بنیادی مسائل کے جوابات

بنیادی مسائل کے جوابات(قسط ۹۴)

(مرتبہ:ظہیر احمد خان۔انچارج شعبہ ریکارڈ دفتر پی ایس لندن)

٭… قرآن کریم میں ہے کہ اللہ ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا۔ ظلم سے کیا مراد ہے، کیا میں بھی ان میں شامل ہوں کیونکہ میں نے بھی اپنے نفس پر ظلم کیا ہے اور اللہ سے دُور ہو گئی۔ پھر اس نے مجھے توبہ کی توفیق دی ۔کیا نیک لڑکیوں سے بھی نافرمانی ہو جاتی ہے؟
٭… جامعہ احمدیہ کے ایک استاد کے تحریر کردہ مضمون بعنوان’’تنقید بخاری‘‘ پر حضورِ انور کی راہنمائی
٭… کیا لیلۃ القدر بہت ساری ہوتی ہیں جیسے روحانی درجات ہوتے ہیں؟
٭… چاند کی روشنی بھی پھلوں میں مٹھاس پیدا کرنے اور کئی قسم کی سبزیوں اور پھل پھولوں پر اثر ڈالتی ہے؟ اس فقرہ کی سائنسی حقیقت کیا ہے؟

سوال: پاکستان سے ایک خاتون نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں لکھا کہ قرآن کریم میں ہے کہ اللہ ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا۔ ظلم سے کیا مراد ہے، کیا میں بھی ان میں شامل ہوں کیونکہ میں نے بھی اپنے نفس پر ظلم کیا ہے اور اللہ سے دُور ہو گئی۔ پھر اس نے مجھے توبہ کی توفیق دی ۔کیا نیک لڑکیوں سے بھی نافرمانی ہو جاتی ہے؟حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مورخہ ۱۰؍جولائی ۲۰۲۳ء میں اس بارے میں درج ذیل ہدایات عطا فرمائیں۔ حضور انور نے فرمایا:

جواب: اسلام کی تعلیم کا اصل مدعا یہی ہے کہ خدا تعالیٰ نے کسی انسان کو نیکی یا بدی کرنے پر مجبور نہیں کیا۔ بلکہ اللہ تعالیٰ نے نیکی اور بدی ددنوں کے راستے خوب کھول کر بیان فرما دیے ہیں اور انسان کو یہ اختیار دیا ہے کہ وہ جس راستہ پر چاہے چل کر اپنی اخروی زندگی کو جنتی یا جہنمی بنا لے۔

علاوہ ازیں جہاں شیطان ہر لمحہ انسان کو بہکانے کی کوشش میں لگا ہوا ہے وہاں اللہ تعالیٰ بھی اپنے فرشتوں کے ذریعہ دنیا میں نیکی کی تحریکات پیدا کرتا رہتا ہے۔

پھر اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں یہ بھی فرمایا ہے کہ اگر کسی سے کوئی گناہ ہو جائے یا کوئی اپنی جان پر ظلم کر بیٹھے اور پھر وہ توبہ کرتے ہوئے اللہ سے اپنے گناہ کی بخشش طلب کرے تو اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو نہ صرف معاف فرما دیتا ہے بلکہ ان کے لیے اخروی زندگی میں ایسی جنتوں کے دیے جانے کا وعدہ بھی کرتا ہےجن کے دامن میں نہریں بہتی ہوں گی اور وہ ہمیشہ ان میں رہیں گے۔(آل عمران:۱۳۷،۱۳۶)

اسی طرح حضورﷺ کی بے شمار ایسی احادیث ہیں جن میں یہ بیان ہوا ہے کہ اگر کسی سے کوئی بدی سرزد ہوجائے اور وہ سچے دل سے توبہ کر کے آئندہ اس بدی سے اجتناب کرے تو اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول کرتے ہوئے اسے جنت میں داخل کر دیتا ہے۔ چنانچہ ایک شخص جس نے سو قتل کیے تھے، لیکن جب اس نے سچی توبہ کر لی تو اللہ تعالیٰ نے اس کی اس سچی توبہ کو قبول کرتے ہوئے اپنے فرشتوں کے ذریعہ اسے جنت میں لے جانے کے سامان پیدا فرمائے۔(صحیح بخاری کتاب احادیث الانبیاء باب حَدِيثُ الْغَارِ)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام توبہ کا مضمون بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: قرآن شریف کی رو سے خدا کے کام سب مالکانہ ہیں جس طرح کبھی وہ گناہ کی سزا دیتا ہے ایسا ہی وہ کبھی گناہ کو بخش بھی دیتا ہے۔ یعنی دونوں پہلوؤں پر اس کی قدرت نافذ ہے جیسا کہ مقتضائے مالکیت ہونا چاہیے۔ اور اگر وہ ہمیشہ گناہ کی سزا دے تو پھر انسان کا کیا ٹھکانہ ہے بلکہ اکثر وہ گناہ بخش دیتا ہے اور تنبیہ کی غرض سے کسی گناہ کی سزا بھی دیتا ہے تا غافل انسان متنبہ ہو کر اس کی طرف متوجہ ہو۔ (چشمہ معرفت، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحہ ۲۳)

اسی طرح فرمایا: تمہارا خدا وہ خدا ہے جو اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتا ہے اور ان کی بدیاں ان کو معاف کر دیتا ہے۔ کسی کو یہ دھوکا نہ لگے کہ قرآن شریف میں یہ آیت بھی ہے وَمَنْ يَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَّرَهٗ۔ (الزلزال:۹)یعنی جو شخص ایک ذرّہ بھی شرارت کرے گا وہ اس کی سزا پائے گا۔ پس یاد رہے کہ اس میں اور دوسری آیات میں کچھ تناقض نہیں کیونکہ اس شر سے وہ شر مراد ہے جس پر انسان اصرار کرے اور اس کے ارتکاب سے باز نہ آوے اور توبہ نہ کرے۔ اسی غرض سے اس جگہ شر کا لفظ استعمال کیا ہے نہ ذنب کا تا معلوم ہو کہ اس جگہ کوئی شرارت کا فعل مراد ہے جس سے شریر آدمی باز آنا نہیں چاہتا ورنہ سارا قرآن شریف اس بارہ میں بھرا پڑا ہے کہ ندامت اور توبہ اور ترک اصرار اور استغفار سے گناہ بخشے جاتے ہیں۔ بلکہ خدا تعالیٰ توبہ کرنے والوں سے پیار کرتا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں فرمایاہےإِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ التَّوَّابِيْنَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِيْنَ۔(البقرۃ:۲۲۳)یعنی اللہ تعالیٰ توبہ کرنے والوں سے پیار کرتا ہے اور نیز ان لوگوں سے پیار کرتا ہے کہ جو اس بات پر زور لگاتے ہیں کہ کسی طرح گناہ سے پاک ہو جائیں۔ (چشمہ معرفت، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحہ ۲۴)

باقی آپ کا سوال کہ ظلم سے کیا مراد ہے تو عربی میں ظلم کی تعریف ہےاَلظُّلْمُ هُوَ وَضْعُ الشَّيْءِ فِيْ غَيْرِ مَحَلِّهِ۔یعنی کسی چیز کو اس کے نامناسب حال جگہ پر رکھنا ظلم کہلاتا ہے۔اسی لیے حدیث میں آتا ہے کہ جب آیت اَلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَلَمْ يَلْبِسُوْٓا إِيْمَانَهُمْ بِظُلْمٍ۔ (الانعام:۸۳) یعنی جو لوگ ایمان لے آئے اور انہوں نے اپنے ایمان کو ظلم سے مخلوط نہیں کیا۔ نازل ہوئی تو صحابہ ؓکو یہ بات بڑی گراں محسوس ہوئی اور انہوں نے ظلم کے ان معنوں کے پیش نظر حضورﷺ کی خدمت میں عرض کی کہ ہم میں سے کون ہے جو اپنے نفس پر ظلم نہیں کرتا ؟ اس پر حضورﷺ نے صحابہ ؓکو تسلی دیتے ہوئے سمجھایا کہ یہاں ظلم سے وہ ظلم مراد نہیں جو تم لے رہے ہو بلکہ یہاں ظلم سے مراد شرک ہے کیونکہ شرک میں بھی ایک انسان اللہ تعالیٰ کی صفات ایک ایسی چیز یا ایسے انسان یا ایسے بتوں کو دے دیتا ہے جو ان صفات کے حقیقی حقدار نہیں ہوتے۔ حضورﷺ نے فرمایا:لَيْسَ هُوَ كَمَا تَظُنُّوْنَ إِنَّمَا هُوَ كَمَا قَالَ لُقْمَانُ لِابْنِهِ، يَابُنَيَّ لَا تُشْرِكْ بِاللّٰهِ إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيْمٌ۔(لقمان:۱۴) بات اس طرح نہیں ہے جس طرح تم سمجھ رہے ہو۔ بلکہ ظلم سے مراد شرک ہے جیسا کہ حضرت لقمانؑ نے اپنے بیٹے کو فرمایا تھا کہ اے میرے بیٹے! اللہ کا شریک کسی کو مت قرار دے شرک یقیناً بہت بڑا ظلم ہے۔(مسلم کتاب الایمان بَابصِدْقِ الْإِيمَانِ وَإِخْلَاصِهِ)

سوال: جامعہ احمدیہ کے ایک استاد نے اپنا ایک مضمون بعنوان’’تنقید بخاری‘‘ حضور انور کی خدمت اقدس میں بھجوا کر اس بارے میں راہنمائی چاہی؟جس پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مورخہ ۱۳؍جولائی ۲۰۲۳ء میں کسی موضوع پر تحقیق کرنے اور مضامین لکھنے کے بارے میں نہایت زریں ہدایات فرمائیں۔ حضور انور نے فرمایا:

جواب: احادیث خواہ بخاری کی ہوں یا کسی اَور کتاب کی، ان کی صحت اور ان کے قابل استناد ہونے کے بارہ میں تو اس زمانہ کے حکم و عدل حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فیصلہ فرما دیا ہےکہ ہم صرف اس حدیث کو درست تسلیم کریں گے جو قرآن کریم اور سنت نبویہﷺ کے مطابق ہو گی اور جو حدیث قرآن کریم کی تعلیم یا آنحضورﷺ کی سنت کے برخلاف مضمون پر مشتمل ہو گی، اگر اس کی کوئی تاویل یا تطبیق ہوسکے جو اسے قرآن و سنت کی مخالفت سے باہر نکال سکے تو ٹھیک ،ورنہ ہم اس کی صحت سے انکار کر دیں گے۔ اوراس بات کو حضور علیہ السلام نے کئی جگہوں پر بیان فرمایا ہے لیکن حضور کی تصنیف لطیف الحق مباحثہ لدھیانہ تو ساری کی ساری اسی مضمون کے گرد گھومتی ہے۔

آپ نے اپنے اس مضمون میں بخاری کی قابل تنقید احادیث کی وہ تعداد جو سابقہ کتب نے بیان کی ہےاسے درج کر دیا ہے، اسی طرح اس تنقید کی بابت مختلف اعداد و شمار کو جمع کر دیا ہے ۔ اس کا فائدہ کیا ہوگا؟سوائے اس کے کہ یہ اعداد و شمار ایک جگہ جمع ہو گئے ہیں۔

آپ، جیسا کہ آپ نے خود لکھا ہے کہ جامعہ احمدیہ میں حدیث کے استاد ہیں اور آپ نے پانچ سال حدیث کے مضمون میں تخصص بھی کیا ہے ۔ آپ کی اس تعلیمی قابلیت کے پیش نظر تو آپ کو اس ایک ایک تنقید پر تحقیق کر کے قرآن شریف، احادیث رسولﷺ اور حکم و عدل حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کلام کی روشنی میں مقالے لکھنے چاہئیں۔اوراس تنقید کے بارہ میں اگر پرانے علماء کی بات درست ہے تو اس تنقید کو ان بنیادی ماخذ کی روشنی میں مزید واضح کرنا چاہیے لیکن اگر ان کی بات قابل اصلاح ہو تو ان کے موقف کا انہی بنیادی ماخذ کی روشنی میں ردّ بیان کرنا چاہیے۔

پھر آپ کو صرف انہی احادیث کو قابل تنقید سمجھنے پر ہی اکتفاء نہیں کرنا چاہیےجو پرانے علماء نے بیان کی ہیں۔ بلکہ بخاری کی ایسی احادیث جنہیں پہلے محدثین نے درست سمجھا لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بیان کردہ معیار کے مطابق اگر ان پر جرح کی ضرورت ہوتو ایسی احادیث پر بھی تنقید کے نکتۂ  نظر سے آپ کو تحقیق کر کے مقالہ جات تحریر کرنے چاہئیں۔ مثال کے طور پر بخاری کی یہ حدیث کہ’’مَنْ بَدَّلَ دِيْنَهُ فَاقْتُلُوهُ‘‘یعنی جو اپنا دین بدلے اسے قتل کر دو۔اب یہ حدیث قرآن کریم میں بیان ہونے والی تعلیم کے سراسر خلاف ہے۔ اسی طرح امام بخاری نےاپنی کتاب میں ایک باب’’إِذَا جَامَعَ ثُمَّ عَادَ وَمَنْ دَارَ عَلَى نِسَائِهِ فِي غُسْلٍ وَاحِدٍ‘‘کے عنوان سے قائم کیا ہے اور اس کے تحت جو احادیث درج کی ہیں، ان میں ہر گز یہ مضمون بیان نہیں ہوا کہ حضورﷺ جب بھی اپنی کسی زوجہ مطہرہ کے گھر تشریف لے جاتے تھے تو ضرور ہی اس کے ساتھ ازدواجی تعلق قائم فرماتے تھے، بلکہ ان احادیث میں تو صحابہ اپنے آقا کی اس انتظامی صلاحیت کو فخر سے بیان کر رہے ہیں کہ ایک انسان کے لیے ایک بیوی کی ذمہ داری ادا کرنا بھی نہایت مشکل ہوتا ہے اور حضورﷺ ایک وقت میں نوبیویوں کی ذمہ داریاں نہایت احسن طریق سے ادا کر لیتے تھے کیونکہ حضورﷺ کو اللہ تعالیٰ نے اس قدر انتظامی صلاحیتوں سے نواز رکھا تھا کہ حضورﷺ تو ایک وقت میں تیس بیویوں کی بھی ذمہ داریاں باحسن طریق پر ادا کرنے کی طاقت رکھتے تھے۔

اب اس نہایت خوبصورت مضمون کو امام بخاری نے عنوان باب کے ذریعہ صرف جسمانی تعلق کےساتھ جوڑ دیا ہے۔ اور بخاری کے عناوین ابواب کے بارہ میں علماء حدیث کا موقف ہے کہ عنوان باب کے ذریعہ امام بخاری نے اس باب میں بیان ہونے والی احادیث کے اس مضمون کو بیان کیا ہے جو امام بخاری خود ان احادیث سے سمجھے ہیں۔

پس اس طرح ایک ایک حدیث پر غور کر کے آپ کو تحقیق اور تحریر کرنی چاہیے، جس سے آپ کا مضمون پڑھنے والے کو پتا چلے کہ ایک عالم اور حدیث کے متخصص نے واقعی علمی تحقیق پیش کی ہے۔

سوال: آسٹریلیا سے ایک خاتون نےحضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں اپنا ایک خواب لکھ کر کہ ہر رات فجر سے پہلے تہجد کے وقت لیلۃ القدر ہو تی ہے، جس میں اللہ تعالیٰ کے فضل آسمان سے زمین پر نازل ہوتے ہیں، دریافت کیا کہ کیا لیلۃ القدر بہت ساری ہوتی ہیں جیسے روحانی درجات ہوتے ہیں؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مورخہ ۳۱؍جولائی۲۰۲۳ء میں اس سوال کا درج ذیل جواب عطا فرمایا۔ حضور انور نے فرمایا:

جواب:آنحضورﷺ کا فرمان ہے کہ جب رات کا آخری تہائی حصہ باقی رہ جاتا ہے تو ہمارا برکتوں اور بلند شان والا ربّ ہر رات کو آسمان سے دنیا کی طرف اترتا ہےاور فرماتا ہے کہ کون ہے جو مجھے پکارےکہ میں اس کی پکار کا جواب دوں، کون ہے جو مجھ سے مانگے کہ میں اسے عطا کروں، کون ہے جو مجھ سے مغفرت چاہے کہ میں اسے بخش دوں۔(بخاری کتاب الجمعۃ بَاب الدُّعَاءِ فِي الصَّلَاةِ مِنْ آخِرِ اللَّيْلِ)

پس حضورﷺ کے اس ارشاد کے مطابق ہررات کا یہ آخری پہر قبولیت دعا اور اللہ تعالیٰ کے قرب کے حصول کا بہترین وقت ہوتا ہے۔ اس لیے جب ایک انسان مجاہدہ کر کے اپنے آرام دہ بستر اور نیند کی لذت کو چھوڑ کر خدا تعالیٰ کے حضور حاضر ہوتا اور اس کے آگے سجدہ ریز ہو کر الحاح و مناجات کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی گریہ وزاری کو قبول کرتے ہوئے اسے اپنے فضلوں اور رحمتوں سے نوازتا ہے تو یہ بھی اس شخص کےلیے لیلۃالقدر ہی ہوتی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس مضمون کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:ایک لیلۃ القدر تو وہ ہے جو پچھلے حصۂ رات میں ہوتی ہے جبکہ اللہ تعالیٰ تجلی فرماتا ہے اور ہاتھ پھیلاتا ہے کہ کوئی دعا کرنے والا اور استغفار کرنے والا ہے جو میں اس کو قبول کروں۔(الحکم نمبر ۲۷ جلد ۱۰ مورخہ ۳۱؍جولائی ۱۹۰۶ء صفحہ ۴)

لیلۃ القدر کی اقسام اور معانی بیان کرتے ہوئے ایک اور جگہ حضور علیہ السلام فرماتے ہیں:قرآن شریف میں جو لیلۃ القدر کا ذکر آیا ہے کہ وہ ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ یہاں لیلۃ القدر کے تین معنی ہیں، اوّل تو یہ کہ رمضان میں ایک رات لیلۃ القدر کی ہوتی ہے۔ دوم یہ کہ رسول اللہﷺ کا زمانہ بھی ایک لیلۃ القدر تھا یعنی سخت جہالت اور بے ایمانی کی تاریکی کے بعد وہ زمانہ آیا جبکہ ملائکہ کا نزول ہوا کیونکہ نبی دنیا میں اکیلا نہیں آتا۔ بلکہ وہ بادشاہ ہوتا ہے اور اس کے ساتھ لاکھوں کروڑوں ملائکہ کا لشکر ہوتا ہے جو ملائک اپنے اپنے کام میں لگ جاتے ہیں اور لوگوں کے دلوں کو نیکی کی طرف کھینچتے ہیں۔ سوم لیلۃ القدر انسان کے لیے اس کا وقت اصفیٰ ہے۔ تمام وقت یکساں نہیں ہوتے۔ بعض وقت رسول اللہﷺ عائشہ کو کہتے کہ اَرِحْنَا یَا عَائِشَۃُ یعنی اے عائشہ! مجھ کو راحت و خوشی پہنچا اور بعض وقت آپؐ بالکل دعا میں مصروف ہوتے جیسا کہ سعدیؒ نے کہا ہے ؎

وقت چنیں بودے کہ بجبرائیل و میکائیل پرداختے

ودیگر وقت باحفصہ و زینب در ساختے

[یعنی ایک وقت آپ جبرائیل اور میکائیل کے ساتھ مشغول ہوتےتودوسرے وقت حفصہ اور زینب کے ساتھ ہوتے۔]

جتنا جتنا انسان خدا کے قریب آتا ہے یہ وقت اسے زیادہ میسر آتا ہے۔ (الحکم نمبر ۳۲ جلد ۵ مورخہ ۳۱؍اگست ۱۹۰۱ء صفحہ ۱۴،۱۳)

پس لیلۃ القدر اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور رحمتوں کا اظہار ہے جس کے مختلف معانی اور مختلف شکلیں ہیں۔ اور یہ اجتماعی طور پر بھی انسانیت کو میسر ہو سکتی ہےا ور انفرادی طور پر بھی کسی انسان کے حصہ میں آسکتی ہے۔

سوال۔محترم ناظم صاحب دارالافتاء ربوہ نے بنیادی مسائل کے جوابات میں ایک سوال کے جواب میں درج اس فقرہ کہ ’’چاند کی روشنی بھی پھلوں میں مٹھاس پیدا کرنے اور کئی قسم کی سبزیوں اور پھل پھولوں پر اثر ڈالتی ہے۔‘‘کےبارے میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں لکھا ہے کہ پھلوں میں مٹھاس پیدا ہونے کا مضمون چاند کی روشنی کی طرف منسوب ہونا نئی تحقیق ہے یا یہ سہواً بیان ہوا ہے ؟ کیونکہ تاحال حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیان فرمودہ تحقیق ہی سائنسی دنیا میں مسلّم چلی آ رہی ہے کہ ’’چاند کی روشنی پھلوں کے موٹا کرنے کے لیے اور سورج کی دھوپ ان کو پکانے اور شیریں کرنے کے لیے اور بعض ہوائیں بکثرت پھل آنے کےلیے بلا شبہ مؤثر ہیں۔‘‘(توضیح مرام ، روحانی خزائن جلد ۳ صفحہ ۷۱)؟حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مورخہ ۷؍ اگست۲۰۲۳ء میں اس امر کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا:

جواب:حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس مذکورہ بالا ارشاد میں ایک عمومی بات بیان ہوئی ہے کہ پھل چاند کی روشنی سے موٹے ہوتے اور سورج کی دھوپ سے پکتے اور میٹھے ہوتے ہیں ۔ لیکن اس میں اس بات سے انکار نہیں کیا گیا کہ چاند کی روشنی پھلوں میں مٹھاس پیدا نہیں کرتی یا سورج کی دھوپ انہیں موٹا نہیں کرتی۔ بلکہ اصل بات یہ ہے کہ بعض پھل سورج کی دھوپ سے پکتے اور میٹھے ہوتے ہیں اور بعض پھل چاند کی روشنی سے بڑھتے ہیں اور بعض چاند کی روشنی سے میٹھے ہوتے ہیں ۔ اسی لیے ایک اور موقعہ پر حضور علیہ السلام نے یہ بھی فرمایا ہے:چاند، سورج اور اور سیاروں کی تاثیرات کے ہم قائل ہیں۔ ان سے انسان فائدہ اٹھاتا ہے اور بچہ جب ماں کے پیٹ میں ہوتا ہے اس وقت بھی ان کی تاثیرات کا اثر بچے پر ہوتا ہے۔ یہ امر شریعت کے خلاف نہیں ۔ اسی واسطے ہمیں ان کے ماننے میں عذر نہیں۔ نباتات میں چاند کی روشنی کا اثر بیّن طور سے ظاہر ہے۔ چاند کی روشنی سے پھل موٹے ہوتے ہیں۔ ان میں شیرینی پیدا ہوتی ہے اور بعض اوقات لوگوں نے اناروں کے چٹخنے کی آواز تک بھی سنی ہے جو چاند کی روشنی کے اثر سے پھوٹتے ہیں۔ (ملفوظات جلد دہم صفحہ ۳۷۷ مطبوعہ ۲۰۲۲ء)

باقی چاند کی روشنی سے پھلوں کے موٹاہونے اور ان میں شیرینی پیدا ہونے کے بارہ میں تو سائنسی تحقیق تاحال خاموش ہے۔ لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس مضمون کو مختلف جگہوں پر بیان فرمایا ہے۔ اسی طرح حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے بھی چاند کی روشنی کے پھلوں اور سبزیوں پر اثرانداز ہونے کی بابت اپنا مشاہدہ بیان فرمایا ہے اور میرا ذاتی مشاہدہ بھی ہے کہ چاند کا اثر پھلوں اور سبزیوں پر ہوتا ہے۔

٭…٭…٭

مزید پڑھیں: نماز: حمد الٰہی کا اک بحرِ بے کنار

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button