نماز: حمد الٰہی کا اک بحرِ بے کنار
نماز کیا چیز ہے۔ وہ دعا ہے جو تسبیح تحمید تقدیس اور استغفاراور درود کے ساتھ
تضرع سے مانگی جاتی ہے(حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام)
مخبر صادق صلی اللہ علیہ وسلم نےنماز کی کنجی وضو کو قرار دیا او ر جنت کی کنجی نماز کو۔ احسان کی یہ تعریف فرمائی کہ مالک الملک کے حضور اس قدر توجہ سے ایستادہ ہوں کہ گویا اُس وراء الوراء ہستی کو دیکھ رہے ہیں یا کم از کم درجہ یہ تصور ٹھہرا کہ عالم الغیب والشہادۃ خدا اِس وقت مجھے دیکھ رہا ہے۔
اہتمام کے ساتھ طہارت اختیا رکرنےکے بعد عبادت کے لیے تمام جہانوں کے رب کے سامنے کھڑے ہونے کی ابتدا تکبیر تحریمہ سے ہوتی ہے۔ تحريمها التكبير(ترمذی)یعنی ہاتھ اٹھا کر کانوں تک لے جاتے ہیں اور’’اللہ اکبر‘‘ کہہ کر اللہ کے مقابل ہر دوسری چیز کے چھوٹا اور بےحیثیت ہونے کا اقرار زبانِ حال و قال سے کرتے ہیں۔
ہاتھ اٹھا لینے کے معنی ہوتے ہیںتعلق ختم کر لینا، کنارہ کش ہو جانا ، کسی کام سے دست بردار ہو جانا ، باز آنا، چھوڑ دینا۔گویا ہم عاجز و حقیر غلام دونوں ہاتھ اٹھا کر کانو ں کی لوَ کو لگاتے ہوئے اللہ کی بڑائی کا اقرار کرنے کے ساتھ ہی دنیا سے کنارہ کش ہو کر اس سےتعلق ختم کر نے کا اظہار کرتے ہیں۔ یعنی ایک اور عالم میں جا کھڑے ہوتے ہیں۔ اس مضمون میں اِسی عالم ِجذب و مستی کی کیفیات کی چند جھلکیوں پر غور کی دعوت ہے۔
ابتدائی تکبیر کو تکبیر تحریمہ اس لیے کہا گیا کہ حرمت قائم ہوگئی۔ دنیاوی واسطے، تعلقات اورر ابطے منقطع ہوگئے۔ عظیم الشان دربار میں کھڑے ہیں تو مکمل توجہ قائم رکھنے کے لیے اتنا تو ضروری ہے کہ مکمل یکسوئی سے حاضر ہوں۔ہاتھ اٹھا کر عاجزی و انکساری کے ساتھ، بے کس و بے آسرا اور نہتے دربار عالی میں حاضر ہیں۔اور حاضر ہوتے ہی بصد احترام یہ اقرار کرتے ہیں کہ اے ہمارے خدا تو ہی سب سے بڑا ہے۔نہ ہم بڑے نہ ہماری شان و شوکت بڑی۔ ہماری رشتہ داریاں، قرابتیں، تعلقات، اولاد، مال ودولت اورعہدے سب بہت معمولی ہیں۔ہم اور ہم سے تعلق رکھنے والی ہر چیز حقیر اور ادنیٰ ہے۔ دراصل اللہ اکبر کا یہ اقرار ہی سب دنیاوی معاملات سے بیگانہ کرنے والاہے۔اگر دل ودماغ کی تہ سے اٹھ کر آئے تو دیگر تمام فاسدخیالات کے سامنے بند باندھنے کے لیے یہ کلمہ ہی کافی و شافی ہے۔ اور یہ توابتدا ہے۔ وجود باری کی حمدو ثنا اور ہمارے عجزو انکسار کے اصل مدارج تو آگے آنے والے ہیں۔
بصد احترام ہاتھ باندھے کھڑے ہوکرتسبیح سے شروع کرتے اور یہ کلمات طیبہ دہراتے ہیں۔سُبْحَانَکَ اللّٰهُمَّ وَبِحَمْدِکَ وَتَبَارَکَ اسْمُکَ وَتَعَالٰی جَدُّکَ وَلَا اِلٰهَ غَيْرُکَ۔ اے ہمارے پیارے خدا تو سب برگزیدوں سے بڑھ کرہے۔پاک ترہے۔اپنی حمد کے ساتھ سبوحیت کے اعلیٰ ترین درجہ پرہے۔تیرا نام کتنا پیارا اور برکت والا ہے۔ اور تیری شان اس قدر بُلند ہے کہ کسی بھی چیز اور مخلوقِ ارضی و سماوی کے لیے ممکن ہی نہیں کہ تیری برابری کا دعویٰ بھی کر سکے۔ صرف تُو ہی تُو ہے۔
پھر وہ عظیم الشان اور عالی مرتبت دعا جو ہم سے قبل کسی قوم کو عطا نہ ہوئی۔ جس کے مدارج کی گواہی صحف سابقہ میں بھی درج ہے۔ تخت نشین کے داہنے ہاتھ میں ایک کتاب دیکھی جو اندر اور باہر سے لکھی ہوئی تھی اور اسے سات مہریں لگا کر بند کیا گیا تھا۔ (مکاشفہ باب ۵ آیت۱ اور ۲)
جسے’’توجہ اور اخلاص سے پڑھنا دل کو صاف کرتا ہے اور ظلمانی پردوں کو اٹھاتا ہے اور سینے کو منشرح کرتا ہے اور طالبِ حق کو حضرتِ احدیّت کی طرف کھینچ کر ایسے انوار اور آثار کا مورد کرتا ہے کہ جو مقرّبان حضرتِ احدیت میں ہونی چاہئے اور جن کو انسان کسی دوسرے حیلہ یا تدبیر سے ہرگز حاصل نہیں کرسکتا۔‘‘(براہین احمدیہ چہار حصص، روحانی خزائن جلد ۱صفحہ ۴۰۲ حاشیہ نمبر ۱۱)
اس عظیم الشان دعا میں چار بنیادی صفات کا ذکر کیا گیا ہے۔ وہ چار صفات جو تمام ازلی ابدی اور لا متناہی صفات کا منبع ہیں۔ ان صفات کا بھی جو ہمیں سکھائی گئی ہیں اور ان کا بھی جوہماری حقیر سی ہستی، ہمارے محدود علم،رسائی کی حدود وقیود اور ادراک سے پرے ہیں۔
عاجزانہ حالت میں ہاتھ باندھے کلمہ تعریف و توصیف ’’الحمد‘‘ کے بحر بے کنار میں غوطہ زن ہوتے ہوئے یک بہ یک ایاک نعبد کی صدا بلند کرنا اس لیے واجب ہوا کہ کوئی اور تیرےجیسا ہو تو اس کی عبادت کی طرف مائل ہوں۔ کوئی اور اتنے ارفع مقام پر ہے ہی نہیں تو کسی اور کی عبادت کی طرف مائل بھی کیسے ہوں۔کس کی طرف جھکیں؟
جب تو یکتا ہے اور عبادت کے سزاوار بھی تُو ہی ہےتو پھر اقرار ِنعبد کے ساتھ نستعین کی عاجزانہ استدعا تو جزولاینفک ٹھہرتی ہے سو وہ بھی پیش کردیتے ہیں کیونکہ جہانوں کے رب کے سامنے کھڑے ہو کر کہیں اور سے استعانت کی امید رکھنا کیونکر ممکن ہو۔
سیدھے راستے کی طلب، غضب بھڑکانے والوں سے دوری اور گمراہ ہونے والوں سے بیزاری اختیار کرتے ہوئے عزت و احترام اور دلی گہرائی سےتذلل و عاجزی کے ایک اور مقام کی طرف بڑھتے ہیں۔
’’ انسان کو واجب ہے کہ وہ ایک سائل کامل اور محتاج مطلق کی صورت بنا وے اور جیسے ایک فقیر اور سائل نہایت عاجزی سے کبھی اپنی شکل سے اور کبھی آواز سے دوسرے کو رحم دلاتا ہے۔اسی طرح سے چاہیے کہ پوری تضرّع اور ابتہال کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے حضور عرض حال کرے۔‘‘(ملفوظات جلد ۲ صفحہ۱۴۵-۱۴۶، ایڈیشن ۱۹۸۴ء)
پہلے ہم حقیر وناچیز ہونے کی مجسم تصویر بن کر ایستادہ تھے تو اب حالت رکوع میں ہو کر یہ اعلان کرتے ہیں۔ سبحان ربی العظیم۔ یہاں ضمیر متکلم میں یہ اقرار بہت غور طلب ہے۔میرا رب۔ کیونکہ فاتحہ جیسی غیر معمولی دعا کا ادراک حاصل کرنے کے بعد قرب اس قدرتو محسوس ہونا ہی چاہیے کہ ’’تُو میرا رب ہے‘‘ کی خالص پکار تہ دل سے بلند ہو۔اس مقام پر عاجزی و انکساری کے ساتھ جھک کر عظمت خداوندی کا اظہار عجیب سماں پیدا کرتا ہے کہ خود رسول خدا، احمد مجتبیٰ، محمد مصطفیٰ ﷺ کو اپنے رب کی عظمت کے آگے ایسے جھکے رہنا بہت محبوب تھا۔ آپؐ اسے طول دیا کرتے اورقیام کے برابر ہی رکوع میں رہنا پسند فرمایا کرتے تھے- ثُمَّ رَكَعَ بِقَدْرِ قِيَامِهِ۔ (ابو داؤد حدیث ۸۷۳)
آپؐ صرف رکوع میں جھکے رہنا ہی پسند نہیں فرماتے تھے بلکہ علاوہ سبحان ربی العظیم کی اپنائیت والی تسبیح کے اس موقع پر بعض اور کلمات توصیف بھی ادا فرمایا کرتے تھے جو اس دلی فروتنی کی عملی حالت کی مجسم تصویر ہیں۔حضرت عوف بن مالک کو ایک رات آپؐ کے ساتھ نماز پڑھنے کی سعادت عطا ہوئی تو انہوں نے رکوع میں رسول کریمؐ کی زبان مبارک سے یہ کلمات طیبہ ادا ہوتے ہوئے سماعت کیے: سُبْحَانَ ذِي الْجَبَرُوتِ وَالْمَلَكُوتِ وَالْكِبْرِيَاءِ وَالْعَظَمَةِ (تُو) پاک ہے، عظیم الشان غلبہ اور بڑی بادشاہت والا اور بے انتہا بزرگی اور عظمت والا رب ہے۔ (سنن نسائی حدیث۱۰۵۰ )
عجزو انکسار کی علامت،حالت رکوع میں ہو کر وارفتگی سے کلمات عظمت و جلال کا بیان کرتے ہوئے کسی جابر و ظالم حاکم کے سامنے بھی استدعا کی جائے تو حسنِ سلوک اور نرمی برتے جانے کے مواقع بہت واضح ہو جاتے ہیں۔اوریہ بات عین فطرت کے مطابق بھی ہے۔
’’خدا تعالیٰ نے نو ع انسان کی فطرت میں یہ بات رکھی ہے کہ جب ایک انسان سچے دل سے دوسرے انسان کی طرف رجوع کرتا ہے تو ا س کا دل بھی اس کے لئے نرم ہوجاتا ہے تو پھر عقل کیونکر اس بات کو قبول کر سکتی ہے کہ بندہ تو سچے دل سے خدا تعالیٰ کی طرف رجوع کرے مگر خدا ا س کی طرف رجوع نہ کرے۔‘‘(چشمہ معرفت ، روحانی خزا ئن جلد۲۳ صفحہ۱۳۳)
لیکن ہم تو یہ حالت زار اس وجود کے آگے اختیار کر رہے ہیں جس نے از خود اعلان عام کر رکھا ہےکہ میری رحمت اس قدر وسیع ہے کہ ہر ذرہ عالم، ہر غلطی، ہرکوتاہی، گناہ،کمزوری اور لغزش کو اپنے پروں کے نیچے سمیٹ لیتی ہے۔ کوئی بھی شئے میری رحمت کے دائرہ اختیار سے بڑھ نہیں سکتی۔ رَحۡمَتِیۡ وَسِعَتۡ کُلَّ شَیۡءٍ (الاعراف:۱۵۷)۔ جس نے اپنی رحمت کے سو حصوں میں سے صرف ایک حصہ زمین پر اتارا۔ انسانی و حیوانی تمام نظام زندگی میں نظر آنے والے محبت و الفت کے سبھی نظارے بس اسی ایک حصہ رحمت سے کشید ہوتے ہیں۔( بخاری حدیث نمبر ۶۰۰۰) رحمت کےباقی ننانوے حصوں کی وسعت کااندازہ لگانا حدبست سے ماوراء ہے۔وہ جو چل کر آنے والے کو دوڑ کر،مادر مہربان کی محبت سے بڑھ کر،اپنی آغوش میں لینے کے لیے ہمیشہ منتظر رہتا ہے، ا س کی عطا کی بے قراری کا بیان ممکن نہیں۔ وِإذَا أتَانِي يَمشي أتَيْتُهُ هَرْوَلَةً۔(بخاری)
رکوع کی حالت تذلل سے سر اٹھاتے ہی یقین کے ایک اور زاویےسے صدائے قربت بلندکرتے ہیں کہ جس قدر عاجزی سے اب تک ہم نے تیری حمد کی ہے اور ادائے دلربائی دکھائی ہیں وہ واقعی قبول کیے جانے کے لائق ٹھہرنے والی ہیں۔ہمارا دل نُورِ یقین سے پُرہے کہ ہماری استدعائیں سن لی گئی ہیں۔ کیونکہ اے ارحم الراحمین تُو نے ہی تو وعدہ کر رکھاہے سمع اللّٰہ لمن حمدہ۔کہ جس نے تیری حمد اور توصیف کا حق ادا کر دیا اس کی دعا شرف قبولیت پا گئی۔ قبولیت دعا کا مژدہ جاں فزا اس مقام پر سن کر کس قدر تسلی ملتی اور حوصلہ افزائی ہوتی ہےکہ واقعی ہمارا خدا دنیاوی حاکموں سے بہت بلند و برتر ہے کہ صرف چندلمحوں کی گزارشات اور نیاز مندی کے بعد ہی قبولیت دعا کی نویدعطا کر دی۔دکھی دلوں،مجروح روحوں اور خستہ حال غلاموں کے لیے کس قدر روح پرور یہ بشارت ہے کہ دربار الہٰی میں چند لمحے ہی گزارنے پر استدعاؤں کے سنے جانے کی خوشخبری عطاہوتی ہے۔یہ تو گویا قدم رکھتے ہی محمل کو پالینے کا اذن ملنے جیسا ہے۔’’بڑی بات جو دعا سے حاصل ہوتی ہے وہ قربِ الٰہی ہے‘‘(ملفوظات جلد ۴صفحہ ۴۵؍ایڈیشن۱۹۸۸ء)
قربت کے خالی میدان میں قدم رکھتے ہی سمع اللّٰہ لمن حمدہ کی صدا ئے دلربا سننا، واضح کرتا ہے کہ حقیر و فقیر غلام کو قرب کی ایک اور منزل عطا کیے جانے کا اذن عطا ہو چکا ہے۔ گویا ایک عظیم المرتبت مرحلہ طے ہوا۔ یہی تو وہ لازوال حقیقی زندگی ہے جس کی تلاش میں ایک مومن نکلتا ہے اور اس کے آثار اسے پہلے زینہ پر ہی نظر آنے لگتے ہیں۔
زندہ وہی ہیں جو کہ خدا کے قریب ہیں
مقبول بن کے اس کے عزیز وحبیب ہیں
یہ خوشخبری خوشی سے نہال کرنے والی ہے لیکن یہ خوشی مومن کو تیری حمد سےغافل نہیں کرتی۔ بلکہ اور آگے بڑھا دیتی ہے۔ ہماری منزل یہی تو نہیں تھی کہ ابتدائی مراحل کو سب کچھ سمجھ لیں بلکہ منزل تو تیرے در پر سب کچھ قربان کرنا اور وار دینا ہے۔اس لیے اے ہمارے پاک رب! ہم اقراری ہیں کہ حمد کے لائق صرف اور صرف تُو ہی ہے۔ ربنا ولک الحمد۔ اگر کوئی پوچھے کہ کتنی حمد؟ کیسی حمد ؟ کس نوعیت کی حمد؟ تو ہمارا جواب ہے۔ اس کثرت کے ساتھ حمد کہ جس سے زیادہ تصور نہ کی جا سکے۔ اس قدر پاک و صاف اور شفاف حمد کہ جس سے زیادہ شفاف اور مصفٰی تعریف ممکن نہ ہو۔ اتنی زیادہ برکتوں والی حمد کہ اس سے زیادہ بابرکت توصیف کا خیال بھی نہ کیا جاسکے۔حمدًا کثیرًا طیبًا مبارکًا فیہ۔
ہاں ’’حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا‘‘ والی کیفیت ہمیں اور بےچین کر کےتیرے حضور جھکاتی چلی جا ئے گی۔کیا معلوم ہماری کون سی ادا دلربائی کا باعث بن جائے۔شاید اسی کیفیت کو رشید قیصرانی صاحب نے بیان کرنے کی کوشش کی ہے کہ محب اور محبوب کے درمیان ارادت و کیفیاتِ عشق کا بیان سہل کب ہوتا ہے۔
مجھے کیا خبروہ عشق تھا نماز تھی کہ سلام تھا
میرا اشک اشک تھا مقتدی تیرا حرف حرف اما م تھا
یہاں سے آگے ایک اور سنگ میل ہے جو عاجزی کا انتہائی مقام ہونے کے ساتھ ساتھ بندے کو اپنے رب کریم کے قریب تر کرنے والا ہے۔ أَقْرَبُ مَا يَكُوْنُ الْعَبْدُ مِنْ رَبِّهِ وَهُوَ سَاجِدٌ، فَأَكْثِرُوا الدُّعَاءَ۔(صحیح مسلم)
حالت تذلل ہے، عاجز و ادنیٰ غلام اپنے مالک المُلک خدا کے سامنےپیشانی زمین پر ٹکائے سبحان ربی الاعلیٰ کی صدا بلند کرتا ہے۔ کیا خوب کلمہ حمد ہے۔پھر حالت سجدہ میں اس کا ادا کیا جا نا کیا سماں باندھ رہا ہے۔گویا زبانِ حال و قال سے اقرا ر ہے کہ میں حقیر ترین اور تُو اعلیٰ ترین۔ میں کمزور تر تُو طاقتور، میں فقیر تو شہنشاہِ کل۔میری عاجزی عیاں تیری بادشاہی نمایاں۔ فروتنی اپنی انتہاء پر، عجز اپنے مقام عروج پر،دل میں احساس ندامت۔زبان پر کلمہ تمجید۔کیا اعلیٰ اظہار تذلل ہے کہ اس سے زیادہ ایک بندہ کے لیے ممکن نہیں۔
جبیں سجدہ کرتے ہی کرتے گئی
حق بندگی ہم ادا کر چلے
یہی وہ موقع ہے جہاں اپنی زبان میں بکثرت مناجات کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔یہی وہ مقام ہے جہاں روح آستانہ الوہیت پر پگھل پگھل جاتی ہے۔ ہاں یہی وہ حالت ہے جو ہمارے آقا ومولیٰﷺ کو سب سے زیادہ محبوب تھی۔ اندھیری راتوں میں، بیابانوں اور ویرانوں میں،نیند چھوڑ کر، استراحت قربان کر کے نکل کھڑے ہوتے۔ کہیں بے قراری اس قدر بڑھی کہ دیکھنے والوں نے اسے ابلتی ہنڈیا سے تشبیہ دی۔ حضرت عبداللہ بن الشِّخِّيرؓ بیان کرتے ہیں:أتَيتُ النبيَّؐ وهو يُصلِّي، ولِجَوفِهِ أَزِيزٌ كأَزِيزِ المِرْجَلِ مِنَ البُكاء(سنن أبي داؤد: ۹۰۴) آپؐ حالت نماز میں تھے اور خشوع وخضوع اور اپنے رب کے حضور عجز و نکسار اس قدر تھا کہ رونے کی وجہ سے آپ کے سینے سے ایسی آواز آ رہی تھی جو ہنڈیا سے جوش میں آنے کے وقت آتی ہے۔
إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلّٰهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ (الانعام: ۱۶۳) کی عملی تفسیر تو آپ کے ہر عمل اور ہرسجدہ میں نمایاں تھی۔ یہ ’’ایک ایسی آیت ہے جوآنحضرت ﷺ کے اپنے رب کے حضور کامل مطیع ہونے کا اس کمال کے ساتھ ذکر کرتی ہے کہ اس سے بہتر ذکر ممکن نہیں۔‘‘(قرآن کریم اردو ترجمہ حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ تعارفی نوٹ سورۃ الانعام صفحہ ۲۰۴)
پھر عشق و مستی کی عجیب داستان تب رقم ہوئی جب صحن کعبہ میں حالت سجدہ میں بدنصیب عقبہ نے آپؐ پر اونٹ کی اوجھڑی ڈال دی۔آپؐ اسی حالت میں سجدے کو طول دیتے گئے۔ آپ کی دختر فاطمہؓ جو اس وقت ابھی بچی تھیں آئیں اور اپنے ننھے ہاتھوں سے اس گند کو آپؐ سے دور کرنے لگیں۔ (بخاری حدیث۳۸۵۴)آپؐ جن کو دس مردوں کے برابر طاقت عطا ہوئی تھی کیااس اوجھڑی کو اپنے اوپر سےسرکا نہیں سکتے تھے یقیناًآپؐ ایسا کر سکتے تھے۔ لیکن وہ محبوب کے راستے میں آنے والا ایک ایسا موڑ تھا جو ہر عاشق کے نصیب میں نہیں ہوتا۔وہ لمحہ غیر معمولی تھا اور سجدہ بڑا عظیم تھا۔ عصر حاضر میں ’’اےنعمتاں کتھوں ‘‘ کا نعرہ مستانہ لگانے والا برہان الدینؓ کتنا خوش قسمت تھا کہ ایک جست میں اپنے آقا و مولیٰ ﷺ کے پہلو میں جاکھڑا ہوا۔آپؐ ظاہری و باطنی تذلل کے ساتھ اس سجدے کوطول دے کر مقام مدح کی معراج چاہتے تھے۔ رب کریم کی کس قدر پیار کی نگاہیں اس وقت آپؐ پر پڑ رہی ہوں گی۔
’’ یہی بھید ہے کہ آنحضرت ﷺ نماز میں یہی کہتے تھے کہ سبحان ربّی الاعلیٰ۔ سبحان ربّی العظیم۔ یعنی میرا ربّ سب سے بڑا اور بزرگ ہے پس اگرچہ رب تو ایک ہے مگر تجلیات عظیمہ اور ربوبیت عالیہ کی وجہ سے حضرت محمدﷺ کا رب سب سے اعلیٰ ہے‘‘( چشمہ معرفت، روحانی خزائن جلد ۲۳صفحہ ۳۴۹)
میرے عزیز دوست ایڈووکیٹ محمود دیدی کنگالا عیسائیت سے نکل کراسلام احمدیت میں داخل ہوئے تو انہیں پنجوقتہ نماز کا بتایا گیا۔قیام و سجود اور تشہد کا طریق سکھایا گیا۔ نماز پڑھ کر مسجد سے باہر آئے تو ایک بڑی گہری بات کی۔ کہنے لگے مجھے آج معلوم ہوا ہے کہ خد اتعالیٰ نے انسانی جسم میں اس قدر جوڑ کیوں بنائے ہیں۔ صرف اس لیے کہ ہم مڑ سکیں، جھک سکیں،سجدہ میں گر کر اس کی عبادت کر سکیں۔ اس کی حمدو ثنا کے لیے تذلل کے انتہائی مقام تک جا سکیں۔ واہ! کیا عطا رب جلیل ہے کہ ایک ہی نماز میں معرفت کی کئی منازل طے کر گئے۔اور براہ راست اس نور سے منور ہوئے جس کا بیان یوں ہواہے۔
’’انسان کو جو کچھ اندرونی اور بیرونی اعضاء دئیے گئے ہیں یا جو کچھ قوتیں عنایت ہوئیں ہیں، اصل مقصود ان سے خدا کی معرفت اور خدا کی پرستش اور خدا کی محبت ہے۔ اسی وجہ سے انسان دنیا میں ہزاروں شغلوں کو اختیار کر کے پھر بھی بجز خدا کے اپنی سچی خوشحالی کسی میں نہیں پاتا۔‘‘(اسلامی اصول کی فلاسفی، روحانی خزائن جلد ۱۰صفحہ ۴۱۵)
سجودو قیام کے ذریعہ اپنی حالت زاری اوراظہار کمزوری کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ کی عظمت و جبروت، قوت و طاقت، مالکیت و ملکیت، بادشاہت وحاکمیت کے اقرار کے بعد جب بندہ نماز کے آخری حصہ میں پہنچتا ہے تو یہاں حمد کا ایک اور سنگ میل طے کرتا ہے۔ کیا خوب مقامِ ادب اختیار کرتا ہے کہ دو زانو ہو کر مؤدب بیٹھ جاتا ہے۔اور یوں گویا ہوتا ہے کہ تمام زبانی، جسمانی،اور مالی عبادتیں اور قربانیاں تیرے لیے سزا وار ہیں۔ حمد تیری، تسبیح و تحمید تیری، تقدیس تیرے لائق۔ نہیں ہے اور کوئی جس کے آگے جا کر جھکوں۔ ہر قسم کی عبادت صرف تیرے لیے ہی مخصوص ہے۔ تُو واحد ہے کسی اور وجود کو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ تیرے ساتھ برابری کر سکے تیری عبادت میں شریک ہو اور تیرے معاملات میں اسے دخل دینے کی اجازت دی جائے۔
’’نماز کیا چیز ہے۔ وہ دعا ہے جو تسبیح تحمید تقدیس اور استغفاراور درود کے ساتھ تضرع سے مانگی جاتی ہے۔‘‘(کشتی نوح،روحانی خزائن جلد ۱۹صفحہ۶۸-۶۹)
گویا نماز اک عالم عجیب میں سے ہو کر آنا ہے۔ اگر نماز ایسی نہ ہو اور ’’جب تک دل فروتنی کا سجدہ نہ کرے صرف ظاہری سجدوں پر امید رکھنا طمع خام ہے جیسا کہ قربانیوں کا خون اور گوشت خدا تک نہیں پہنچتا صرف تقویٰ پہنچتی ہے ایسا ہی جسمانی رکوع و سجود بھی ہیچ ہے جب تک دل کا رکوع و سجود وقیام نہ ہو۔ دل کا قیام یہ ہے کہ اس کے حکموں پر قائم ہو اور رکوع یہ کہ اس کی طرف جھکے اور سجود یہ کہ اس کے لیے اپنے وجود سے دست بردار ہو۔‘‘(شہادۃ القرآن، روحانی خزائن جلد ۶صفحہ ۳۹۸)
جب ہم نماز میں داخل ہوتے ہیں تو حرمت قائم ہو جاتی ہے۔ تحريمها التكبير۔ کیونکہ ایک اور دنیا میں وارد ہوتے ہیں۔اس لیے ورلی زندگی کے معاملات دوران نماز ممنوع قرا ر پاتے ہیں اور جب اُس عالم سے واپس اپنی پہلی زندگی کی طرف رجوع کرتے ہیں تو دنیا کے امور ہمارے لیے جائز ہو جاتے ہیں۔ تحليلها التسليم(ترمذی)
ہاتھ کانوں کی لو کو لگاتے ہوئے، سارے تعلق ختم کرکے، دنیوی امور سےکنارہ کش ہو کر،ہر معاملے سے دست بردار ہو کر اُس عالم میں گھسے تھے تو سلامتی کے تحفے لے کر لوٹے ہیں۔ دائیں طرف والوں پر بھی سلامتی کے پھول نچھاور ہوں تو بائیں طرف والے بھی سلامتی کی نوید پائیں۔ سلامتی کے تحائف کے ساتھ نماز سے باہر آنا ایسا اظہا رہے گویا حمدو ثنا کے سمندر سے سر تا پا بھیگے ہوئے آئے ہوں۔ اس حالتِ جذب ومستی میں اُس در سے ہو کر آئیں تو زندگی کا حقیقی لطف نماز میں محسوس ہوتا ہے۔اور یہی وہ مقام ہے جس سے فیض یاب ہو کر ایک عبد کاملﷺ قُرَّۃُ عَیْنِیْ فِی الصَّلَاۃِ۔کی صدا بلند کرتا ہےیہ کوئی خالی نعرہ تو نہیں تھا یہ حقیقت حال کا بیان ہے۔ پھر یہاں سے ایک اور سفر کا آغاز ہوتا ہے۔ ایک کے بعد دوسری نماز کا انتظار۔ لا یَزالُ اَحَدُکُم فِی صلاۃ مَا انتَظَرَ الصّلاۃ۔( بخاری حدیث نمبر۶۴۷)یعنی نماز سے باہر آنے کے بعد بھی سرور کی کیفیت قائم رہے تو سارا وقت ہی نمازمیں شمار ہونے کی بشارت ہے۔ اور وانتظارُ الصلاة بعد الصلاة فذٰلِكُم الرِّباط۔(مسلم) یہی تو ہے وہ عمل جو سرحدوں پر حفاظتی دستوں کے قیام جیساہے۔ایسے چاک و چوبند دستے جو دشمن کے مقابلے کے لیے ہر آن تیار رہتے ہیں۔
ایسی ہی نمازوں کے لیے خوشخبری ہے کہ جب ایک مسلمان اللہ کی رضا مندی حاصل کرنے کے لیے نماز پڑھتا ہے تو اس کے گناہ اسی طرح جھڑ جاتے ہیں جس طرح درخت کے(خشک) پتے جھڑجا تے ہیں۔اِنَّ الْعَبْدَ الْمُسْلِمَ لُیُصَلِّ الصَّلَاۃَ یُرِیْدُبِھَا وَجْہَ اللّٰہِ فَتَھَافَتْ عَنْہُ ذُنُوْبَہٗ کَمَا یَتَھَا فَتُ ھٰذَا الْوَرَقُ عَنْ ھَذِہِ الشَّجَرَۃِ۔(مشکوۃ المصابیح، کتاب الصلوۃ)
معاذ بن جبل کا ہاتھ پکڑ کر رسول کریم ﷺ کا بیان فرمودہ ارشاد کتنا گہرا اور خوبصورت ہے۔’’اے معاذ! میں تجھے وصیت کرتا ہوں کہ تُو ہر نماز کے بعد یہ دعا کرنا نہ بھولنا۔‘‘ اے اللہ ! تو مجھے توفیق عطا کر کہ میں تیرا ذکر، تیرا شکر اور اچھے انداز میں تیری عبادت کر سکوں۔اَللّٰھُمَّ اَعِنِّیْ عَلٰی ذِکْرِکَ وَ شُکْرِکَ وَحُسْنِ عِبَادَتِکَ۔ (سنن ابی داؤد۔ کتاب الوتر۔ باب فی الاستغفار)
کیونکہ جس حسین عالم سے ہو کر آئے ہیں،جس عالیشان دربار میں رسائی پانے کی سعادت عطا ہوئی ہے۔ صحیح سالم وجود کے ساتھ جسم کا ہر عضو جس طرح مقام مدح کی عملی حالتوں کے قیام میں مدد گار و معاون ثابت ہوا ہے۔ جس کی بدولت رو ح نےتسکین پائی اور قربتوں کو محسوس کیا ہے اس نعمت پرشکر کرنا تو واجب ٹھہرتا ہی ہے۔
٭…٭…٭
مزید پڑھیں: جلسہ یوم مسیح موعودؑ کے اغراض و مقاصد اور اس میں شمولیت کےفوائد