خطبہ جمعہ

خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 21؍ مارچ 2025ء

’’اللہ تعالیٰ نے چاہا ہے کہ جیسے تمام کمالات متفرقہ جو انبیاءؑ میں تھے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود میں جمع کر دیے اسی طرح تمام خوبیاں اور کمالات جو متفرق کتابوں میں تھے وہ قرآن شریف میں جمع کر دیے اور ایسا ہی جس قدر کمالات تمام امتوں میں تھے وہ اس امت میں جمع کر دیے۔ پس خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ ہم ان کمالات کو پا لیں‘‘
(حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام)

جماعت احمدیہ کی تاریخ میں 23 مارچ کا دن بڑی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ 23 مارچ 1889ء کو جماعت احمدیہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بیعت کے آغاز سے جماعت کی بنیاد ڈالی تھی

حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام ہی تھے جو اللہ تعالیٰ کے حکم سے کھڑے ہوئے اور اسلام کے دفاع کے لیے ایک جری اللہ کی حیثیت سے اپنا کردار ادا کیا

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اسلام کی خدمت کی وجہ سے بعض لوگوں نے آپ سے یہ بھی کہا کہ آپ ہم سے بیعت لیں لیکن آپ کو کیونکہ اللہ تعالیٰ کا حکم نہیں تھا
اس لیے آپ نے اس وقت بیعت نہیں لی

آسمانی نشانوں میں ایک نشان کسوف و خسوف کا آسمانی نشان تھا جس کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ یہ میرے مہدی کی آمد کا خاص نشان ہے جو رمضان کے مہینے میں مقررہ تاریخوں پر لگنا تھا

پس ہمارے لیے تو اللہ تعالیٰ نے جو قربانی کا تھوڑا بہت موقع دیا ہے اس سے ہمیں فائدہ اٹھانا چاہیے اور اس کے لیے اپنی جان، مال، وقت قربان کرنے کا جو عہد ہے اس کو پورا کرنا چاہیے اور عہد بیعت میں جو ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے سب سے زیادہ محبت کروں گا کا اظہار کیا ہے کیونکہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نمائندے ہیں تو پھر ہمیں اس کا عملی اظہار بھی کرنا ہو گا

یہ لازمی بات ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صداقت دنیا میں پھیلنی تھی اور پھیلے گی کیونکہ آپ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کی اشاعت کے لیے آئے ہیں جو آخری دین ہے

چاہے یہ لوگ جتنا مرضی زور لگا لیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کی جماعت کو ختم کرنا ہے لیکن جو زور لگاتے ہیں وہی پھیلنے کا ذریعہ بن جاتا ہے

اگر اسلام کی مخالفت نہ ہوتی تو پھر مسیح موعود کو آنے کی ضرورت نہیں تھی لیکن یہ تو ہم دیکھ رہے ہیں کہ آج سے ایک سو چھتیس سال پہلے جب آپ نے دعویٰ کیا اس وقت سے لے کر آج تک اس میں اضافہ ہی ہوتا چلا جا رہا ہے

’’مجھ پر اور میری جماعت پر جو یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبیین نہیں مانتے یہ ہم پر افترائے عظیم ہے۔ ہم جس قوت یقین، معرفت اور بصیرت کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم الانبیاء مانتے اور یقین کرتے ہیں اس کا لاکھواں حصہ بھی دوسرے لوگ نہیں مانتے اور ان کا ایسا ظرف ہی نہیں ہے۔ وہ اس حقیقت اور راز کو جو خاتم الانبیاء کی ختم نبوت میں ہے، سمجھتے ہی نہیں ہیں…ہم بصیرت تام سے (جس کو اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم الانبیاء یقین کرتے ہیں اور خدا تعالیٰ نے ہم پر ختم نبوت کی حقیقت کو ایسے طور پر کھول دیا ہے کہ اس عرفان کے شربت سے جو ہمیں پلایا گیا ہے ایک خاص لذت پاتے ہیں جس کا اندازہ کوئی نہیں کر سکتا بجز ان لوگوں کے جو اس چشمہ سے سیراب ہوں۔‘‘ (حضرت مسیح موعودؑ)

رمضان کے دنوں میں دعاؤں کے ذریعہ سے بھی اور اپنے علم کو بڑھانے کے ذریعہ سے بھی، قرآن کریم کا علم سیکھنے کے ذریعہ سے بھی اور عملی طور پر پیغام پہنچانے کے ذریعہ سے بھی تبلیغ کے کام میں ہمیں جُت جانا چاہیے تا کہ ہم جلد سے جلد دنیامیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا لہرانے والے بن سکیں
اور دنیا کو خدائے واحد کے حضور جھکانے والے بن سکیں

یومِ مسیح موعود کی مناسبت سے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کے پُرمعارف ارشادات کی روشنی میں مسیح موعود کی بعثت کا تذکرہ

پاکستانی احمدیوں اور امت مسلمہ کے لیے دعاؤں کی تحریک

اللہ تعالیٰ پاکستانی احمدیوں کے حالات میں آسانیاں پیدا فرمائے۔عمومی طور پر مسلمان امت کے لیے بھی دعا کریں۔ اللہ تعالیٰ ان کو بھی عقل اور سمجھ دے اوران کے حالات بہتر کرے۔ ان پر رحم فرمائے
فلسطینی مسلمان جو ہیں ان پر دوبارہ ظلم کا ایک نیا دور شروع ہو گیا ہے اللہ تعالیٰ ان کو بھی اس ظلم سے محفوظ رکھے۔ ان پر رحم فرمائے

خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 21؍ مارچ 2025ء بمطابق21؍ امان 1404 ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے)،یوکے

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾
اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾
اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾

پرسوں 23 مارچ ہے۔

جماعت احمدیہ کی تاریخ میں 23 مارچ کا دن بڑی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ 23مارچ 1889ء کو جماعت احمدیہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بیعت کے آغاز سے جماعت کی بنیاد ڈالی تھی۔

آپؑ کی بعثت عین اللہ تعالیٰ کے وعدے کے مطابق اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں کے مطابق تھی۔ اس وقت اسلام کی کشتی بڑی ڈانواں ڈول تھی، گو اب بھی مذہبی لحاظ سے مسلمانوں کی حالت ناگفتہ بہ ہی ہے بلکہ سیاسی اور دنیاوی لحاظ سے بھی بہت بری حالت ہے باوجود اس کے کہ بہت سے مسلمان ممالک دولت سے مالامال ہیں، تیل کی دولت ہے ان کے پاس لیکن ان کی جو اہمیت ہے، جو وقار ہے وہ بالکل ضائع ہو چکا ہے۔ بہرحال اس وقت جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بیعت لی اس وقت اسلام کی جو حالت تھی اس پر آپ کا دل خون کے آنسو روتا تھا۔ بڑا درد تھا آپ کے دل میں۔ اسلام پر تابڑ توڑ حملے غیر مذاہب کی طرف سے ہو رہے تھے خاص طور پر عیسائیت کی طرف سے لیکن ان کا کوئی جواب دینے والا نہیں تھا۔ مسلمان علماء بھی اس وقت سہمے رہتے تھے بلکہ یہ حالت ہو گئی تھی کہ بہت سے مسلمان اسلام چھوڑ کر لاکھوں کی تعداد میں عیسائیت کی گود میں گر رہے تھے۔ اس وقت جب مسلمانوں کی یہ حالت تھی اور اسلام پر اس طرح حملے ہو رہے تھے تو

حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام ہی تھے جو اللہ تعالیٰ کے حکم سے کھڑے ہوئے اور اسلام کے دفاع کے لیے ایک جری اللہ کی حیثیت سے اپنا کردار ادا کیا۔

آپ علیہ السلام نے تمام مذاہب جو اس وقت ہندوستان میں موجود تھے آریہ سماج، برہمو سماج، عیسائیت یا دوسرے مذاہب یا لامذہب لوگ جو بھی اس وقت اسلام اور بانیٔ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم پر تحریروں اور تقریروں کے ذریعہ سے خوفناک حملے کر رہے تھے تو اس درد کی وجہ سے ان کے جواب میں آپ نے بیعت لینے سے پہلے ہی ایک معرکہ آرا کتاب لکھی، بلکہ کتب لکھیں جو براہین احمدیہ کے نام سے معروف ہیں اور بڑی مشہور ہیں۔ شروع میں آپ نے اس کی چار جلد یںلکھی تھیں۔ اس میں آپ نے دشمنوں کے، مخالفین اسلام کے دندان شکن جواب دیے۔ یہ کتابیں جو آپ نے لکھیں اس کا پہلا حصہ 1880ء میں، پھر 1882ء میں، پھر 1884ء میں لکھا اور آپؑ نے اس میں قرآن کریم کے کلام الٰہی ہونے اور بے نظیر کتاب ہونے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سچے اور صادق اور آخری نبی ہونے کے ناقابلِ تردید دلائل بیان فرمائے اور آپ نے ساتھ یہ بھی فرمایا کہ میں جو دلائل دے رہا ہوں ان دلائل کو جو ردّ کرے گا اس کے لیے چیلنج ہے بلکہ آپ نے یہاں تک فرمایا کہ اگر اس کا تیسرا حصہ یا چوتھا حصہ یا پانچواں حصہ بھی کوئی ان کو ردّ کرنے کے لیے دلیل دے دے جو میں دلائل دے رہا ہوں تو میں دس ہزار روپے انعام دوں گا۔(ماخوذ از براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد اوّل صفحہ 24تا 28) جو اس زمانے میں بہت بڑی رقم تھی۔

بہرحال جب آپ نے یہ اعلان کیا اور اس طرح کتابیں شائع کیں تو اس وقت پھر مسلمانوں کو کچھ حوصلہ ہوا کہ ہاں اسلام ایک مضبوط مذہب ہے اور آخری مذہب ہے اور ہمیں کوئی ضرورت نہیں فکر کرنے کی اور لوگوں سے ڈرنے کی۔ اور اس وقت آپ کی لوگوں نے اور اس زمانے کے علماء نے بھی بڑی تعریف کی۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اسلام کی اس خدمت کی وجہ سے بعض لوگوں نے آپ سے یہ بھی کہا کہ آپ ہم سے بیعت لیں لیکن آپ کو کیونکہ اللہ تعالیٰ کا حکم نہیں تھا اس لیے آپ نے اس وقت بیعت نہیں لی

اور جب اللہ کا حکم ہوا تو پھر آپؑ نے بیعت لی اور یوں مخلصین کی جماعت کا آغاز ہوا اور پھر بعد میں آپؑ کو اللہ تعالیٰ نے یہ بھی فرمایا کہ یہ بھی اعلان کر دو کہ تم مسیح موعود اور مہدی معہود ہو۔ بہرحال بیعت سے پہلے آپؑ نے ایک اعلان شائع فرمایا تھا دسمبر 1888ء میں تبلیغ کے نام سے۔ اس میں آپ نے فرمایا کہ ’’میں اس جگہ ایک اَور پیغام بھی خلق اللہ کو عموماً اور اپنے بھائی مسلمانوں کو خصوصاً پہنچاتا ہوں کہ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ جو لوگ حق کے طالب ہیں وہ سچا ایمان اور سچی ایمانی پاکیزگی اور محبت مولیٰ کا راز سیکھنے کے لیے اور گندی زیست اور کاہلانہ اور غدارانہ زندگی کے چھوڑنے کے لیے مجھ سے بیعت کریں۔ پس جو لوگ اپنے نفسوں میں کسی قدر یہ طاقت پاتے ہیں انہیں لازم ہے کہ میری طرف آویں کہ میں ان کا غم خوار ہوں گا اور ان کا بار ہلکا کرنے کے لیے کوشش کروں گا اور خدا تعالیٰ میری دعا اور میری توجہ میں ان کے لیے برکت دے گا بشرطیکہ وہ ربانی شرائط پر چلنے کے لیے بدل و جان طیار ہوں گے۔ یہ ربانی حکم ہے جو آج میں نے پہنچا دیا ہے۔ اس بارہ میں عربی الہام یہ ہے۔اِذَا عَزَمْتَ فَتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ وَاصْنَعِ الْفُلْکَ بِاَعْیُنِنَا وَ وَحْیِنَا۔ اَلَّذِیْنَ یُبَایِعُوْنَکَ اِنَّمَا یُبَایِعُوْنَ اللّٰہَ۔ یَدُاللّٰہِ فَوْقَ اَیْدِیْھِمْ۔‘‘

(سبز اشتہار، روحانی خزائن جلد2صفحہ 470)

یعنی جب تُو نے اس خدمت کے لیے قصد کر لیا تو خدا تعالیٰ پر بھروسہ کر اور یہ کشتی ہماری آنکھوں کے رو برو اور ہماری وحی سے بنا۔ جو لوگ تجھ سے بیعت کریں گے وہ تجھ سے نہیں بلکہ خدا سے بیعت کریں گے۔ خدا کا ہاتھ ہو گا جو ان کے ہاتھ پر ہو گا۔

اور پھر اللہ تعالیٰ نے نشانات بھی دکھائے۔ ارضی بھی سماوی بھی جن میں

آسمانی نشانوں میں ایک نشان کسوف و خسوف کا آسمانی نشان تھا جس کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ یہ میرے مہدی کی آمد کا خاص نشان ہے جو رمضان کے مہینے میں مقررہ تاریخوں پر لگنا تھا۔

(سنن الدار قطنی کتاب العیدین باب صفۃ الصلوٰۃ والخسوف والکسوف حدیث 1795مطبوعہ مؤسسۃ الرسالۃ بیروت)

اور جو 1894ء میں مشرق میں اور 1895ء میں مغرب میں لگا۔ اور بہت سارے سعید فطرت لوگوں نے اس نشان کو دیکھ کر آپ کو قبول کیا۔

ضمناً یہاں یہ بھی عرض کر دوں کہ اس رمضان میں بھی چاند گرہن اور سورج گرہن لگا ہے۔ چاند گرہن لگ چکا ہے اور سورج گرہن لگنا ہے اور انہی تاریخوں کو لگنا ہے اور آئندہ بھی ہو سکتا ہے کہ لگتا رہے لیکن جو چاند سورج گرہن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے میں لگا اور آپؑ کے دعوے کے بعد لگا اس کی اپنی اہمیت ہے۔ آپ نے خدا تعالیٰ سے ایک فرقان اور نشان مانگا تھا اور پھر اللہ تعالیٰ نے نشان دکھلایا۔

بعض احمدی ان دنوں میں جو چاند اور سورج گرہن لگ رہا ہے اسے بھی نشان بتاتے ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے۔

بہرحال اگر نشان سمجھنا بھی ہے تو یہ اسی کا ایک تسلسل ہے جو اَب جاری ہے جس کا دعویٰ ایک سو پینتیس چھتیس سال پہلے ہو چکا ہے۔ لیکن یہ واضح کر دوں کہ آپ کے زمانے کا گرہن مشرق و مغرب میں لگا تھا اور اس سال لگنے والا گرہن زیادہ تر مغرب میں لگ رہا ہے اس لیے ہم اس زمانے کے گرہن کو اس وقت کے گرہن کے برابر اہمیت بہرحال نہیں دے سکتے اور یہ لگ بھی تھوڑے حصہ میں رہا ہے یعنی کہ سورج کا پچیس تیس فیصد حصہ coverہوگا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے میں تو پچہتر سے سو فیصد حصہ تک یہ گرہن لگا تھا بلکہ جب شروع ہوا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو جب دکھایا گیا تو آپ نے فرمایا کہ ہم نے تو دیکھ لیا ہے لیکن مخالفین اس کو دیکھ کر کوئی اثر نہیں لیں گے لیکن پھر آہستہ آہستہ وہ بڑھنا شروع ہوا اور سورج گرہن لگ گیا۔ بہرحال ضمناً میں نے یہ ذکر کر دیا ہے۔

آپؑ نے 12جنوری 1889ء کو پھر تکمیل ِتبلیغ کے نام سے ایک اعلان شائع فرمایا اور اس میں دس شرائط بیعت رکھیں جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ جماعت احمدیہ میں دس شرائط بیعت ہیں۔ ایک احمدی ہونے کے لیے ان پر عمل کرنا اور ان کو بدل و جان قبول کرنا ضروری ہے۔ جس میں آپؑ نے یہ ہدایت فرمائی اور بیعت کرنے والے کو یہ کہا کہ وہ یہ عہد کرے کہ شرک سے تازندگی اجتناب کروں گا۔ جھوٹ اور زنا اور بدنظری اور فسق و فجور اور ظلم اور خیانت اور فساد اور بغاوت کے ذریعوں سے بچتا رہوں گا۔ نفسانی جوشوں کے وقت ان کا مغلوب نہیں ہوں گا جیسا بھی جذبہ پیش آئے۔ پھر یہ بھی آپؑ نے فرمایا کہ نمازوں کی طرف پوری توجہ دوں گا اور اللہ اور رسول کے حکموں کے مطابق حتی الوسع ان کو سنوار کر پڑھنے کی کوشش کروں گا۔ تہجد پڑھنے کی کوشش کروں گا۔ گناہوں کی معافی مانگوں گا۔ استغفار کروں گا۔ کوئی ایسا جوش نہیں دکھاؤں گا جس سے بنی نوع انسان کو ناجائز تکلیف پہنچے نہ زبان سے نہ ہاتھ سے اور ہر حالت میں مَیں خدا تعالیٰ کی وفاداری رکھوں گا اور جو اللہ تعالیٰ کی رضا ہو گی اس پر راضی رہوں گا۔ پھر یہ بھی کہ قرآن کریم کی حکومت اپنے اوپر وارد کروں گا یعنی قرآن کریم کے ہر حکم پر عمل کرنے کی کوشش کروں گا اور ان کو تلاش کر کے ان پر عمل کروں گا اور جن سے اللہ تعالیٰ نے روکا ہے ان سے رکوں گا اور یہ میرا دستور العمل ہو گا کہ اللہ اور اس کے رسول کی باتوں پر عمل کروں۔ پھر عاجزی ہے۔ فروتنی ہے۔ مسکینی ہے۔ حلیمی ہے اس کو اختیار کروں گا اور تکبر اور نخوت سے بچوں گا اور دین کی عزت اور ہمدردی اپنے مال جان سے زیادہ عزیز رکھوں گا۔ بنی نوع انسان کو ہمیشہ فائدہ پہنچانے کی کوشش کروں گا جتنی میری صلاحیتیں ہیں، میری طاقت ہے۔ پھر یہ بھی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے جو بیعت کا اقرار کیا ہے اس کو مرتے دم تک قائم رکھوں گا اور آپؑ کی ہر معروف بات کی پیروی کروں گا یعنی جو بھی شریعت کے مطابق آپ حکم دے رہے ہیں اور شریعت کے بغیر تو آپؑ حکم دے بھی نہیں سکتے ان کی ہمیشہ پابندی کروں گا کیونکہ آپؑ تو آئے ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کو پھیلانے کے لیے تھے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ایسا تعلق رکھوں گا جو کسی دنیاوی رشتے میں نہیں پایا جاتا۔

(ماخوذازازالہ اوہام،روحانی خزائن جلد3صفحہ563-564)

پس یہ خلاصہ ہے ان شرائطِ بیعت کا جو میں نے ابھی بیان کیا ہے۔ اور اس پر بہت سارے مخلصین نے بیعت کی اور آج تک ہم انہی شرائط پر بیعت کر رہے ہیں اور جو میں نے بیان کیا اس کو ہمیں سوچنا چاہیے کہ کیا ہم ان سب باتوں پر عمل کر رہے ہیں؟

یہ یاددہانی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ میں مخلصین کی ایک بہت بڑی تعداد ہے جو اس پر عمل بھی کرتی ہے اور پھر جان، مال، وقت اور عزت کو قربان کرنے کے لیے ہر وقت تیار رہتی ہے۔ اور اس بات پر تیار رہتی ہے کہ ہم دین کی عظمت کو قائم کریں اور اسلام کا پیغام دنیا میں پہنچانے کی حتی المقدور کوشش کریں اور جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہمیں فرمایا اسی طرح ہم تبلیغ اسلام سرانجام دینے کی کوشش کریں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق کو اپنی انتہا تک پہنچائیں اور

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق کا حال جوحضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دل میں تھا اس کا نقشہ

آپؑ کے ایک اقتباس میں یوں ملتا ہے۔ آپؑ فرماتے ہیں:’’میں ہمیشہ تعجب کی نگاہ سے دیکھتا ہوں کہ یہ عربی نبی جس کا نام محمد ہے۔‘‘صلی اللہ علیہ وسلم۔ ’’(ہزار ہزار درود اور سلام اس پر) یہ کس عالی مرتبہ کا نبی ہے۔ اس کے عالی مقام کا انتہا معلوم نہیں ہو سکتا۔ اور اس کی تاثیرِ قدسی کا اندازہ کرنا انسان کا کام نہیں۔ افسوس کہ جیسا حق شناخت کا ہے اس کے مرتبہ کو شناخت نہیں کیا گیا۔ وہ توحید جو دنیا سے گم ہو چکی تھی وہی ایک پہلوان ہے جو دوبارہ اس کو دنیا میں لایا۔ اس نے خدا سے انتہائی درجہ پر محبت کی اور انتہائی درجہ پر بنی نوع کی ہمدردی میں اس کی جان گداز ہوئی۔ اس لیے خدا نے جو اس کے دل کے راز کا واقف تھا اس کو تمام انبیاء اور تمام اولین و آخرین پر فضیلت بخشی اور اس کی مرادیں اس کی زندگی میں اس کو دیں۔ وہی ہے جو سرچشمہ ہر ایک فیض کا ہے اور وہ شخص جو بغیر اقرارِ افاضہ اس کے کسی فضیلت کا دعوی کرتا ہے۔‘‘ یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے افاضے کے بغیر کسی قسم کا،کسی نیکی کا دعویٰ کرتا ہے ’’وہ انسان نہیں ہے بلکہ ذریت شیطان ہے کیونکہ ہر ایک فضیلت کی کنجی اِس کو دی گئی ہے۔‘‘

(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 118-119)

اور اس طرح آپ نے بےشمار جگہوں پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام کے بارے میں بیان فرمایا ہے۔ اسی طرح ایک جگہ آپؑ نے فرمایا’’وہ انسان جس نے اپنی ذات سے، اپنی صفات سے، اپنے افعال سے، اپنے اعمال سے اور اپنے روحانی اور پاک قویٰ کے پر زور دریا سے کمال تام کا نمونہ علماً و عملاً و صدقاً و ثباتاً دکھلایا اور انسان کامل کہلایا…

وہ انسان جو سب سے زیادہ کامل اور انسان کامل تھا اور کامل نبی تھا اور کامل برکتوں کے ساتھ آیا جس سے روحانی بعث اور حشر کی وجہ سے دنیا کی پہلی قیامت ظاہر ہوئی اور ایک عالم کا عالم مرا ہوا اس کے آنے سے زندہ ہو گیا وہ مبارک نبی حضرت خاتم الانبیاء، امام الاصفیاء، ختم المرسلین، فخر النبیین جناب محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ اے پیارے خدا! اس پیارے نبی پر وہ رحمت اور درود بھیج جو ابتدائے دنیا سے تُو نے کسی پر نہ بھیجا ہو۔‘‘

(اتمام الحجۃ، روحانی خزائن جلد8صفحہ 308)

پس یہ وہ باتیں تھیں، یہ وہ عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم تھا جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے پھر آپ کو اس کام کے لیے مبعوث فرمایا کہ اسلام کی نشأة ثانیہ کے لیے اب آپ ہی ہیں جو اپنا کردار ادا کریں گے اور

اللہ تعالیٰ نے آپؑ کو فرمایا کہ اب اس عشق و محبت کی وجہ سے مَیں تمہیں یہ مقام بھی دیتا ہوں کہ تم مسیح موعود اور مہدی معہود ہو۔

اور اس کا اعلان کر دو۔ اور اس آخری زمانے میں اسلام کی نشأة ثانیہ کا جو وعدہ تھا اس کو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں پورا کرتا ہوں اور تمہارے سپرد یہ کام کرتا ہوں۔ پس یہ کام تھے جن کے لیے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام مبعوث ہوئے اور آپؑ نے پھر ان کا حق بھی خوب ادا کیا۔ آپؑ نے جماعت کو نصیحت کی اور فرمایا کہ جب تم نے میری بیعت کر لی ہے تو پھر یہ بھی یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ نے تو یہ فرمایا ہے کہ مسیح موعودؑ کے ساتھ صحابہ جیسے لوگ ہوں گے۔ پس جب یہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے تو پھر جو میری بیعت میں آئے ہیں، جنہوں نے یہ عہد کیا ہے کہ ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نام روشن کریں گے اور اسلام کا نام روشن کریں گے اور اسلام کی تبلیغ کو دنیا کے کناروں تک پہنچائیں گے تو پھر انہیں صحابہ کا وہ رنگ بھی اختیار کرنا ہو گا۔ آپؑ اس کی تفصیل میں ایک جگہ فرماتے ہیں کہ ’’ہمارے ہادی اکملؐ کے صحابہؓ نے اپنے خدا اور رسول کے لیے کیا کیا جانثاریاں کیں۔ جلا وطن ہوئے ۔ظلم اٹھائے۔ طرح طرح کے مصائب برداشت کیے۔ جانیں دیں لیکن صدق و وفا کے ساتھ قدم مارتے ہی گئے۔ پس وہ کیا بات تھی کہ جس نے انہیں ایسا جانثار بنا دیا؟ وہ سچی الٰہی محبت کا جوش تھا جس کی شعاع ان کے دل میں پڑ چکی تھی اس لیے خواہ کسی نبی کے ساتھ مقابلہ کر لیا جاوے آپؐ کی تعلیم، تزکیہ نفس، اپنے پیرؤوں کو دنیا سے متنفر کرادینا، شجاعت کے ساتھ صداقت کے لیے خون بہا دینا اس کی نظیر کہیں نہ مل سکے گی۔‘‘

یہ ایسا وفا کا ایک جذبہ تھا جو انہوں نے دکھایا کہ ہمیں اس کی مثال کوئی نہیں ملتی۔ آپؑ فرماتے ہیں ’’یہ مقام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہؓ کا ہے اور ان میں جو باہمی الفت اور محبت تھی اس کا نقشہ‘‘ قرآن کریم نے ’’دو فقروں میں بیان فرمایا ہے۔ وَ اَلَّفَ بَیۡنَ قُلُوۡبِہِمۡ لَوۡ اَنۡفَقۡتَ مَا فِی الۡاَرۡضِ جَمِیۡعًا مَّاۤ اَلَّفۡتَ بَیۡنَ قُلُوۡبِہِمۡ‘‘ وَ لٰکِنَّ اللّٰہَ اَلَّفَ بَیۡنَہُمۡ (الانفال :64)

’’یعنی جو تالیف ان میں ہے وہ ہرگز پیدا نہ ہوتی، خواہ سونے کا پہاڑ بھی دیا جاتا۔‘‘ یہ محبت اور پیار جو اللہ تعالیٰ نے ان میں پیدا کیا اگر تم بےشمار مال بھی خرچ کر دیتے تو وہ محبت اور پیار پیدا نہ کر سکتے۔ پس یہ اللہ تعالیٰ کا پیدا کیا ہوا محبت اور پیار ہے اس لیے کہ ان میں اخلاص تھا۔ وفا تھی اور وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور اسلام کی خاطر اپنی جان نثار کرنے پرتیار تھے۔ آپؑ فرماتے ہیں کہ

’’اب ایک اَور جماعت مسیح موعودؑ کی ہے جس نے اپنے اندر صحابہؓ کا رنگ پیدا کرنا ہے۔‘‘

پس یہ نمونہ آپؑ نے ہمارے سامنے قائم فرمایا اور اس نمونے پر چلتے ہوئے مسیح موعود کی اگر بیعت کی ہے تو پھر مسیح موعود نے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مشن کو پورا کرنے کے لیے آنا تھا اس لیے آپؑ نے فرمایا کہ یہ جماعت جو ہے اس نے صحابہ کا رنگ پیدا کرنا ہے۔ ’’صحابہؓ کی تو وہ پاک جماعت تھی جس کی تعریف میں قرآن شریف بھرا پڑا ہے۔‘‘آپؑ فرماتے ہیں ’’کیا آپ لوگ ایسے ہیں ؟‘‘ پوچھ رہے ہیں ہم سے۔ کیا ہم ایسے ہیں۔ فرمایا کہ ’’جب خدا کہتا ہے کہ حضرت مسیح کے ساتھ وہ لوگ ہوں گے جو صحابہؓ کے دوش بدوش ہوں گے۔ صحابہؓ تو وہ تھے جنہوں نے اپنا مال، اپنا وطن راہ حق میں دے دیا اور سب کچھ چھوڑ دیا۔‘‘ فرماتے ہیں کہ ’’حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا معاملہ اکثر سنا ہو گا ایک دفعہ جب راہ خدا میں مال دینے کا حکم ہوا تو گھر کا کُل اثاثہ لے آئے۔ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا کہ گھر میں کیا چھوڑ آئے تو فرمایا کہ خدا اور رسول کو گھر میں چھوڑ آیا ہوں۔‘‘پس یہ وہ جذبہ تھا جو ان لوگوں نے دکھایا۔ جس کا ایک نمونہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زندگی میں ملتا ہے۔

آپؑ فرماتے ہیں کہ ’’…یہ سمجھ لو کہ وہ لوگ تو خدا کی راہ میں شہید ہوگئے۔ ان کے لیے تو یہی لکھا ہے۔‘‘چاہے عملاً شہید ہوئے یا نہیں۔ خون بہایا ہے یا نہیں لیکن جو قربانیاں ہیں وہی شہادت کا رتبہ دینے والی ہیں۔ یہی لکھا ہے ’’کہ سیفوں (تلواروں) کے نیچے بہشت ہے‘‘وہ تیار تھے ہر وقت تلواروں کے نیچے۔ ’’لیکن ہمارے لیے تو اتنی سختی نہیں کیونکہ یَضَعُ الْحَرْبُ ہمارے لیے آیا ہے یعنی مہدی کے وقت لڑائی نہیں ہو گی۔‘‘(ملفوظات جلد اوّل صفحہ 42-43 ایڈیشن 1984ء)جنگیں نہیں ہوں گی۔

پس ہمارے لیے تو اللہ تعالیٰ نےقربانی کا جو تھوڑا بہت موقع دیا ہے اس سے ہمیں فائدہ اٹھانا چاہیے اور اس کے لیے اپنی جان، مال، وقت قربان کرنے کا جو عہد ہے اس کو پورا کرنا چاہیے اور عہدِ بیعت میں جو ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے سب سے زیادہ محبت کروں گا کا اظہار کیا ہے کیونکہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نمائندے ہیں تو پھر ہمیں اس پر عمل کا اظہار بھی کرنا ہو گا۔

پھر آپ نے

جماعت کو بہت ساری نصائح

فرمائی ہیں۔ فرماتے ہیں کہ اگر میری بیعت کی ہے تو پھر بیعت کا حق ادا کرنے کے لیے مجھے یہ چاہیے۔ اگر بیعت کا حق ادا کرنا ہے تو پھر مجھے یہ چاہیے۔ کیا چاہیے؟ فرمایا: قرآن کریم پڑھو مگر قصے کے طور پر نہیں۔

(ماخوذ از ملفوظات جلد سوم صفحہ 155۔ ایڈیشن 1984ء)

بیعت کا اگر حق ادا کرنا ہے تو پھر پہلی شرط یہی ہے کہ قرآن کریم پڑھو مگر قصے کے طور پر نہیں، کہانیوں کے طور پر نہیں۔ ان کو سمجھ کر پڑھو۔ گذشتہ خطبہ میں میں نے قرآن کریم پڑھنے کی طرف توجہ دلائی تھی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بیان اور ارشادات بھی بیان کیے تھے۔ ان کی تفصیل میں ایک جگہ لوگوں کا نقشہ کھینچتے ہوئے آپؑ فرماتے ہیں کہ دیکھو کہ لوگ کیسی قرآن خوانی خوش الحانی سے اور عمدہ قراءت سے پڑھتے ہیں لیکن وہ ان کے حلق سے نیچے نہیں گزرتا۔ بڑی اچھی قراءت ہے لیکن یہ جو سمجھ آنے والی بات ہے وہ ان کو نہیں آتی۔ پڑھ لیا بڑا اچھا کیا لیکن معنی کوئی نہیں پتا۔ مطلب نہیں پتا۔ ہاں گلے سے آوازیں ضرور اچھی نکال لیتے ہیں۔ اس لیے فرمایا کہ

قرآن کریم جس کا دوسرا نام ذکر ہے اس ابتدائی زمانہ میں انسان کے اندر چھپی ہوئی اور فراموش ہوئی ہوئی صداقتوں اور ودیعتوں کو یاد دلانے کے لیے آیا ہے۔

صداقتوں کو یاد دلانے کے لیے قرآن شریف آیا ہے ہر زمانے میں۔ اس زمانے میں بھی اور اس زمانے میں بھی۔ اللہ تعالیٰ کے اس وعدہ واثقہ کی رو سے اس زمانے میں بھی آسمان سے ایک معلم آیا ہےکہ اِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوۡنَ معلم آیا ہے اور خود اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے اِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوۡنَ اور جو اٰخَرِیۡنَ مِنۡہُمۡ لَمَّا یَلۡحَقُوۡا بِہِمۡ۔ کا مصداق اور موعود ہے۔ وہ وہی ہے جو تمہارے درمیان بول رہا ہے۔

پھر آپؑ فرماتے ہیں کہ میں پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کی طرف عود کر کے کہتا ہوں کہ آپؐ نے اس زمانے ہی کی بابت خبر دی تھی کہ لوگ قرآن کو پڑھیں گے لیکن وہ ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا۔ اب ہمارے مخالف، فرمایا ہمارے مخالف، نہیں نہیں، اللہ تعالیٰ کے وعدوں کی قدر نہ کرنے والے، صرف ہمارے مخالف نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے وعدوں کی قدر نہ کرنے والے بلکہ وہ لوگ جو بالکل ہی اللہ تعالیٰ کے وعدوں کا انکار کر رہے ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی باتوں پر دھیان نہ دینے والے ہیں یہ لوگ دعوے کرتے ہیں کہ ہمیں قرآن آتا ہے لیکن عمل کوئی نہیں۔ فرمایا افسوس تویہ ہے کہ اگر کوئی ناصح مشفق بن کر سمجھانا چاہے تو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے۔ اگر کوئی نصیحت کرنے والا، ان سے شفقت کرنے والا، ان کا خیال رکھنے والا سمجھانا چاہے تو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے۔ آپؑ نے فرمایا کہ بیشک کوشش اگر نہیں کرنی تو نہ کریں مگر اتنا تو کریں کہ اس کی بات ہی ذرا سن لیں۔ مخالفت ہی بلاوجہ نہ کرتے چلے جائیں۔ آپؑ فرماتے ہیں لیکن کیوں سنیں۔ یہ تو مجبوری ہے ان کی کہ وہ سن بھی نہیں سکتے کیونکہ گوش شنوا بھی تو رکھیں۔ سننے کی طاقت بھی تو ہو، ان کے کان بھی تو ہوں سننے والے تبھی سن سکتے ہیں۔ صبر اور حسنِ ظن سے کام لیں۔ اللہ تعالیٰ تو یہی فرماتا ہے کہ صبر اور حسنِ ظن سے کام لو لیکن یہ تو اس سے کام لینا ہی نہیں چاہتے۔ یہ تو صرف مخالفت کرنا چاہتے ہیں۔ فرمایا کہ اگرخدا تعالیٰ فضل کے ساتھ زمین کی طرف توجہ نہ کرتا تو اسلام بھی اس زمانے میں مثل دوسرے مذہبوں کے مردہ اور ایک قصہ کہانی سمجھا جاتا۔ فرمایا کہ کوئی مردہ مذہب کسی دوسرے کو زندگی نہیں دے سکتا لیکن اسلام اس وقت زندگی دینے کو تیار ہے لیکن چونکہ یہ سنت اللہ ہے کہ خداتعالیٰ کوئی کام بغیر اسباب کے نہیں کرتا ہاں یہ امر جدا ہے کہ وہ اسباب ہم کودکھائی دیں یا نہ دیں۔ بہرحال اللہ تعالیٰ ذریعہ استعمال کرتا ہے چاہے وہ نظر آئیں یا نہ آئیں لیکن اس میں کوئی کلام نہیں، اس میں کوئی شک نہیں کہ اسباب ضرور ہوتے ہیں۔ اسی طرح آسمان سے انوار اترتے ہیں جو زمین پر پہنچ کر اسباب کی صورت اختیار کر لیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ آسمان سے جو نور اتارتا ہے وہ مختلف شکلوں میں مختلف ذریعے بن جاتے ہیں، اس کام کے کرنے کا سبب بن جاتے ہیں۔ فرمایا کہ جب اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کو تاریکی اور گمراہی میں مبتلا پایا اور ہر طرف سے ضلالت اور ظلمت کی گھنگھور گھٹا دنیا پر چھا گئی تو اس وقت اس تاریکی کو دور کرنے اور ضلالت کو ہدایت اور سعادت میں تبدیل کرنے کے لیے ایک سراج منیر فاران کی چوٹیوں پر چمکا یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے۔ تو فرمایا کہ میں تو اس زمانے میں اس لیے آیا ہوں کہ وہ نور جو چمکا تھا اس نور کو ایک زمانے کے گزرنے اور علماء کے عمل نے، لوگوں کے عمل نے، مسلمانوں کے عمل نے ماند کرنے کی کوشش کی ہے۔ وہ ماند تو کبھی نہیں ہوا ہاں نظروں سے اوجھل ہو گیا ہے۔

اللہ تعالیٰ نے مجھے اس لیے بھیجا ہے کہ دنیا کو بتاؤں کہ یہ نور تو ابھی چمک رہا ہے

اس کو کس طرح دیکھنا ہے وہ تم دیکھو، میری آنکھ سے دیکھو۔ مجھے اللہ تعالیٰ نے اس کا ذریعہ بنایا ہے آپ نے فرمایا اور

میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوں چاہے تو مجھے قبول کرو چاہے نہ کرو۔

یہ تمہاری مرضی ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوں اور مجھے اس پر کامل یقین ہے اور میرے ماننے والوں کو بھی اس پر کامل یقین ہے۔ مجھے اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں اس زمانے میں بھیجا ہے۔

(ماخوذ از ملفوظات جلد 1 صفحہ 97-98۔ ایڈیشن 1984ء)

آپؑ نے فرمایا اسلام کی مخالفت کے دور میں ’’خدا تعالیٰ کی طرف سے جو سلسلہ قائم کیا جائے گا وہ مسیح موعود ہی کا سلسلہ ہو گا۔‘‘ ان کا توڑ کرنے کے لیے اور اسلام کی نشأة ثانیہ کے لیے جوسلسلہ قائم ہو گا وہ مسیح موعود کا سلسلہ ہو گا ’’اور اسی لیے احادیث میں مسیح موعود کا نام خدا تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی معرفت کاسرالصلیب رکھا ہے کیونکہ یہ سچی بات ہے کہ ہر ایک مجدد فتن موجودہ کی اصلاح کے لیے آتا ہے۔ اب اس وقت خدا کے لیے سوچو تو کیا معلوم نہ ہو گا کہ صلیبی نجات کی تائید میں قلم اور زبان سے وہ کام لیا گیا ہے کہ اگر صفحات عالم کو ٹٹولا جائے تو باطل پرستی کی تائید میں یہ سرگرمی اَور زمانہ میں ثابت نہ ہو گی۔‘‘کسی دوسرے زمانے میں ثابت نہیں ہوتی۔ ’’اور جبکہ صلیبی فتنہ کے حامیوں کی تحریریں اپنے انتہائی نقطہ پر پہنچ چکی ہیں۔‘‘

(ملفوظات جلداوّل صفحہ205-206ایڈیشن1984ء)

ہر طرف عیسائیت کا زور ہے، اُس زمانے میں بہت زیادہ تھا جیسا کہ پہلے بھی میں نے بیان کیا ہے کہ عیسائیت کی تبلیغ دنیا میں ہر جگہ پھیل رہی تھی اور مسلمان بھی عیسائیوں کی گود میں جا رہے تھے۔ پہلے کبھی اتنی شدت سے اس طرح یہ تبلیغ نہیں ہوئی تھی جس طرح اس وقت ہو رہی تھی۔ توا س کے ردّ کے لیے مسیح موعود کو اللہ تعالیٰ نے بھیجا۔

آپؑ فرماتے ہیں کہ ’’توحید حقیقی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عفت، عزت او ر حقانیت اور کتاب اللہ کے منجانب اللہ ہونے پر ظلم اور زورکی راہ سے حملے کیے گئے ہیں توکیا خدا تعالیٰ کی غیرت کا تقاضا نہیں ہونا چاہیے کہ ا س کاسرالصلیب کو نازل کرے؟‘‘ اب گو تقاضا تو یہی تھا کہ اس زمانے میں جو حالت تھی اللہ کے وعدہ کے مطابق کاسر صلیب نازل ہونا چاہیے تھا۔ اس زمانے میں آجکل جس میں سے ہم گزر رہے ہیں گو عیسائیت کا وہ زور نہیں رہا لیکن یہ حقیقت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عفت اور عزت اور حقانیت پر حملے بہرحال کیے جا رہے ہیں اور قرآن کریم پر حملے بھی کیے جاتے ہیں اور آجکل ہر جگہ مختلف قسم کے لوگ جو ہیں نازیبا حرکات بھی کرتے ہیں۔ دریدہ دہنی بھی کرتے ہیں چاہے وہ دہریہ ہیں، لامذہب ہیں، اسلام کے مخالف ہیں چاہے وہ کسی مذہب سے تعلق رکھنے والے ہیں اس میں سارے پیش پیش ہیں۔ اور آج بھی یہ مسیح موعود کی جماعت کا ہی کام ہے کہ ان لوگوں کا سر کچلیں۔ ان کو مدلل جواب دیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت اور عفت اور حقانیت کو دنیا پر ظاہر کریں اور قرآن کریم کی حفاظت کا بھرپور کردار ادا کریں۔ آپؑ فرماتے ہیں ’’کیا خداتعالیٰ اپنے وعدہ اِنَّا نَحۡنُ نَزَّلۡنَا الذِّکۡرَ وَ اِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوۡنَ کو بھول گیا؟ یقینا ًیادرکھو کہ خدا کے وعدے سچے ہیں۔‘‘ اللہ نے وعدہ فرمایا کہ میں نے قرآن کریم اتارا اور میں اس کی حفاظت کروں گا۔ اللہ تعالیٰ وعدے کا سچا ہے۔ ’’اس نے اپنے وعدہ کے موافق دنیا میں ایک نذیر بھیجا ہے۔ دنیا نے اس کوقبول نہ کیا مگرخدا تعالیٰ اس کو ضرورقبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی کو ظاہر کرے گا۔ میں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ میں خداتعالیٰ کے وعدہ کے موافق مسیح موعود ہوکر آیا ہوں چاہو تو قبول کرو چاہو تو رد کرو مگر تمہارے رد کرنے سے کچھ نہ ہوگا۔ خداتعالیٰ نے جوارادہ فرمایا ہے وہ ہوکر رہے گا کیونکہ خداتعالیٰ نے پہلے سے براہین میں فرمادیا ہے صَدَقَ اللّٰہُ وَرَسُوْلُہٗ وَکَانَ وَعْدًا مَّفْعُوْلًا۔‘‘(ملفوظات جلد 1صفحہ 206 ایڈیشن 1984ء)کہ جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول نے کہا تھا وہ سچ کہا تھا اور یہ وعدہ پورا ہونا ہی تھا۔

پس یہ لازمی بات ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صداقت
دنیا میں پھیلے گی۔ پھیلنی تھی اور پھیلے گی کیونکہ آپ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی
غلامی میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کی اشاعت کے لیے آئے ہیں
جو آخری دین ہے۔

اس کو اللہ تعالیٰ نے بنایا ہےاور اس نے دنیا میں پھیلنا ہے چاہے اپنے مخالفت کریں یا غیر مخالفت کریں۔ ان کی مخالفت آخر کار ناکام و نامراد ہو جائے گی۔

آپؑ فرماتے ہیں کہ تم کہتے ہو کہ کیوں آیاہے؟ بہت سارے مسلمان اعتراض کرتے ہیں۔ آپ فرماتے ہیں کہ تم خود ہی بتاؤ کہ مسلمانوں کے جو اعمال تھے وہ اس کا تقاضا نہیں کرتے کہ کوئی مصلح ہونا چاہیے۔ مولوی بڑا شور مچاتے ہیں کہ کیوں آیا؟ اپنے اعمال تو دیکھو۔ اعمال تمہارے خود ہی تقاضا کر رہے ہیں۔ چنانچہ اس کی تفصیل میں ایک جگہ آپؑ نے فرمایا کہ ’’اگر مسلمان کہلانے والوں کے اعمال اعمال صالحہ ہیں تو پھر ان کے پاک نتائج کیوں پیدا نہیں ہوتے۔‘‘ آپ نے فرمایا کہ ’’یہ لوگ سمجھتے نہیں‘‘ اورکہتے ہیں ’’کہ ہم میں کون سی بات اسلام کے خلاف ہے۔ ہم لا الٰہ الا اللہ کہتے ہیں اور نمازیں بھی پڑھتے ہیں اور روزے کے دنوں میں روزے بھی رکھتے ہیں اور زکوٰة بھی دیتے ہیں مگر‘‘ آپ نے فرمایا کہ ’’میں کہتا ہوں کہ ان کے تمام اعمال، اعمال صالحہ کے رنگ میں نہیں ہیں بلکہ محض ایک پوست کی طرح ہیں۔‘‘ ایک shellہے ’’جن میں مغز نہیں ہے۔ ورنہ اگر یہ اعمال صالحہ ہیں تو پھر ان کے پاک نتائج کیوں پیدا نہیں ہوتے؟‘‘

اللہ تعالیٰ کا تو وعدہ ہے کہ میں صالح اعمال کے نتائج پیدا کرتا ہوں تو یہ کیوں نہیں ہو رہا؟ کیا مسلمانوں کی حالت جو ناگفتہ بہ حالت ہے اس زمانے میں یہ ظاہر نہیں کرتی، یہ بتاتی نہیں کہ کچھ نہ کچھ کمزوریاں ہیں، کچھ نہ کچھ کمیاں ہیں، کوئی نہ کوئی سقم ہے جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے وعدے پورے نہیں ہو رہے۔ آپؑ فرماتے ہیں کہ ’’اعمال صالحہ تو تب ہو سکتے ہیں کہ وہ ہر قسم کے فساد اور ملاوٹ سے پاک ہوں لیکن ان میں یہ باتیں کہاں ہیں؟‘‘

(ملفوظات جلد 1صفحہ 343 ایڈیشن 1984ء)

دعوے تو کر رہے ہیںکہ ہم نمازیں پڑھتے ہیں۔ روزے رکھتے ہیں لیکن یہ تقویٰ توکوئی نہیں۔ خود ہی اپنا جائزہ لے لیں تو معلوم ہو جائے گا کہ یہ باتیں ان میں موجود ہیں برائیاں ان میں موجود ہیں ۔

پھر آپؑ نے فرمایا کہ

حالاتِ زمانہ کسی مصلح کو چاہتے ہیں

اور خود آجکل ان کا یہ نعرہ بھی ہے۔ یہ نعرہ بعض لوگوں کی طرف سے آجکل بھی لگاتے ہیں کہ کوئی مصلح ہونا چاہیے۔ جو مسلمانوں کا حال ہے ان کی اصلاح کے لیے کوئی آنا چاہیے لیکن جس کو اللہ تعالیٰ نے بھیجا ہے اس کو ماننا نہیں چاہتے۔ چنانچہ آپؑ نے ایک جگہ فرمایا کہ یہ عیسائی جس طرح حملے کر رہے ہیں یا غیرمذاہب والے حملے کر رہے ہیں یا دہریہ حملے کر رہے ہیں اور مسلمان خود ان کے حملوں کی زد میں آرہے ہیں، خود دین سے ہٹ رہے ہیں یہ اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ کوئی مصلح ہو جو ان کو صحیح راستے پر چلائے اور وہ مصلح اللہ تعالیٰ نے اس زمانے میں مجھے بنا کر بھیجا ہے۔ آپؑ نے فرمایا کہ مسلمانوں کو تو چاہیے تھا کہ ایسے حالات میں کوئی دلیل بھی اگر ہمارے پاس نہیں ہوتی تب بھی دیوانہ وار تلاش کرتے کہ مسیح اب تک کیوں نہیں آیا۔ کوئی دلیل بھی اگر میں نہ دیتا تب بھی ان کو خود تلاش کرنا چاہیے تھا زمانے کی حالت دیکھ کے۔ ان کو یہ نہ چاہیے تھا کہ اپنے جھگڑوں کے لیے بلاتے کیونکہ اس کا کام کسر صلیب ہے۔ مسیح نے جب آنا تھا تو اس نے عیسائیت کا ردّ کرنا تھا۔ اس نے دہریوں کا ردّ کرنا تھا۔ اس نے لامذہبوں کا ردّ کرنا تھا اور اسی کی زمانے کو ضرورت ہے۔ اُس وقت بھی جب آپ نے دعویٰ کیا اور آج بھی یہی ضرورت ہے۔ اس لیے آپؑ نے فرمایا کہ آنے والے کا نام مسیح موعود رکھا گیا ہے۔ اگر ملانوں کو بنی نوع انسان کی بھلائی اور بہبودی منظور ہوتی تو ہرگز ایسا نہ کرتے جیسا ہم سے کر رہے ہیں۔ ان کو سوچنا چاہیے تھا کہ انہوں نے ہمارے خلاف فتویٰ لکھ کر کیا بنا لیا ہے۔ جسے خدا نے کہا ہو کہ ہو جائے اسے کون کہہ سکتا ہے کہ نہ ہو۔ یہ لوگ جو ہمارے مخالف ہیں یہ بھی ہمارے نوکر چاکر ہیں کسی نہ کسی رنگ میں ہماری بات مشرق و مغرب تک پہنچا دیتے ہیں۔ یہ مخالفت جو ہے اس سے بھی پیغام پہنچ رہا ہے اور ہمارا بہت بڑا ذریعہ تبلیغ کا ان کی مخالفت ہے۔

(ماخوذ از ملفوظات جلد1صفحہ 397-398 ایڈیشن 1984ء)

پس چاہے یہ لوگ جتنا مرضی زور لگا لیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کی جماعت کو ختم کرنا ہے لیکن جو زور یہ لگاتے ہیں وہی پھیلنے کا ذریعہ بن جاتا ہے۔

ایک جگہ آپؑ نے فرمایا کہ ’’اللہ تعالیٰ مادرِ مہربان سے بھی بڑھ کر مہربان ہے۔ وہ نہیں چاہتا کہ اس کی مخلوق ضائع ہو۔ وہ ہدایت اور روشنی کی راہیں تم پر کھولتا ہے مگر تم ان پر قدم مارنے کے لیے عقل اور تزکیہ نفوس سے کام لو جیسے زمین کہ جب تک ہل چلا کر تیار نہیں کی جاتی تو تخم ریزی اس میں نہیں ہوتی۔ اسی طرح جب تک مجاہدہ اور ریاضت سے تزکیہ نفوس نہیں ہوتا پاک عقل آسمان سے اتر نہیں سکتی۔

اس زمانہ میں خدا تعالیٰ نے بڑا فضل کیا اور اپنے دین اور حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تائید میں غیرت کھاکر ایک انسان کو جو تم میں بول رہا ہے بھیجا تا کہ وہ اس روشنی کی طرف لوگوں کو بلائے۔ اگر زمانہ میں ایسا فساد اور فتنہ نہ ہوتا اور دین کے محو کرنے کے لیے جس قسم کی کوششیں ہو رہی ہیں نہ ہوتیں تو چنداں حرج نہ تھا۔ لیکن اب تم دیکھتے ہو کہ ہر طرف یمین و یسار‘‘ دائیں بائیں سے ’’اسلام ہی کو معدوم کرنے کی فکر میں جملہ اقوام لگی ہوئی ہیں۔‘‘

(ملفوظات جلد1صفحہ72-73۔ایڈیشن1984ء)

اور آجکل تو اور بھی زیادہ زورسے لگی ہوئی ہیں۔

اگر اسلام کی مخالفت نہ ہوتی تو پھر مسیح موعود کو آنے کی ضرورت نہیں تھی لیکن
یہ تو ہم دیکھ رہے ہیں کہ آج سے ایک سو چھتیس سال پہلے جب آپ نے دعویٰ کیا اس وقت سے لے کر آج تک اس میں اضافہ ہی ہوتا چلا جا رہا ہے۔

آپؑ نے ایک جگہ فرمایا کہ مجھے تم لوگ کہتے ہو یعنی مخالفین کہتے ہیں کہ دکانداری بنائی ہوئی ہے۔ میری کوئی دکانداری نہیں۔ مسیح موعود کا کام تو دین کا پھیلانا ہے اور دینی کاروبار ہے۔ ہاں اگر کوئی کاروبار کا نام دینا ہی ہے تو یہ کاروبار دین کا کاروبار ہے۔ آپؑ نے فرمایا کہ اگر تم میرے سے حقیقت پوچھتے ہو تو پھر سمجھ لو کہ ہم دنیا داری کے لحاظ سے مثل مردہ کے ہیں۔ ہماری مثال تو مرد ہ جیسی ہے دنیاوی کاروبار کے لحاظ سے۔ ہم تو محض دین کے ہیں۔ ہمارا سب کارخانہ دینی ہے۔ جیسا کہ اسلام میں ہمیشہ بزرگوں اور اماموں کا ہوتا ہے اور ہمارا کوئی نیا طریق نہیں بلکہ لوگوں کو اس اعتقادی طریق سے جو کہ ہر طرح سے ان کے لیے خطرناک ہے دور کرنا چاہتے ہیں۔ ان اعتقادات کو دُور کرنا چاہتے ہیں جو خطرناک ہیں۔ ان کے دلوں سے نکالنا چاہتے ہیں۔ اس لیے ہمارا اصل منشاء اور مقصود یہی ہے کیونکہ بعض غلط قسم کی بدعات راہ پا گئی ہیں۔ بعض غلط اعتقادات اسلام میں پیدا ہو گئے ہیں۔ ہم نے ان سے دنیا کو، مسلمانوں کو بچانا ہے اور حقیقی دین جو قرآن کریم کی تعلیم ہے اس کو ہم نے رائج کرنا ہے اور یہی میرا مقصد ہے آنے کا اور اسی طرح میں نے دوسرے مذاہب جو جھوٹے مذہب ہیں ان کی حقیقت کو کھولنا ہے۔ آپؑ نے فرمایا: میں نے دوسرے جھوٹے مذاہب کی حقیقت کو بھی کھولنا ہے۔ یہی میرا مقصد ہے۔ اسلامی نور کو دکھانا میرا مقصد ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے رتبے اور مقام کو دنیا میں قائم کرنا میرا مقصد ہے۔

(ماخوذ از ملفوظات جلد5صفحہ167، ایڈیشن 1984ء)
(ماخوذاز ملفوظات جلد1صفحہ310ایڈیشن 1984ء)

آپؑ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام کے بارے میں ایک جگہ فرمایاکہ ’’یاد رکھو کہ کتاب مجید کے بھیجنے‘‘ یعنی قرآن کریم کے بھیجنے ’’اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے اللہ تعالیٰ نے یہ چاہا ہے کہ تا دنیا پر عظیم الشان رحمت کا نمونہ دکھاوے۔‘‘آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے عظیم الشان رحمت کا نمونہ دکھائے۔ ’’جیسے فرمایا۔ وَ مَاۤ اَرۡسَلۡنٰکَ اِلَّا رَحۡمَۃً لِّلۡعٰلَمِیۡنَ اور ایسا ہی قرآن مجید کے بھیجنے کی غرض بتائی کہ ہُدًی لِّلۡمُتَّقِیۡنَ یہ ایسی عظیم الشان اغراض ہیں کہ ان کی نظیر نہیں پائی جاسکتی۔ اسی لئے‘‘ آپؑ نے فرمایا کہ

’’اللہ تعالیٰ نے چاہا ہے کہ جیسے تمام کمالات متفرقہ جو انبیاءؑ میں تھے
وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود میں جمع کر دیے اسی طرح تمام خوبیاں اور کمالات جو متفرق کتابوں میں تھے وہ قرآن شریف میں جمع کر دیے اور
ایسا ہی جس قدر کمالات تمام امتوں میں تھے وہ اس امت میں جمع کر دیے۔
پس خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ ہم ان کمالات کو پا لیں

اور یہ بات بھی بھولنی نہیں چاہیے کہ جیسے وہ عظیم الشان کمالات ہم کو دینا چاہتا ہے اسی کے موافق اس نے ہمیں قویٰ بھی عطا کیے ہیں کیونکہ اگر اس کے موافق قویٰ نہ دیے جاتے تو پھر ہم ان کمالات کو کسی صورت اور حالت میں پا ہی نہیں سکتے تھے۔‘‘

(ملفوظات جلد اوّل صفحہ 340-341 ایڈیشن 1984ء)

پس جب اللہ تعالیٰ نے ہمیں قویٰ دیے اور تعلیم دی اور یہ مقصد بیان کر دیا تو پھر اب ہمارا کام ہے کہ ان کو پانے کے لیے ہر ممکن کوشش کریں اور یہی آپ نے فرمایا کہ اس دنیا میں آنے کا میرا مقصد ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے مجھے مبعوث کیا ہے۔ اسی کی طرف تعلیم دیتے ہوئے آپ نے فرمایا کہ پس ان باتوں پر غور کرو اور دیکھو کہ ہم کس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم اور آپ کی لائی ہوئی شریعت کو دنیا میں پھیلا سکتے ہیں بجائے اس کے کہ میری مخالفت کی جائے۔ آپ نے فرمایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کامل نبی ہیں۔’’ہمیں اللہ تعالیٰ نے وہ نبی دیا جو خاتم المؤمنینؐ، خاتم العارفینؐ اور خاتم النبیینؐ ہے اور اسی طرح پر وہ کتاب اس پر نازل کی جو جامع الکتب اور خاتم الکتب ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو خاتم النبیین ہیں اور آپؐ پر نبوت ختم ہو گئی تو یہ نبوت اس طرح پر ختم نہیں ہوئی جیسے کوئی گلا گھونٹ کر ختم کر دے۔ ایسا ختم قابل فخر نہیں ہوتا بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نبوت ختم ہونے سے یہ مراد ہے کہ طبعی طور پر آپؐ پر کمالات نبوت ختم ہو گئے یعنی وہ تمام کمالات متفرقہ جو آدمؑ سے لے کر مسیح ابن مریمؑ تک نبیوں کو دیے گئے تھے کسی کو کوئی اور کسی کو کوئی وہ سب کے سب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میں جمع کر دیے گئے اور اس طرح پر طبعاً آپؐ خاتم النبیین ٹھہرے اور ایسا ہی وہ جمیع تعلیمات، وصایا اور معارف جو مختلف کتابوں میں چلے آتے ہیں وہ قرآن شریف پر آ کر ختم ہو گئے اور قرآن شریف خاتم الکتب ٹھہرا۔‘‘

(ملفوظات جلد اوّل صفحہ 341-342 ایڈیشن 1984ء)

پس آپؑ فرماتے ہیں:

’’اس جگہ یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ مجھ پر اور میری جماعت پر جو یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبیین نہیں مانتے یہ ہم پر افترائے عظیم ہے۔ ہم جس قوت یقین، معرفت اور بصیرت کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم الانبیاء مانتے اور یقین کرتے ہیں اس کا لاکھواں حصہ بھی دوسرے لوگ نہیں مانتے اور ان کا ایسا ظرف ہی نہیں ہے۔ وہ اس حقیقت اور راز کو جو خاتم الانبیاء کی ختم نبوت میں ہے، سمجھتے ہی نہیں ہیں۔

انہوں نے صرف باپ دادا سے ایک لفظ سنا ہوا ہے مگر اس کی حقیقت سے بے خبر ہیں اور نہیں جانتے کہ ختم نبوت کیا ہوتا ہے اور اس پر ایمان لانے کا مفہوم کیا ہے؟ مگر

ہم بصیرت تام سے (جس کو اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم الانبیاء یقین کرتے ہیں اور خدا تعالیٰ نے ہم پر ختم نبوت کی حقیقت کو ایسے طور پر کھول دیا ہے کہ اس عرفان کے شربت سے جو ہمیں پلایا گیا ہے ایک خاص لذت پاتے ہیں جس کا اندازہ کوئی نہیں کر سکتا بجز ان لوگوں کے جو اس چشمہ سے سیراب ہوں۔‘‘

(ملفوظات جلد 1صفحہ341-342۔ ایڈیشن 1984ء)

پس یہ ہے آپؑ کی تعلیم یہ ہے آپ کا مقام اور یہ ہے آپ کا مقصد جس کے لیے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام آئے تھے اور جس کی خاطر آپ نے جماعت کا قیام کیا اور جس کے لیے آپ نے جماعت کو حکم دیا کہ تم لوگ قربانیاں کرو اور اس پیغام کو دنیا میں پہنچاؤ اور حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کو ساری دنیا میں پھیلاؤ اور اس وقت تک چین سے نہ بیٹھو جب تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حکومت کو دنیا میں قائم نہ کرلو۔ خدائے واحد کی حکومت کو دنیا میں قائم نہ کر دو اور یہی مسیح موعود کے آنے کا مقصد تھا اور یہی اس دین کی اہمیت ہے۔ اگر ہم اس دین کی اہمیت سمجھتے ہیں اور اپنے آپ کو بیعت کا حق ادا کرنے والا سمجھتے ہیں تو پھر ہمیں بھی ان باتوں کو سوچنا ہو گا اور جب ہم یہ کام کریں گے تو ہم اس مقصد کو پانے والے ہوں گے جو ہماری زندگی کا مقصد ہے اور اس مقصد کے حاصل کرنے والے ہوں گے جو ہماری بیعت کا مقصد ہے اور ہم اللہ تعالیٰ کی رضا اور قرب کو حاصل کرنے والے ہوں گے۔

رمضان کے دنوں میں دعاؤں کے ذریعہ سے بھی اور اپنے علم کو بڑھانے کے ذریعہ سے بھی، قرآن کریم کا علم سیکھنے کے ذریعہ سے بھی اور عملی طور پر پیغام پہنچانے کے ذریعہ سے بھی اس کام میں ہمیں جُت جانا چاہیے تا کہ ہم جلد سے جلد دنیامیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا لہرانے والے بن سکیں اور دنیا کو خدائے واحد کے حضور جھکانے والے بن سکیں۔

اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔

آخر میں مَیں پاکستان کے احمدیوں کے لیے بھی دعا کے لیے درخواست کرنا چاہتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ ان کے حالات میں آسانیاں پیدا فرمائے۔ آجکل مخالفین پورا زور لگا رہے ہیں۔ ہر طرح تکلیفیں پہنچانے کی کوشش کر رہے ہیں ۔کبھی مسجد کے مناروں کے نام پہ،کبھی محرابوں کے نام پہ ،کبھی نماز پڑھنے کی وجہ سے جو بھی بہانہ حیلہ ان کو ملتا ہے اس سے ان کا مقصد یہی ہے کہ احمدیوں کو نقصان پہنچایا جائے۔ اللہ تعالیٰ ان سب کی حفاظت کرے۔
عمومی طور پر مسلمان امت کے لیے بھی دعا کریں۔ اللہ تعالیٰ ان کو بھی عقل اور سمجھ دے اور ان کے حالات بہتر کرے ان پر رحم فرمائے۔
فلسطینی مسلمان جو ہیں ان پر دوبارہ ظلم کا ایک نیا دور شروع ہو گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کو بھی اس ظلم سے محفوظ رکھے۔ ان پر رحم فرمائے۔

٭…٭…٭

مزید پڑھیں: غزوۂ خیبراور غزوۂ وادی القریٰ کےتناظر میں سیرت نبوی ﷺ کا بیان۔ خلاصہ خطبہ جمعہ ۴؍اپریل ۲۰۲۵ء

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button