میری پیاری امی بشریٰ ذبیں صاحبہ
(صائمہ صباء)
دنیا بھی اک سرا ہے بچھڑے گا جوملا ہے
گر سو برس رہا ہے آخر کو پھر جدا ہے
میری امی میری خوشیوں کا باعث اور میرے غموں کا سہارا تھیں۔وہ ماں جس نےاپنی آغوشِ محبت میں مجھے علم اورشعور کی سیڑھیوں پر قدم رکھناسکھایا اوروہ ماں جس کے عملی نمونے نے مجھے خداتعالیٰ،قرآن کریم اورخلافتِ احمدیہ سے محبت سکھائی۔
امی جان کا بچپن اور شادی سے قبل زندگی کازمانہ گھسیٹ پورہ کی دیہاتی زندگی میں خالصتاً ایک دینی گھرانے میں گزرا۔ہمارے نانا مکرم مولوی عبدالرحیم صاحب کو چالیس سال سے زائد عرصہ تک جماعت احمدیہ گھسیٹ پورہ کے امیر کی حیثیت سے خدمتِ سلسلہ کی توفیق ملی۔اس سے قبل نانا جان کے والدحضرت مولوی سلطان علی صاحبؓ (از پھیروچیچی انڈیا)صحابی حضرت مسیح موعودؑبحیثیت امیر جماعت خدمت کی توفیق پاتے رہے۔امی بتایا کرتی تھیں کہ چونکہ گھسیٹ پورہ ضلع فیصل آباد کی ایک بڑی جماعت تھی لہٰذا بحیثیت امیر، ناناجان کے دن کا اکثر حصہ سلسلہ کے کاموں میں گزرتا۔دکانداری اور زمینداری میں محض واجبی دلچسپی لیا کرتےتھے۔
شادی کے بعد۱۹۷۳ء میں آپ بیاہ کر کراچی چلی آئیں اور زندگی کا باقی سارا عرصہ پھر حلقہ دستگیر کراچی میں ہی گزارا۔ شادی کے بعدابتدامیں باوجود اس کے کہ ہمارے والد صاحب کی قلیل آمدنی تھی لیکن بڑے صبر و شکر کے ساتھ گزارا کیا۔ بعد میں جب خداتعالیٰ نے ظاہری طور پراپنے فضلوں سے نوازا تو پھر خداتعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے سے کبھی بخل سے کام نہ لیا۔ اپنے چندہ جات کی وقت سے پہلے ادائیگی مکمل کیا کرتیں۔ہمیشہ مالی قربانی کر کے دلی سکون اور فرحت محسوس کرتیں۔ وفات سے آٹھ سال پہلے اپنا سارا زیور تحریکِ جدید کی مدّ میں پیش کر دیا تھا اوراسی طرح وفات سے پیشتر وصیت کا جملہ حساب مکمل کر دیا تھا۔ہر ماہ جیب خرچ سے ایک کثیر حصہ چندہ میں ادا کر دیا کرتیں۔ غرباء اور ضرورتمند افراد کا خیال رکھا کرتیں۔اگر کوئی ایک مرتبہ اپنی ضرورت کا اظہار کردیتا تو ہمیشہ اس کی ضروریات کا خیال رکھا کرتیں۔بعض ایسے بھی تھے جنہیں باقاعدگی سے ایک لگا بندھا خرچ دیا کرتیں۔
امی پنجوقتہ نماز کی پابند اور قرآن کریم کا باقاعدگی سے دور مکمل کیا کرتی تھیں۔آپ رمضان میں ترجمہ کے ساتھ قرآن کریم کا دور مکمل کرتیں۔ امی کو خلافت احمدیہ سے بے پناہ پیار تھا۔خلافت سے عشق کا ایک واقعہ خاکسار کو اچھی طرح ذہن نشین ہےکہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کی وفات کے وقت امی جان کسی عزیز کے گھر گئی ہوئی تھیں۔وہاں پر جب آپ کو حضورؒ کی وفات کی خبر کا علم ہوا تو فوراً گھر آئیں تاکہ اپنے بچوں کو آگاہ کر سکیں۔جب آپ گھر کے دروازے پر پہنچیں تو صدمہ کے باعث گھر کے دروازے پر آکر بیٹھ گئیں اور غم کی وجہ سے کافی دیر تک دروازے پر ہی بیٹھی رہیں۔جب حالت بہتر ہوئی تو گھر کے اندر آئیں اور ہمیں اس غمناک خبر سے آگاہ کیا۔
آپ ایم ٹی اے کے پروگرامز نہایت دلجمعی سے باقاعدگی کے ساتھ دیکھا کرتیں۔حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کاخطبہ جمعہ مکمل ادب کے ساتھ بیٹھ کر توجہ سے سنتیں۔انتخابِ سخن پروگرام آپ کو بے حد پسند تھا۔جب سے یہ پروگرام شروع ہوا، شاذ ہی آپ نے کبھی اس پروگرام کو نہ دیکھا ہو۔
مہمان نوازی کی صفت آپ میں بے حد نمایاں تھی۔ہمارا ننھیال اور ددھیال پنجاب میں مقیم تھا۔پنجاب اور بیرونِ ملک سے اکثر و بیشتر عزیزو اقارب کئی کئی دن بلکہ بعض دفعہ تو مہینہ مہینہ ہمارے ہاں آ کر قیام کرتے۔آپ مہمانوں کے آنے پر بہت خوش ہوتیں اور انتہائی وسیع القلبی کے ساتھ مہمان نوازی کیا کرتیں۔آپ کی طبیعت میں یہ امر شامل تھا کہ مہمان کی پسند و ناپسند کو ملحوظ رکھتے ہوئی اس کی مہمان نوازی کا خیال رکھا کرتی تھیں اور بالعموم مہمان کی واپسی پر اسے حسبِ توفیق کوئی نہ کوئی تحفہ بھی دیا کرتیں۔بہت سے رشتہ دار تومحبت و بے تکلفی سے ہمارے گھر کو گیسٹ ہاؤس کہا کرتے۔ہم سب بہن بھائی جب چھوٹےتھے تووالد صاحب اور والدہ محترمہ کے بعض نوجوان عزیز کراچی میں حصولِ تعلیم یا روزگار کی خاطر آئے تو دو تین سال تک ہمارے ہاں مقیم رہے یا ہمارے ہاں سے کھانا کھایا کرتے تھے۔امی جان ہم چھ بہنوں اور ایک بھائی کی پرورش کے ساتھ ساتھ نہایت بشاشت قلبی اور کشادہ دلی سے ان سب کی ضروریات کاخیال رکھتیں۔اسی طرح جماعتی مہمانان کے گھر آنے پر ان کی ضیافت کر کےدلی خوشی محسوس کرتیں۔میرے خاوند بعض دفعہ جب کراچی جماعتی دورہ پر جاتے اوراگر ان کے ساتھ دیگر مرکزی نمائندگان بھی ہوتے تو اصرار کر کے انہیں بھی گھر بلواتیں اور ان کی بھی مہمان نوازی کرتیں۔
رشتہ دار ہوں یا غیر رشتہ دار صلہ رحمی اور حسنِ سلوک ایساتھا کہ وفات سے پہلے اور بعد میں ہر شخص کی زبان پر یہی الفاظ تھے کہ انتہائی خیال رکھنے والی،سب سے پیار کا سلوک کرنے والی، دوسروں سے سلام کرنےاوراحوال پرسی میں پہل کرنے والی،صاف دل وجودتھیں۔ آپ اپنے بہن بھائیوں میں سب سے بڑی تھیں۔نہ صرف ان سے بلکہ ان کے بچوں کے لیے بھی مجسم شفقت ہی شفقت تھیں۔چونکہ نانی جان کی وفات بہت پہلے ہو گئی تھی لہٰذابوقتِ وفات ان کی بہنوں کی زبان پر یہی الفاظ تھے کہ آج ہماری ماں ہم سے جدا ہوئی ہے۔ بعد از وفات میرے جیٹھ نے کہا کہ گو آپ کی امی سے مجھے ایک دو دفعہ ہی ملنے کا اتفاق ہوا لیکن ان کاجو پہلو میرے دل پر نقش ہے وہ ان کی نرم خوئی،خوش معاملگی اور مشفقانہ طبیعت ہے۔
۱۹۷۴ء میں دستگیر کراچی میں پانچ احمدی افراد کو سازش کے ذریعہ ایک غیر از جماعت مولوی کے اغوا کے جھوٹے الزام کے تحت گرفتار کر کے بیس دن جوہرآباد اور لیاقت آباد تھانے میں رکھا گیا۔لیکن بعد میں یہ مولوی پولیس نے مولویوں کی اپنی حراست سے بازیاب کروایا۔(اس واقعہ کا تفصیلی ذکر تاریخ احمدیت کراچی میں درج ہے) ان پانچ اسیران میں ہمارے ابو چودھری محمد انوار صاحب بھی شامل تھے۔اس زمانہ میں ابھی ہماری بڑی بہن کی ہی پیدائش ہوئی تھی۔باوجود اس کے کہ ان ایام میں جبکہ محلہ کے افراد نےبھی بائیکاٹ کیا ہوا تھا،امی نےبڑی ہمت، حوصلہ اور صبر کے ساتھ یہ دن گزارے۔
اسی طرح ۱۹۸۴ء میں آرڈیننس سے قبل جنوری کے مہینہ میں ہمارے مکان واقع گوہرآباد پرجہاں عرصہ دس سال سے نماز سنٹر کے طور پر حلقہ کے احمدی احباب نماز باجماعت ادا کیا کرتے تھے،مولویوں اور دیگر غیر از جماعت افراد نےعشاء کی نماز کے وقت اس بنا پر دھاوا بول کر،مکان کا کچھ حصہ،بیرونی دیوار اور دروازے کو منہدم کردیا کہ یہاں احمدی نماز ادا کرتے اور اذان دیتے ہیں۔(اس واقعہ کا بھی تاریخ احمدیت کراچی میں ذکر محفوظ ہے۔) اُس وقت والد صاحب گھر میں موجود نہ تھے۔ امی گھر میں اکیلی ہم کمسن بہن بھائیوں کے ساتھ موجود تھیں۔اس خطرہ کے پیشِ نظر کہ یہ ہجوم اب ہم پر حملہ آور ہو گا،آپ نے نہایت ہمت اور حکمت سے کام لیتے ہوئے پڑوسیوں کے گھرپہلے ہم بچوں کو سیڑھی لگا کر اتارااور پھر خود وہاں پناہ گزین ہوئیں۔
وفات سے قبل قریباًآخری تین ماہ کا وقت کبھی ہسپتال اور کبھی گھرمیں گزرا۔بظاہر بہت سی جسمانی تکالیف سے گزریں لیکن انتہائی صبر اور حوصلہ سے کام لیا۔ایک مرتبہ قریب کے بیڈ پر موجود ایک مریض کی عزیزہ مجھے کہنے لگی کہ آپ کی امی بہت صابر اور حوصلہ مند خاتون ہیں۔امی کی بیماری کے دوران حضرت خلیفۃ المسیح کی دعا کی اعجازی قبولیت کا مشاہدہ کرنے کا موقع بھی میسر آیا۔آپ کو ایک موقع پرطبیعت کی انتہائی خرابی کے باعث وینٹیلیٹر پرمنتقل کر دیا گیا۔حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں جب دعا کے لیے عرض کیا گیا تو آپ ایدہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے ایک سے زائد مرتبہ یہ جواب آیا کہ اللہ تعالیٰ معجزانہ شفا عطا فرمائے۔چنانچہ وینٹیلیٹر اترنے کے بعدخداتعالیٰ نے آپ کومعجزانہ صورت میں بیس دن زندگی عطا فرمائی اور اس دوران آپ اپنے بچوں اور دیگر عزیزوں سے بات چیت کرتی رہیں اور بعض اوقات خود خوراک بھی لیتی رہیں۔
امی کی ہمارے ابو کے ساتھ نصف صدی سے زائد رفاقت رہی۔اس دوران ہم نےہمیشہ امی کو ابو کااطاعت گزار اور ہر موقع پر تعاون کرنے والازندگی کا ساتھی پایا۔اسی طرح آپ نے اپنی بہو کے ساتھ قریباً ربع صدی کا عرصہ بڑی محبت اور اپنی حقیقی بیٹی کی مانندنہایت حسنِ سلوک سے گزارا۔بھابھی بتاتی ہیں کہ وہ اپنی قیادت میں بطور صدر لجنہ ذمہ داریوں کے باعث بعض اوقات گھر کو ذرا کم وقت دے پاتی تھیں لیکن کبھی بھی امی اس بات پر ماتھے پر شکن نہ لائیں بلکہ اس کے برعکس ان کی حوصلہ افزائی کیاکرتیں۔
اللہ تعالیٰ ہمارے بھائی اوربھابھی کو بھی جزا عطا فرمائے کہ جنہوں نے امی کی خدمت کابہترین حق ادا کیا۔ میری پیاری امی ۲۱؍ستمبر ۲۰۲۴ء کو ہم سب کو سوگوار چھوڑ کر اپنے پیارے خالقِ حقیقی سے جا ملیں۔وفات سے ایک ماہ قبل آپ کی بیرون از ملک مقیم چاروں بیٹیوں اور ربوہ میں قیام پذیر دو بہنوں کو بیماری میں آپ کے ساتھ رہنے اور معمولی سی خدمت کی توفیق بھی ملتی رہی۔فالحمدللہ
دعا کی درخواست ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر لمحہ آپ کے درجات بلند کرتاچلا جائے اور ہم اولاد کو آپ کی نیکیوں کا وارث بنائے۔آمین
٭…٭…٭
مزید پڑھیں: ذکرِ خیر محترمہ نسیم بی بی صاحبہ