از مرکز

آج کے دن ہمیں خاص طور پر دعاؤں اور صدقات پر زور دینا چاہے (خلاصہ خطبہ کسوفِ شمس ۲۹؍مارچ ۲۰۲۵ء)

(ادارہ الفضل انٹرنیشنل)

٭…چاند اور سورج اللہ تعالیٰ کے نشانوں میں سے دو نشان ہیں کسی کی موت کی وجہ سے انہیں گرہن نہیں لگتا اور نہ کسی کی زندگی کی وجہ سے یہ گرہن لگتا ہے۔ سو جب سورج اور چاند کو تم گرہن میں لگا ہوا دیکھو تو نماز کے لیے مضطرب ہو کے لپکو (حدیث نبویﷺ)

٭…یہ نشان جو خاص رمضان میں دوبارہ ظاہر ہوا ہے اور انہی تاریخوں کو ہوا ہے جن کی پیشگوئی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی تھی تو ہمیں اپنے ایمانوں کو مضبوط کرنے کی طرف بھی توجہ دینی چاہیے اور ایمان کو مضبوط کرنے کے ساتھ ذکر الٰہی ،صدقات، استغفار کے ساتھ ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مشن کو پورا کرنے دنیا کو اس سے آگاہ کرنے کے لیے بھر پور کوشش بھی کرنی چاہیے

٭…تقریباً دو ہزار احباب جماعت کی حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ کی اقتدا میں نماز کسوف کی ادائیگی اور بصیرت افروز خطبہ کسوف کے حوالے سے رپورٹ

خلاصہ خطبہ کسوفِ شمس سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۲۹؍مارچ ۲۰۲۵ء بمطابق ۲۹؍ امان ۱۴۰۴؍ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ(سرے)، یوکے

(اسلام آباد ٹلفورڈ، ۲۹؍مارچ۲۰۲۵ء،نمائندگان الفضل انٹرنیشنل) آج بمطابق ۲۸؍رمضان المبارک ۱۴۴۶ھ دنیا کے بعض حصوں میں سورج گرہن لگ رہا ہے۔ چنانچہ سنت رسولﷺ کی پیروی میں آج جماعتوں میں نماز کسوف ادا کی گئی۔ اسلام آباد ٹلفورڈ میں تقریباً دو ہزار احباب جماعت نے امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کی اقتدا میں نماز کسوف ادا کی۔ نماز سے بہت پہلے ہی احباب جماعت اسلام آباد پہنچنا شروع ہو گئے جہاں ڈیوٹی پر موجود خدام پارکنگ وغیرہ کے انتظامات کو بخوبی سر انجام دے رہے تھے۔ مسجد اور ایوان مسرور کے علاوہ اسلام آباد کے گراؤنڈ میں ایک مارکی بھی نصب کی گئی تھی جس میں نماز ادا کرنے کا انتظام تھا۔

گیارہ بج کر ۳۲؍ منٹ پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ مسجد مبارک میں تشریف لائے اور نماز کسوف کی امامت فرمائی۔ اس نماز کی دو رکعات ہوتی ہیں اور ہر رکعت میں ایک کی بجائے دو رکوع ہوتے ہیں۔

حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے پہلی رکعت میں سورۃ الفاتحہ کی تلاوت کے بعد سورۃ البقرۃ کی پہلی سترہ آیات اور سورۃ البقرۃ کی آیات ۲۵۵تا ۲۵۸ کی تلاوت کی۔ اس کے بعد حضور انور نے رکوع کیا جس کے بعد آپ کھڑے ہو گئے اور ہاتھ باندھ کر دوبارہ سورۃ الفاتحہ کی تلاوت کی۔ حضور انور نے اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ کی آیت کو دوہرا کر پڑھا۔ اس کے بعد حضورِ انور نے سورۃ البقرۃ کے آخری رکوع (آیت ۲۸۵تا ۲۸۷) کی تلاوت کی۔ اس کے بعد حضور انور رکوع میں چلے گئے۔

دوسری رکعت میں حضور انور نے سورۃ الفاتحہ کی تلاوت کرتے ہوئے اَلۡحَمۡدُ لِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ،الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ اور اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ کی آیات کو دو مرتبہ دوہرایا۔ اس کے بعد حضور انور نے سورت آل عمران کی آیت ۲۶تا ۳۱ نیز ۱۹۱تا ۱۹۵ کی تلاوت کی۔ اس کے بعد حضور نے رکوع کیا جس کے بعد کھڑے ہو کر دوبارہ سورۃ الفاتحہ کی تلاوت کی۔ اس مرتبہ حضور نے اِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَاِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ اور اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ کی آیات کو دہرایا۔ اس کے بعد حضور انور نے سورۃالکہف کی پہلی گیارہ آیات نیز آیت ۱۰۳ تا ۱۱۱ کی تلاوت کی۔ اس کے بعد حضور نے رکوع کیا۔

یاد رہے کہ اس نماز میں حضور انور نے سنت رسولﷺ کی پیروی میں رکوع، قیام اور سجود کو لمبا کیا۔ ۱۲ بج کر ۱۲ منٹ پر اس نماز کا اختتام ہوا جس کے بعد حضور انور نے خطبہ کسوف ارشاد فرمایا۔

خلاصہ خطبہ کسوف شمس

تشہد،تعوذ اور سورۃ الفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ آج سورج گرہن پر نماز کسوف پڑھی ہے۔ یورپ میں اکثر ممالک میں، امریکہ میں بعض جگہوں پہ، کینیڈا میں، افریقہ کے ممالک میں بشمول موریطانیہ مراکش وغیرہ ان سب جگہوں پہ گرہن لگا۔ اسی طرح روس کے ممالک میں بھی لگا۔

حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ سورج گرہن پہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی یہی سنت تھی کہ دو نفل نماز ادا کیے جائیں۔ خاص طور پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دن استغفار اور صدقہ و خیرات کی طرف توجہ دلائی ہے۔ اس بارے میں احادیث میں بعض روایات ملتی ہیں کہ جب سورج گرہن لگا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بڑی تیزی سے اپنے گھر سے باہر تشریف لائے اور فرمایا کہ لوگوں کو جمع کرو۔ نماز باجماعت ہو گی، ہم نفل پڑھیں گے۔ تو اس کے لیے اذان کا نہیں کہا۔ اذان نہیں دی جاتی اس میں بلکہ یہ فرمایا کہ اعلان کرو کہ لوگ جمع ہو جائیں۔ چنانچہ لوگ جمع ہو گئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے لمبی نماز پڑھائی جس کی دو رکعات تھیں۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اس حوالے سے حضرت عائشہؓ  کی روایت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں سورج گرہن ہوا۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ مکہ میں بھی آپؐ نے نماز پڑھائی لیکن مکّے میں تو جمع نہیں ہو سکتے تھے اس لیے وہاں کوئی ایسی روایت نہیں ہے۔ مدینہ میں ہی کسوف کی نماز پڑھائی۔ بہرحال حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں سورج گرہن ہوا۔ آپ مسجد میں گئے۔ لوگ آپؐ کے پیچھے صف بستہ کھڑے ہو گئے۔ آپؐ نے اللہ اکبر کہا اور بہت لمبی قراءت کی۔ پھر تکبیر کہی اور رکوع کیا۔ پھر آپؐ نے سمع اللّٰہ لمن حمدہ کہا اور کھڑے ہو گئے اور سجدہ نہیں کیا اور لمبی قراءت کی جو کہ پہلی قراءت سے کم تھی۔ پھر آپؐ نے اللہ اکبر کہا اور لمبا رکوع کیا جو پہلے رکوع سے کم تھا۔ پھر آپؐ نے سمع اللّٰہ لمن حمدہ ربنا ولک الحمد کہا۔ پھر سجدہ کیا۔ پھر دوسری رکعت میں ایسا ہی کیا۔ اس طرح آپؐ نے دو رکعتوں میں چار رکوع اور چار سجدے کیے اور سورج نماز سے فارغ ہونے سے پہلے پہلے ظاہر ہو گیا تھا یعنی کہ گرہن اس وقت ختم ہو گیا تھا۔ پھر آپؐ کھڑے ہوئے اور اللہ تعالیٰ کی جس تعریف کے وہ لائق ہے تعریف کی اور فرمایا:

چاند اور سورج اللہ تعالیٰ کے نشانوں میں سے دو نشان ہیں کسی کی موت کی وجہ سے انہیں گرہن نہیں لگتا اور نہ کسی کی زندگی کی وجہ سے یہ گرہن لگتا ہے۔ سو جب سورج اور چاند کو تم گرہن میں لگا ہوا دیکھو تو نماز کے لیے مضطرب ہو کے لپکو یعنی فوری طور پر نماز ادا کرو نفل پڑھو۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے حضرت عبداللہ بن عباسؓ کی روایت کا کچھ حصہ بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سورج اور چاند اللہ تعالیٰ کے نشانوں میں سے دو نشان ہیں۔ کسی کی موت اور زندگی کی وجہ سے نہیں گہناتے سو جب تم گرہن دیکھو تو اللہ تعالیٰ کو یاد کرو۔ اس دوران جب آپؐ نماز پڑھا رہے تھے تو لوگوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو آگے پیچھے حرکت کرتے دیکھا۔ اس پر انہوں نے سوال کیا کہ یا رسول اللہﷺ! ہم نے آپ کو دیکھا کہ آپؐ نے اپنی جگہ کھڑے کھڑے کوئی چیز پکڑی ہے۔ پھر ہم نے دیکھا کہ آپؐ ایک دم پیچھے ہٹ گئے۔ آپؐ نے فرمایا کہ اس وقت مَیں نے جنت کا نظّارہ دیکھا تھا اور اس جنت میں سے ایک خوشہ لینے کو ہاتھ بڑھایا تھا۔ اگر لے لیتا تو جب تک دنیا قائم رہتی تم اسے کھاتے رہتے اور پھر مجھے آگ دکھائی گئی۔ میں نے کوئی ایسا بھیانک نظارہ نہیں دیکھا جیسے آج اس آگ کا دیکھا تھا۔ اس کو دیکھ کر پھر میں ایک دم پیچھے ہٹ گیا۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس کی تائید میں اَور بھی بہت ساری روایات ہیں۔ جیسا کہ میں نے بتایا نماز کے بعد خطبہ دینا بھی مسنون ہے۔ اس لیے جب بھی یہ نماز پڑھی جائے اس کے بعد خطبہ دیا جاتا ہے۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جب سورج گرہن لگا تو اس وقت آپؐ کے صاحبزادے حضرت ابراہیم کی وفات ہوئی تھی تو بعض روایات میں آتا ہے کہ لوگوں نے خیال کیا کہ شاید یہ گرہن اس وجہ سے لگا ہے۔ اس لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے وضاحت فرمائی کہ اس کا کسی کی موت اور زندگی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ میں انٹرنیٹ پر دیکھ رہا تھا تو وہاں بھی یہ معلومات ہیں کہ آپؐ کے صاحبزادے کی وفات کی وجہ سے گرہن لگا تو یہ معلومات وہاں غلط ہیں۔ پتا نہیں کس نے اس میں ڈالی ہیں اور عام طور پر لوگ عموماً سمجھتے ہیں کہ وہ صحیح معلومات ہوتی ہیں لیکن غلط ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی روایات جو مختلف ذریعوں سے ملی ہیں یہی ہیں کہ آپؐ نے فرمایا کہ اس کا کسی کی موت یا زندگی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ تمام روایات اس بات کی نفی کرتی ہیں۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ

جماعت میں بھی چاند سورج گرہن کی خاص اہمیت ہے کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کے خاص دنوں میں چاند سورج گرہن کی نشانی مسیح و مہدی کے آنے کی نشانی کے طور پر بیان فرمائی ہے اور اس کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعویٰ کے بعد ۱۸۹۴ء میں مشرق میں اور ۱۸۹۵ء میں مغرب میں یہ گرہن لگا تھا چاند کو بھی سورج کو بھی۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی کتب اور مجالس میں اس کا بہت ذکر فرمایا ہے۔ ایک کتاب ‘نورالحق’کے حصہ دوم کا ایک اقتباس میں یہاں پیش کر دیتا ہوں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ پھر جان کہ خدا تعالیٰ نے میرے دل میں پھونکا کہ یہ خسوف اور کسوف جو رمضان میں ہوا ہے یہ دو خوفناک نشان ہیں جو ان کے ڈرانے کے لیے ظاہر ہوئے ہیں جو شیطان کی پیروی کرتے ہیں، جنہوں نے ظلم اور بے اعتدالی کو اختیار کر لیا۔ سو خدا تعالیٰ ان دونوں نشانوں کے ساتھ ان کو ڈراتا ہے اور ہریک ایسے شخص کو ڈراتا ہے جو حرص و ہوا کا پیرو ہوا اور سچ کو چھوڑا اور جھوٹ بولا اور خدا تعالیٰ کی نافرمانی کی۔ پس خدا تعالیٰ پکارتا ہے کہ اگر وہ گناہ کی معافی چاہیں تو ان کے گناہ بخشے جائیں گے اور فضل اور احسان کو دیکھیں گے اور اگر نافرمانی کی تو عذاب کا وقت تو آ گیا اور اس میں ان لوگوں کو ڈرانا بھی مقصود ہے جو بغیر حق کے جھگڑتے ہیں اور خدا تعالیٰ سے نہیں ڈرتے اور ایسے شخص کے لیے تحدید ہے جو نافرمانی اور تکبر اختیار کرتا ہے اور سرکشی کو نہیں چھوڑتا۔ سو خدا سے ڈرو اور زمین پر فساد کرتے مت پھرو۔ اور تمہیں کیا ہوگیا کہ تم اس سے ڈرتے نہیں حالانکہ ڈرانے کے نشان ظاہر ہو گئے اور صحیح مسلم اور بخاری سے ثابت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مومنوں کے سمجھانے کے لیے فرمایا کہ شمس اور قمر دو نشان خدا تعالیٰ کے نشانوں میں سے ہیں اور کسی کے مرنے یا جینے کے لیے ان کو گرہن نہیں لگتا بلکہ وہ خدا تعالیٰ کے دو نشان ہیں خدا تعالیٰ ان دونوں کے ساتھ اپنے بندوں کو ڈراتا ہے۔ پس جب تم ان کو دیکھو تو جلدی سے نماز میں مشغول ہو جاؤ۔ پس دیکھ کہ کیونکر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خسوف کسوف سے ڈرایا اور حدیث میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ یہ دونوں نشان گنہگاروں کے ڈرانے کے لیے ہیں اور اس وقت ظاہر ہوتے ہیں کہ جب دنیا میں گناہ بہت ہوں اور خلقت میں بدکاریاں پھیل جائیں اور پلید بہت ہو جائیں اور اسی غرض سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے گرہن کے وقت میں فرمایا کہ بہت نیکیاں کریں اور نیک کاموں کی طرف جلدی کریں جیسی خالص نیت کے ساتھ نماز اور روزہ اور دعا کرنا اور رونا اور اللہ تعالیٰ کی تعریف اور ذکر اور تضرع اور قیام اور رکوع اور سجدہ اور توبہ اور انابت اور استغفار اور خشوع اور ابتہال اور انکسار اور ایسا ہی حسب طاقت احسان اور غلام آزاد کرنا اور کسی کو سبکدوش کرنا اور یتیموں کی غم خواری اور جناب الٰہی میں تذلل۔ پس گویا کہ ان اعمال کی بجا آوری میں جو نماز اور خشوع اور ابتہال ہے یہی بھید ہے کہ

چاند اور سورج کا اسی حالت میں گرہن ہوتا ہے کہ جب کوئی آفت نازل ہونے والی ہو اور کسی مصیبت کا زمانہ قریب ہو اور آسمان پر ایسے اسباب شر کے جمع ہو گئے ہوں جو لوگوں کی آنکھوں سے پوشیدہ ہیں اور صرف ان کو خدا تعالیٰ جانتا ہے۔ پس خدا تعالیٰ کی رحمت اور اس کی پُر لطف حکمت تقاضا کرتی ہے جو کسی کسوف کے وقت لوگوں کو وہ طریقے سکھلاوے جو کسوف کے موجبات کو دور کر دیں۔

پس اس نے اپنے نبی کی زبان پر یہ تمام طریقے سکھلا دیئے۔ اور کچھ شک نہیں کہ بدیاں نیکیوں سے دور ہوتی ہیں اور گناہ کی معافی چاہنے والوں کے آنسو آگ کو بجھا دیتے ہیں۔ اور جس وقت کوئی بندہ کوئی نیک عمل کرتا ہے اور خدا تعالیٰ کو اس سے راضی کر دیتا ہے پس وہ نیک عمل اس کی بدی کا مقابلہ کرتا ہے جس کے اسباب مہیا ہو گئے ہیں۔ پس خدا تعالیٰ اس عامل کو اس بدی سے بچا لیتا ہے۔ اور

یہ خدا تعالیٰ کی سنت ہے کہ وہ دعا کے ساتھ بلا کو ردّ کرتا ہے اور دعا اور بلا کبھی دونوں جمع نہیں ہوتیں مگر دعا باذن الٰہی بلا پر غالب آتی ہے جب ایسے لبوں سے نکلتی ہے جو خدا تعالیٰ کی طرف رجوع کرنے والے ہیں۔ سو دعا کرنے والوں کو خوشخبری ہے۔

آج کے دن ہمیں خاص طور پر دعاؤں اور صدقات پر زور دینا چاہیے۔ مَیں نے ذاتی طور پر بھی صدقے دیے ہیں جماعت نے بھی صدقے دیے ہیں مختلف جگہوں پر جماعت کے افراد کو بھی چاہیے کہ جن کو توفیق ہے وہ صدقات دیں۔ اسے ہم صرف تماشا سمجھ کر نہ دیکھیں کہ عینک لگائی، کالے شیشے لگائے یا کوئی اَور چیز استعمال کی تو دیکھ لیا بلکہ

آج کے دن ہمیں بہت زیادہ استغفار کرنی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ سے اس کی رحمت کو طلب کرنا چاہیے اس کے حضور عاجزی سے جھکنا چاہیے۔

یہ نشان جو خاص رمضان میں دوبارہ ظاہر ہوا ہے اور انہی تاریخوں کو ہوا ہے جن کی پیشگوئی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی تھی تو ہمیں اپنے ایمانوں کو مضبوط کرنے کی طرف بھی توجہ دینی چاہیے اور ایمان کو مضبوط کرنے کے ساتھ ذکر الٰہی، صدقات، استغفار کے ساتھ ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مشن کو پورا کرنے اور دنیا کو اس سے آگاہ کرنے کے لیے بھر پور کوشش بھی کرنی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس میں کوئی دعا یا کوئی خطبہ ثانیہ نہیں ہوتا۔ اس کے بعد یہ ختم ہو جاتا ہے۔ جزاک اللہ۔ السلام علیکم ورحمة اللہ۔

۱۲ بج کر ۲۹؍ منٹ پر حضور انور مسجد مبارک سے تشریف لے گئے۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button