خطبہ جمعہ

خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 14؍مارچ 2025ء

’’قرآن شریف کی مثال ایک باغ کی ہے کہ ایک مقام سے انسان کسی قسم کا پھول چنتا ہے پھر آگے چل کر ایک اَور قسم کا چنتا ہے۔‘‘ (حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام)

قرآن کریم کی اہمیت اور نسبت رمضان کے ساتھ بہت زیادہ ہے۔ پس اس بات کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے اور قرآن کریم کو پڑھنے، سننے اور درسوں میں شامل ہونے کی طرف توجہ دینی چاہیے

ترجمہ اور درس سن کر ہمیں اس پر عمل کرنے والا ہونا چاہیے۔ قرآن کریم نے جو احکامات دیےہیں، جو تعلیم دی ہے اس پر ہم عمل کرنے والے ہوں۔ اگر صرف سن کر اسے بھول گئے، پڑھا اور پھر توجہ نہ دی تو پھر وہ فوائد حاصل نہیں ہو سکتے جو قرآن کریم سے ہم حاصل کر سکتے ہیں

یہ ہماری بدقسمتی ہو گی اگر ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وضاحت کو، معانی کو، قرآن شریف کی تفسیر کو سمجھ کر اس پر عمل کرنے والے نہ بنیں۔ اللہ تعالیٰ نے تو اس زمانے میں اپنے وعدے کے مطابق اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے مطابق ایک نمائندہ بھیج دیا۔ پس اس کو ماننا، اس کی باتوں کو سننا اور تفاسیر جو انہوں نے قرآن کریم کی کی ہیں ان پر غور کرنا، ان پر عمل کرنا اب ہمارا کام ہے۔ اگر ہم یہ کریں گے تو اپنی زندگیوں کو کامیاب بنانے والے ہوں گے

بچوں کی آمین کے لیے لوگ میرے پاس آتے ہیں ان کو یاد رکھنا چاہیے کہ ایک فرض تو انہوں نے پورا کر دیا کہ بچوں کو قرآن کریم پڑھا دیا۔اب اس قرآن کریم کو پڑھنے کا مستقل شوق پیدا کروانا بھی ان کا کام ہے اور وہ تبھی ہو سکتا ہے جب خود ماں باپ بھی اس طرف توجہ دیں۔ وہ خود بھی قرآن کریم کی باقاعدہ تلاوت کرنے والے ہوں تا کہ بچے دیکھیں کہ ہمارے ماں باپ تلاوت کر رہے ہیں

ہر احمدی کو یاد رکھنا چاہیے کہ ہمیں جو کچھ ملنا ہے قرآن کریم کی برکت سے ملنا ہے اور ہمیں اس طرف بہت زیادہ توجہ دینی چاہیے

اس بات کو ہمیں ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے کہ قرآن کریم ہی وہ تعلیم ہے جو ہمیں کامیابیوں سے سرفراز کرنے والی ہے اور کامیابیاں ہمیں اسی سے ملیں گی کہ اگر ہم اس کی تعلیم پر عمل کریں گے اور اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا قرب پانے کی کوشش کریں گے

جو شخص نہ قرآن پڑھتا ہے نہ اس پر عمل کرتا ہے تو اس کی زندگی تو پھر منافقت کی انتہا کی زندگی ہے۔ اس کا صرف زبانی دعویٰ ہے کہ میں مسلمان ہوں لیکن اسلام کی تعلیم پر کوئی عمل نہیں کیونکہ اسلام کی تعلیم پر عمل قرآن کریم کا علم حاصل کیے بغیر ہو ہی نہیں سکتا۔ قرآن کریم کے احکامات پر غور کیے بغیر ہو ہی نہیں سکتا

مسلمانوں میں آجکل جو جھگڑے ہیں۔ فساد ہیں۔ ایک دوسرے کی گردنیں کاٹی جا رہی ہیں۔ الزام تراشیاں کی جا رہی ہیں۔ حکومتیں عوام سے لڑ رہی ہیں عوام حکومتوں سے لڑ رہے ہیں۔ ایک دوسرے کی قتل و غارت ہو رہی ہے۔ بغاوتیں ہو رہی ہیں۔ یہ سب اس لیے ہےکہ قرآن کریم پر عمل نہیں ہے

حضرت صہیبؓ سے مروی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے قرآن کریم کے محرّمات کو عملاً حلال سمجھ لیا اس کا قرآن پر کوئی ایمان نہیں قرآن کریم کو پڑھنا اور اس طرح پڑھنا کہ سمجھ بھی آ رہی ہو تو یہ صدقہ کے طور پر قبول ہو گا اور اس کی برکات سے پھر تمام فتنوں سے بھی انسان بچا رہے گا

’’انسان کو چاہیے کہ قرآن شریف کثرت سے پڑھے۔ جب اس میں دعا کا مقام آوے تو دعا کرے۔ اور خود بھی خدا سے وہی چاہے جو اس دعا میں چاہا گیا ہے۔اور جہاں عذاب کا مقام آوے تو اس سے پناہ مانگے۔ اور ان بداعمالیوں سے بچے جس کے باعث وہ قوم تباہ ہوئی۔‘‘ (حضرت مسیح موعودؑ)

رمضان المبارک کی مناسبت سے قرآن کریم، احادیث نبویﷺ اور حضرت اقد س مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ و السلام کے ارشادات کی روشنی میں قرآن کریم کی اہمیت، عظمت اور برکات کا بصیرت افروزتذکرہ

خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 14؍ مارچ 2025ء بمطابق 14؍ امان 1404 ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد، ٹلفورڈ (سرے)، یوکے

(خطبہ جمعہ کا یہ متن ادارہ الفضل اپنی ذمہ داری پر شائع کر رہا ہے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾
اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾
اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾

اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہم رمضان کے دوسرے عشرے میں سے گزر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کا رمضان سے ایک خاص تعلق بیان فرمایا ہے۔ ایک خاص نسبت بیان فرمائی ہے اور فرمایا کہشَہۡرُ رَمَضَانَ الَّذِیۡۤ اُنۡزِلَ فِیۡہِ الۡقُرۡاٰنُ ہُدًی لِّلنَّاسِ وَ بَیِّنٰتٍ مِّنَ الۡہُدٰی وَ الۡفُرۡقَانِ۔(البقرہ :186) یہ رمضان کا مہینہ جس میں قرآن انسانوں کےلیےایک عظیم ہدایت کے طور پر اتارا گیا اور ایسے کھلے نشان کے طور پر جن میں ہدایت کی تفصیل اور حق و باطل میں فرق کر دینے والے امور ہیں۔

پس اسی لیے اس مہینے میں ہمیں خاص طور پر اس کے پڑھنے کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی توجہ دلائی جن کو اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں امام بنا کے بھیجا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تو اس پہ خاص طور پر بہت توجہ دلائی ہے کہ قرآن کریم کو خاص اہتمام سے پڑھو۔ حضرت جبرئیل علیہ السلام ہر سال جو بھی قرآن کریم نازل ہوا ہوتا تھا اس کا ایک دَور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے مکمل کروایا کرتے تھے اور آپ کی زندگی کے آخری سال میں تو دو دفعہ یہ مکمل ہوا۔

(صحیح بخاری کتاب فضائل القرآن باب کان جبرئیل یعرض القرآن … حدیث 4997)

قرآن کریم کی اہمیت اور نسبت رمضان کے ساتھ بہت زیادہ ہے۔ پس اس بات کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے اور قرآن کریم کو پڑھنے، سننے اور درسوں میں شامل ہونے وغیرہ کی طرف توجہ دینی چاہیے۔

ہمارے ہاں مساجد میں قرآن کریم کے درسوں کا اہتمام ہوتا ہے۔ تراویح کا بھی اہتمام ہوتا ہے۔ قرآن کریم کی تلاوت پر بھی زور دیا جاتا ہے۔ ایم ٹی اے پر روزانہ تلاوت آتی ہے اس کو بھی سننا چاہیے لیکن

اس سے برکات تبھی مل سکتی ہیں، تب ہی اس سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے جب یہ سن کر ہم اس پر عمل کرنے کی کوشش کریں۔

بہت سارے لوگ ہیں جن کو عربی نہیں آتی۔ قرآن شریف کو صحیح طور پر سمجھ نہیں سکتے تو ترجمے اس کے موجود ہیں۔ تلاوت کے ساتھ ان ترجموں کو پڑھنا چاہیے۔ درسوں کے دوران ہمیں غور کرنا چاہیے۔ خلفاء جو بیان کرتے رہے ان کے خطبات ہیں اور اسی طرح درسوں پہ بھی یہ بیان کیا گیا ہے۔ اس سے ہمارے علم میں اضافہ ہو گا۔

پس اگر فائدہ اٹھانا ہے تو فائدہ اسی وقت اٹھایا جا سکتا ہے جب ہم قرآن کریم کو پڑھ کر اس پر عمل کرنے کی کوشش کریں اور رمضان کے دنوں میں خاص طور پر اس طرف اللہ تعالیٰ نے توجہ دلائی ہے تو اس لیےکہ قرآن کریم جو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میں نے رمضان میں اتارا ہے اس کو خاص طور پر پڑھو اور اس پر عمل کرنے کی کوشش کرواور جب تم یہ کرو گے تو پھر یہ تمہاری زندگیوں کا حصہ بھی بن جائے گا۔ پس جو اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا کہ اس میں ہدایت ہے تو ہدایت پر اس وقت انسان چل سکتا ہے، حق و باطل میں فرق کا علم اس وقت فائدہ دے سکتا ہے جب ہم اس پر عمل کرنے والے ہوں۔

پس جیسا کہ میں نے کہا کہ

ترجمہ اور درس سن کر ہمیں اس پر عمل کرنے والا ہونا چاہیے۔ قرآن کریم نے جو احکامات دیےہیں، جو تعلیم دی ہے اس پر ہم عمل کرنے والے ہوں۔ اگر صرف سن کر اسے بھول گئے۔ پڑھا اور پھر توجہ نہ دی تو پھر وہ فوائد حاصل نہیں ہو سکتے جو قرآن کریم سے ہم حاصل کر سکتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کے شروع میں ہی سورۃالبقرة میں اس طرف توجہ دلائی۔ اس کی اہمیت بیان فرمائی۔ یہ تیسری آیت ہے۔ فرمایا کہ ذٰلِکَ الۡکِتٰبُ لَا رَیۡبَ فِیۡہِ ہُدًی لِّلۡمُتَّقِیۡنَ (البقرہ :3) کہ یہ وہ کتاب ہے جس میں کوئی شک نہیں اور متقیوں کے لیے ہدایت دینے والی ہے۔ پس تقویٰ پر چلنے کےلیے، ایک حقیقی مومن بننے کےلیےاللہ تعالیٰ نے اس کتاب پر عمل ضروری قرار دیا ہے اور رمضان میں ہم اس بات کی ہی تلاش میں ہوتے ہیں کہ کس طرح تقویٰ پر چلتے ہوئے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ ایک حقیقی مومن بننے کی مثال قائم کرنے کی کوشش کریں اور ہدایت پائیں اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث بنیں۔ پس اللہ تعالیٰ نے بتا دیا کہ اگر یہ مقصد ہے تو پھر یہ کتاب تمہیں دے دی ہے اس پر عمل کرو اور جب تم اس پر عمل کرو گے تو پھر بےشمار فوائد تم حاصل کرنے والے ہو گے۔ اللہ تعالیٰ نے صاف فرما دیا کہ یہ ایک ایسا چشمہ ہے کہ جو پاک دل ہو کر اس سے فائدہ اٹھانا چاہے وہ اس سے فائدہ اٹھائے گا۔ وہ تقویٰ میں بھی آگے بڑھے گا۔ وہ ہدایت پانے والوں میں بھی شمار ہو گا کیونکہ یہ کتاب وہ ہے جس میں کوئی شک نہیں ہے کہ یہ متقیوں کےلیےہدایت ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ ’’اس کے فیوض و برکات کا در ہمیشہ جاری ہے اور وہ ہر زمانہ میں اسی طرح نمایاں اور درخشاں ہے جیسا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت تھا۔‘‘

(ملفوظات جلد 3 صفحہ 57 مطبوعہ 1984ء)

تو یہ اس کتاب کا دعویٰ ہے کہ اگر تم پاک دل ہو کر اس کی طرف آؤ گے تو ہر برائی سے بچو گے، ہدایت پانے والوں میں ہو گے، تقویٰ پر چلنے والے ہو گے اور جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا اس کے فیوض ہمیشہ جاری ہیں۔ ہمیشہ اس پر عمل کرنے والے ہر برائی سے بچتے رہیں گے۔ راستوں پر جو کانٹے دار جھاڑیاں ہیں، جو غلط قسم کی بعض باتیں ہیں جو انسان کی توجہ اپنی طرف کھینچ لیتی ہیں اور اس کو دین سے دُور ہٹانے کی کوشش کرتی ہیں۔ جو برائی کی طرف لے جانے والی ہوتی ہیں اگر قرآن کریم پر چلتے ہوئے اس پر عمل کرتے رہیں گے تو پھر ہم ان سے بھی بچتے رہیں گے۔

پس اس بات کو ہمیں ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے کہ رمضان میں جب ہم اس طرف خاص توجہ دے رہے ہوتے ہیں کہ قرآن کریم پڑھیں اور سنیں۔ تراویح پر بھی آتے ہیں۔ درسوں پر بھی آتے ہیں۔ گھروں میں بھی پہلے سے زیادہ قرآن کریم پڑھا جاتا ہے۔ اگر کوئی دَور مکمل نہیں بھی کرتا تو کم از کم کچھ نہ کچھ وقت تلاوت ان دنوں میں ضرور کرتا ہے۔ اول تو یہ کوشش کرنی چاہیے کہ رمضان میں ایک دور مکمل کیا جائے جیسا کہ میں نے کہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت تو یہی ہے کہ آپ رمضان میں خاص طور پر دور مکمل فرمایا کرتے تھے اور حضرت جبرائیل علیہ السلام آپ سے دہرائی کرواتے تھے۔ تو فائدہ اٹھانے کےلیے، اس سنت پر عمل کرنے کےلیے، اس سے فیض اٹھانے کےلیےہمیں ایک تو دَور بھی مکمل کرنا چاہیے دوسرے جو تفسیر اور ترجمہ ہے جن کو عربی نہیں آتی، عرب ممالک کے علاوہ بہت ساری دنیا میں ایسے ہیں جو عربی نہیں جانتے ان کو ساتھ ساتھ ترجمہ پڑھ کر اس کو دیکھنا چاہیے جیسا کہ پچھلے خطبے میں بھی مَیں نے کہا تھا کہ اس پر عمل کرنے کےلیےنکات نکالنے چاہئیں تا کہ ہم ان پر عمل کرنے والے ہوں اور ہدایت پانے والے ہوں اور پھر اچھائی اور برائی کا ہمیں صحیح علم ہوگا۔ صحیح ہدایت کا ہمیں علم ہوگا۔ تقویٰ کے صحیح راستوں کا ہمیں علم ہو گا اور پھر ہم عمل کر کے اللہ تعالیٰ کے فضلوں سے فیض پانے والے بھی ہوں گے۔

بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں، یہ خیال کرتے ہیں کہ قرآن کریم بہت مشکل کتاب ہے لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَ لَقَدۡ یَسَّرۡنَا الۡقُرۡاٰنَ لِلذِّکۡرِ فَہَلۡ مِنۡ مُّدَّکِرٍ (القمر :18) اور یقیناً ہم نے قرآن کو نصیحت کی خاطر آسان بنا دیا۔ پس کیا کوئی ہے نصیحت پکڑنے والا؟

پس یہ اللہ تعالیٰ کا دعویٰ ہے، یہ اس کا دعویٰ ہے جس نے انسان کو پیدا کیا ہے۔ وہ اس کی فطرت کو جانتا ہے، اس کے حالات کو جانتا ہے، اس کی استعدادوں کو جانتا ہے۔ فرماتا ہے کہ مَیں نے تو قرآن کریم میں آسان تعلیم دی ہے اس پر عمل کرنے کےلیےتمہیں کوشش تو بہر حال کرنی پڑے گی اور اگر کوشش کرو گے تو پھر تم کامیاب بھی ہو جاؤ گے اور اس پر عمل کرنے والے بھی ہو گے۔ پس تمہیں نصیحت یہی ہے کہ اس پر عمل کرنے کےلیےاپنی طرف سے پوری کوشش کرو۔ صرف نام کے مسلمان نہ بنو۔

ہمیں،خاص طور پر ہم احمدیوں کو صرف یہ دعویٰ نہیں کرنا چاہیے۔ کیونکہ ہم نام کے مسلمان تو بہرحال نہیں ہیں بلکہ ہم نے اس زمانے میں مسیح موعود اور مہدی معہوؑد کو مانا ہے اور اس لیےمانا ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کا قرب پانے والے بنیں۔ اللہ تعالیٰ کی پیشگوئی کے مطابق آنے والے کو اللہ تعالیٰ کے حکموں پر عمل کرتے ہوئے، اس کو پورا کرنے کے لیے مانا ۔ پس جب ہم نے مانا ہے تو ہمیں اب قرآن کریم کے حکموں پر عمل کرنے والا بھی بننا پڑے گا۔ پس اگر ہم میں یہ بات نہیں ہے تو پھر ہماری بیعت کا دعویٰ بھی بے فائدہ ہے۔

اللہ تعالیٰ نےتو فرمادیا ہے کہ میں نے اس قرآن کو آسان کر دیا ہے اور انسانی فطرت کو مدّنظر رکھتے ہوئے بڑے آسان انداز میں نصیحت کی ہے جن پر ہر انسان بڑی آسانی سے عمل کر سکتا ہے۔ قواعد و ضوابط بیان کردیے۔احکامات بیان کیے۔ عبادتوں کے طریقے بیان کیے۔ معاشی اور معاشرتی احکامات اور آپس کے تعلقات کس طرح ہونے چاہئیں یہ بیان کیے۔ اس لیےتا کہ ان پر عمل کرو تو تمہاری زندگی بھی سکون سے گزرے گی۔ تمہارا ماحول بھی پرامن رہے گا اور تم لوگ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث بھی بنتے چلے جاؤ گے۔ پس ہمیں ہر ایک کے لیے یہ بات سمجھنے والی ہے۔ اور اگر ہم اس کو سمجھ جائیں گے تو اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث بنتے چلے جائیں گے۔ ہمارے گھریلو تعلقات بھی صحیح رہیں گے۔ ہمارے معاشرے میں تعلقات بھی صحیح رہیں گے۔ پھر ہماری جو دوسری ذہنی استعدادیں ہیں ان میں بھی بہت بہتری پیدا ہو گی، جِلا پیدا ہو گی۔ اللہ تعالیٰ کا عرفان حاصل کرنے کی طرف ہماری توجہ پیدا ہو گی۔

ہم احمدی خوش قسمت ہیں کہ اس زمانے میں ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ماننے کی توفیق ملی۔ ان کو اللہ تعالیٰ نے حکم اور عدل بنا کر بھیجا اور آپؑ نے قرآن کریم کے چُھپے ہوئے خزانے ہمیں عطا فرمائے اور بےشمار معارف قرآن کریم کے نکال کر ہمارے سامنے رکھے۔ ہماری تعلیم و تربیت کےلیےہمیں واضح طور پر ان احکامات جن کو ہم بعض اوقات سمجھ نہیں سکتے ان کی بھی تشریح فرما کر ہمارےلیےآسان فرما دیا۔ پس اللہ تعالیٰ نے اگر یہ کہا کہ مَیں نے آسان بنایا ہے تو آسان بنانے کےلیےاللہ تعالیٰ نے مختلف وقتوں میں استاد بھی پیدا کر دیے اور اس زمانے میں علم و عرفان کے دروازے کھولنے کےلیےحضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بھیجا جنہوں نے ہمیں سب کچھ بتا دیا۔ پس

یہ ہماری بدقسمتی ہو گی اگر ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وضاحت کو، معانی کو، قرآن شریف کی تفسیر کو سمجھ کر اس پر عمل کرنے والے نہ بنیں۔ اللہ تعالیٰ نے تو اس زمانے میں اپنے وعدے کے مطابق اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے مطابق ایک نمائندہ بھیج دیا۔ پس اس کو ماننا، اس کی باتوں کو سننا اور تفاسیر جو انہوں نے قرآن کریم کی کی ہیں ان پر غور کرنا، ان پر عمل کرنا اب ہمارا کام ہے۔ اگر ہم یہ کریں گے تو اپنی زندگیوں کو کامیاب بنانے والے ہوں گے۔

اور اس کے علاوہ پھر خلفاء نے بھی تفاسیر کی ہیں۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تفسیر کبیر لکھی ہے۔ تقریباً نصف قرآن تو اس میں coverہوتا ہے۔ اس کے علاوہ اَور ترجمے اور تفسیریں ہیں۔ تفسیر صغیر ہے وہ بھی کافی وضاحت سے ہے اور یہ ایسی باتیں ہیں، کتابیں ہیں جن میں احکامات واضح طور پر بیان ہوئے ہیں۔ انگریزی میں بھی ان کے ترجمے ہو رہے ہیں۔ عربی میں بھی ترجمے ہو رہے ہیں۔ اور مختلف زبانوں میں جرمن وغیرہ میں بھی ترجمے ہو رہے ہیں تو اس کی طرف ہمیں خاص طور پر توجہ دینی چاہیے کہ جہاں ہم رمضان کے مہینے میں قرآن کریم کی تلاوت کی طرف توجہ دیں اور کوشش کریں کہ ایک دَور ختم کرنا ہے وہاں اس کے معانی پر بھی غور کرنے کےلیے، اس کے مطالب پر غور کرنے کے لیے بھی توجہ دیں اور احکامات تلاش کریں اوران کو تلاش کر کے اپنی زندگیوں کا حصہ بنانے کی کوشش کریں۔ صرف قرآن کریم کو پیار کر لینا کافی نہیں ہے۔ صرف سنبھال کر رکھ لینا کافی نہیں ہے۔ صرف ماتھے پر لگا لینا کافی نہیں ہے۔

بچوں کی آمین کے لیے لوگ میرے پاس آتے ہیں ان کو یاد رکھنا چاہیے کہ ایک فرض تو انہوں نے پورا کر دیا کہ بچوں کو قرآن کریم پڑھا دیا۔ اب اس قرآن کریم کو پڑھنے کا مستقل شوق پیدا کروانا بھی ان کا کام ہے اور وہ تبھی ہو سکتا ہے جب خود ماں باپ بھی اس طرف توجہ دیں۔ وہ خود بھی قرآن کریم کی باقاعدہ تلاوت کرنے والے ہوں تا کہ بچے دیکھیں کہ ہمارے ماں باپ تلاوت کر رہے ہیں۔

خود بھی اس کا ترجمہ اور تفسیر پڑھنے والے ہوں تا کہ انہیں سمجھ آئے کہ کیا احکامات ہیں اور جب بچے سوال کریں تو ان کے جواب بھی دے سکیں۔ بعض بچے چھوٹے چھوٹے سوال کرتے ہیں اور ماں باپ لکھ کر بھیج دیتے ہیں کہ اس کا کیا جواب ہے حالانکہ اگر ترجمہ اور تفسیر تھوڑی سی بھی پڑھی ہو تو خود ماں باپ ہی جواب دے سکتے ہیں اور ان کو کسی مدد کی ضرورت نہیں پڑے گی۔

پس یہ فرض اب ماں باپ کا بھی ہے کہ آمین کروانے کے بعد ان کی ذمہ داری اور بڑھ گئی ہے کہ جو اللہ تعالیٰ کی کتاب، جو ہدایت کی کتاب، جو عرفان کی کتاب اللہ تعالیٰ نے ہمیں دی ہے اس کو ہم نے اپنے بچوں کو پڑھا دیا تو اب اس کی محبت بھی ان کے دلوں میں ڈالیں اور وہ محبت تب ہی ہو گی جب ہم خود بھی اس کتاب سے محبت کا اظہار کریں گے۔ پس ہر احمدی کو اس بات کی فکر کرنی چاہیے کہ وہ خود بھی اور اس کے بیوی بچے بھی قرآن کریم پڑھنے اور اس کی تلاوت کرنے کی طرف توجہ دیں۔ ترجمہ پڑھیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تفسیر پڑھیں۔ خلفاء کی تفسیر جیسا کہ میں نے کہا ہے بعض ہیں پڑھیں اور سنیں۔ آڈیو بھی آتی ہے۔ ایم ٹی اے پر بھی آتی ہے۔ اگر ہم قرآن کریم کو اس طرح نہیں پڑھتے تو ہمیں فکر کرنی چاہیے اور ہر ایک کو اپنے بارے میں سوچنا چاہیے کہ کیا صرف احمدی ہو کر ہم نے بیعت کا حق ادا کر دیا ہے یا ابھی اس مقصد کو ہم نے حاصل کرنا ہے جس کےلیےحضرت مسیح موعود علیہ السلام آئے تھے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک جگہ فرمایا کہ ’’یہ سچ ہے کہ اکثر مسلمانوں نے قرآن شریف کو چھوڑ دیا ہے لیکن پھر بھی قرآن شریف کے انوار و برکات اور اس کی تاثیرات ہمیشہ زندہ اور تازہ بتازہ ہیں۔ چنانچہ میں اس وقت اسی ثبوت کےلیےبھیجا گیا ہوں۔‘‘ آپؑ نے فرمایا کہ مَیں اس وقت ثبوت کےلیےبھیجا گیا ہوں ’’اور اللہ تعالیٰ ہمیشہ اپنے اپنے وقت پر اپنے بندوں کو اس کی حمایت اور تائید کےلیےبھیجتا رہا ہے کیونکہ اس نے وعدہ فرمایا تھا اِنَّا نَحۡنُ نَزَّلۡنَا الذِّکۡرَ وَ اِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوۡنَ (الحجر:10) یعنی بیشک ہم نے ہی اس ذکر (قرآن شریف) کو نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں۔‘‘

(ملفوظات جلد8صفحہ116-117۔ ایڈیشن1984ء)

پس ہر احمدی کو یاد رکھنا چاہیے کہ ہمیں جو کچھ ملنا ہے قرآن کریم کی برکت سے ملنا ہے اور ہمیں اس طرف بہت زیادہ توجہ دینی چاہیے۔

پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں: ’’قرآن کو چھوڑ کر کامیابی ایک ناممکن اور محال امر ہے اور ایسی کامیابی ایک خیالی امر ہے جس کی تلاش میں یہ لوگ لگے ہوئے ہیں۔ صحابہ کے نمونوں کو اپنے سامنے رکھو۔ دیکھو انہوں نے جب پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کی اور دین کو دنیا پر مقدم کیا تو وہ سب وعدے جو اللہ تعالیٰ نے ان سے کیے تھے پورے ہو گئے۔ ابتدا میں مخالف ہنسی کرتے تھے کہ باہر آزادی سے نکل نہیں سکتے اور بادشاہی کے دعوے کرتے ہیں لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت میں گم ہو کر وہ پایا جو صدیوں سے ان کے حصے میں نہ آیا۔‘‘

(ملفوظات جلد2صفحہ 157۔ ایڈیشن 1984ء)

پس اس بات کو ہمیں ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے کہ قرآن کریم ہی وہ تعلیم ہے جو ہمیں کامیابیوں سے سرفراز کرنے والی ہے اور کامیابیاں ہمیں اسی سے ملیں گی کہ اگر ہم اس کی تعلیم پر عمل کریں گے اور اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا قرب پانے کی کوشش کریں گے۔

ایک روایت میں آتا ہے۔ حضرت ابو موسیٰؓ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو مومن قرآن پڑھتا ہے اور اس پر عمل کرتا ہے اس کی مثال ایک ایسے پھل کی طرح ہے جس کا مزہ بھی اچھا اور خوشبو بھی اچھی ہوتی ہے اور وہ مومن جو قرآن کریم نہیں پڑھتا مگر اس پر عمل کرتا ہے۔ اِدھر اُدھر سے باتیں سن لیں ان پر عمل کر لیا۔ اس کی مثال اس کھجور کی طرح ہے کہ اس کا مزہ تو اچھا ہے مگر اس کی خوشبو کوئی نہیں۔ اور ایسے منافق کی مثال جو قرآن کریم پڑھتا ہے اس خوشبو دار پودے کی طرح ہے جس کی خوشبو اچھی ہے مگر مزہ کڑوا ہے۔ اور ایسے منافق کی مثال جو قرآن نہیں پڑھتا ایسے کڑوے پھل کی طرح ہے جس کا مزہ بھی کڑوا ہے اور جس کی خوشبو بھی کڑوی ہے۔

(صحیح بخاری کتاب الاطعمۃ باب ذکر الطعام حدیث 5427)

پس اس سے وضاحت ہو گئی کہ ہمیں تلاوت قرآن کریم کرنی چاہیے اور اس کو سمجھ کر اس پر عمل کرنا بھی ضروری ہے اور جب ہم اس پر عمل کریں گے تو ایسے خوشبو دار پھل کی طرح ہو سکیں گے جس کا مزہ بھی اچھا ہو اور جس کی خوشبو بھی اچھی ہو۔ یہ بڑی خوبصورت مثال ہے۔

پس ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ یہ بھی انسان کی فطرت ہے کہ جو مزیدار چیز ہے اورجو خوشبو والی چیز ہوتی ہے، ذائقے والی چیز جو ہوتی ہے جس سے انسان کو لطف آتا ہے اس کو بار بار کھانے کی خواہش پیدا ہوتی ہے۔ اسی طرح قرآن کریم کو بھی ہمیں بار بار پڑھنے اور سمجھنے کی خواہش ہونی چاہیے اور پھر جب ہم یہ کریں گے تو نہ صرف اپنےلیےاس سے فائدہ پا رہے ہوں گے بلکہ اپنے بچوں کو اور اپنے ماحول کو بھی اس سے فائدہ پہنچا رہے ہوں گے۔ پس یہ لوگ ہوتے ہیں جو تقویٰ میں ترقی کرنے والے ہیں۔ جو اس پر عمل کرنے والے ہیں۔ ہدایت پانے والے ہیں اور پھر وہ دنیا کےلیےنافع الناس وجود بھی ہو جاتے ہیں۔ ان سے دنیا فیض پاتی ہے۔ وہ خود بھی پُرسکون زندگی گزار رہے ہوتے ہیں اور دنیا کو بھی سکون و امن دے رہے ہوتے ہیں۔ ایسے ماں باپ حقیقت میں اپنے بچوں کے حق ادا کرنے والے ہوتے ہیں۔ وہ اپنے ہمسایوں کے بھی حق ادا کرنے والے ہوتے ہیں وہ اپنے دنیاوی کاموں میں، اپنے ماحول میں بھی ایک دوسرے کے حق ادا کرنے والے ہوتے ہیں۔ اسی طرح وہ جماعتی نظام میں بھی جماعت کی خدمت کر کے اپنے حق ادا کرنے والے ہوتے ہیں کیونکہ وہ ان ہدایات کے مطابق عمل کر رہے ہوتے ہیں جو قرآن کریم نے ان کو دی ہیں۔ وہ عبادت کرنے کے بھی حق ادا کر رہے ہوتے ہیں اور پھر جیسا کہ میں نے کہا

جب ایسے ماں باپ بچوں کے سامنے نمونہ بنتے ہیں تو بچے ان کو رول ماڈل سمجھتے ہیں اور بیویاں ان کو اپنےلیےایک نمونہ سمجھتی ہیں۔ پھر ایسا ماحول گھروں کا پیدا ہوتا ہے جو دیندار اور نیک ماحول ہوتا ہے اور جہاں اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی ہمیشہ بارش برستی رہتی ہے۔

پس قرآن کریم کی تعلیم پر عمل ہی ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے دعویٰ فرمایا ہے کہ اس سے ہدایت ملے گی اور جب ہدایت ملے گی تو تم لوگ پھر ایک واضح اور ایسا فرق دیکھو گے کہ جس سے تمہاری زندگیوں میں ایک انقلاب پیدا ہو سکتا ہے یہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ پس اس کو پڑھنے کی طرف، اس کو سمجھنے کی طرف، اس پر عمل کرنے کی طرف ہمیں بہت توجہ کرنی چاہیے۔

پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو اتنی نیکی رکھتا ہے کہ وہ گھر میں باقاعدہ تلاوت تو نہیں کر رہا ہوتا، ترجمہ نہیں پڑھتا۔ اس پر غور تو نہیں کرتا لیکن جب لوگوں سے سنتا ہے اور یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب لوگوں سے سنتا ہے۔ قرآن کریم کو درسوں میں سنتا ہے۔ تقریروں میں سنتا ہے۔ قرآن کریم کی آیات کی تشریح یا احکامات اس کو نظام کی طرف سے مختلف وقتوں میں جو دیےجاتے ہیں۔ اس تعلیم کی روشنی میں باتیں بتائی جاتی ہیں تو وہ ان پر عمل کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ یہ قرآن کریم کے احکامات ہیں تو جب وہ ان پر عمل کرنے کی کوشش کرتا ہے تو وہ مزہ نہیں لیتا جو قرآن کریم پڑھنے کا مزہ ہے لیکن کچھ نہ کچھ حصہ وہ لے رہا ہوتا ہے اس خوشبو سے فائدہ اٹھا رہا ہوتا ہے۔ لیکن جو دکھاوے کےلیےپڑھتا ہے اس پر عمل نہیں کرتا وہ اس سے کوئی فائدہ نہیں اٹھاتا اور

جو شخص نہ قرآن پڑھتا ہے، نہ اس پر عمل کرتا ہے تو اس کی زندگی تو پھر منافقت کی انتہا کی زندگی ہے۔ اس کا صرف زبانی دعویٰ ہے کہ میں مسلمان ہوں لیکن اسلام کی تعلیم پر کوئی عمل نہیں کیونکہ اسلام کی تعلیم پر عمل قرآن کریم کا علم حاصل کیے بغیر ہو ہی نہیں سکتا۔ قرآن کریم کے احکامات پر غور کیے بغیر ہو ہی نہیں سکتا۔

پس اس بات کو ہمیں بہت اہمیت دینی چاہیے کہ ہم نے قرآن کریم کو پڑھنا ہے۔ اس پر عمل بھی کرنا ہے تا کہ ہم خوشبو حاصل کرنے والے بنیں۔ خوشبو پھیلانے والے بھی بنیں۔ نہ صرف خوشبو حاصل کرنے والے بنیں بلکہ خوشبو پھیلانے والے بھی بنیں۔

ایک روایت میں آتا ہے۔ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ لوگوں میں سے کچھ لوگ اہل اللہ ہوتے ہیں۔ راوی کہتے ہیں اس بات پر ہم نے آپؐ سے دریافت کیا کہ یار سول اللہ! خدا کے اہل کون ہوتے ہیں؟ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قرآن والے اہل اللہ اور اللہ کے خاص بندے ہوتے ہیں یعنی قرآن کریم پڑھنے والے اور اس پر عمل کرنے والے اہل اللہ ہوتے ہیں۔

(سنن ابن ماجہ ابواب کتاب السنۃ باب فضل من تعلمہ القرآن … حدیث 215)

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ کامیاب وہی لوگ ہوں گے جو قرآن کریم کے مطابق چلتے ہیں، قرآن کریم کو چھوڑ کر کامیابی ایک ناممکن اور محال امر ہے۔ میں نے بھی گذشتہ کچھ عرصہ ہوا خطبات میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بہت سارے حوالے قرآن کریم کے بارے میں بھی دیےتھے، کچھ خطبات کا سلسلہ تھا، بڑی وضاحت سے وہ باتیں بتائی تھیں جو آپؑ نے ہمیں ارشاد فرمائی ہیں۔ یہاں بھی مَیں مختصراً بیان کر رہا ہوں۔ آپؑ نے فرمایا کہ

اگر کامیابی حاصل کرنی ہے تو قرآن کریم کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتی۔ اگر مسلمان ہونے کا دعویٰ ہے اور پھر اگر قرآن کریم ہاتھ میں نہیں ہے، قرآن کریم پر عمل نہیں ہے تو پھر باوجود مسلمان ہونے کے کوئی کامیابی نہیں مل سکتی۔

پس ہر احمدی کو اپنی کامیابیوں کو حاصل کرنے کےلیےیہ نسخہ آزمانا چاہیے جس سے دین بھی سنور جائے اور دنیا بھی حاصل ہو جائے۔

مسلمانوں میں آجکل جو جھگڑے ہیں۔ فساد ہیں۔ ایک دوسرے کی گردنیں کاٹی جا رہی ہیں۔ الزام تراشیاں کی جا رہی ہیں۔ حکومتیں عوام سے لڑ رہی ہیں عوام حکومتوں سے لڑ رہے ہیں۔ ایک دوسرے کی قتل و غارت ہو رہی ہے۔ بغاوتیں ہو رہی ہیں۔ یہ سب اس لیے ہےکہ قرآن کریم پر عمل نہیں ہے۔

کہنے کو تو دونوں ہی یہ دعویٰ کرتے ہیں۔ دونوں کے ہاتھ میں قرآن ہے لیکن دونوں قرآن کریم کی تعلیم سے دور ہیں۔ اگر قرآن کریم پر عمل کرنے والے ہوں تو پھر ایسی باتیں نہ ہوں۔ اس پر عمل کرنے کےلیےاس زمانے میں اللہ تعالیٰ نے جو نمائندہ بھیجا ہے، جس شخص کو بھیجا ہے اس کو ماننے کو یہ تیار نہیں۔ اگر وہ نہیں مانتے تو پھر ان برکات سے فائدہ بھی نہیں اٹھا سکتے جس کو اللہ تعالیٰ نے ہماری ہدایت کےلیےبھیجا ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں ’’یاد رکھو قرآنِ شریف حقیقی برکات کا سرچشمہ اور نجات کا سچا ذریعہ ہے۔ یہ ان لوگوں کی اپنی غلطی ہے جو قرآنِ شریف پر عمل نہیں کرتے۔ عمل نہ کرنے والوں میں سے ایک گروہ تو وہ ہے جس کو اس پر اعتقاد ہی نہیں اور وہ اس کو خدا تعالیٰ کا کلام ہی نہیں سمجھتے۔ یہ لوگ تو بہت دور پڑے ہوئے ہیں لیکن وہ لوگ جو ایمان لاتے ہیں کہ وہ خدا تعالیٰ کا کلام ہے اور نجات کا شفابخش نسخہ ہے اگر وہ اس پر عمل نہ کریں تو کس قدر تعجب اور افسوس کی بات ہے۔ ان میں سے بہت سے تو ایسے ہیں جنہوں نے ساری عمر میں کبھی اسے پڑھا ہی نہیں۔ پس ایسے آدمی جو خدا تعالیٰ کی کلام سے ایسے غافل اور لاپرواہ ہیں ان کی ایسی مثال ہے کہ ایک شخص کو معلوم ہے کہ فلاں چشمہ نہایت ہی مصفٰی اور شیریں اور خنک اور اس کا پانی بہت سی امراض کے واسطے اکسیر اور شفا ہے۔ یہ علم اس کو یقینی ہے لیکن باوجود اس علم کے اور باوجود پیاسا ہونے کے اور بہت سے امراض میں مبتلا ہونے کے وہ اس کے پاس نہیں جاتا۔ تو یہ اس کی کیسی بدقسمتی اور جہالت ہے۔ اسے تو چاہیے تھا کہ اس چشمے پر منہ رکھ دیتا اور سیراب ہو کر اس کے لطف اور شفا بخش پانی سے حظ اٹھاتا مگر وہ باوجود علم کے اس سے ویسا ہی دور ہے جیسا کہ ایک بے خبر۔ اور اس وقت تک اس سے دور رہتا ہے جو موت آ کر خاتمہ کر دیتی ہے۔‘‘ زندگی کے آخر تک بعضوں کو پتہ ہی نہیں لگتا کہ قرآن کریم کی کیا برکات ہیں۔ فرمایا کہ ’’اس شخص کی حالت بہت ہی عبرت بخش اور نصیحت خیز ہے۔ مسلمانوں کی حالت اس وقت ایسی ہی ہو رہی ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ ساری ترقیوں اور کامیابیوں کی کلید یہی قرآنِ شریف ہے جس پر ہم کو عمل کرنا چاہیے مگر نہیں اس کی پرواہ بھی نہیں کی جاتی۔‘‘ باوجود یہ جاننے کے پھر بھی قرآن کریم کے احکامات کی کوئی پرواہ نہیں کرتے۔ اور فرمایا کہ ’’ایک شخص جو نہایت ہمدردی اور خیر خواہی کے ساتھ‘‘ یعنی اپنی مثال آپ دے رہے ہیں کہ میں ہمدردی اور خیر خواہی کے ساتھ تمہیں بلاتا ہوں ’’اور پھر نری میری ہمدردی ہی نہیں بلکہ خد اتعالیٰ کے حکم اور ایما سے اس طرف بلاوے تو اسے کذاب اور دجال کہا جاتا ہے۔‘‘ فرمایا کہ ’’اس سے بڑھ کر اَور کیا قابل رحم حالت اس قوم کی ہو گی۔‘‘

(ملفوظات جلد7صفحہ181-182۔ایڈیشن1984ء)

فرمایا کہ مسلمانوں کو چاہیے یہ تھا اور اب بھی ان کےلیےیہی ضروری ہے کہ وہ اس چشمے کو عظیم الشان نعمت سمجھیں اور اس کی قدر کریں۔ اس کی قدر یہی ہے کہ اس پر عمل کریں اور پھر دیکھیں خدا تعالیٰ کس طرح ان کی مصیبتوں اور مشکلات کو دور کر دیتا ہے۔

کاش! مسلمان سمجھیں اور سوچیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے ایک نیک راہ پیدا کر دی ہے اور وہ اس پر چل کر فائدہ اٹھائیں۔ پس یہ وہ چیز ہے جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا تھا کہ مسلمانوں میں ساری برائیاں جو پیدا ہو رہی ہیں وہ اس لیےپیدا ہو رہی ہیں کہ وہ مان نہیں رہے اور قرآن کریم پر عمل نہیں کررہے۔ قرآن کریم تو انہوں نے چھوڑا ہوا ہے۔ صرف نام کا دعویٰ ہے۔ ہاتھ میں صرف پکڑا ہوا ہے۔ عملی طور پر تو اسے چھوڑا ہوا ہے۔ احمدیوں کےلیےانہوں نے قرآن کریم کو بین (ban)کر دیا ہے کہ یہ پڑھ نہیں سکتے۔ پاکستان میں قرآن کریم پر پابندی ہے کہ پڑھ نہیں سکتے۔ خود انہوں نے اس پر عمل نہیں کرنا۔ گو ہمیں کہتے تو یہی ہیں لیکن یہ قرآن کریم کی تعلیم ہمارے دلوں سے نکال نہیں سکتے۔ جتنا چاہے زور لگا لیں اس کی محبت ہمارے دلوں سے نکال نہیں سکتے۔ پس ہمیں، احمدیوں کو اس طرف خاص طور پر توجہ دینی چاہیے اور اس قرآن کریم کی تعلیم کو بھولنے اور چھوڑنے کی وجہ سے اور سمجھانے والے کی بات نہ سمجھنے کی وجہ سے ان کے حالات تو ہم دیکھ رہے ہیں کہ کیا ہو رہے ہیں۔ ہر طرف بے چینی ہے، بدامنی کی حالت ہے۔ پس ان لوگوں کو غور کرنا چاہیے، سوچنا چاہیے اور اگر قرآن کریم کو ہدایت کا سرچشمہ سمجھا ہے تو پھر اس کے حکموں پر عمل کرنا بھی ضروری ہے۔

ایک روایت میں آتا ہے ۔حضرت صہیبؓ سے مروی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے قرآن کریم کے محرّمات کو عملاً حلال سمجھ لیا اس کا قرآن پر کوئی ایمان نہیں۔

(سنن الترمذی کتاب فضائل القرآن عن رسول اللّٰہؐ باب من قرأ القرآن … حدیث 2918)

یعنی جس چیز سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا ہے اس کی کوئی پرواہ نہیں کی۔ قرآن کریم کے جو احکامات ہیں ان پر عمل نہ کیا تو ایسا شخص لاکھ کہتا رہے کہ الحمد للہ میں مسلمان ہوں اس کا یہ ایمان صرف کھوکھلا ایمان ہے، صرف دعویٰ ہے۔ اللہ تعالیٰ کو اس کی کوئی پروا نہیں اور ایسے لوگ ہیں جو پھر دوسروں کو نقصان پہنچا رہے ہوتے ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ سے دور ہٹے ہوتے ہیں ان کا حق مار رہے ہوتے ہیں جیسا کہ میں نے مثال دی ہے۔ دنیا میں آجکل مسلمانوں کا یہی حال ہے۔ بادشاہ ہیں، سردار ہیں، مختلف فرقوں کے لوگ ہیں ایک دوسرے سے لڑائیاں کر رہے ہیں۔ مسلمان مسلمانوں کا قتل کر رہے ہیں۔ ایک دوسرے کا قتل ہو رہا ہے۔ کلمہ گو ایک دوسرے کو مار رہا ہے۔ پس اس سے بچنے کےلیےضروری ہے کہ یہ لوگ قرآن کریم کی صحیح ہدایت پائیں اور اس زمانے میں سب سے بڑا فرض احمدیوں کا ہے۔ احمدی مسلمان کا ہے کہ وہ اس پر عمل کریں تا کہ جو غیر اسلامی دنیا ہے ان کے عمل کو دیکھ کر ان کو پتہ لگے کہ حقیقی اسلامی تعلیم کیا ہے اور قرآن کریم کے احکامات کیا ہیں۔ جو امن، سلامتی اور محبت اور پیار کے احکامات ہیں۔ جو معاشرے میں بھائی چارے کے پھیلانے کے احکامات ہیں۔ جو حقوق العباد ادا کرنے کے احکامات ہیں۔ پس اس طرف احمدی مسلمانوں کو بہت توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

رمضان کے مہینے میں جو قرآن کریم پڑھیں تو ان چیزوں پر غور کریں اور پھر اس تعلیم کو مستقل پھیلانے کےلیےسارا سال ہمیں کوشش کرتے رہنا چاہیے۔

ایک روایت میں آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ابن عباس (ترمذی میں ’’حضرت علیؓ‘‘ سے مروی ہے۔ جامع الاصول میں ’’حضرت عبد اللہ بن عمرؓ ‘‘ سے مروی ہے) روایت کرتے ہیں کہ

جبرئیل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور فرمایا کہ عنقریب بہت سارے فتنے پیدا ہوں گے۔ دریافت کیا گیا کہ ان فتنوں سے خلاصی کی کیا صورت ہو گی اے جبرئیل! آپؐ نے جبرئیل سے پوچھا اس نے کہا کہ فتنوں سے خلاصی کی صورت کتاب اللہ ہے۔

(جامع الترمذی ابواب فضائل القرآن باب ما جاء فی فضل القرآن حدیث 2906)

(جامع الاصول جلد8صفحہ 346دار الکتب العلمیۃ بیروت)

پس جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا تھا کہ ہمیں اپنے آپ کو اور اپنی نسلوں کو بچانے کے لیے اللہ تعالیٰ کی کتاب کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے تب ہی ہم ہدایت بھی پا سکیں گے اور فتنہ اور فساد سے بچ بھی سکیں گے اور ان احکامات کو واضح طور پر سمجھ سکیں گے جو اللہ تعالیٰ نے ہمارےلیےنازل فرمائے ہیں۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر فرمایا کہ قرآن کریم کو ظاہر کر کے پڑھنے والا ظاہری طور پر صدقہ دینے والے کی طرح ہے اور قرآن کریم کو چھپا کر پڑھنے والا خفیہ طور پر صدقہ دینے والے کی طرح ہے۔(سنن الترمذی کتاب فضائل القرآن عن رسول اللہؐ باب من قرأ القرآن … حدیث 2919)پس ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ یہ بھی روایت میں آتا ہے کہ صدقہ بلاؤں اور خطرات اور فتنوں کو دور کرتا ہے ان کو ٹالتا ہے۔ (سنن الترمذی کتاب الزکوٰۃ عن رسول اللہ باب ما جاء فی فضل الصدقۃ حدیث 664)تو

قرآن کریم کو پڑھنا اور اس طرح پڑھنا کہ سمجھ بھی آ رہی ہو تو یہ صدقہ کے طور پر قبول ہو گا اور اس کی برکات سے پھر تمام فتنوں سے بھی انسان بچا رہے گا۔

پس جبکہ دنیا کو آجکل ہر طرف سے برائیوں نے گھیرا ہوا ہے اور فتنہ اور فساد نے گھیرا ڈالا ہوا ہے ہمیں اس صدقے کو بھی ہمیشہ جاری رکھنا چاہیے کہ قرآن کریم کی تلاوت ہمیشہ کرتے رہیں۔ ظاہری بھی پڑھیں، چھپ کر بھی پڑھیں اور اپنے آپ کو ان ابتلاؤں اور مشکلات سے بچائیں اور اس تعلیم پر عمل کرنے والے ہوں جو اللہ تعالیٰ نے بیان فرمائی ہے۔

حضرت ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ صرف دو آدمی ایسے ہیں جن کے بارے میں حسد یعنی رشک، ایسا حسد جو نقصان پہنچانے کےلیےنہیں ہوتا بلکہ تعریفی رنگ میں ہو وہ جائز ہے۔ ایک وہ شخص جسے اللہ تعالیٰ نے قرآن عطا کیا اور وہ دن رات اس کی تلاوت کرتا ہے اور پھر رشک کرنے والا کہتا ہے کاش! مجھے بھی ایسی ہی چیز دی جاتی جو اسے دی گئی ہے تو میں بھی ایسا ہی کرتا جیسا یہ کرتا ہے اور دوسرا وہ شخص جسے اللہ تعالیٰ نے مال دیا ہو جس کو وہ وہاں خرچ کرتا ہے جہاں خرچ کرنے کا حق ہے اور اس پر رشک کرنے والا کہتا ہے کہ کاش مجھے بھی ایسی ہی چیز دی جاتی جو اسے دی گئی ہے تو میں بھی ویسا ہی کرتا یعنی اللہ کے راستے میں مال خرچ کرنا۔

(صحیح بخاری کتاب فضائل القرآن باب اغتباط صاحب القرآن … حدیث 5026)

اب قرآن کریم پڑھنے کے بارے میں بھی کچھ آداب ہیں، رشک کرنے والے جو ہیں قرآن کریم پڑھنے والا جب رشک کرتا ہے تو صرف پڑھنے والا عمل نہیں کرتا بلکہ اس کو پتہ ہے کہ یہ شخص جو کچھ پڑھ رہا ہے اس پر عمل بھی کر رہا ہوگا۔ اور پھر جو دوسرا سننے والا ہے اس کو اسی بات پر رشک آتا ہے کہ کاش میں بھی اس کو، قرآن کریم کو اس طرح سمجھتا اور پھر اس پر عمل کرنے والا ہوتا۔

اسی طرح جیسا کہ حدیث میں بیان ہوا ہے مال کے بارے میں، اس بارے میں بھی ضمناً ذکر کر دوں۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ

چندوں کی کیا ضرور ت ہے؟

اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے قرآن کریم میں ہی فرمایا ہے کہ مالی قربانیاں کرو۔ یہ ضروری ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس پر لوگ رشک کرتے ہیں جو مالی قربانی کرنے والا ہے۔ تو یہ بھی بہت اہم چیز ہے۔ جب ہم غور سے قرآن کریم پڑھیں تو وہاں سے پھر یہ سوال جو بعض لوگوں کے دلوں میں پیدا ہوتا ہے کہ ہمیں مالی قربانیوں کےلیےکیوں کہا جاتا ہے؟ ان کے سوالوں کا جواب بھی ان کو مل جائے گا کہ کیوں کہا جاتا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جگہ فرمایا کہ جو شخص قرآن کریم خوش الحانی سے اور سنوار کر نہیں پڑھتا اس کا ہمارے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔(سنن ابی داؤد کتاب التفریع باب استحباب الترتیل … حدیث 1469)تو خوش الحانی سے پڑھنا اور سنوار کے پڑھنا آہستہ آہستہ پڑھنا، سمجھ کےپڑھنا یہ بھی ضروری ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ ’’انسان کو چاہیے کہ قرآن شریف کثرت سے پڑھے جب اس میں دعا کا مقام آوے تو دعا کرے۔‘‘ سنوار کے پڑھنے کی وضاحت یہ ہے کہ جب دعا کا مقام آوے تو دعا کرے۔ ’’اور خود بھی خدا سے وہی چاہے جو اس دعا میں چاہا گیا ہے۔‘‘ قرآن کریم میں دعائیں آتی ہیں تو ان موقعوں پر دعا کرے اور قرآن شریف میں بہت ساری دعائیں ہیں انبیاء نے ہی مانگی ہیں تو ان دعاؤں میں وہاں اللہ تعالیٰ سے جو مانگا گیا ہے فرمایا کہ انسان خود بھی کہے کہ اللہ تعالیٰ مجھے بھی یہ دے اور فرمایا کہ ’’اور جہاں عذاب کا مقام آوے تو اس سے پناہ مانگے ان بداعمالیوں سے بچے جس کے باعث وہ قوم تباہ ہوئی۔‘‘

(ملفوظات جلد6صفحہ 265-266ایڈیشن 1984ء)

قوموں کی تباہیوںکا ذکر ہے کہ ان میں کیا کیا بداعمالیاں تھیں جن کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان کو پکڑا۔ جب ایسا مقام آئے تو انسان ان سے استغفار بھی کرے اور بچنے کی کوشش بھی کرے۔ جب ہم یہ کریں گے تو بہت ساری برائیوں سے ہم خود بخود ہی بچتے چلے جائیں گے۔

آجکل اس مغربی ماحول میں اس کے زیر اثر ہمارے ذہنوں پر بھی غلط قسم کی باتیں طاری ہو جاتی ہیں۔ ہم میں سے بہت سے لوگ غلط قسم کی باتوں میں ملوث ہو جاتے ہیں۔ جب ہم قرآن کریم کو پڑھیں گے اور استغفار کریں گے اور برائیوں سے بچنے کی کوشش کریں گے تو ہماری زندگیاں سنور جائیں گی۔ ہم ان برائیوں سے بچنے والے ہوں گے۔ آپؑ نے فرمایا کہ بداعمالیوں سے بچے جن کے باعث قوم تباہ ہوئی تھی۔

آپؑ پھر فرماتے ہیں کہ ’’بلا مدد وحی کے ایک بالائی منصوبہ جو کتاب اللہ کے ساتھ ملاتا ہے وہ اس شخص کی ایک رائے ہے جو کہ کبھی باطل بھی ہوتی ہے اور ایسی رائے جس کی مخالفت احادیث میں موجود ہو وہ محدثات میں داخل ہو گی۔ رسم اور بدعات سے پرہیز بہتر ہے اس سے رفتہ رفتہ شرعیت میں تصرف شروع ہو جاتا ہے۔ بہتر طریق یہ ہے کہ ایسے وظائف میں جو وقت اس نے صرف کرنا ہے وہی قرآن شریف کے تدبر میں لگاوے۔‘‘ جو لوگ کہتے ہیں کیا وظیفہ پڑھنا ہے؟ فلاں وظیفہ پڑھیں۔ وظیفہ بتادیں۔ آپ نے فرمایا کہ بہتر ہے کہ قرآن کریم پڑھو اور اس پر غور کرو۔ لوگ یہ کہتے ہیں کہ کیا دعا کریں اور کیا وظیفہ کریں؟ پس آپ کا تو یہی ارشاد ہے کہ قرآن کریم پہ ہی تدبر کرو اور غور کرو اور پھر تم بہت ساری برائیوں سے اور باتوں سے، تکالیف سے بچ جاؤ گے۔ تمہیں اللہ تعالیٰ کی ہدایات کا علم حاصل ہو جائے گا۔ اللہ تعالیٰ کے احکامات کا پتہ لگ جائے گا۔ آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں جو نازل فرمایا ہے یہ اللہ تعالیٰ کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایک خاص وحی ہے۔ اس کے علاوہ اگر کوئی رائے ہے تو وہ غلط بھی ہو سکتی ہے جھوٹی بھی ہو سکتی ہے۔ چاہے وہ انسان کتنی مرضی عقل کی باتیں کرتا رہے۔ بعض باتیں انسان عقل کی بھی کرتا ہے اور قرآن کریم کی تعلیم سے وہ مطابقت بھی رکھتی ہیں لیکن عملاً کیونکہ وہ وحی کے طور پر نہیں آئیں اس لیے ان کی وضاحت اس طرح نہیں کی جاتی جس طرح قرآن کریم نے کی ہے تو پھر وہ جھوٹی ٹھہرتی ہیں، وہ غلط راستوں پر چلانے والی ہو جاتی ہیں۔ آپؑ فرماتے ہیں کہ

’’دل کی اگر سختی ہو تو اس کو نرم کرنے کےلیےیہی طریقہ ہے کہ قرآن شریف کو ہی بار بار پڑھے۔ جہاں جہاں دعا ہوتی ہے وہاں مومن کا بھی دل چاہتا ہے کہ یہی رحمت الٰہی میرے بھی شامل حال ہو۔ قرآن شریف کی مثال ایک باغ کی ہے کہ ایک مقام سے انسان کسی قسم کا پھول چنتا ہے۔ پھر آگے چل کر ایک اَور قسم کا چنتا ہے۔

پس چاہیے کہ ہر ایک مقام کے مناسب حال فائدہ اٹھا وے۔ اپنی طرف سے الحاق کی کیا ضرورت ہے؟ ورنہ پھر سوال ہو گا کہ تم نے ایک نئی بات کیوں بڑھائی؟‘‘ جو قرآن کریم کے احکامات ہیں ان پر عمل کرو۔ نئی نئی بدعات پیدا نہ کرو۔ قرآن کریم کے حکموں کے ساتھ نئی نئی باتیں نہ جوڑو۔ فرمایا کہ ’’خدا تعالیٰ کے سوا اور کس کی طاقت ہے کہ کہے فلاں راہ سے اگر سورة یٰسین پڑھو گے تو برکت ہو گی ورنہ نہیں۔‘‘

(ملفوظات جلد6صفحہ266۔ایڈیشن 1984ء)

یہ جو لوگ کہتے ہیں کہ فلاں سورت اس طرح پڑھو گے تو برکت ہوگی۔ فلاں وقت میں پڑھو گے تو برکت ہوگی۔ اس طرح پڑھو گے تو نہیں ہو گی۔آپؑ نے فرمایا کہ یہ سب غلط باتیں ہیں۔ یہ تو اللہ تعالیٰ کا کلام ہے جس طرح بھی پڑھو گے، سمجھ کر پڑھو گے، اس پر عمل کرنے کےلیےپڑھو گے، نیک نیت سے ہو کے پڑھو گے تو برکت ہی برکت ہے۔

پس ہمیں یہ جائزہ لینا چاہیے کہ کیا ہم اس طرح پڑھتے ہیں۔ کتنے حکم ہیں جن پر عمل کرتے ہیں۔ کتنی دعائیں ہیں جب دعائیں آ رہی ہوں تو ہم ان کو اپنےلیےمانگنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کتنی برائیاں ہیں جن سے بچنے کا جب ان کو حکم ہوتا ہے یا ذکر آتا ہے تو ان سے بچنے کےلیےہم دعا کرتے ہیں۔ پس اگر ہم اس طرح کریں تو تب ہی ہم قرآن کریم کی حقیقی تعلیم سے فائدہ اٹھانے والے ہوں گے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ ’’میں بار بار کہتا ہوں اور بلند آواز سے کہتا ہوں کہ قرآن اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سچی محبت رکھنا اور سچی تابعداری اختیار کرنا انسان کو صاحبِ کرامات بنا دیتا ہے۔‘‘

(انجام آتھم، روحانی خزائن جلد 11 صفحہ 345)

آپؑ نے فرمایا ’’قرآنِ شریف پر تدبر کرو۔ اس میں سب کچھ ہے۔ نیکیوں اور بدیوں کی تفصیل ہے اور آئندہ زمانہ کی خبریں ہیں وغیرہ۔ بخوبی سمجھ لو کہ یہ وہ مذہب پیش کرتا ہے جس پر کوئی اعتراض نہیں ہو سکتا کیونکہ اس کے برکات اور ثمرات تازہ بتازہ ملتے ہیں۔‘‘

(ملفوظات جلد 9صفحہ122۔ایڈیشن 1984ء)

آپؑ نے فرمایا۔یہ فخر قرآنِ مجید کو ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس میں ہر مرض کا علاج بتایا ہے اور تمام قویٰ کی تربیت فرمائی ہے اور جو بدی ظاہر کی ہے اس کو دور کرنے کا طریق بھی بتا دیا ہے۔ اس لیےقرآنِ مجید کی تلاوت کرتے رہو اور دعا کرتے رہو اور اپنے چال چلن کو اس کی تعلیم کے مطابق رکھنے کی کوشش کرو۔ اور قرآن کریم کو پڑھنے کی طرف توجہ دلاتے ہوئے آپؑ فرماتے ہیں کہ ’’قرآن شریف کو پڑھو اور خدا سے کبھی ناامید نہ ہو۔ مومن خدا سے کبھی مایوس نہیں ہوتا۔ یہ کافروں کی عادت میں داخل ہے کہ وہ خدا تعالیٰ سے مایوس ہو جاتے ہیں۔ ہمارا خدا عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْر خدا ہے۔ قرآن شریف کا ترجمہ بھی پڑھو اور نمازوں کو سنوار سنوار کر پڑھو اور اس کا مطلب بھی سمجھ لو۔ اپنی زبان میں بھی دعائیں کر لو۔ قرآن شریف کو ایک معمولی کتاب سمجھ کر نہ پڑھو بلکہ اس کو خدا تعالیٰ کا کلام سمجھ کر پڑھو۔‘‘

(ملفوظات جلد 3صفحہ57-58 ایڈیشن 2022ء)

پس یہ وہ باتیں ہیں جن پر ایک مومن کو عمل کرنا چاہیے اور جب ہم اس طرح عمل کریں گے تو پھر ہم اللہ تعالیٰ کے فضل سے قرآن کریم کی تعلیمات سے فیض اٹھانے والے ہوں گے اور اپنی زندگیوں کو سنوارنے والے بنیں گے اپنی نسلوں کو سنوارنے والے بنیں گے اور جب یہ ہو گا تو پھر ہم اس مقصد کو حاصل کرنے والے بھی بن جائیں گے جو ہماری پیدائش کا ہماری زندگی کا مقصد ہے۔ اور ہماری زندگیاں کامیاب ہوں گی، ہماری نسلیں بھی کامیابی سے گزریں گی۔

پس ان دنوں میں، رمضان کے دنوں میں خاص طور پر جب ہم قرآن کریم کی طرف توجہ دے رہے ہیں تو ساتھ ساتھ یہ بھی عہد کریں کہ ہم یہ توجہ ہمیشہ قائم رکھیں گے اور ہمیشہ قرآن کریم پڑھنے کی طرف توجہ رکھیں گے۔ اس پر عمل کرنے کی طرف توجہ رکھیں گے اور اپنے بچوں کو بھی اس کے پڑھنے کی تلقین کریں گے۔ نہ صرف یہ کہ ایک دفعہ آمین کرائی اور اس کے بعد معاملہ ختم ہو گیا۔ نہیں بلکہ اب قرآن کریم ہمارےلیےایک ایسی کتاب ہو گی جو ہماری ہدایت کا ذریعہ ہے اور ہمیں ہمیشہ صحیح راستوں پر اور تقویٰ پر چلانے کےلیےایک کامل لائحہ عمل ہے اور جب یہ ہو گا تو پھر ہماری زندگیاں ہمیشہ کامیاب رہیں گی۔

اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق دے کہ ہم اس رمضان میں جہاں اس کی تلاوت کریں وہاں اس کو سمجھنے کی بھی کوشش کریں اور اس پر عمل کرنے کا عہد کریں اور آئندہ بھی اس عہد کو پورا کرنے کی کوشش کرتے چلے جائیں اور سارا سال اس کو اپنی زندگی کا حصہ بنائیں۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button