غزوۂ خیبراور غزوۂ وادی القریٰ کےتناظر میں سیرت نبوی ﷺ کا بیان۔ خلاصہ خطبہ جمعہ ۴؍اپریل ۲۰۲۵ء
٭…خیبر کی فتح کی خوشی کے ساتھ ہی انہی دنوں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ایک اور خوشی کی بات ہوئی کہ جس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مَیں بیان نہیں کر سکتا کہ مجھے خیبر کی فتح کی زیادہ خوشی ہوئی یا اس بات کی۔وہ حضرت جعفر رضی اللہ عنہ کی مہاجرین حبشہ کے ساتھ حبشہ سے واپسی تھی
٭… آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مذہبی رواداری اور مذہبی جذبات و احساسات کی پاسداری کا کمال تھا کہ ان کی تَورات کو بحفاظت واپس کرنے کا حکم دیا، یہ نہیں کہ آجکل کی طرح مسلمانوں کی دشمنی میں قرآن کریم کو جلایا جائے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو یہ نمونہ دکھایا تھا کہ ان کے صحیفوں کو محفوظ رکھو اور ان کو واپس کر دو
٭…مولانا محمد کریم الدین شاہد صاحب صدر،صدر انجمن احمدیہ قادیان ، عبدالرشید یحییٰ صاحب صدر قضاء بورڈ کینیڈا، مرزا امتیاز احمد صاحب امیر ضلع حیدرآباد سندھ، الحاج محمد بالعربی صاحب آف الجزائر اورمکرم محمد اشرف صاحب کوٹری ضلع حیدرآباد کی وفات پر ان کا ذکر خیر اور نماز جنازہ غائب
خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۴؍اپریل ۲۰۲۵ء بمطابق ۴؍ شہادت ۱۴۰۴؍ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ(سرے)، یوکے
اميرالمومنين حضرت خليفةالمسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيز نے مورخہ۴؍اپریل۲۰۲۵ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، يوکے ميں خطبہ جمعہ ارشاد فرمايا جو مسلم ٹيلي وژن احمديہ کے توسّط سے پوري دنيا ميں نشرکيا گيا۔جمعہ کي اذان دينےکي سعادت مولانا فیروز عالم صاحب کے حصے ميں آئي۔
تشہد،تعوذاور سورة الفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورِانور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنےفرمایا:
رمضان سے پہلے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے پہلو غزوات کے حوالے سے بیان ہو رہے تھے اور اس ضمن میں خیبر کی جنگ کے واقعات کا ذکر ہو رہا تھا۔ آج بھی مَیں اسی حوالے سے کچھ بیان کروں گا۔
خیبر کی فتح کی خوشی کے ساتھ ہی انہی دنوں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ایک اور خوشی کی بات ہوئی کہ جس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مَیں بیان نہیں کر سکتا کہ مجھے خیبر کی فتح کی زیادہ خوشی ہوئی یا اس بات کی۔وہ حضرت جعفر رضی اللہ عنہ کی مہاجرین حبشہ کے ساتھ حبشہ سے واپسی تھی۔
صلح حدیبیہ کے بعد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عَمرو بن امیہ ضمریؓ کو نجاشی کی طرف ایک خط دے کر بھیجاکہ اب جتنے مہاجر مسلمان وہاں رہ گئے ہیں، ان کو مدینہ میرے پاس بھیج دیا جائے۔ چنانچہ پردیس میں چودہ پندرہ سال بسر کرنے کے بعد یہ لوگ دو کشتیوں میں سوار ہو کر مدینہ پہنچے۔ اور جب انہیں معلوم ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خیبر کی طرف گئے ہوئے ہیں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جلد سے جلد ملنے کی تڑپ میں بے قرار یہ مدینہ رکنے کی بجائے خیبر کی طرف چلے گئے۔
ان لوگوں کے ساتھ حضرت ابو موسیٰ الاشعری رضی اللہ عنہ(عبداللہ بن قیس) بھی اپنی قوم کے پچاس سے زائد لوگوں کے ساتھ مدینہ پہنچے تھے۔ انہی کے ہوتے ہوئے قبیلہ دوس سے بھی کچھ افراد آگئے، ان میں ابو ہریرہؓ، طفیل بن عَمروؓ اور اس کے ساتھی تھے۔ قبیلہ اشجع کے بھی کچھ لوگ آگئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سب آنے والوں کو بھی مال خیبر میں سے کچھ نہ کچھ عطاکیا۔
حضرت جعفر رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھ دوسرے مسلمان کشتی کے ذریعے سفر کر کے پہنچے تھے، اس لیے ان کو اصحاب السفینہ(کشتی والے) کہا جاتا تھا۔
جب یہ مدینے پہنچے تو پندرہ برس کا عرصہ گزر چکا تھا اور یہاں کے مہاجر مسلمان کئی جنگوں میں شامل ہو چکے تھے اور ہجرت میں بھی سبقت لیے ہوئے تھے، اس لیے معلوم ہوتا ہے کہ آپس میں یہ ذکر ہونے لگا کہ ہم ان سے زیادہ فضیلت رکھتے ہیں۔ ایک دفعہ حضرت جعفر رضی اللہ عنہ کی اہلیہ حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا، ام المومنین حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا سے ملاقات کے لیے حاضر ہوئیں، تو وہاں حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی گئے۔ تو پوچھا کہ یہ کون خاتون ہیں؟ معلوم ہونے پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کہنے لگے کہ اچھا وہ حبشہ والی، سمندر کا سفر کرنے والی؟ حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا بولیں، جی ہاں۔ اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ہم نے ہجرت مدینہ میں تم سےسبقت حاصل کی ہے، اس لیے ہم تمہاری نسبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زیادہ قریب ہیں۔ یہ سن کر وہ رنج اور غصے سے بولیں کہ اللہ کی قسم! ایسا ہرگز نہیں ہو سکتا۔ تم لوگ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہا کرتے تھے، وہ تمہارے بھوکے کو کھانا دیتے، تمہارے کم علم کو نصیحت کرتے۔ جبکہ ہم اپنے وطن سے دور پردیس میں دور دراز دشمن ملک میں تھے، ہمیں وہاں طرح طرح کے ڈر اور خوف لاحق ہوتے تھے، ہم نے یہ سارے دکھ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خاطر برداشت کیے۔ بخدا! مَیں اس وقت تک کھانا نہیں کھاؤں گی جب تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق پوچھ نہ لوں۔ پھر وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور یہ ساری بات بیان کی۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ
وہ تم سے زیادہ حق نہیں رکھتے بلکہ ان کی اور ان کے ساتھیوں کی ایک ہجرت ہے اور تمہاری یعنی حبشہ کی طرف کشتی کے ذریعے سفر کرنے والوں کی دو ہجرتیں ہیں۔
یہاں
ایک حبشی غلام جو مسلمان ہوا تھا، اس کی شہادت کا بھی ذکر ملتا ہے،
روایت میں ہے کہ خیبر کے ایک شخص کا حبشی غلام یسار تھا، وہ اس کا ریوڑ چَرایا کرتا تھا۔اس نے جب خیبر والوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلے کے لیے ہتھیار اٹھائے دیکھا تو اس نے اہل خیبر سے سوال کیا کہ تمہارا کیا ارادہ ہے؟ انہوں نے کہا کہ ہم اس آدمی سے جنگ کریں گے جو اپنے آپ کو نبی کہتا ہے۔اس کے دل میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر بیٹھ گیا۔ وہ اپنی بکریوں کو لے کر نکلا تاکہ ان کو چرائے، مسلمانوں نے اسے پکڑ لیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے آئے یا بمطابق ایک تفصیلی روایت وہ خود بکریاں لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے گفتگو کی، اس نے کہا کہ آپ کس چیز کی طرف بلاتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مَیں تمہیں اسلام کی طرف بلاتا ہوں اور یہ کہ تم گواہی دو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور مَیں اللہ کا رسول ہوں اور تم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہیں کرو گے۔ اس غلام نے کہا کہ اگر مَیں اس کی گواہی دے دوں تو مجھے کیا ملے گا؟ اور مَیں اللہ پر ایمان لے آؤں تو مجھے کیا ملے گا؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر تم اس پر ایمان لے آؤ تو تیرے لیے جنّت ہو گی۔پس وہ غلام اسلام لے آیا اور اس نے عرض کی کہ اے اللہ کے رسول! بےشک مَیں ایسا آدمی ہوں، جس کا رنگ سیاہ ہے اور چہرہ بھی خوبصورت نہیں ہے، بد بُو والا بھی ہوں اور میرے پاس مال بھی نہیں ہے، اگر مَیں ان سے قتال کروں اور قتل کر دیا جاؤں تو کیا مَیں جنّت میں داخل ہو جاؤں گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں تم جنّت میں داخل ہو جاؤ گے۔اس نے کہا کہ اے اللہ کے رسول! یہ بکریاں میرے پاس امانت ہیں، ان کا کیا کروں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان کو لشکر سے نکال کر لے جاؤ اور خالی میدان میں چھوڑ دو، بے شک اللہ تعالیٰ تیری امانت تیری طرف سے ادا کر دے گا یعنی ان تک پہنچ جائیں گی۔چنانچہ ایسا ہی ہوا۔
حضورِانور نے فرمایا کہ وہ لوگ جو اعتراض کرتے ہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے مال غنیمت حاصل کرنے کے لیے جنگیں کیں، خاص طور پر خیبر کے حوالے سے بھی یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ یہود کے اموال پر ناجائز قابض ہونے کے لیے یہ ظلم کیے گئے تھے، اگر یہ بات درست ہوتی تو عین جنگ کی حالت میں دشمن کی بکریوں کا ایک ریوڑ اور خیبر میں جو صحابہؓ کی بھوک سے حالت تھی تو
یہ بکریاں تو مفت کا مال غنیمت تھا، استعمال کر سکتے تھے، لیکن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ کی حالت میں بھی امانت کا حق ادا کرتے ہوئے بکریاں واپس کرنے کا ارشاد فرمایا۔
پھر وہ آگے بڑھا اور اس نے قتال کیا، یہاں تک کہ ایک تیر اس کو آلگا اور وہ شہید ہو گیا، حالانکہ اس نے ایک سجدہ بھی نہیں کیا۔ اور مسلمان اس کو اٹھا کر اپنے لشکر میں لے آئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کو خیمہ میں داخل کرو۔ صحابہ نے اس کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خیمہ میں داخل کر دیا۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اس کے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور وہ شہید ہو گیا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ نے تیرے چہرے کو خوبصورت بنا دیا اور تیری بد بُو کو خوشبو دار بنا دیا اور تیرے مال کو زیادہ کر دیا۔
خیبر کے موقع پر بعض فقہی مسائل کا بھی ذکر ملتا ہے۔
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کے دن گھریلو گدھوں کے گوشت سے منع فرما دیا۔ جبکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی روایت کے مطابق گدھے کے گوشت اور متعہ سے منع فرما دیا۔
اہل فدک کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مصالحت کا بھی ذکر ہے۔
فدک مدینہ سے چھ رات کی مسافت پر خیبر کے قریب واقع ہے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خیبر کی طرف متوجہ ہوئے اور اس کے قریب پہنچے تو محیّصہ بن مسعود کو فدک کی طرف روانہ فرمایا کہ ان کو اسلام کی طرف دعوت دیں اور ڈرائیں کہ تم پر بھی حملہ کیا جا سکتا ہے جیسے خیبر پر ہم حملہ کر رہے ہیں۔
حضورِانور نے تصریح فرمائی کہ کیونکہ وہ بھی شرارتیں کرنے میں کافی بڑھے ہوئے تھے یا کسی نہ کسی طریقے سے مسلمانوں کو تنگ کرتے تھے یا کوئی ایسی بات کرتے تھے کہ جس سے کسی نہ کسی رنگ میں نقصان پہنچے۔
خیبر کے مال غنیمت اور اس کی تقسیم
کے بارے میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خیبر کی طرف چلے اور غنیمت میں ہم کو سونا اور چاندی نہ ملا، صرف اونٹ، مویشی، سامان اور باغات ملے۔ اور بمطابق ایک روایت اموال، کپڑے اور سامان تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کو مجموعی طور پر چھتیس حصوں میں تقسیم فرمایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان میں سے نصف یعنی اٹھارہ حصے مسلمانوں کے لیے مخصوص فرمائے، جن میں سے ہر ایک سو حصوں پر مشتمل تھا یعنی ایک ہزار آٹھ سو حصے تھے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک حصہ بھی ان میں سے کسی ایک حصے کی طرح تھا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے باقی نصف آئندہ حالات و معاملات و حوادث اور مسلمانوں کو پیش آنے والے امور کے لیے مخصوص کر دیے۔
خیبر کے قلعوں سے جب مال غنیمت اکٹھا کیا گیا تو اس میں تَورات کے کچھ صحائف بھی ملے، یہود نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر ان کی واپسی کا مطالبہ کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بحفاظت ان کے صحائف واپس کرنے کا حکم دیا۔
حضورِانور نے فرمایا کہ
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مذہبی رواداری اور مذہبی جذبات و احساسات کی پاسداری کا کمال تھا کہ ان کی تَورات کو بحفاظت واپس کرنے کا حکم دیا، یہ نہیں کہ آجکل کی طرح مسلمانوں کی دشمنی میں قرآن کریم کو جلایا جائے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو یہ نمونہ دکھایا تھا کہ ان کے صحیفوں کو محفوظ رکھو اور ان کو واپس کر دو۔
خیبر سے واپسی پر
غزوۂ وادی القریٰ کا بھی ذکر ملتا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح خیبر کے بعد چند دن وہاں قیام کیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسلامی لشکر کے ساتھ واپسی کے لیے روانہ ہوئے تو وادی القریٰ میں یہود سے مقابلہ ہوا۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم نے خیبر فتح کیا، پھر ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ وادی القریٰ میں آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک غلام تھا، جسے مدعم کہتے تھے، جسے بنو ذباب سے کسی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بطور ہدیہ پیش کیا تھا۔ اس اثناء میں کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کجاوہ اتار رہا تھا، اس کی طرف ایک نامعلوم شخص کا تیر آیا، یہاں تک کہ وہ اس غلام کو لگا اور وہ فوت ہو گیا۔ لوگ کہنے لگے کہ اس کے لیے شہادت مبارک ہو! تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں، اس کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، وہ چادر اس پر آگ بن کر بھڑک رہی ہے جو اس نے خیبر کے دن غنیمت کے مال سے لے لی تھی جبکہ ابھی اس کے حصے تقسیم نہیں ہوئے تھے۔
تو ایک شخص، جب اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سنا کہ یہ تو بڑی خطرناک بات ہے اور یہ اس چادر چُرانے کی وجہ سےجہنّم میں جا رہا ہے، تو وہ ایک تسمہ یا دو تسمے لے کر آیا اور عرض کیا کہ یہ وہ چیز ہے، جس کو مَیں نے لے لیا تھا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک تسمہ ہے یا دو تسمے ہیں، آگ میں لے جانے کا موجب ہوتے ہیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چار دن وادی القریٰ میں قیام فرمایا اور پھر واپس مدینہ تشریف لے آئے۔
خطبہ ثانیہ سے قبل حضورِانور نے درج ذیل پانچ مرحومین کی نماز جنازہ غائب پڑھانے کا اعلان فرماتے ہوئے ان کا ذکر خیر فرمایا نیز مرحومین کے بلندیٔ درجات اور مغفرت کے لیے دعا کی۔
٭…مولانا محمد کریم الدین شاہد صاحب صدر،صدر انجمن احمدیہ قادیان ۔گذشتہ دنوں رمضان میں ستاسی سال کی عمر میں ان کی وفات ہوئی ہے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ مرحوم موصی تھے۔ ۱۹۵۴ء میں مدرسہ احمدیہ میں حصول تعلیم کے لیے داخل ہوئے۔ ۱۹۵۷ء میں فارغ التحصیل ہوئے پھرمولوی فاضل کی تیاری کر کے ۱۹۶۰ء میں پنجاب یونیورسٹی چندی گڑھ سے مولوی فاضل کا امتحان پاس کیا۔ بعد میں مزید تعلیم کے لیے ربوہ بھی گئے وہاں دو سال جامعہ احمدیہ میں تعلیم حاصل کی۔ شاہد کی ڈگری حاصل کی۔ اس طرح انڈیا میں شاہد کی ڈگری حاصل کرنے والے آپ پہلے مربی تھے۔ قادیان میں مختلف خدمات کا ان کو موقع ملتا رہا اور اس دوران یہ ممبر صدر انجمن احمدیہ قادیان بحیثیت عالم مقرر ہوئے اور ۲۰۲۱ء تک یہ ممبر رہے۔ پھر ان کو ایڈیشنل ناظم ارشا د وقف جدیدبیرون کی بھی خدمت کی توفیق ملی۔ صدر عمومی کے طور پر بھی ان کو کام کرنے کی توفیق ملی۔ صدر مجلس وقف جدید کے طور پر بھی خدمت کی توفیق ملی۔ پھر دو دفعہ جامعہ میں پرنسپل بھی رہے۔صدر قضاءبورڈ بھی رہے۔صدر مجلس کارپرداز بھی تھے۔ پھر۲۰۲۱ء میں ان کو مَیں نےصدر،صدر انجمن احمدیہ مقرر کیا تھا اور وفات تک وہ اسی عہدے پر فائز رہے۔
گردوں کی بیماری تھی ،کمزور بھی ہو گئے تھے لیکن اس کے باوجود بڑی ہمت سے اپنے فرائض انجام دیتے رہے۔ اور ان کا جو نمونہ تھا واقعی قابل تقلید تھا۔باسٹھ سال کا لمبا عرصہ خدمتِ سلسلہ کی توفیق ملی۔بہت محنتی اور عاجز انسان تھے۔ ہمیشہ یہ کوشش ہوتی تھی کہ اپنے کام خودکریں کسی پر بوجھ نہ بنیں بلکہ اپنے ذاتی کام بھی خود کیا کرتے تھے۔ عالم باعمل انسان تھے۔ وقف کا جو عہد کیا تھا اس کو نبھانے کا انہوں نے حق ادا کر دیا۔
٭…عبدالرشید یحییٰ صاحب صدر قضاء بورڈ کینیڈا ۔گذشتہ دنوں پچھتر سال کی عمر میں ان کی وفات ہوئی ہے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ مرحوم موصی تھی ۔تعلیم الاسلام کالج ربوہ سے بی اے کی ڈگری لینے کے بعد جامعہ میں داخلہ لیا پھر اپنی زندگی وقف کی اور ۱۹۷۵ءمیں میدان عمل میں آئے۔ مقامی طور پر پاکستان میں شروع میں تقرریاں ہوتی رہیں پھرامریکہ ،کینیڈا، گوئٹے مالا خدمت کی توفیق پائی۔ جنوبی افریقہ میں بحیثیت نیشنل پریذیڈنٹ اور مشنری انچارج خدمت کی توفیق پائی۔ گوئٹے مالا اور جنوبی کوریا میںبحیثیت مبلغ انچارج و نیشنل صدر خدمت کی توفیق ملی۔ جامعہ احمدیہ کینیڈا میں بطوروائس پرنسپل خدمت کی توفیق ملی۔۲۰۱۷ء میں ان کی تقرری صدر قضاء بورڈ کینیڈا کے طور پر ہوئی تھی۔۲۰۲۳ءتک اس خدمت پر مامور رہے۔
٭…مرزا امتیاز احمد صاحب امیر ضلع حیدرآباد سندھ ۔گذشتہ دنوں میں ان کی وفات ہوئی ہے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ مرحوم نے بی اے کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد اپنا ذاتی کاروبار شروع کیا۔ میڈیکل سٹور کھولا۔مرحوم کو اللہ تعالیٰ کے فضل سے نوجوانی سے زندگی کے آخری لمحے تک خدمت دین کی توفیق ملی۔ باقاعدہ تہجد ادا کرنے والے، غرباء اورضرورتمندوں کی کسی کو بتائے بغیر غائبانہ بہت مدد کرنے والے انسان تھے۔
٭…مکرم الحاج محمد بالعربی صاحب آف الجزائر ۔ گذشتہ دنوں ان کی۸۲؍سال کی عمر میں وفات ہوئی ہے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ ان کا تعلق الجزائر سےتھا لیکن آجکل فرانس میں رہتے تھے۔ ۲۰۱۵ء کے جلسہ سالانہ یوکے میں اپنی اہلیہ کےہمراہ بطورمہمان یہاں آئے تھے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے بیعت کر کے واپس گئے۔اپنے بچوں کو دینی اقدار سکھانے کی بہت کوشش کرتے تھے۔ نماز اور قرآن پاک کی تعلیم دینے کے لیے دینی سکولوں میں داخل کرایا۔ ۲۰۱۷ء میں پولیس نے الجزائر میں مرحوم کے گھرپر چھاپہ مارا اور ان کے بچوں کو احمدی ہونے کے الزام میں حراست میں لے لیا۔ اس پر انہوں نے بڑی بہادری کا مظاہرہ کیا۔ جب وہ پولیس سٹیشن گئے اور ان سے پوچھاگیاکہ کیا وہ احمدی ہیں تو انہوں نے فوراً اور بغیر کسی ہچکچاہٹ کے کہا کہ ہاں الحمد للہ میں احمدی ہوں۔ انہوں نے بتایا کہ وہ قانون کا احترام کرتے ہیں تاہم جس دن حکام اجازت دیں گے ان کا گھر جماعت احمدیہ کا پہلا مرکز ہو گا۔
٭…مکرم محمد اشرف صاحب کوٹری ضلع حیدرآباد۔ ان کی گذشتہ دنوںستر سال کی عمر میں وفات ہوئی۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ نوید اشرف صاحب مربی سلسلہ کانگو کے والد تھے اور مربی صاحب میدان عمل میں ہونے کی وجہ سے اپنےوالد کے جنازے میں شریک نہیں ہو سکے۔۱۹۹۲ء میں چند روز کے لیے اسیر راہ مولیٰ بھی رہنے کا شرف حاصل ہوا۔ ان کی وفات پر ایک شدید معاندبھی افسوس کرنے آیا اور یہ اس نے کہا کہ بہت نیک اور اچھے انسان تھے۔ ایساانسان کبھی نہیں دیکھا۔وفات سے ایک دن پہلے بھی عاملہ کی میٹنگ میں شرکت کی اپنا چندہ ادا کیا اور وفات والے دن نمازتہجد ادا کی قرآن کریم کی تلاوت کی نماز فجر ادا کی اور پھر اس کے بعد پونے آٹھ بجے کے قریب اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہو گئے۔پسماندگان میں اہلیہ، تین بیٹیاں اور چار بیٹے ہیں۔
٭…٭…٭