کہ تمہارے گھر میں دولت تو ہو مگر اسے اپنے لئے خرچ نہ کرو بلکہ دوسروں کے لئے کرو۔تب قوم کے لئے عید کا دن آتا ہے۔آخر عید صرف کھانے پینے کا نام نہیں۔مسلمانوں میں ایسے ہزاروں لوگ موجود ہیں جو روزانہ وہ کچھ کھاتے ہیں جو غرباء کو عید کے دن میسّر نہیں آتا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ کے زمانہ میں تعلیمی مدارس دیکھنے کے لئے میں نے ایک دفعہ دورہ کیا۔شاہجہانپور کے ایک پرانے بزرگ ہیں ان کے والد جو مخلص احمدی اور شہر کے رئیس تھے انہوں نے حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کا بیٹا ہونے کی وجہ سے میری دعوت کی۔میرے ساتھ سلسلہ کے علماء بھی تھے جب ہم کھانا کھانے بیٹھے تو کھانے اتنی کثرت کے ساتھ تھے اور اتنی دور تک پھیلے ہوئے تھے کہ اگر ہاتھ کو پوری طرح لمبا بھی کر لیا جاتا تب بھی کھانوں کے آخر تک نہیں پہنچ سکتا تھا۔میں اُس وقت بچہ تھا میں نے کہہ دیا کہ یہ اسراف ہے اس میں سے چوتھا حصہ بھی ہم نہیں کھا سکتے۔چاہیے تھا کہ جتنا روپیہ اس دعوت پر خرچ کیا گیا ہے اس کا زیادہ حصہ غرباء پر خرچ کر دیا جا تا اور ایک دوکھانے ہمارے لئے تیار کر لئے جاتے۔اس پر وہ ایسے خفا ہوئے کہ جتنے دن میں وہاں رہا پھر وہ مجھے ملنے کے لئے نہیں آئے۔
اسی طرح حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ مسلمانوں میں سب سے زیادہ امیر سمجھے جاتے تھے جب وہ فوت ہوئے تو ان کے گھر سے اڑھائی کروڑ دینار نکلا حالانکہ اس زمانہ میں سِکّہ کی قیمت بہت زیادہ ہوتی تھی اور چیزیں بڑی سستی مل جایا کرتی تھیں۔ بلکہ وہ تو دور کا زمانہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرمایا کرتے تھے کہ سکھوں کے زمانہ میں بعض دفعہ آٹھ آٹھ آنے من غلہ مل جاتا تھا اور چار چار آنے سیر گھی مل جاتا تھا۔پرانے زمانہ میں جب ہم کشمیر جاتے تھے تو سنا کرتے تھے کہ مری میں ڈیڑھ ڈیڑھ آنے میں مرغی مل جاتی ہے۔ایسی جگہ اگر پندرہ روپے بھی کسی کو مل جاتے تو اس کا بڑا اچھا گزارہ ہو جاتا تھا۔مجھے اپنی ہوش میں یاد ہے کہ دس گیارہ آنے سیر گھی مل جاتا تھا اور غریب آدمی عام طور پر ایک سیر گھی میں گزارہ کرلیتے ہیں۔اسی طرح ڈیڑھ دو روپے من آٹا مل گیا تو گزارہ ہو گیا۔ اب ہمیں روپے بے شک زیادہ ملتے ہیں مگر مہنگائی بھی اس نسبت سے بڑھ گئی ہے اور اس طرح بات وہیں آکر ٹھہری ہے جہاں پہلے تھی۔
مجھے یاد ہے کہ مولوی شیر علی صاحبؓ چونکہ بیمار رہتے تھے اس لئے وہ اکثر دودھ پیا کرتے تھے۔میں ان کا شاگرد تھا اور مجھے ان کے مکان پر بھی جانا پڑتا تھا۔میں نے دیکھا کہ دودھ دینے والا روزانہ ان کے پاس آیا کرتا تھا مگر مہینہ کے بعد جب انہوں نے دودھ کا حساب کیا تو معلوم ہوا کہ روپیہ کا پندرہ سیر دودھ مل رہا ہے مگر اب سات آٹھ آنے سیر دودھ ملتا ہے۔اس وقت اگر انہیں پندرہ بیس روپے بھی ملتے ہوں تو خواہ بی۔اے ہونے کی وجہ سے یہ بھی ایک قربانی ہو گی مگر پھر بھی اُس زمانہ کے لحاظ سے ان کا گزارہ اچھا ہو جاتا تھا۔ مجھے یاد ہے ابتدائی زمانہ خلافت میں مَیں اپنے گھروں میں پانچ روپے فی کس خرچ دیا کرتا تھا۔اب میں اپنی بیویوں کو کہا کرتا ہوں کہ اُس زمانہ میں جو میری بیویاں تھیں وہ کتنی صابر تھیں کہ اتنی قلیل رقم میں وہ گزارہ کر لیا کرتی تھیں۔اس پر وہ کہا کرتی ہیں کہ پہلے زمانہ کے بھاؤ کا آپ موجود بھاؤ سے مقابلہ کریں اور پھر دیکھیں کہ ہم کتنا خرچ کرتی ہیں۔ غرض عید الفطر ہمیں بتاتی ہے کہ اگر مسلمانوں نے ترقی کرنی ہے تو انہیں چاہیے کہ اپنی دولت بجائے اپنے اوپر خرچ کرنے کے قوم اور ملک پر خرچ کیا کریں۔ ( خطبات محمود جلد۱ صفحہ۴۷۹-۴۸۱۔خطبہ عید الفطر فرمودہ۱۲؍ مئی۱۹۵۶ء بمقام مری۔ مطبوعہ الفضل۱۸؍ اپریل ۱۹۵۸ء)
٭…٭…٭