متفرق مضامین

دربارِ شاہی کے راہنما ﷺ

(ظہیر احمد طاہر ابن نذیر احمد خادم۔جرمنی)

آنحضرت ﷺ جمیع کمالات کے نمونوں کے جامع تھے کیونکہ سارے نبیوں کے نمونے آپؐ میں جمع ہیں۔ آپؐ کا نام اسی لیے محمدؐ ہے کہ اس کے معنی ہیں نہایت تعریف کیا گیا۔ محمدؐ وہ ہوتا ہے جس کی زمین وآسمان پر تعریف ہوتی ہے …ہمارے نبی کریم ﷺ زمین وآسمان دونوں جگہ میں تعریف کئے گئے اور یہ فخر اور فضل آنحضرت ﷺ ہی کو ملا ہے(حضرت مسیح موعودؑ)

اُس عالی جناب کی مدح کیونکر بیان ہو کہ جس کامدح خواںخود خدائے رحمن ہے۔ فرشتے جس کی قرابت داری پر نازکریں وہ عالی مقام ہر تعریف و توصیف کا مستحق ہے کیونکہ وہ سراپا عشقِ الٰہی ہے۔ وہ سب راہنمائوں کا راہنمااور سب محسنوں سے بڑھ کر احسان کرنے والاہے۔ وہ بخششوں اور سخاوتوں کا سمندراور سب عطاکرنے والوں سے بڑھ کر عطا کرنے والاہے۔وہ چودھویں کے چاند سے زیادہ روشن اور چمکتے سورج کی طرح ضیاپاش ہے۔وہ اعلیٰ خصائل کا مالک اور علم وعقل میں کامل ہے۔ وہ ہدایت کا منبع اورتمام نیکیوں کا مجموعہ ہے۔ وہ ہر وصف اور خوبی میں یکتا اور ہر صفت میں یارِازل کی تصویر ہے۔وہ اللہ کے نور کا پَرتَو اور ایسا مصفّا آئینہ ہے جس سے خدا تعالیٰ کا پیاراچہرہ ہویدا ہوتاہے۔کامیاب ہوگیا وہ دل جو صدق سے اُس کی طرف متوجہ ہوا کیونکہ وہ دلوں کو تاریکی سے پاک کرکے ہدایت کے نور سے منور کردیتا ہے۔ وَاتَّبِعُوۡہُ لَعَلَّکُمۡ تَھۡتَدُوۡنَ (الاعراف:۱۵۹) اور اُسی (نبیﷺ)کی پیروی کرو تاکہ تم ہدایت پاجائو۔

یُزَکِّیۡ قُلُوۡبَ النَّاسِ مِنۡ کُلِّ ظُلۡمَۃٍ
وَمَنۡ جَاءَ ہٗ صِدۡقًا فَنَوَّرَہُ الۡھُدٰی

(کرامات الصادقین ، روحانی خزائن جلد۷صفحہ ۹۱)

وہ لوگوں کے دلوں کو ہر تاریکی سے پاک کردیتا ہے اور جو بھی صدق سے اس کے پاس آئے تو اسے (اس کی ) ہدایت منور کردیتی ہے۔

تخلیق عالم کی علتِ غائی ،ہمارے ہادی وراہنما حضرت اقدس محمد رسول اللہﷺ تاریخ عالم کی ایک منفرد اورمسحورکن شخصیت ہیں۔ جن کی تعریف وتوصیف میں آسمان والے بھی رطب اللسان ہیں اور زمین والے بھی دن رات اُس عالی مقام پر درود وسلام بھیجتے اور اُس کی مدح کے گیت گاتے ہیں۔روزِ اوّل سے جاری ہونے والا یہ سلسلہ ایک تسلسل اور روانی کے ساتھ جاری وساری اور دن بدن ترقی پذیر ہے۔ آپﷺوہ عالی وجود ہیں جن کے احسانات اوّلین وآخرین پر حاوی ہیں۔ آپؐ کے وجود کی برکت سے پہلوں کے لیے بھی نجات کی راہیں کھلیں اور آئندہ آنے والے آپؐ کے دم قدم اور آپؐ ہی کی برکت سے نجات پائیں گے۔

اگرچہ تمام انبیاء قافلہ حق کے سالار اور اللہ تعالیٰ کے پیغام کونہایت عمدگی سے پہنچانے والے تھے لیکن وہ ایسے چراغوں کی مانند تھے جن کی روشنی محدود وقت ، محدود زمانے، محدودعلاقے اور محدود لوگوں تک کارفرماتھی۔جب خدا تعالیٰ کی قدرتِ کاملہ نے چاہا کہ اُس کی ذاتِ والا صفات تمام دنیا میں پہچانی جائے اوراُس کے نام کا ڈنکاکل عالم میں بجے ،تب اُس نے نورِ مجسم اور روشن کردینے والے سراج منیرﷺکو دنیا میں بھیجاتاکہ اُس کے نام کی اُسی طرح تسبیح ،تحمیدوتقدیس اور تمجید وتہلیل ہو جس کا صرف وہی مستحق ہے۔ربّ کائنات نے اپنے محبوبﷺ کی شان بیان کرتے ہوئے فرمایاہے :یٰۤاَیُّہَا النَّبِیُّ اِنَّاۤ اَرۡسَلۡنٰکَ شَاہِدًا وَّمُبَشِّرًا وَّنَذِیۡرًا۔وَّدَاعِیًا اِلَی اللّٰہِ بِاِذۡنِہٖ وَسِرَاجًا مُّنِیۡرًا (الاحزاب:۴۶، ۴۷)اے نبی ! یقیناً ہم نے تجھے ایک شاہد اور ایک مبشر اور ایک نذیر کے طورپر بھیجا ہے۔ اور اللہ کی طرف سے اس کے حکم سے بلانے والے اور ایک منور کردینے والے سورج کے طورپر۔

آنحضورﷺ کی بعثت ایسے وقت میں ہوئی جو ہر لحاظ سے مناسب اور اس بات کا متقاضی تھا کہ آپ کو مبعوث کیا جاتا تاکہ وہ تمام وعدے اور پیشگوئیاں پوری ہوں جوآپﷺکی ذات اور آپ کی بعثت کے ساتھ مقدر تھیں۔ نبی کریمﷺ کا ارشاد مبارک ہے :مجھے بنی آدم کی بہترین صدیوں میں نسلاً بعد نسلٍ مبعوث کیا گیا ہے۔ یہاں تک کہ میں اس صدی میں ہوں جس میں کہ مَیں نے ہونا تھا۔ (صحیح البخاری کتاب المناقب بَاب23 صِفَۃُ النَّبِِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیۡہِ وَسَلَّمَ حدیث۳۵۵۷)

رسول کریمؐ کی تمام صفات اور محامد کو احاطۂ  تحریر میں لانا اور آپؐ کے جملہ امتیازات و کمالات اور معجزات کو قلم کی زبان دیناکسی مصنف کے بس کی بات نہیں کیونکہ وہ ایسا عالی وجودہے جس کی تاثیراتِ قدسیہ کا دائرہ ہر دم وسعت پذیر ہے۔ آنحضرتؐ کسی خاص قوم ، ملک، گروہ ، قبیلے یا خطے کی طرف نہیں بھیجے گئے بلکہ آ پ کا فرضِ منصبی عرب و عجم سے بڑھ کر اور زمانے کی قید سے آزادہے۔ آپ عالمگیر دعوت وپیغام کے ساتھ مبعوث کیے گئے ہیں جو سارے عالم کے جملہ انفس و آفاق پر مشتمل ہے۔وَمَآ اَرۡسَلۡنٰکَ اِلَّا کَآفَّۃً لِّلنَّاسِ بَشِیۡرًا وَّ نَذِیۡرً وَّلٰکِنَّ اَکۡثَرَ النَّاسِ لَا یَعۡلَمُوۡنَ۔(سبا:۲۹) اور ہم نے تجھے نہیں بھیجا مگر تم لوگوں کے لیے بشیر اور نذیر بناکر مگر اکثر لوگ نہیں جانتے۔اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں متعدد دیگر مقامات پر آپ کی عالمگیر نبوت کا ذکر فرمایاہے :وَاَرۡسَلۡنٰکَ لِلنَّاسِ رَسُوۡلًا (النساء:۸۰) اور ہم نے تجھے سب انسانوں کے لیے رسول بنا کر بھیجاہے۔

قُلۡ یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ اِنِّیۡ رَسُوۡلُ اللّٰہِ اِلَیۡکُمۡ جَمِیۡعَا (الاعراف:۱۵۹)تُو کہہ دے کہ اے انسانو! یقیناً میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں۔

وَمَآ اَرۡسَلۡنٰکَ اِلَّا رَحۡمَۃً لِّلۡعٰلَمِیۡنَ (الانبیاء:۱۰۸) اور ہم نے تجھے نہیں بھیجا مگر تمام جہانوں کے لیے رحمت کے طور پر۔

تَبٰرَکَ الَّذِیۡ نَزَّلَ الۡفُرۡقَانَ عَلٰی عَبۡدِہٖ لِیَکُوۡنَ لِلۡعٰلَمِیۡنَ نَذِیۡرَا(الفرقان:۲)بس ایک وہی برکت والا ثابت ہوا جس نے اپنے بندے پر فرقان اُتارا تاکہ وہ سب جہانوں کے لیے ڈرانے والا بنے۔

حضرت جابر بن عبداللہ انصاریؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:ہر نبی خاص اپنی قوم کی طرف بھیجا جاتا تھا اور مجھے ہر سرخ و سیاہ کی طرف مبعوث کیا گیا ہے۔ (صحیح مسلم کِتَابُ الۡمَسَاجِدِ وَ مَوَاضِعِ الصَّلَاۃِ باب الۡمَسَاجِدِ وَ مَوَاضِعِ الصَّلَاۃِ حدیث:۸۰۲)

جس طرح آسمان اور اُس کی بناوٹ زمین کے لیے فیض رسانی کا ذریعہ ہے اورزمین کی حیثیت ایک سائل اور مانگنے والے کی سی ہے یہی حیثیت آسمانِ روحانی میں ہمارے آقا حضرت اقدس محمد رسول اللہﷺ کی ذاتِ والا بابرکات کو حاصل ہے یعنی آپ ایک فیض رساں وجود ہیں۔ جس طرح دنیاوی نظام میں آسمان کا کام آسمان ہی کرسکتا ہے اور زمین کے لیے ضروری ہے کہ وہ فیضیابی کے لیے آسمان کی طرف دیکھے بالکل اسی طرح روحانی فیوض وبرکات کے حصول کے لیے محمد رسول اللہﷺ کے ذریعہ نازل ہونے والاآسمانی پانی ضروری ہے گویاجس طرح زمین آسمانی پانی اور آسمانی روشنی سے طاقت پکڑتی ہے اسی طرح عالم روحانی میںترقی کے لیے الہام وکلام یزدانی سے طاقت حاصل کرنا ضروری ہے اور وہ بجز اس پیغمبر کے کہیں میسر نہیں۔

وَجۡہُ الۡمُھَیۡمِنِ ظَاہِرٌ فِیۡ وَجۡھِہٖ
وَشُئُوۡنُہٗ لَمَعَتۡ بِھٰذَا الشَّانٖ
فَلِذَا یُحَبُّ وَ یَسۡتَحِقُّ جَمَالُہٗ
شَغَفًا بِہٖ مِنۡ زُمۡرَۃِ الۡأَخۡدَانٖ

(آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵صفحہ۵۹۲)

آپؐ کے چہرہ میں خدا کا چہرہ نمایاں ہے اور خدا کی صفات (آپ کی ) اس شان سے جلوہ گر ہوگئیں۔سو اسی لیے تو آپؐ سے محبت کی جاتی ہے اور آپ ہی کا جمال اس لائق ہے کہ دوستوں کے گروہ میں صرف آپؐ ہی سے بے پناہ محبت کی جائے۔

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام ہادی کامل صلی اللہ علیہ وسلم کی اس انفرادی خصوصیت اور آپؐ کی قوت قدسیہ کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:’’آنحضرتﷺ جمیع کمالات کے نمونوں کے جامع تھے کیونکہ سارے نبیوں کے نمونے آپؐ میں جمع ہیں۔ آپؐ کا نام اسی لیے محمدؐ ہے کہ اس کے معنی ہیں نہایت تعریف کیا گیا۔ محمدؐ وہ ہوتا ہے جس کی زمین وآسمان پر تعریف ہوتی ہے …ہمارے نبی کریمﷺ زمین وآسمان دونوں جگہ میں تعریف کئے گئے اور یہ فخر اور فضل آنحضرتﷺ ہی کو ملا ہے۔ جس قدر پاک گروہ آنحضرتﷺ کو ملا کسی اور نبی کو نصیب نہیں ہوا… رسول اللہﷺ کو جو جماعت ملی وہ ایسی پاکباز اور خدا پرست اور مخلص تھی کہ اس کی نظیر کسی دنیا کی قوم اور کسی نبی کی جماعت میں ہرگز پائی نہیں جاتی۔ احادیث میں اُن کی بڑی تعریفیں آئی ہیں یہاںتک فرمایا۔ اللّٰہُ اللّٰہُ فِیۡ اَصۡحَابِیۡ اور قرآن کریم میں بھی ان کی تعریف ہوئی۔یَبِیۡتُوۡنَ لِرَبِّھِمۡ سُجَّدًا وَّ قِیَامًا (الفرقان:۶۵)۔‘‘(ملفوظات جلد دوم صفحہ ۶۰،۵۹، ایڈیشن ۲۰۰۳ء)

وَ قَدِ اقۡتَفَاکَ أُولُو النُّھٰی وَ بِصِدۡقِھِمۡ
وَدَعُوۡا تَذَکُّرَ مَعۡھَدِ الۡاَوۡطَانٖ
قَدۡ اٰثَرُوۡکَ وَ فَارَقُوۡا أَحۡبَابَھُمۡ
وَ تَبَاعَدُوۡا مِنۡ حَلۡقَۃِ الۡاِخۡوَانِ

(آئینہ کمالات اسلام،روحانی خزائن جلد ۵صفحہ۵۹۱)

بے شک دانشمندوں نے تیری پیروی کی ہے اور اپنے صدق کی وجہ سے انہوں نے وطنوں کی یاد بھلادی ہے۔بےشک انہوں نے تجھے مقدّم کر لیا اور اپنے دوستوں کو چھوڑ دیا اور اپنے بھائیوں کے دائرہ سے دُور ہوگئے۔

حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ آیت کریمہ وَنَفۡسٍ وَّمَا سَوّٰھَا (الشمس: ۷) (اورنفس کی اور اس کے بےعیب بنائے جانے کی )کی تفسیر بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ لو آپ زندگی کے ہر شعبہ میں کامل الوجود ثابت ہوئے ہیں۔ لوگ اپنے اموال کو اپنی ذات پر خرچ کرتے تھے مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے تمام اموال اپنی قوم کے لیے خرچ کرتے تھے۔ لوگ اپنے اوقات کو جوئے اور شراب نوشی وغیرہ میں صرف کرتے تھے مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے تمام اوقات اپنی قوم کی بہبودی کے لیے خرچ کرتے تھے۔ لوگ اپنے اوقات جہالت کے لیے خرچ کرتے تھے اور آپؐ اپنے اوقات علم کے لیے خرچ کرتے تھے۔ لوگ اپنے دماغ دنیوی باتوں میں مشغول رکھتے تھے اور آپؐ اپنے دماغ کو اگر ایک طرف خدا تعالیٰ کے احکام کی اتباع میں مشغول رکھتے تھے تو دوسری طرف بنی نوع انسان کی تکالیف دُور کرنے کے لیے اس سے کام لیتے تھے اور یہ تو آ پکی دعویٰ نبوت سے پہلے کی حالت تھی جب آپ نے اللہ تعالیٰ کے حکم کے ماتحت نبوت کا اعلان فرمایا اور عملی رنگ میں آپ کا ہر کام لوگوں کی آنکھوں کے سامنے آگیا تو اُس وقت آپ اگر فوج کے ساتھ گئے تو بہترین جرنیل ثابت ہوئے ، قضاء کا کام اپنے ہاتھ میں لیا تو بہترین قاضی ثابت ہوئے ، اِفتاء کا وقت آیا تو بہترین مفتی ثابت ہوئے ، تبلیغ کا وقت آیا تو بہترین مبلغ ثابت ہوئے ، گھر میں گئے تو بہترین خاوند ثابت ہوئے ، بچوں سے تعلق رکھا تو بہترین باپ ثابت ہوئے ، دوستوں سے ملے تو بہترین دوست ثابت ہوئے۔ غرض کوئی ایک بات بھی نہیں جس میںآپؐ دوسروں سے دوسرے درجہ پر رہے ہوں بلکہ ہر خوبی میں آپؐ نے چوٹی کا مقام حاصل کیا اور اس طرح اپنے نفس کے کامل ہونے کا دنیا کے سامنے ایک ناقابلِ تردید ثبوت مہیا کردیا۔ ‘‘(تفسیر کبیر جلد ۹صفحہ ۳۲۔ ناشر نظارت نشرواشاعت قادیان۔ فروری ۲۰۰۴ء)

پس آپؐ ہی اوّلین و آخرین کے سردار اور وہ راہنما ہیںجن کی وساطت سے خدائے تعالیٰ کے دربارِ شاہی تک رسائی ممکن ہے۔

تَمَّتۡ عَلَیۡہِ صِفَاتُ کُلِّ مَزِیَّۃٍ
خُتِمَتۡ بِہٖ نَعۡمَاءُ کُلِّ زَمَانٖ
وَاللّٰہِ اِنَّ مُحَمَّدًا کَرِدَافَۃٍ
وَبِہِ الۡوُصُوۡلُ بِسُدَّۃِ السُّلۡطَانٖ
لِلّٰہِ دَرُّکَ یَا اِمَامَ الۡعَالَمِ
أَنۡتَ السَّبُوۡقُ وَسَیِّدُ الشُّجۡعَانٖ

(آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحہ ۵۹۴،۵۹۳)

ہر قسم کی فضیلت کی صفات آپ پر کمال کو پہنچ گئیں اور ہر زمانہ کی نعمتیں آپ پر ختم ہوگئی ہیں۔بخدا ! بے شک محمدﷺ (خداکے ) نائب کے طور پر ہیں اور آپ ہی کے ذریعہ دربارِ شاہی میں رسائی ہوسکتی ہے۔آفرین تجھ پر اے دنیا کے امام! تو سب پر سبقت لے گیا ہے اور بہادروں کا سردار ہے۔

مزید پڑھیں: رَحۡمَۃٌ لِّلۡعٰلَمِیۡنَﷺ بیٹیوں کے لیے رحمت

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button