احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح
غیر نبی کے الہام غیبی سے مطلق انکار نبی کے الہام سے انکار کا مقدمہ ہے اور اُس کی طرف کھینچ لے جاسکتا ہے کیونکہ دونوں الہاموں کا حال و اصول ایک ہے بلکہ سچ پوچھو تو وہ دونوں ایک ہی چشمہ یا منبع کی دو نہریں ہیں
براہین احمدیہ پر لکھے جانے والے ریویو زکے سلسلے میںابوسعید محمدحسین بٹالوی صاحب کا تحریر کردہ ریویو
مذہبی نکتہ چینی کا جواب
فریق اوّل (امرتسری منکروں) کی وجہ انکار کا جواب
تمہید: اس فریق کا انکار گو صورۃً انکار فریق دوم سے اخفّ ہے۔ (کیونکہ فریق دوم مکفر ہے۔ یہ مکفر نہیں۔) مگر درحقیقت یہ انکار اشد ہے۔ اس لیے کہ فریق دوم کا انکار گو حدِّتکفیر تک پہنچا ہوا ہے۔ مگر وہ صرف اور خاص کر الہامات مؤلف براہین احمدیہ کے متعلق ہے ان کے سوا اور اولیاءاللہ کے الہامات سے اُس کو تعلق نہیں اور ان کو مطلق الہام اولیاءاللہ سے انکار نہیں۔ اور یہ حضرات (فریق اول) معتزلہ اور نیچریہ کی طرح مطلق اولیاء اللہ کے الہام غیبی (ہمرنگ وحی) سے انکاری ہیں۔ اور مؤلف براہین کے سوا بھی کسی ولی (سرّی۔ سقطی۔ جنید بغدادی ۔ شیخ عبدالقادر جیلانی وغیرہ) کے الہام غیبی کو نہیں مانتے۔ اس لیے ان کا انکار بلا تکفیر فریق دوم کے انکار باتکفیر سے اشد اور اغلظ ہے۔ اور اس کا جواب و تعاقب بہ نسبت جواب انکار فریق دوم اہم و اقدم ہے اور اس میں نہ صرف مؤلف براہین احمدیہ یا اور اولیاء اللہ کے الہامات کی نصرت و حمایت متصور و مقصود ہے بلکہ الہام انبیاء کی تائید بھی اس میں متحقق ہے اور یہی تائید (الہام انبیاء) ہمارا اصلی مقصد ہے۔ اس لیے کہ غیر نبی کے الہام غیبی سے مطلق انکار نبی کے الہام سے انکار کا مقدمہ ہے اور اُس کی طرف کھینچ لے جا سکتا ہے کیونکہ دونوں الہاموں کا حال و اصول ایک ہے بلکہ سچ پوچھو تو وہ دونوں ایک ہی چشمہ یا منبع کی دو نہریں ہیں۔ لہٰذا ایک سے انکار ہو تو دوسرے کے تسلیم کرنے کی عقلی وجہ کوئی نہیں۔ اور ایک کے وجود سے انکار کرنے سے دوسرے سے انکار کا بھی خوف ہے۔ اسی وجہ سے محققین اہل عرفان نے کہا ہے۔ جس کو اولیاء کے اس فیض باطنی اور علم لدنی سے انکار ہو۔ اس کو سوء خاتمہ کا خوف ہے۔ شاید اُس کے دل میں ایک نہ ایک دن انبیاء کے علم لدنی و الہام غیبی سے انکار بھی جگہ پکڑلے۔ تمہید ختم ہوئی اب جواب وجہ انکار فریق اوّل قلم میں آتا ہے۔
الہام غیبی (ہمرنگ وحی) جس سے فریق اوّل کو انکار ہے وہ الہام ہے جس کی چار صورتوں کی تشریح براہین احمدیہ حصہ سوم کے صفحہ ۲۲۳و ۲۳۶و ۲۴۷و ۲۵۸ میں ہو چکی ہے۔ اور اس میں کلام و تکلم خداوندی پایا جاتا ہے۔ ایسا الہام (جس میں کلام و خطاب ہو) فریق اوّل کے نزدیک وحی کہلاتا ہے اور وہ اُن کے خیال میں بجز نبی کسی کو نہیں ہو سکتا۔اور نہ کبھی کسی کو ہوا۔ (حاشیہ: چنانچہ سر گروہ فریق اوّل کے رسالہ ابطال الہام میں ہے لیکن اس طور کہنا کہ خدا نے مجھ کو یہ آیت الہام کی۔ اور اس کی کلام و تکلم کا خیال کرنا کہ خدا نے مجھ سے کلام کی اور اس آیت کو مجھے فرمایا ان معنوں سے جائز نہیں۔) پھر فریق اوّل نے اس دعویٰ کے مناقض یہ بھی کہہ دیا ہے کہ جس کو خدا کی طرف سے کلام و الفاظ سے خطاب ہو وہ اس کو الہام کیوں کہتا ہے۔ وحی کیوں نہیں بولتا۔ اور اس کے ساتھ یہ بھی کہہ دیا ہے (حاشیہ: چنانچہ اسی رسالہ میں ہے۔ اور اَوْحَیْنَآ اِلٰٓی اُمِّ مُوْسٰٓی میں مفسرین الہام کے معنی کرتے ہیں لیکن الہام کے معنی درست نہیں ہوتے کیونکہ الہام صرف القا ہی ہوتا ہے وہاں جواب نہیں ہوتا۔اگر وحی کے یعنی صرف اعلام کے یا ارسال فرشتہ کے کیے جاویں تو منع نہیں۔ کیونکہ وحی رسالت خاصہ انبیاء ہے نہ وحی اطلاع و ارسال فرشتہ کئی اشخاص کے پاس فرشتہ آئے اور کلامیں کیں اور کئی نے آوازیں سنیں۔ پھر اس کی تمثیل میں چند وجہ نقل کر کے کہا ہے۔ جائز ہے موسیٰ کی ماں کو فرشتہ کے ذریعہ سے یا کسی اَور وسیلہ سے کلام ہوئی ہو۔ جب یہ بات ثابت ہوئی کہ الہام کے معنوں میں کلام اور تکلم ماخوذ نہیں اگر کوئی شخص دعویٰ کلام و تکلم کا کرے تو ہم اس کو صادق نہ جانیں گے اُس پر الہام بولنا اس کا غلط ہے وحی کیوں نہیں بولتا وحی کے معنوں میں کلام ماخوذ ہے نہ الہام کے معنوں میں۔) کہ حضرت موسیٰ کی ماں کو انہیں معنی کو وحی ہوئی تھی اور وحی بمعنی اعلام بکلام و ارسال فرشتہ نبوت کا خاصہ نہیں۔ اس قول میں انہوں نے الہام بکلام (جس کو وہ وحی کہتے ہیں اور خاصہ نبوت سمجھتے ہیں) کو اوروں کے لیے جائز کر دیا۔ (گو اس کا نام الہام نہیں رکھا) اور جس امر سے وہ انکاری تھے اُس کا انہوں نے خود اقرار کر لیا۔
لہٰذا اُن کے اس خیال و مقال (گووہ مجرد دعویٰ بلا دلیل ہے) کے جواب میں صرف اس قدر کہنا کافی ہے کہ مدعی الہام کا دعویٰ یہی تھا کہ مجھے خدا تعالیٰ نے فلاں فلاں آیت یا فلاں کلام سے مخاطب فرمایا ہے۔ اور مجھ سے خدا تعالیٰ ہمکلام ہوا ہے۔ جس کو فریق اوّل نے مان لیا۔ رہی اُس کی یہ نزاع کہ وہ بشہادت لغت اُس کو الہام نہیں کہتا وحی نام رکھتا ہے۔ سو یہ لفظی نزاع ہے۔ (جس کی طرف محصلین و محققین کبھی رجوع نہیں کرتے) اس نزاع کا قطع و رفع مدعی الہام کے لفظ الہام کو چھوڑ دینے اور بجائے الہام لفظ وحی استعمال کرنے سے بآسانی ممکن ہے۔ وہ بجائے دعویٰ الہام کلام یہ دعویٰ کر سکتا ہے کہ خدا نے مجھے وحی بمعنی اعلام کلام سے (جو فریق اوّل کے نزدیک خاصہ نبوت نہیں ہے) مشرف فرمایا ہے اور اسی وحی کے ذریعہ سے فلاں آیت یا فلاں کلام سے مخاطب کیا ہے۔ جس میں فریق اوّل کو (اگر وہ انصاف کرے) کسی وجہ سے مجال مقال نہیں ہے اور اگر وہ انصاف سے مناظرہ کی داب سے یکسو ہو کر اَب اس میں یہ بات نکالے کہ وحی کلام کا (جس کو ہم غیر نبی کے لیے جائز رکھتے ہیں) کانوں سے مسموع ہونا ضروری ہے اور مدعیان الہام کلام ملہم کے دلیر وارد ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ (چنانچہ مؤلف براہین احمدیہ نے پہلی تین صورتوں الہام میں دل پر القاء ہونے کا صریح دعویٰ کیا ہے۔ کانوں سے آواز سننے کو صرف پانچویں صورت سے مخصوص کیا ہے۔) اور القاء و واردات قلبی کو عرفاً و لغۃً بھی کلام نہیں کہا جاتا۔ پس ہم پر تسلیم الہام کلام کا الزام کیونکہ صحیح ہو سکتا ہے۔ تو اگرچہ اَب اُن کی یہ بات لائق سماعت و مستحق جواب نہیں کیونکہ مُشتے بعد از جنگ کا مصداق ہے۔ فریق اوّل کے نزدیک وحی کلام و القائے قلب میں منافات تھی تو پہلے اس نے اس امر کی کیوں نہ تصریح کی اور وحی کلام کو جب غیر نبی کے لیے جائز کیا تھا تو اُس میں مسموع ہونے کلام کی کیوں قید نہ لگا دی۔ تا ہم احقاق حق و اظہار صواب کے لیے ان کی اس بات کاجواب یہ دیا جاوے گا کہ اگر کلام ملہم کو (جس کا خدا کی طرف سے صرف دل پر القاء ہو ظاہری کانوں سے سنا نہ جائے) وحی نہ کہا جائے او ر نہ اس کو کلام کہیں تو وحی غیر متلو انبیاء جس کو فرشتہ نہ لاتا تھا صرف اس کا القاء انبیاء کے قلب پر ہوتا تھا وحی نہ کہلاوے اور نہ اُس کو کلام ربّانی کہا جاوے حالانکہ کوئی مسلمان اس کا قائل نہیں اورعرف بھی اس کے مخالف ہے۔ عرفِ عام اور عرفِ شرع میں بلا اختلاف حدیث النفس اور کلام نفسی اِس لحاظ سے کہ وہ تکلم میں آسکتا ہے۔ اور کبھی نہ کبھی زبان پر آتا ہے کلام بولا جاتا ہے اور ایسا ہی تکلم و تلفظ عام و وسیع سے حقیقت لفظ میں جو کلمہ و کلام کا جز ہے لغۃً و عرفاً ماخوذ ہے(حاشیہ: چنانچہ نحو کی پہلی کتاب پڑھنے والے لفظ کی تعریف میں تکلم و تلفظ کو ایسا ہی وسیع کرتے اور یہ کہتے ہیں۔ اللفظ مَا یتلفظ بہ الانسان حقیقۃً او حکمًا۔ الخ) لہٰذا فریق اوّل کو ہرگز نہیں پہنچتا کہ وہ کلام ملہم کے (جس کا صرف القاء ہوا ہو کانوں سے وہ سنائی نہ دیا ہو۔) وحی ہونے سے انکار کرے اور اس الزام تناقض سے بچ سکے۔ اِس بیان سے ثابت ہوا کہ جو اس فریق (اوّل) نے نفی الہام اولیاء اللہ پر استدلال پیش کیا ہے اس سے اِس الہام کا ثبوت نکلتا ہے نہ نفی اور اس استدلال کے پیش کرنے والے پر رجل قضی علی نفسہ کی مثل خواب صادق آتی ہے۔ یہ اس فریق کے سرگروہ کی استدلال کا حال ہے۔ (حاشیہ: اور جو آپ کو غیر نبی پر نزول و الہام آیات قرآن میں شبہ ہے اُس کا جواب جواب استدلال فریق ثانی کے ضمن میں عنقریب آتا ہے۔) اب اس فریق کے عوام مصداق وَ مِنْھُمْ اُمِّیُّوْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ الْکِتٰبَ اِلَّا اَمَانِیَّ وَ اِنْ ھُمْ اِلَّا یَظُنُّوْنَ کی استدلالات اور اُن کے جوابات کو سُننا چاہئے۔ (حاشیہ:یہ استدلالات بھی سرگروہ فریق اوّل کے افادات و تعلیمات سے ہیں جو روزمرہ کی درس و تعلیم میں آپ سے سرزد ہوتی ہیں گوآپ کے رسالہ میں یہ مندرج نہیں ہوئے ورنہ وہ بےچارے عوام استدلال و دلیل کو کیا جانیں وہ اکثر تو اُمّی محض ہیں اور بعض جو اردو فارسی میں لیاقت شُد بود رکھتے ہیں۔ علوم دین سے ناواقف ہیں لہٰذا جو کچھ اُن کے شیخ لکھتے ہیں وہ اس پر بلادلیل ایمان لے آتے ہیں۔ اس کی صحت و فساد کو وہ پہچان نہیں سکتے۔ خصوصاً بعض نو مسلم جو مشرف باسلام ہوتے ہی قبل استحکام تعلیم عقائد اسلام حضرت کی صحبت میں فیضاب ہوئے ہیں۔ اُن کے حال پر سخت افسوس آتا ہے کہ وہ آبائی تقلید چھوڑ کر ایسے شخص کے مقلد کیوں ہو گئے۔ اَللّٰھُمَّ ارْحَمْ)
بعض عوام فریق اوّل نفی الہام اولیاء اللہ پر یہ نقلی استدلال پیش کرتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا ہے کہعٰلِمُ الۡغَیۡبِ فَلَا یُظۡہِرُ عَلٰی غَیۡبِہٖۤ اَحَدًا ۔ اِلَّا مَنِ ارۡتَضٰی مِنۡ رَّسُوۡلٍ فَاِنَّہٗ یَسۡلُکُ مِنۡۢ بَیۡنِ یَدَیۡہِ وَمِنۡ خَلۡفِہٖ رَصَدًا (الجن ۲۷۔۲۸)وہی (عزوجل) غیب جاننے والا ہے وہ اپنے غیب پر بجز رسول کسی کو مطلع نہیں کرتا۔ اس کے آگے اور پیچھے وہ پہرا چوکی رکھتا ہے۔ جس سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ ولی کو وہ اپنے غیب پر مطلع نہیں کرتا۔
اور بعضے یہ عقلی استدلال پیش کرتے ہیں کہ غیر نبی کو ہمرنگ وحی نبوی الہام غیبی ہوتو نبی و غیر نبی میں فرق نہیں رہتا۔ اور نبی کی نبوّت میں اشتباہ واقع ہو جاتا ہے۔
بعضے ان ہی استدلالات سے وسیع نتائج نکالتے ہیں اور الہام غیبی اولیاء اللہ کے علاوہ ان کے تمام خوارق و کرامات کا بطلان بھی ان دلائل سے استنباط کرتے ہیں۔
یہ مقالات و استدلالات پرانے معتزلہ کرامیہ وغیرہ کی ہیں جو بواسطہ شیخ فریق اوّل اب اس گروہ کی عوام میں شائع ہوئی ہیں۔ اور اُن کے جوابات بھی پُرانے علماء اہل سُنّت نے بسط و تفصیل کے ساتھ اپنی کتب عقائد و تفاسیر میں دے دیے ہیں۔ لہٰذا اس مقام میں اُن ہی علماء کے جوابات کو حوالہ قلم کرنا کافی ہے۔ ناظرین اہل علم اِن پُرانی مباحث و دلائل کی نقل و اعادہ کا اعتراض ہم پر نہ کریں۔ ان ہی حضرات (فریق اوّل) کو (جنہوں نے اِس پُرانے سلسلہ کو اب نئے سرے ہلایا۔ اور اس زمانہ میں اعتزال کا جال پھیلایا اور اہل سُنّت خصوصاً اہل حدیث کو معتزلی و نیچری بنانا چاہا ہے۔) جو کہنا ہو سو کہیں۔ (حاشیہ: نیچری بنانا اس مسئلہ سے بھی اُن کا مقصود و متصور ہے کیونکہ معجزات و خوارق سے انکار مذہبِ نیچری کا اصل اصول ہے۔ اس سے علاوہ بھی یہ حضرات نیچری مسائل اپنے گروہ کے عوام وجہلاء میں پھیلاتے ہیں۔ جیسا ان کا یہ مسئلہ نیچریہ کہ ’’حضرت مسیح علیہ السلام بلا پدر پیدا نہیں ہوئے۔‘‘ اور ان کا ’’بلاپدر پیدا ہونا صریح طور پر قرائن سے ثابت نہیں ‘‘ جس کا فساد و کساد اشاعۃ السنہ جلد ۴ کے نمبر ۲و ۳ کے ملاحظہ سے بخوبی ظاہر ہوسکتا ہے۔) (جاری ہے)
مزید پڑھیں: صحابہؓ کرام کا رسول کریمؐ اور خلفائے وقت کی بے مثال اطاعت اور ادب و احترام کا نمونہ