حضرت مصلح موعود ؓ

نکاح دنیوی لحاظ سے سب سے بڑا عقد ہے جومرد اور عورت دونوں پر بعض اہم ذمہ داریاں عائد کرتا ہے

(خطبہ جمعہ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ فرمودہ۲۳؍جنوری ۱۹۵۹ء بمقام ربوہ)

۱۹۵۹ء میں حضورؓ نے یہ خطبہ ارشاد فرمایا۔ آپؓ نے سورۃ المائدہ کی آیت ۲کی روشنی میںمیاں اور بیوی کے ایک دوسرے کے والدین اور رشتہ داروں سے حسن سلوک کے فلسفہ کو بیان فرمایا ہے۔ قارئین کے استفادے کے لیے یہ خطبہ شائع کیا جاتا ہے۔(ادارہ)

اگر انسان کامل توحید پر چلنے کی کوشش کرے اور رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی کامل اطاعت بھی کرے لیکن وہ بندوں کے عقود کو مثلاً ماں باپ کے عقود کو، دوستوں کے عقود کو یا بیوی یا خاوند کے عقود کو پورا نہ کرے تو وہ خداتعالیٰ کی نگاہ میں مجرم بننے سے بچ نہیں سکتا کیونکہ ان کا پورا کرنا بھی ضروری ہے

تشہّد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضورؓ نے مندرجہ ذیل آیت قرآنیہ کی تلاوت فرمائی: یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَوۡفُوۡا بِالۡعُقُوۡدِ۔ (المائدہ:۲)

اس کے بعد فرمایا: ’’سورۃ مائدہ میں اﷲ تعالیٰ نے مسلمانوں کو ایک نہایت ضروری امر کی طرف توجہ دلائی ہے۔ وہ فرماتا ہے اے مومنو! تم اپنے عقود کو پورا کرو۔ یوں تو ہر مومن اپنے وعدہ کا پابند ہوتا ہے مگر

عقد میں وعدہ سے زیادہ پختگی ہوتی ہے

اور پھر وہ بعض شرائط کے ساتھ مشروط ہوتا ہے۔

یہ عقود دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک دینی اور دوسرے دنیوی۔

دینی عقد تو یہ ہے کہ ہر شخص مسلمان ہوتے وقت یہ کہتا ہے کہ اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَ اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًاعَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ۔ یعنی میں گواہی دیتا ہوں کہ اﷲ تعالیٰ ایک ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں۔ گویا ایک مسلمان اسلام قبول کرتے وقت ساری دنیا کو بتا دیتا ہے کہ میرا یہ عقیدہ ہے۔ پس اس کے بعد جو شخص بھی اُس کے ساتھ یہ معاملہ کرتا ہے وہ یہ یقین رکھ کر کرتا ہے کہ وہ خدا کو ایک سمجھتا ہے۔ پھر خداتعالیٰ کو ایک سمجھنے کے علاوہ وہ یہ بھی کہتا ہے کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ میں محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کو خدا تعالیٰ کا بندہ اور اُس کا رسول سمجھتا ہوں۔ گویا محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے جو تعلیم دی ہے اُسے میں پوری طرح مانتا ہوں۔ اس کے بعد ہر شخص کو اُس کے ساتھ معاملہ کرتے وقت یہ پتا ہوتا ہے کہ وہ کیا رویہ اختیار کرے گا۔ کیونکہ اس نے اپنے عقیدہ کا اعلان کیا ہوا ہوتا ہے۔ اگر وہ شخص اِس اقرار سے پھرے اور محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی لائی ہوئی تعلیم سے انکار کرے تو وہ دنیا کو دھوکا دینے والا سمجھا جائے گا۔

مجھے ایک دوست نے ایک بڑے افسر کے متعلق سنایا کہ میں اُس کے پاس ایک دفعہ کسی کام کے لیے گیا تو میں نے ایک اَور افسر کا نام لے کر کہا کہ اُس نے فلاں معاملہ میں انصاف سے کام نہیں لیا۔ اِس پر وہ ہنس کر کہنے لگا کہ وہ خداتعالیٰ کو رازق نہیں سمجھتا ہو گا میں تو خداتعالیٰ کو ہی رازق سمجھتا ہوں۔ اُس کا مطلب یہ تھا کہ میں اس بات کی پروا نہیں کرتا کہ میرا عُہدہ باقی رہے گا یا نہیں، میں خداتعالیٰ کو رازق سمجھتا ہوں اور خدا کو رازق سمجھنے کی وجہ سے میں اس بات کی پروا نہیں کرتا کہ کوئی شخص مجھ پر خفا ہو جائے گا۔ گویا دوسرے لفظوں میں اُس نے اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کی تشریح کی۔ یعنی میں خدا کو ایک سمجھتا ہوں اور اس کی صفات کو کسی بندے کی طرف منسوب نہیں کرتا۔ میں خداتعالیٰ کو ہی رازق سمجھتا ہوں۔یا مثلاً جس کارخانہ میں مَیں ملازم ہوں اُس کے مالک کو میں رازق نہیں سمجھتا۔ میں یہ نہیں سمجھتا کہ میرے ماں باپ میرے رازق ہیں بلکہ میرا رازق خداتعالیٰ ہی ہے۔ اِسی طرح میں سمجھتا ہوں کہ محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے جو تعلیم دی ہے وہ خداتعالیٰ نے ہی آپ کو دی ہے۔ انہوں نے اپنے پاس سے کچھ نہیں کہا۔ میں انہیں اﷲ تعالیٰ کا عبد مانتا ہوں مگر میں ساتھ ہی یہ بھی سمجھتا ہوں کہ خداتعالیٰ نے ہی انہیں بھیجا تھا۔ پس جو کچھ انہوں نے کہا وہ خداتعالیٰ کی طرف سے کہا ہے اپنی طرف سے کچھ نہیں کہا۔ پھر ’’میں خدا کو ایک سمجھتا ہوں‘‘ کے یہ معنٰی بھی ہیں کہ اگر میں محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کے احکام کے مخالف چلوں گا تو کوئی طاقت مجھے اﷲ تعالیٰ کے عذا سے بچا نہیں سکتی۔

دنیوی عقود میں سے سب سے بڑا عقد بیوی کے ساتھ ہوتا ہے۔

نکاح کے وقت انسان اقرار کرتا ہے کہ وہ اُس کے ساتھ حُسنِ سلوک کرے گا اور محبت سے پیش آئے گا۔ پھر اُس کے رشتہ داروں سے عقد ہوتا ہے۔ مگر مجھے افسوس ہے کہ کئی احمدی اِس معاملے میں پورے نہیں اُترتے۔ نکاح تو وہ کرلیتے ہیں مگر بعد میں بیویوں سے اُن کا سلوک اچھا نہیں ہوتا۔ بعض عورتیں میرے پاس آتی ہیں اور کہتی ہیں ہمارے خاوند ہم سے حُسنِ سلوک نہیں کرتے اور اگر ہم خلع کرانا چاہتی ہیں تو وہ ہمیں چھوڑتے بھی نہیں۔ حالانکہ

اگر کوئی شخص واقع میں اپنے عہد کو پورا نہیں کرتا تو اُس کا فرض ہے کہ وہ اپنی بیوی کو چھوڑ دے۔

پھر بعض خاوند ایسے بھی ہوتے ہیں جو کہتے ہیں کہ ہمیں اتنے ہزار روپے دیئے جائیں تو ہم چھوڑ دیں گے ورنہ نہیں، یہ سب بے ایمانیاں ہیں اور نفس کی خرابی کی علامتیں ہیں۔ مومن کا فرض ہے کہ اگر اُس کی عورت ذرا بھی انقباض ظاہر کرے تو وہ اُسے فوراً چھوڑ دے۔ احادیث میں رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کا ایک واقعہ آتا ہے کہ آپ نے ایک عورت سے شادی کی۔ جب آپ اُس کے پاس گئے تو اُس نے کہا اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْکَ۔ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا تُو نے مجھ سے بڑی طاقت کی پناہ مانگی ہے اس لیے تمہیں میری طرف سے طلاق ہے۔(بخاری کتاب الطلاق باب من طَلَّقَ وَ ھَلْ یُوَاجِہُ الرَّجُلُ امرأَتَہٗ بِالطَّلَاقِ) بعد میں وہ عورت شکایت کرتی رہی کہ مجھے دھوکا دیا گیا ہے، مجھے کسی عورت نے سکھا دیا تھا کہ تُو اِس طرح کہیو، اِس طرح رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کا دل تیری طرف خاص طور پر مائل ہوجائے گا۔ لیکن بہرحال رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے سامنے اُس نے اَعُوْذُ بِاللّٰہِ کہا اور آپؐ نے اُسے فوراً طلاق دے دی۔ تو

مومن کا یہ کام ہے کہ اگر اُس کی عورت اُس کو ناپسند کرتی ہو تو فوراً اُسے چھوڑنے پر تیار ہو جائے۔

اگر وہ ایسا نہیں کرتا تو وہ توحید کے بھی خلاف کرتا ہے کیونکہ اس کے یہ معنے ہیں کہ وہ سمجھتا ہے کہ اُس عورت کے بغیر اس کا گزارہ نہیں ہو سکتا۔ حالانکہ توحیدِکامل یہ کہتی ہے کہ خداتعالیٰ کے سوا ہمارا کوئی گزارہ نہیں۔

اگر ہم کسی مرد یا عورت کے متعلق یہ سمجھتے ہیں کہ اُس کے بغیر ہمارا گزارہ نہیں تو ہم مشرک ہوجاتے ہیں

اور اﷲ تعالیٰ پر اعتماد اور یقین سے دور چلے جاتے ہیں۔

اِسی طرح

عقود میں بیوی کے ماں باپ اور عزیزوں اور اِسی طرح خاوند کے ماں باپ اور عزیزوں کے ساتھ حُسنِ سلوک کا عہد بھی شامل ہے

لیکن کئی مرد ہیں جو شادیاں تو کر لیتے ہیں لیکن اپنی ساس اور خسر کے ساتھ حُسنِ سلوک نہیں کرتے۔ بلکہ ہمارے ملک میں تو سُسر کو گالی سمجھا جاتا ہے۔ چنانچہ جب کسی کو بُرابھلا کہنا ہو تو کہتے ہیں ’’سہورا ہووے‘‘۔ حالانکہ قرآن کریم سے پتا لگتا ہے کہ حضرت شعیب علیہ السلام نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اپنی لڑکی دینے کا وعدہ کیا تو کہا تم دس سال میری خدمت کرو۔ جب تم یہ مدت پوری کر لو گے تو میں اپنی لڑکی کا تم سے نکاح کردوں گا۔(القصص:۲۸) گو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنی طرف سے کم کر کے کہا کہ اگر میں آٹھ سال بھی پورے کر دوں تو مجھ پر اعتراض نہیں ہو گا لیکن بہرحال انہوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے شرط کی تھی اور حضرت موسیٰ علیہ السلام نے یہ نہیں کہا کہ میں اس شرط کو قبول نہیں کرتا بلکہ کہا کہ اگر میں دس سال کی مدت پوری نہ کرسکوں آٹھ سال بھی پورے کر دوں تو مجھ پر کوئی الزام نہیں ہو گا۔(القصص:۲۹) گویا حضرت موسیٰ علیہ السلام کا تو یہ حال تھا کہ وہ شادی کی خاطر اپنے خسر کی دس سال تک خدمت کرنے کے لیے تیار ہو گئے اور اب یہ ہے کہ تھوڑی سی بات پر لڑائی اور فساد ہو جاتا ہے۔ آخر بیوی پر اُس کے ماں باپ کا بھی حق ہے اور یہ ظاہر ہے کہ

وہ کماتی نہیں، کماتا مرد ہی ہے اور وہ اُس کے گھر کا کام کرتی ہے اور بچوں کو پالتی ہے۔ اِس لیے اُس کے ماں باپ کے ساتھ حُسنِ سلوک کرنے کی ذمہ داری مرد پر ہے۔

اگر وہ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھے تو اُس کا فرض ہے کہ اپنی ساس اور خسر کی ضرورتوں کو پورا کرے۔ بیشک قرآن کریم یہ فرماتا ہے کہ ہر شخص پر اُتنی ہی ذمہ داری ہوتی ہے جتنی اُس کی طاقت ہوتی ہے(البقرۃ:۲۸۷) لیکن اگر وہ مقدور برابر بھی خدمت نہیں کرتا تو وہ عقود کا توڑنے والا ہو جاتا ہے اور خداتعالیٰ کے سامنے مجرم ہوتا ہے۔ اِسی طرح

اگر کوئی عورت اپنے خاوند کے ماں باپ کی عزّت نہیں کرتی تو وہ بھی عقود کو توڑتی ہے

کیونکہ جب اُس نے ایک مرد کے ساتھ شادی کی تھی تو اُس نے یہ بھی اقرار کیا تھا کہ میں مرد کی ذمہ داریوں کو بھی پورا کروں گی اور مرد پر ذمہ داریاں اُس کی ماں کی بھی ہیں اور اُس کے باپ کی بھی ہیں۔ پس اُس عورت پر بھی اپنے خاوند کے ماں باپ کے ساتھ حُسنِ سلوک کرنے کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ اگر وہ اُن کی خدمت نہیں کرتی تو مجرم بن جاتی ہے۔

احادیث میں آتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام ایک دفعہ دُور سے سفر کر کے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو ملنے گئے۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام کو شکار کا شوق تھا۔ وہ شکار کو گئے ہوئے تھے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے باہر سے آواز دی کہ اسماعیل ہے؟ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی بیوی کسی عرب قوم سے تھی اس لیے وہ حیران ہوئی کہ یہ کون شخص ہے جو حضرت اسماعیل علیہ السلام کا نام اِس بےتکلفی سے لے رہا ہے۔ اُس نے دریافت کیا کہ تم کون ہو؟ آپ نے فرمایا میں ابراہیم ہوں۔ لیکن اُس نے یہ بےوقوفی کی کہ اُس نے یہ خیال نہ کیا کہ یہ دُور سے آئے ہیں، میں انہیں پانی پلاؤں اور ان کی خاطرتواضع کروں۔ اُس نے صرف اِتنا پوچھا کہ آپ نے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو کیا پیغام دینا ہے؟ آپ نے فرمایا اُسے کہنا کہ تیری دہلیز بہت چھوٹی ہے اِس کو بدل دو۔ جب حضرت اسماعیل علیہ السلام واپس آئے تو اُن کی بیوی نے بتایا کہ ایک شخص آیا تھا جو ابراہیم نام بتاتا تھا۔ جاتے ہوئے وہ یہ پیغام دے گیا تھا کہ تیری دہلیز بہت نیچی ہے اِس کو بدل دو۔ آپ نے فرمایا وہ میرے باپ تھے اور اُن کے پیغام کا یہ مطلب ہے کہ تُو نے اُن کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا۔ اِس لیے میں تمہیں رکھنے کے لیے تیار نہیں۔ میں تجھے طلاق دیتا ہوں۔(بخاری کتاب الانبیاء باب یَزِفُونَ۔ النَّسَلَانُ فِی الْمَشْیِ)

تو عورت پر اپنے خاوند کے ماں باپ کی خدمت کرنا اور اُن کی نگہداشت کرنا ویسا ہی فرض ہے جیسے مرد پر فرض ہے کہ وہ اپنی بیوی کے ماں باپ کی خدمت کرے۔ اگر وہ دونوں اپنے فرائض کو ادا نہیں کرتے تو وہ عقود کو توڑتے ہیں اور عقود کے توڑنے کی وجہ سے خداتعالیٰ کے مجرم بن جاتے ہیں۔ قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ خداتعالیٰ اپنے بندوں کے ہر قسم کے گناہ معاف کر دیتا ہے (الزمر:۵۴) لیکن اگر کسی بندے کا قصور کیا گیا ہو تو خداتعالیٰ اُس وقت تک اُسے معاف نہیں کرتا جب تک بندے سے بھی معافی نہ لی جائے۔پس اگر انسان کامل توحید پر چلنے کی کوشش کرے اور رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی کامل اطاعت بھی کرے لیکن وہ بندوں کے عقود کو مثلاً ماں باپ کے عقود کو، دوستوں کے عقود کو یا بیوی یا خاوند کے عقود کو پورا نہ کرے تو وہ خداتعالیٰ کی نگاہ میں مجرم بننے سے بچ نہیں سکتا کیونکہ ان کا پورا کرنا بھی ضروری ہے۔‘‘ (الفضل۱۲؍فروری۱۹۵۹ء)

٭…٭…٭

مزید پڑھیں: روزے سے تقویٰ کس طرح حاصل ہوتا ہے(قسط اول)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button