خواتین کا عالمی دن اور اس کی اہمیت
رکھ پیش نظر وہ وقت بہن جب زندہ گاڑی جاتی تھی
گھر کی دیواریں روتی تھیں جب دنیا میں تُو آتی تھی
(در عدن)
خواتین کسی بھی معاشرے کی ترقی کا اہم حصہ ہوتی ہیں ۔ ان کی اس اہمیت کو زمانہ قدیم سے تسلیم نہیں کیا گیا اور ہمیشہ اُن سے امتیازی سلوک کیا گیا اس کے فرائض تو سب نے یاد رکھے لیکن حقوق کے نام پر ہمیشہ ناانصافی کی گئی عورت کا عالمی دن منانے کا مقصد دنیا پر ان کی اہمیت کو ظاہر کرنا تھا اور اس کے بنیادی حقوق کا تحفظ کرنا تھا ۔ پس آٹھ مارچ کا دن دنیا بھر میں یوم خواتین کے نام سے منایا جاتا ہے ۔ اس دن خواتین کے حقوق کے لیے جلسے منعقد کیے جاتے ہیں ریلیاں نکالی جاتی ہیں جس میں خواتین کے حقوق کے بارے میں بہت سے موضوع زیر بحث آتے ہیں ۔
اقوام متحدہ کے تعلیمی، سائنسی اور ثقافتی ادارے (UNESCO) کے مطابق عالمی یوم خواتین پہلی بار شمالی امریکہ اور یورپ میں بیسویں صدی کے اختتام پر مزدور تحریکوں کی سرگرمیوں سے ابھرا۔ یونیسکو کا کہنا ہے کہ امریکہ میں خواتین کا پہلا قومی دن ۲۸/ فروری ۱۹۰۹ ءکو منایا گیا، جسے سوشلسٹ پارٹی آف امریکہ نے ۱۹۰۸ ء میں نیویارک میں گارمنٹس ورکرز کی ہڑتال کے اعزاز میں وقف کیا جہاں خواتین نے کام کے سخت حالات کے خلاف احتجاج کیا۔
پہلی بار یہ ۱۹۱۱ء میں باقاعدہ انٹرنیشنل لیول پر منایا گیا اور ۲۰۱۱ء میں اس کے سو سال مکمل ہوئے ۔ اقوام متحدہ میں اسے ۱۹۷۵ء سے سرکاری طور پر تسلیم کیا گیا اور تب سے یہ انٹرنیشنل ڈے کے طور پر دنیا بھر میں ۸/ مارچ کو منایا جانے لگا ۔
خواتین کا عالمی دن اور اسلام
اسلام نے عورت کو وہ عزت دی جس کی وہ مستحق تھی اس کو ہر رشتے میں قابل احترام ٹھہرایا ۔
خدا تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے :
وَلَھُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْھِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ وَلِلرِّجَالِ عَلَیْھِنَّ دَرَجَۃٌ (البقرۃ :۲۲۹)
اور اُن (عورتوں) کا دستور کے مطابق (مردوں پر) اتنا ہی حق ہے جتنا (مردوں کا) اُن پر ہے۔ حالانکہ مردوں کو ان پر ایک قسم کی فوقیت بھی ہے۔
قرآن مجید نے اس آیت کی صورت میں انسان کی معاشرتی زندگی کے سب سے بڑے انقلاب کا اعلان کیا۔ ان الفاظ نے عورت کو وہ سب کچھ دے دیا ہے جو اس کا حق ہے لیکن اسے کبھی ملا نہیں تھا۔ ان لفظوں نے اسے محرومی اور شقاوت کی خاک سے اٹھایا اور عزت و مساوات کے تخت پر بٹھا دیا۔ اسلام نے تو عورت کو بہت شرف و منزلت سے نوازا ہے ورنہ زمانہ جاہلیت میں عورت کی حالت زار سے کون واقف نہیں جب پیدا ہوتے ہی بیٹیوں کو زندہ درگور کر دیا جاتا تھا ۔ دیکھا جائےتو اسلام نےعورت کو چودہ سو سال پہلے تمام تر حقوق سے سرفراز کر دیا تھا ، عورت کے ہاں بیٹی کی پیدائش پر اسے جنت کی خوش خبری دی گئی ، عورت کے لیے وراثت میں حق مقرر کیا گیا ،اس کو حق مہر دیا گیا ، قرآن پاک میں بھی عورت کے ساتھ بہتر سلوک روا رکھنے کی بار بار تلقین کی گئی ۔ مرد کو اس کا ولی اور سرپرست بنایا گیا اس پر کسی بھی قسم کی مالی اور معاشی تگ و دو کی ذمہ داری نہیں ڈالی گئی ۔لیکن یہ تمام مراتب دینے کے بعد اس کو پابند نہیں بنایا گیا کہ وہ صرف اور صرف گھر ہی کی ہو کر رہ جائے بلکہ اسے پوری آزادی دی گئی کہ اگر قدرت نے اسے صلاحیتیں عطا کی ہیں تو اپنی ان صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر اپنے اور معاشرے کے بھلائی کے کاموں میں استعمال کر سکتی ہے ۔ وہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے نہ صرف اپنے اہل و عیال کی اصلاح اور بہتری کے کام سرانجام دے سکتی ہے بلکہ ملک و ملت کی ترقی کے لیے بھی اپنا کردار نبھا سکتی ہے اور ضرورت پڑنے پر اپنے خاندان کی کفالت بھی کر سکتی ہے لیکن عورت کو اگر گھر سے باہر نکلنا پڑے تو اس کو ان حدود و قیود کو ضرور بضرور ملحوظ رکھنا ہوگا جو اس کے خالق نے اسی کے فائدے کے لیے ہی متعین کی ہیں۔
مرد عورتوں کے قوام ہیں اس لیے اللہ نے ان میں بعض کو بعض پر فضلیت دی اور اس لیے کہ مرد اپنا مال عورتوں پر خرچ کرتے ہیں۔ یعنی خاندانی زندگی کا نظام قائم نہیں رہ سکتا اگرمرد اس کا قوام، یعنی بندوبست کرنے والا نہ ہو۔
قرآن کہتا ہے کہ خاندانی زندگی کا نظام اس طرح چلے کہ شوہر کی حیثیت قوام کی ہو۔ بس اتنا ہی امتیاز ہے جو مرد کو عورت کے مقابلے میں حاصل ہے۔ ورنہ تو دین کا آدھا علم سکھانے والی بھی ایک عورت ہے ۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس ضمن میں فرماتے ہیں :
’’ ہمیں تو کمال بے شرمی معلوم ہوتی ہے کہ مرد ہو کر عورت سے جنگ کریں۔ ہم کو خدا نے مرد بنایا اور یہ درحقیقت ہم پر اتمام نعمت ہے۔ اس کا شکر یہ ہے کہ عورتوں سےلطف اور نرمی کا برتاؤکریں۔ ‘‘ (سیرت مسیح موعود علیہ السلام از مولانا عبد الکریم صاحب سیالکوٹی رضی اللہ عنہ صفحہ، ۱۸)
اسلام نے مرد وعورت ہر دو کے حقوق و فرائض کے بارے میں نہایت عمدگی سے بتا دیا ہے لیکن مسائل اسی وقت پیدا ہوتے ہیں جب اپنے حقوق یاد رکھیں جائیں اور فرائض کو نہ نبھایا جائے ۔ پاکستان اور دیگر اسلامی ملکوں میں عورتوں کے ساتھ ہونے والا نامناسب سلوک اس بات کا ثبوت ہے کہ جو حق اسلام نے عورت کو دیا معاشرے نے وہ تسلیم نہ کیا جس سے بگاڑ پیدا ہوا اور پھر کچھ عورتیں اپنے فرائض نبھانے سے بھی انکاری ہوگئیں جس کے نتیجے میں عورت مارچ اور اسی طرح کی کچھ باتوں نے سر اٹھایا اور اصل تکالیف و مشکلات کی بجائے اپنا کھانا خود گرم کرو جیسے سلوگن سامنے آئے۔اس دن کو منانے کا اصل مقصد تب پورا ہو گا جب مرد اور معاشرہ اس کے حقوق کو سمجھ کر ان کا تحفظ کرے گا اور عورت اپنے فرائض کو ایمانداری سے پورا کرے گا ورنہ ایک جنگ ہے جو ہمیشہ چھڑی رہے گی جس سے کسی کا بھی فائدہ نہیں ہو گا تو اللہ تعالیٰ ہمیں یہ سمجھ دے کہ ہم اپنے گھروں میں اسلامی تعلیمات کو رائج کر سکیں اور ایک دوسرے کی اہمیت کو سمجھیں اور ایک دوسرے کو وہ عزت وہ مقام دیں جو اسے خدا تعالی نے دیا ہے کہ ایک اچھے گھر سے ایک اچھےمعاشرے کا قیام ہوتا ہے۔ اللہ تعالی ہمیں اسکی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین ثم آمین
بھیج درود اُس محسن پر تُو دن میں سو سو بار
پاک محمد مصطفیٰ نبیوں کا سردار